یادوں بھری رات کا ۳۰۹ واں پروگرام – دوسرا حصہ

کربلائے پانچ آپریشن عراقیوں کے لئے غیر قابل تصور تھا

مریم رجبی

مترجم: کنیز طیبہ

2020-06-13


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۳۰۹  واں پروگرام، جمعرات کی شام، ۲۶  دسمبر ۲۰۱۹ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اس پروگرام میں عبد الرحیم فرخ سہراب، سید یحیی رحیم صفوی اور فتح اللہ جعفری نے اپنی تقاریر میں اپنی اسیری کے زمانے، فاو اور کربلائے ۵  آپریشن کے بارے میں بیان کیا۔

پروگرام کے دوسرے راوی جنرل کمانڈر سید یحیی صفوی زادہ نے کہا: "چند سال پہلے رہبر معظم  سےہونے والی ایک ملاقات میں رہبر نے مجھ سے فرمایا کہ آپ پولیس، فوج اور سپاہ کے ہاسٹلز میں جائیں اور وہاں پر موجود افراد کو واقعات سنائیں۔ یہ واقعات ان افراد کی تربیت کیلئے بہت تاثیر رکھتے ہیں۔ اس کام کا مقصد جوان نسل کو تیار کرنا ہے۔ ہم نے واقعات سنانے کی ایک تحریک چلائی اور جناب سرہنگی نے بھی ہماری مدد کی۔ اس وقت ہم نے سو زائد پرانے کمانڈروں کو واقعات سنانے کیلئے تیار کرلیا ہے،  لیکن ہماری زیادہ تر توجہ تربیتی مراکز پر ہے۔

میں آج رات فاؤ اور کربلائے ۵ آپریشنوں کے واقعات بیان کروں گا۔ فاؤ آپریشن سے پہلے ہم امام خمینی (رح) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم اس وجہ سے پریشان تھے کہ ہمیں سن  ۱۹۸۴ میں ہونے والے بدر آپریشن اور سن ۱۹۸۳ میں ہونے والے خیبر آپریشن میں توقع کے مطابق کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی، کہ جس میں ہمارا ہدف دجلہ و فرات کے کنارے پہنچنا تھا، ہم نہیں  پہنچ سکے تھے اور واپس آگئے تھے۔ امام خمینی (رح) نے ۱۶ ستمبر سن ۱۹۸۵ء کو برّی، فضائی اور بحری افواج بنانے کا حکم صادر کیا۔ میں برّی افواج کا  کمانڈر بنا، جناب حسین علائی بحری افواج کے اور جناب موسی رِفان سپاہ کی فضائی ا فواج کے سب سے پہلے کمانڈر بنے۔   ہم نے نقشہ کے ذریعے امام (رح) کو فاؤ آپریشن میں دریائے اروند سے  عبور کرنے کے بارے میں بتایا اور ہم نے عرض کیا کہ ہم اس چوڑے جوش مارتے دریا کے اوپر سے گزریں گے۔ علاقے پر قبضہ کریں گے، لیکن ممکن ہے ہم اُس پر قبضہ کو باقی نہ رکھ سکیں اور بعثی ہمیں پیچھے دھکیل دیں اور ہم خیبر و بدر آپریشنز کی طرح  عقب نشینی کرنے پر مجبور ہوجائیں؛ ہمارا وظیفہ کیا ہے؟ امام (رح) نے غور سے اور حوصلہ کے ساتھ آپریشن کی پوری تفصیلات کو سنا، پھر اپنا سر ابھر اٹھا کر محکم انداز میں کہا کہ تمام افواج کا کمانڈر خدا ہے۔ جس خدا نے آپ کو نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے، اُس نے آپ کو دفاع کرنے کا حکم  دیا ہے۔ جائیں اور مطمئن رہیں کہ کامیابی آپ کے قدم چومے گی، میں بھی آؤں گا اور وہاں پر آپ کے ساتھ نماز پرھوں گا۔ جب امام نے یہ بات کی،  ہم نے جاکر تمام ڈویژنوں کے کمانڈروں کو بتایا اور خدا کے  فضل سے ہم اُس آپریشن میں کامیاب ہوئے۔

