تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – چوبیسویں قسط

مجتبیٰ الحسینی

مترجم: ضمیر رضوی

2020-05-20


جفیر سپلائز سینٹر

 گھر والوں کے ساتھ ایک ہفتے کی چھٹی گزارنے کے بعد مارچ 1981ء  کے شروع میں، میں گاؤں جفیر میں واقع میڈیکل یونٹ کے لیے روانہ ہوا۔ یہ گاؤں ڈویژن 9 اور 5 کے بیک اپ اور اسسٹنگ یونٹس کے پڑاؤ کے بعد ایک بڑے اور اہم فوجی علاقے  میں اور فورسز اور عراقی گاڑیوں کی جمع ہونے کی ایک جگہ میں تبدیل ہو چکا تھا۔  یہ گاؤں جس نے ہماری فورسز کو جگہ دی تھی اور اس تک جانے والے راستے، سب اگلے مورچوں کے یونٹس تک گولہ بارود، کھانے پینے کا سامان اور طبی ساز و سامان پہنچانے کے لیے ایک بیس میں تبدیل ہوچکے تھے۔

 اسی دوران دو بعثی رضاکار ڈاکٹرز جن کا نام لیفٹیننٹ "رعد" اور لیفٹیننٹ  "ذر" تھا ہمارے ساتھ شامل ہوگئے۔  گاؤں جفیر جس میں ایک وقت تک امن و امان اور سکون تھا،  بیس کے ایئر ڈیفنس کے باوجود اب وہ ایرانی طیاروں کے روزمرہ کے ٹارگٹ میں تبدیل ہو چکا تھا۔  ایرانی فوج کے کمانڈر جنہیں اس علاقے کی صورت حال کی معلومات حاصل ہوگئی تھیں روزانہ بمباری کے لئے اپنے جنگجو طیارے اس علاقے میں بھیجا کرتے تھے۔  اس کے باوجود کے طیارے ہمارے رہائشی علاقوں اور ایمبولینس پر بمباری نہیں کرتے تھے لیکن اس خوف سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایرانی لڑاکا طیاروں کی فائرنگ سے یہ مٹی کے گھر ہمارے اوپر گر پڑیں، ہمارا  آرام و سکون چھن چکا تھا۔  اس خطرناک صورت حال کے ظاہر ہونے کے بعد ہم نے اپنے مٹی کے گھروں کے قریب مضبوط خندقیں بنائیں تاکہ فضائی حملے کے وقت ہم ان میں پناہ لے سکیں۔  حقیقت یہ ہے کہ ہر زندہ مخلوق یہاں تک کہ آوارہ جانور بھی پریشان ہوجاتے تھے اور فطری طور پر فضائی حملوں سے ڈرتے تھے۔  جب بھی ہم  ہڑبڑا کر ان مضبوط اور نوساختہ پناہ گاہوں کی طرف دوڑتے تو آوارہ کتے بھی ہمارے پیچھے پیچھے روانہ ہو جاتے اور خوف کی شدت سے آوازیں نکالنے لگتے۔ ہمیں ایسا لگتا تھا جیسے  ہمارے آرام و سکون کے ساتھ وہ بھی آرام سکون میں رہتے اور ہمارے خوف اور پریشانی کی وجہ سے وہ بھی وحشت میں مبتلا ہوجاتے تھے۔  مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اس صورت حال پر روؤں یا ہنسوں۔  مجھے یاد ہے کہ ایک فضائی حملے کے دوران میں نے ایک ڈرپوک کتے کے ساتھ خندق کے ایک کنارے میں پناہ لی ہوئی تھی۔

اس دن معمول کے مطابق طیارے کی آواز سنتے ہی میں پناہ گاہ کی جانب دوڑ پڑا۔  اس لمحے میں نے اس کتے کے ساتھ جو ہوا کی طرح اپنی خندق کی طرف بھاگ رہا تھا ریس لگائی۔  درحقیقت  خطرے کا احساس،  ہمارے اور جانوروں کے درمیان عنصر مشترک تھا۔  وہ بے چاره جانور مجھ سے آگے نکل گیا اور اس خندق میں داخل ہوگیا جو پہلے سے میں نے اس کے لئے سوچ رکھی تھی۔  ایرانی جنگی طیارے قریب ہونے لگے اور ان کے غوطہ لگانے کی کان پھاڑ آواز نے آسمان کے سینے کو چیر ڈالا۔  اپنی پوری طاقت کے ساتھ پناہ گاہ ڈھونڈنے کے لئے میں اس علاقے میں ہر طرف گیا لیکن میں اس تلاش میں کامیاب نہ ہو سکا۔

