حادثہ فیضیہ کی یاد میں ہونے والی مجلس

مترجم: سید مبارک حسنین زیدی

2020-06-20


۲۲ مارچ سن ۱۹۶۳ء والے دن مدرسہ فیضیہ پر پہلوی ایجنٹوں کے حملے کے بعد ہر سال اُن شہداء کی یاد منانے کے لئے مجلس منعقد ہوتی ہے۔

۲۵ شوال والے دن، شہداء مدرسہ فیضیہ کی یاد منانے والا چوتھا سال تھا۔ جیسا کہ میں خود اُس دن کا مشاہدہ  کرچکا تھا میرا دل ٹوٹا ہوا تھا۔ اُس سے پہلے تین سالوں میں شہداء کی یاد میں مجالس منعقد ہوئی تھیں؛ لیکن چوتھے سال شام چار بجے تک اس کام کی اجازت نہیں دی گئی اور ساواک اور پولیس کے افراد، مدرسہ کو مکمل طور پر کنٹرول کر رہے تھے۔ لیکن اس کے بعد، چوتھی مجلس کا پروگرام بہت ہی شاندار انداز میں منعقد ہوا۔

شام چار بجے کے بعد جب مغرب میں ایک گھنٹہ رہ گیا تھا اور مغربین کی نماز کے لئے قالین بچھا دیئے گئے تھے، ساواک اور پولیس کے کارندوں نے مجلس منعقد ہونے والی جگہ کو مکمل طور پر اپنے اختیار میں لیا ہوا تھا۔ ایک طالب علم قرآن کے پاروں کو اٹھا کر لے آیا اور ایک دوسرے طالب علم نے آواز کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرنا شروع کردی۔ دس منٹ بعد  تقریر کرنے کے لئے میں بھی منبر پر بیٹھ گیا۔ وہ مجلس اس قدر ہلا دینے والی اور جوش دلانے والی ہوئی تھی کہ رات کو دس – گیارہ بجے تک طلاب اور پولیس والوں کے درمیان جھڑپ  جاری رہی؛ وہ لوگ مجھے گرفتار کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور طلاب بھی انہیں ایسا کرنے نہیں دے رہے تھے۔ بالآخر دوستوں کے اصرار پر کچھ دیر بعد میں مدرسہ فیضیہ سے نکل گیا۔

میں نے اُس  تقریر میں سورہ مبارکہ آل عمران کی ۱۷۸ آیت پڑھی کہ جس کی تفسیر میں نے چند دن  پہلے مسجد آیت اللہ بہجت میں آیت اللہ خز علی سے سنی تھی: (وَلا یَحْسَبَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا أنَّمَا نَمْلِی لَهُمْ خَیْرٌ لأنْفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِی لَهُمْ لِیَزْدَادُوا إِثْماً وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهینِ)۔

یہ وہی آیت ہے جسے حضرت زینب (س) نے یزید کے دربار میں پڑھا تھا۔ میں نے کہا ظالموں کو یہ گمان نہیں کرنا چاہیے کہ انھوں نے مدرسہ فیضیہ میں مار پیٹ کی اور طلاب کو کچلا، مرجع تقلید کو گرفتار کرکے انہیں جلا وطن کردیا، تو وہ جیت گئے! اُس  کے بعد میں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ طالب علموں کو گرفتار کرکے انہیں فوجی ٹریننگ کے لئے لے جاتے ہو، کہا: حوزہ علمیہ قم کے طلاب کو فوجی ٹریننگ کیلئے لے جاتے ہو؛ لیکن یونیورسٹی میں پڑھنے والوں کو پڑھائی کرنے کا موقع فراہم کرتے ہو؛ آپ کے خیال میں آپ کے اس کام سے حوزہ کا کوئی نقصان ہوجائے گا؛ حالانکہ یہ طلاب کے لئے ایک بہترین موقع ہے کہ وہ چھاؤنیوں میں جاکر دین کی تبلیغ کریں  اور آیت اللہ خمینی کا تعارف کروائیں۔

شیخ محسن اشراقی جس کے پاس حکومتی منصب بھی تھا اور جو منشیات کا عادی بھی تھا؛  ۳۱ جنوری؛  شاہ کے  قتل کے ناکام منصوبہ کا دن، محسن ا شراقی نے حرم میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ شاہ کو گولی نہ لگنا اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ خداوند اس کا محافظ ہے اور اُسے پسند کرتا ہے۔ میں نے بھی اپنی تقریر میں اس کی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہاں؛ آج کے زمانے کا ابو حنیفہ، حضرت معصومہ (س) کے حرم کے پاس کہتا ہے یہ جو منصور دوانیقی کو گولی ماری گئی اور اُسے نہ لگی، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خداوند متعال اُسے پسند کرتا ہے! اگر یہ بات صحیح ہے تو علی محمد باب جن کو پھانسی پر لٹکایا گیا  اور اُس کی پھانسی کی رسی ٹوٹ گئی،  تو یہ اُن کے حق پر ہونے کی بہت بڑی دلیل ٹھہرے گی؛ حالانکہ بالکل بھی ایسا نہیں ہے، بلکہ خداوند ان سب باتوں کے ذریعے ظالموں کو مہلت دیتا ہے  تاکہ وہ خود کو صحیح کرلیں اور اپنی گذشتہ غلطیوں کی تلافی کرلیں، اگر ایسا نہ کریں گے تو غضب ناک عذابوں میں مبتلا ہوں گے۔

