ایران کے عام لوگوں کے ذہن میں شاہ کی تصویر

جمع آوری: جعفر گلشن روغن

مترجم: محسن ناصری

2020-06-20


عوام کے ذہنوں میں ایران کے باشاہ محمد رضا پہلوی کے مقام و منصب کے خاتمے اور اس کی نسبت عوامی نکتہ نگاہ میں تبدیلی، ان عوامل میں سے ہے جن کو پہلوی زمانے پر خاص نظر رکھنے والے ایران کے بہت سے انقلابی اور سماجی محققین نے، بالخصوص انقلاب اسلامی کی کامیابی کے آخری ایام کو، پہلوی نظامِ حکومت کے خاتمے میں موثر قرار دیا ہے۔  ابتداء میں عوام کی نظروں میں سلطنت کا تصور اور اس کے مقام و منزلت کا خاتمہ ہوا اور سلطنت کی شان اور اس  کی ہیبت ختم ہوتی رہی اور حکومت اپنی ساکھ کھو بیٹھی۔ اس کے بعد سلطنت کا انکار اور بادشاہی نظام کے خلاف علمی اور علنی اقدامات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اسی بنیاد پر انقلاب اسلامی کی بہتر اور عمیق شناخت کے لیے ضروری ہے کہ ایرانی عوام کے ذہنوں میں شاہ کے صحیح اور عمیق تصور ، طاقت و قدرت کے توازن اور مختلف جوانب کو سمجھا جائے کہ عام ایرانی افراد جو ایک معاشرے کو تشکیل دیتے ہیں شاہِ ایران کو کس نگاہ سے دیکھا کرتے تھے اور شاہِ ایران کے ظاہری و باطنی تصور اور اس کی طاقت کو کس طرح اپنے ذہنوں میں پروان چڑھایا تھا۔

جاپان میں اداراہ ثقافت  کے سربراہ اور استاد موریو اونو (Morio ono ) ان افراد میں سے ہیں جو انقلاب اسلامی ایران سے پہلے اور بعد میں متعدد بار ایران کا سفر کرچکے ہیں اور انہوں نے اس مسافرت میں پیش آنے والے یادگار اور دلچسپ واقعات و مشاہدات کو اپنی باقیات میں قرار دیا ہے۔ موریو سن ۱۹۶۶ء میں ایران میں موجود تھے اور انہوں نے ان دنوں پیش آنے والے بعض واقعات کو اپنے کتاب " The Iranian Diaries " میں نقل کیا ہے۔انہوں نے ابتداء میں اس سال پیش آنے واقعات میں ایک دلچسپ تصویر پیش کی ہے جو معاشرے کےعام،  کمزور اور کچلے ہوئے فرد پر منحصر ہے اور دوسری جانب محمد رضا پہلوی کی تصویر کو شائع کیا ہے۔

ان کی تحریر کے مطابق، وہ اُس سال خیابان ویلا نامی روڈ پر ایک بنگلے میں رہائش پزیر تھے، حسین اور بی بی جان نامی میاں بیوی اس بنگلے کی دیکھ بھال پر مامور تھے ان کے ذمہ گھر کی صفائی ستھرائی ، کھانا پکانا اور خریداری وغیرہ کرنا تھا۔ وہ دونوں اسی بنگلے کے ایک چھوٹے کمرے میں رہا کرتے تھے جو بنگلے کی بالائی منزل پر تھا۔ حسین نے نویں کلاس اور بی بی جان نے چھٹی کلاس تک تعلیم حاصل کی تھی۔

ایک دن صبح کے وقت بی بی جان ہانپتے ہوئے بالائی منزل سے سیڑھیاں اترتی ہوئی نیچے آئیں اور اُونو صاحب سے اپنے خواب کو بیان کرنے لگیں جو انہوں نے صبح کے نزدیک دیکھا تھا۔ اس خواب میں بی بی جان نے "اعلی حضرت شہنشاہ" سے ملاقات کی اور ان سے مکالمے کا شرف حاصل کیا۔ اونو نے بی بی جان کے خواب کی تفصیل سن کر ایرانی عوام کے ذہن میں موجود شہنشاہ کی تصویر کو پیش کرتے ہوئے لکھا ہے "ہم جہاں بھی جاتے تھے وہاں شاہ کی تصویر لگی ہوئی ہوتی تھی۔ بی بی جان نے بھی شاہ کو مالکِ مکان کے گھر میں لگی تصویر  یا احتمالاً ٹی وی پر دیکھا ہوگا۔ بنگلے کے خادم اور اس کی بیوی کی طرح نچلے طبقے کے افراد کے لیے مملکت کے اعلی حکام سے ملاقات کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بی بی جان نے جب خواب میں شاہ ایران سے ملاقات اور گفتگو کی تو اس قدر خوشحال تھی کہ اپنی حیرت اور خوشی کو دوسروں سے پنہان نہ کرسکی۔ لیکن حقیقت میں شاہ کی ہیبت جو کہ مطلقاً قدرت و طاقت تھی، اُس نے  اِس کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا اور یہی وجہ ہے کہ بی بی جان اس قدر بے آرام اور بے قرار تھی"۔