۹ فروری، سن ۱۹۸۵ء  ، وہی فاؤ آپریشن شروع کرنے کی پہلی رات، میں جو کہ برّی افواج کا کمانڈر تھا، میں نے سپاہیوں کے ساتھ دریائے اروند پر سے عبور کیا۔ اُس رات دریا کی موجیں بھی بہت اونچی تھیں اور تیراکوں کو عبور کرنے میں مشکل ہو رہی تھی ۔  میں نے ایک وائرلیس آپریٹر اور ایک جنگی راوی کے ساتھ علی بن ابی طالب (ع) ڈویژن کی کشتی   کے ذریعے عبور کیا۔ جب رات کو میں دریا  سے گزر رہا تھا، دریا کی لہریں کشتی  کے اوپر تک اٹھ رہی تھیں۔ جب تک ہم دریا  کے اُس پار پہنچتے میرا پورا لباس گیلا ہوگیا تھا۔ ہم رات کے تقریباً دو تین بجے تک پہنچے۔ میری تمام باتیں ریکارڈ ہوئی تھیں اور اب بھی  موجود ہیں۔ میں نے عبور کرنے والے کمانڈروں کو بلایا اور آپریشن کے بارے میں کچھ باتیں کی اور پھر وہ لوگ چلے گئے۔ رات کا وقت، فروری کا مہینہ اور میرا پورا لباس گیلا تھا۔ صحرا میں رات کے وقت جب ہوا چلتی ہے تو بہت سردی ہوتی ہے۔ مجھے بہت سردی لگ رہی تھی اور میں اوڑھنے کیلئے کسی کمبل کی تلاش میں تھا۔ مجھے ایک کمبل نظر آیا لیکن وہ گیلا تھا، میں نے ٹارچ جلائی تو پتہ چلا کہ اُس پر خون کے دھبے ہیں۔ میں نے سوچا اگر میں نے اُس سے استفادہ کیا تو میں صبح کی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ میں جسم گرم کرنے کیلئے چہل قدمی کرنے پر مجبور ہوگیا۔ وہ جگہ جہاں پر میں رات کو تھا، وہ عراقیوں کے گولہ بارود کا انبار تھا۔ اسی وجہ سے میں وہاں سے دور نکل آیا۔ میں اسی طرح صحرا میں چل رہا تھا کہ اچانک مجھے ایک سوراخ نظر آیا۔ میں نے نزدیک جاکر دیکھا تو اُس میں سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ سیڑھیوں سے نیچے جاکر دیکھا تو پلاستر اور چونا کیا ہوا تھا۔ کسی بریگیڈ کمانڈر کے آرام کرنے کی جگہ تھی جہاں پر بیڈ ، گدھا، کمبل اور بسکٹ کے ساتھ عراقی قہوہ سے بھرا تھرماس  تھا۔ میں نے وائرلیس آپریٹر سے کہا میں سو رہا ہوں مجھے اٹھانا نہیں، میں کچھ دیر بعد اٹھ جاؤں گا۔ جب میں اٹھا تو بصرہ سے فون آرہا تھا۔ اُس نے عربی میں پوچھا کیا ہو رہا ہے؟ میں نے عربی میں جواب دیا کہ یہاں پر خمینی (رح) کی فوج نے قبضہ کرلیا ہے۔ اُس نے کچھ بیہودہ باتیں کی اور جیسا کہ مجھے بھی عربی آتی تھی، میں نے اُس کو جواب دیا۔ پھر  میں اپنے کام میں مشغول ہوگیا۔ میرا ایک دوست جو رات کو میرے ساتھ تھا، اُس نے مجھے دیکھا اور ہنسا۔ میں نے پوچھا کیوں ہنس رہے ہو؟ اُس نے کہا تم تو چلے گئے، مجھے بھی سردی لگ رہی تھی ، میں بھی ایک بندہ خدا کے برابر میں جاکر لیٹا اور اُس کا کمبل اوڑھ کر سوگیا۔ وہ اچھا آدمی تھا ، بالکل بھی کروٹ نہیں لی۔ حتی میں نے پورا کمبل خود اوڑھ لیا اور اُس نے مجھے کچھ نہیں کہا۔ جب میں صبح کو اٹھا تو میں نے دیکھا کہ میں عراقی کی لاش کے برابر میں سویا تھا!