اُس کے بعد میں نے امام خمینی (رح) کی تعریف کی، ایک بزر گ کے بقول میں نے کہا: اگر کئی سالوں سے حوزہ علمیہ بیت المال سے استفادہ کرتا رہے اور اُس استفادے کے نتیجے میں صرف ایک یہی  عظیم شخصیت اس حساس موقع پر  اسلام کے دفاع  کے لئے قدم بڑھائے  تو اُن سب کی تلافی ہوجائے۔ میں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا آپ کا حوزہ علمیہ اور  مرجع تقلید  کی جسارت کرنا، امام زمانہ (عج) کی جسارت کرنا ہے؛ امام زمانہ (عج) سے جسارت کرنا امام صادق (ع) سے جسارت کرنا ہے؛ امام صادق (ع) سے جسارت کرنا رسول اللہ (ص) سے جسارت کرنا ہے  اور رسول اللہ (ص) سے جسارت کرنا یعنی خدا سے جنگ۔ آپ کیا سوچ رہے ہیں؟ آپ کے خیال میں ہم ضعیف لوگ ہیں کہ جن کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے؟ امام زمانہ (عج)، پیغمبر (ص) اور خداوند متعال کی سپورٹ سے جو طاقت حوزہ علمیہ قم کے پاس ہے، وہ تمام ظالموں کو چکنا چور کردے گی۔ مجھے نہیں پتہ کہ میں نے کس طرح اتنی قدرت کے ساتھ بات کرلی۔

میں جیسے منبر سے نیچے اترا، ساواک کے کارندوں نے میرا محاصرہ کرلیا۔ اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ میں دوبارہ منبر پر چلا جاؤں؛ میں واپس گیا اور میں نے کہا  میں ایک بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں؛ میں نے جو باتیں کی ہیں میں اُس پر ثابت قدم ہوں ؛ ممکن ہے سپاہی مجھے گرفتار کرنا چاہیے؛ لہذا میں طالب علم دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ پریشان نہ ہوں۔ میں آپ سب کو خدا کے سپرد کرتا ہوں؛ خوش آمدید۔

جب میں نے یہ کہا، گویا سپاہیوں نے خود سے کہا کیا ہی زبردست بکرا ہے؛ کوئی مشکل ہی ایجاد نہیں کر رہا اور ہم آسانی سے اسے گرفتار کرلیں گے۔ میں نے چند قدم بڑھائے، لائبریری کے دروازے کے سامنے پہنچ گیا اور کسی نے دروازہ کھولا؛ میں اندر داخل ہوا؛ دروازہ بند کردیا اُس رات، خدا مرحوم عراقی کی مغفرت  فرمائے انھوں نے میری بہت مدد کی کیونکہ حکم دیا ہوا تھا کہ مدرسہ میں رش کی وجہ سے لائبریری کا دروازہ بند رکھا جائے، جب میں لائبریری میں داخل ہوا اور دروازہ بند کرلیا گیا، سپاہی میرے پیچھے آئے اور وہ دروازہ توڑنا چاہتے تھے لیکن طلاب نے  ایسا نہیں کرنے دیا، دو تین گھنٹوں تک میں لائبریری کے اندر رہا  اور مدرسہ فیضیہ کے صحن میں سپاہیوں اور طلاب کے مابین جھڑپیں جاری تھیں، دو گھنٹے بعد میں باہر نکلا ، سپاہیوں کو پتہ چل گیا ، انھوں نے مجھے گرفتار کرنے کے لئے دوبارہ حملہ کیا ، لیکن جیسا کہ صرف فیضیہ کے وسط میں روشنی تھی میں نے اطراف کی تاریکی سے استفادہ کیا اور فرار کرنے میں کامیاب ہوگیا  اور اپنے گھر چلا گیا۔ اُس کے اگلے دن مجھے پتہ چلا کہ سپاہی  ہر جگہ میرے تعاقب میں ہیں؛ اس وجہ سے میں نے پانچ – چھ دنوں کے اندر تین سے چار گھر بدلے اور قم سے جانے پر مجبور ہوگیا۔


15khordad42.ir
 
صارفین کی تعداد: 2242



http://oral-history.ir/?page=post&id=9291