اُونو، بی بی جان کے خواب اور اس کے طرز بیان کو اس طرح نقل کرتے ہیں :" نہیں معلوم شاہ کہاں تھا لیکن شاہ اچانک سے ہمارے رشہ داروں کے درمیان میں ظاہر ہوا۔ چونکہ میں شاہ کے آنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی یہی وجہ ہے کہ میں بہت حیرت زدہ ہوگئی اور میرا پورا جسم سُن ہوگیا۔ چاہتی تھی کہ شاہ سے کچھ کہوں لیکن میری چھوٹی بہن جو کہ بہت زیادہ خوشحال تھی شاہ کے پیروں کا بوسہ لینے لگی اور اُس کی اِس حرکت سے میری بڑی بہن ہنس پڑی۔ بی بی جان کو خواب میں اچانک خیال آیا کہ وہ شاہ کو اپنے حالات و پریشانیوں کے بارے میں بتائے کہ اس کا شوہر نویں کلاس تک پڑھا ہوا ہے لیکن کوئی مناسب اور مستقل کام کرنے کے لیے نہیں ہے اور ناچار ہے کہ خدمت گزاری اور نوکری چاکری کرے۔ میں اعلی حضرت شہنشاہ ہمایوں سے گزارش کرتی ہوں کہ وہ میرے شوہر کو مناسب روزگار فراہم کریں۔

یہ جملے ادا کرنے کے بعد بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کے قطرات بہنا شروع ہوگئے اور رونے کی وجہ سے شاہ کی شکل و صورت بیان نہ کرسکی۔ اس خواب میں بی بی جان کا شوہر حسین اُترے ہوئے چہرے کے ساتھ اپنی بیوی کے پیچھے کھڑا ہے، بیوی کی جانب سے حالات زندگی بیان کرنے نے اس کو بھی ہمت دی کہ (خوف اور کانپتے ہوئے) دبے لفظوں میں انہی باتوں کی تکرار کرسکے۔ بی بی جان کی بڑی بہن کے بھی ذہن میں جو کچھ آیا،  اس نے شاہ کے سامنے اپنی بہن کی حمایت میں درخواست کی اور التماس والا انداز اپنایا۔ اس کو اس بات کی توقع نہیں تھی کہ شاہ اس کی گزارش کو قبول کرلے گا لیکن یہ امید ضرور تھی کہ اعلی حضرت پُرامید جواب دیں گے۔ مگر شاہ اپنے ڈرا دینے والے چہرے کے ساتھ کھڑا ہوا اور بلند آواز سے کہنے لگا: دفع ہوجاو ورنہ تم کو قتل کردوں گا"۔

بی بی جان ، اس کا شوہر اور اس کی بہن خوف کے مارے دم بخود ہوگئے یہاں تک کہ قدم اٹھانے کی  طاقت بھی نہ رہی تاکہ شاہ کے سامنے سے فرار ہوسکیں۔ بی بی جان جو پسینے میں شرابور تھیں خواب سے بیدار ہوجاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ بی بی جان کا اعتقاد تھا کہ اگرچہ اس نے جو کچھ دیکھا ہے وہ خواب ہے لیکن اس نے شہشاہیت کے حقیقی استبدادی اور ہیبت ناک چہرے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے"۔ اُونو صاحب آخر میں خواب کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں " شاہ کا یہ چہرہ خواب میں نمودار ہوا یہ وہی شاہی تصور تھا جو ایران کی پُرسکون اور خاموش عوام کے ذہنوں میں موجود تھا جن میں سے بی بی جان بھی ایک تھی"۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2414



http://oral-history.ir/?page=post&id=9288