اُسی پہلی رات کو ہمارے پاس  ایک بہت ہی بہترین سننے والا سسٹم تھا کہ ہم عراقیوں کے تمام وائرلیسوں کی آواز نہ فقط فاؤ کے علاقے سے بلکہ بصرہ سے بھی سن لیتے تھے اور حتی میں آج یہ کہہ سکتا ہوں کہ  ہم نے عراقیوں کے وائرلیس کے فرانسوی رمز بھی توڑ لیئے تھے۔ وہ وائر لیس کے ذریعے بصرہ سے بغداد رابطہ کرتے اور ہم جانتے تھے کہ وہ کمانڈنگ اسٹاف سے کیا کہہ رہے ہیں۔ اُس عراقی کمانڈر نے اپنے سے اوپر والے افسر سے وائرلیس کے ذریعے کہا دشمن کشتیوں کے ذریعے سیلاب کی طرح  فوجیوں کو اتار رہا ہے۔ اگر آپ لوگوں نے کچھ نہیں کیا، تو ام القصر پر بھی قبضے کا امکان ہے۔  ہماری حالت بہت خراب ہے۔ اُس افسر نے کہا میں ابھی تمام افواج کے کمانڈر سے رابطہ کرتا ہوں۔ اُس نے رابطہ کیا اور صدام کا یہ پیغام دیا: ڈٹے رہیں، ان شاء اللہ میں تین آرمرڈ  ڈویژن  بھیجوں گا اور ہم ایرانیوں کو شکست سے دوچار کردیں گے۔ تیسری رات عراقیوں کا ڈویژن آیا۔ وہ لوگ ٹینکوں کے نیچے سو گئے تاکہ  صبح ہم پر حملہ کریں۔ ہم نے وائر لیس کے ذریعے اُن کی بات سن لی تھی۔ ۸ ویں نجف، ۱۴ ویں  امام حسین، ۱۷ ویں علی بن ابی طالب، ۲۵ ویں کربلا اور ۳۱ ویں عاشورا ڈویژن، ہماری یہ ا فواج بالکل آگے تھیں ہم نے اُن سے کہہ دیا کہ کل صبح اس سے پہلے کہ عراقی تم پر حملہ کریں، تم لوگ آج رات ہی اُن پر حملہ کردو۔ وہ لوگ رات کی تاریکی میں بٹالین کی صورت میں آہستہ آہستہ گئے اور عراقی ٹینکوں کے نیچے سوئے ہوئے تھے۔ جب وہ اُن تک پہنچے، اُن کے پاس جو بھی تھا اُنھوں نے اُس سے اُن کا قتل عام شروع کردیا۔ آرمرڈ ڈویژن  جو آرام کر رہا تھا، ہمارے افراد کے نعرہ تکبیر لگانے سے وحشت زدہ ہوگیا اور انھوں نے ٹینکوں اور فوجی گاڑیوں کی لائٹیں آن کردیں۔ جب لائٹیں کھل گئیں تو لوگوں نے اور آسانی سے مارنا شروع کردیا۔ وہ عقب نشینی کر گئے اور اُن کے توپ خانے کے کمانڈر نے کہا کیمیائی بمب مارو۔ انھوں نے کیمیائی بمب برسانا شروع کردیئے، لیکن جیسا کہ خدا کی مرضی، اُن کے یہ گولے خود اُن ہی کے لوگوں کو لگے،  بعثیوں کو اور زیادہ مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ بریگیڈ کمانڈر نے ڈویژن کے کمانڈر سے کہا ہماری وضعیت بہت خراب ہے۔ ہر منٹ پر مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فی الحال تو ہم اپنی پوزیشن پر ڈٹے ہوئے ہیں لیکن ہماری مدد کو پہنچو۔ ہم چاروں طرف سے دشمن کے محاصرے میں ہیں۔ راستہ کھولنے کیلئے ہمیں ایک آرمرڈ بریگیڈ کی ضرورت ہے، اس کام کو فوری انجام پانا چاہیے۔ اُن کے کمانڈر نے جواب دیا: آپ لوگ جنگ کرنے سے پرہیز کریں اور پیچھے  آجائیں، ہم کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔

چوتھے یا پانچویں دن، عراقیوں نے فرانس کے میراژ طیاروں سے، ہمارے عقبہ پل پر میزائلوں سے حملہ کردیا تاکہ ہم تک سپورٹ، اسلحہ، پانی،  کھانا، افواج اور ایمبولینسیں نہ پہنچ سکیں، وہ پل بہمن شیر کے اوپر تھا۔ ہمارے پاس  بہمن شیر کے اوپر مٹی کا پل بنانے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ بہمن شیر دریا کے اندر بسیں  اور بڑے بڑے پائپ  رکھ رہے تھے اور دونوں طرف سے مٹی ڈال رہے تھے۔ لیکن جب دونوں اطراف سے مٹی کو ملانا چاہتے، پانی کی روانی کی شدت اُسے بہا کر لے جاتی۔ اس کام کی ذمہ داری صراط المستقیم ہیڈکوارٹر کے کمانڈر سید محسن صفوی کو سونپی گئی جو میرے  بھائی تھے۔ انھوں نے بہت کوشش کی لیکن کام نہیں ہو رہا تھا۔  صراط ہیڈ کوارٹر سے امام کے دفتر سے فون کرکے کہا گیا کہ آپ دعا کریں تاکہ ہم یہ کام انجام دے سکیں۔ اس وقت لوگوں تک سپورٹ نہیں پہنچ پا رہی ہے۔ امام خمینی (ح) نے سید احمد کے توسط سے پیغام دیا کہ: آپ اپنی کوشش کو دو برابر کردیں، میں آج رات آپ لوگوں کیلئے دعا کروں گا۔ انھوں نے اپنی کوشش کو دو برابر کردیا اور اُس رات پل خاکی متصل ہوگیا۔

 

ایک کمانڈر کا باب الحوائج ہونا

ایک کمانڈر تھے جن کا طلائیہ میں خیبر آپریشن کے دوران ہاتھ الگ ہوگیا۔ انھوں نے خود اپنی زوجہ اور اپنے دوست  احمد کاظمی کو بتایا کہ جب میرا ہاتھ کٹ گیا، میری روح کو آسمان کی طرف لے جا رہے تھے۔ مجھ سے پوچھا کہ تمہیں لے جائیں یا تمہیں واپس بھیج دیں؟ میں نے کہا مجھے واپس بھیج دیں۔ اور انھوں نے مجھے واپس بھیج دیا اور میں نے خود کو زمین پر پایا۔ ۱۴ ویں امام حسین (ع) ڈویژن کے یہی کمانڈر اپنے غوطہ خوروں سے گفتگو کر رہے تھے  اور ہمارے پاس ان کی اس گفتگو کی ویڈیو موجود ہے کہ انھوں نے کہا: عزیز غوطہ خوروں، جب آپ اس دریا سے عبور کر رہے ہوں، اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہوں کہ آپ میں خلوص ہے یا نہیں، اگر آپ کو کوئی گولی لگے، تو آپ نے آہ نہیں کہنا کہ دشمن کو پتہ چل جائے۔ اگر آپ کی آواز نکلی، دشمن سب پر گولیاں برسائے گا۔ لیکن آپ مجھے ایک بات کہنے کی اجازت دیں اور وہ یہ ہے کہ آپ نے امام حسین (ع) کی مجلس میں سنا ہے کہ حسین بن علی (ع) کے اصحاب کو عاشور والے دن تلوار اور نیزہ  لگتے ہیں لیکن انہیں درد کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ خدا کی قسم طلائیہ میں میرا دایاں ہاتھ کٹ گیا، میں نے درد کا احساس نہیں کیا اور اس کے فوراً بعد کہا استغفر اللہ! میں آپ لوگوں سے یہ بات نہیں کہنا چاہتا تھا۔ یہ کمانڈر ام الرصاص کے علاقے میں چوتھے اور پانچویں کربلا آپریشن کے دوران اپنی فوجیوں کے تلف ہونے پر کمبل میں منہ ڈال کر روتے تھے  اور کہا کرتے خدایا مجھ سے غلطی ہوگئی۔ مجھے یہاں سے لے جا۔ انہیں اسی پانچویں کربلا آپریشن میں میزائل کا ایک ٹکڑا لگا اور وہ شہید ہوگئے۔ انھوں نے سن ۱۹۸۳  میں کہا  انہیں نہیں لے جایا جائے اور سن  ۱۹۸۶ میں کہا کہ اُنہیں  لے جایا جائے اور خدا نے قبول کرلیا۔ اُن کا مزار اصفہان کے گلزار شہداء میں ہے۔ وہ حسین خرازی تھے۔ جب میں اُن کے مزار پر جاتا ہوں، میں وہاں پر جوان لڑکے اور لڑکیوں کو دیکھتا ہوں ، وہ وہاں پر شمع روشن کرتے ہیں اور کہتے ہیں  کہ ہم ان سے حاجت طلب کرتے ہیں۔ واقعاً حسین خرازی  دعا مستجاب ہونے کے مقام پر پہنچے۔

دوپہر کا وقت تھا اور میں ہیڈ کوارتر میں سو رہا تھا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے بھائی محسن  آسمان کی طرف پرواز کر رہے ہیں اور اُن کے چھوٹے بچے رو رہے ہیں  اور یہ شہید اوپر سے مسکراتے ہوئے اپنے بچوں کو ہاتھ ہلا رہے ہیں۔ دن کا وقت تھا لیکن میں تھکاوٹ کی وجہ سے سوگیا تھا۔  ایک دم میری آنکھ کھلی، میں وائرلیس کے پاس ہی تھا۔ جناب شمخانی نے مجھ سے کہا اگر میں تمہیں کوئی بری خبر سناؤں تو کیا تم برداشت کرلو گے؟ میں نے آپ کہنا چاہتے ہیں کہ میرے بھائی شہید ہوگئے ہیں؟ انھوں نے کہا ابھی ہی شہید ہوئے ہیں۔ یعنی جس وقت وہ شہید ہوئے میں نے خواب میں اُن کی روح کو آسمان کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔  میں نے سید محسن کو ایک دفعہ اور خواب میں دیکھا ، میں نے اُن سے پوچھا کہ وہاں کی کیا خبر ہے؟ وہاں کیا کر رہے ہیں؟  انھوں نے مجھ سے کہا  تمہارے خیال میں ہم وہاں بیکار ہیں؟ ہم تم لوگوں کے لئے کام کر رہے ہیں۔ آؤ تمہیں دکھاؤں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ وہ مجھے لے گئے اور میں نے دیکھا کہ وہ ایک بہت اچھی مسجد بنا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کھڑکی سے باہر دیکھو۔ میں نے دیکھا تو نجف اشرف تھا۔ انھوں نے کہا ہم یہاں پر ایرانیوں کے لئے مسجد بنا رہے ہیں۔ دیکھو! یہ امیر المومنین (ع) کی قبر ہے اور میں نیند سے بیدار ہوگیا۔ شہید زندہ ہیں، لیکن ہم لوگ شہیدوں کی دنیا کی اہمیت اور فضیلت نہیں جانتے اور ہم اُس سے بے خبر ہیں۔"


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2264



http://oral-history.ir/?page=post&id=9278