مجبور ہوکر میں اس کتے کی پناہ گاہ کی طرف دوڑا۔  باہر سے میں نے دیکھا تو وہ بوکھلایا ہوا تھا اور خوف  کی شدت سے کانپ رہا تھا۔  وقت بہت کم تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں کو بند کیا اور اندر چلا گیا۔  اس کے دانتوں اور غصے والے چہرے کی پرواہ کیے بغیر میں نے اسے گلے لگا لیا۔ اس لمحے میں مجھے فضائی بمباری کے نیچے مرنے سے بہتر کتے کا کاٹنا لگ رہا تھا۔  ظاہری طور پر بے چاره جانور میری کیفیت کو سمجھ چکا تھا۔  اس نے مجھے اپنی خندق میں شریک ہونے کی اجازت دے دی۔  جیسے ہی فضائی بمباری ختم ہوئی میں فوراً اپنے دوستوں کے پاس واپس لوٹ گیا۔  جب میں نے اپنے دوستوں کو یہ قصہ سنایا تو وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے۔  اگلا کام یہ تھا کہ مجھے اپنے کپڑوں کو کتے کی نجاست سے پاک کرنا تھا۔ 

اس کے باوجود کہ ان مشکل حالات میں ہر وقت خطرہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا تھا لیکن ہنسی مذاق اور لطیفے سنانا اپنا اثر دکھاتا  تھا۔  ہم سب کے لیے محاذ میں مرنا ایک معمولی اور آسان سی بات بن چکی تھی اور ہماری نظر میں زندگی کا مطلب اپنی پہلی حساسیت کھو چکا تھا۔  جنگ شروع ہونے سے پہلے اگر ہم سنتے تھے کہ کسی کا انتقال ہو گیا ہے تو ہم بہت افسردہ ہوتے تھے لیکن اب موت کی خبر سننا یا اس کا مشاہدہ کرنا ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔  شاید یہی وجہ تھی کہ ہم اس دردناک حقیقت سے بچنے کے لئے اور اپنے تھکے ہوئے غمزدہ دلوں کو سکون بخشنے کے لیے ایک دوسرے سے مذاق کیا کرتے تھے۔  ان لوگوں سے ہنسی مذاق کرنا جو حد سے زیادہ ڈرتے اور دنیا سے دلبستہ تھے، ایک معمول کی بات بن چکی تھی۔  اسی وجہ سے ڈاکٹر "داخل" سادگی اور خوف کی شدت کی وجہ سے جوکروں کے گروپ میں شامل ہوگئے۔

میں زیادہ تر انہی سے ہنسی مذاق کیا کرتا تھا۔  مجھے یاد ہے کہ ایک دن ڈاکٹر "داخل" ایک لکڑی کی کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے نائی ان کے گردن سے سفید کپڑا باندھ کر ان کے سر کے بال کاٹ رہا تھا۔  اس وقت میں ہاتھ میں لوٹا لیے بیت الخلا کی طرف جا رہا تھا۔  راستے میں نے ایک عراقی "مگ" طیاره دیکھا۔  میرے دماغ میں آیا کہ کیوں نہ میں اس موقع سے فائدہ اٹھاؤں اور ڈاکٹر"داخل" کے ساتھ مزاق کروں۔ میں نے لوٹے کو زمین پر پھینکا اور زور سے چلایا: "فینٹم طیارہ۔۔۔ ایرانی طیارہ۔۔۔"  اور میں تیزی سے پناہ گاہوں کی طرف دوڑا۔  ڈاکٹر داخل جنہوں نے میری آواز سن لی تھی وہ بھی تیزی کے ساتھ اس حال میں کہ ان کی گردن میں سفید کپڑا بندھا ہوا تھا اور نائی قینچی لے کر ان کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا، میرے پیچھے بھاگنا شروع ہوگئے۔ اس سین نے مجھے کامیڈی فلموں کی یاد دلادی۔  جب وہ میرے پاس پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ میں چھپا ہوا ہوں اور ہنس رہا ہوں۔  وہ سمجھ گئے کہ یہ سب ایک مذاق تھا۔  انہوں نے میرے کندھے پر ایک ہاتھ مارا اور میری سخت سرزنش کی۔

 

 اس دن سے وہ مذاق ہمارے یونٹ کے افراد  کی ہنسی کے لیے ایک موضوع بن گیا تھا۔

مارچ 1981ء  کے شروع میں،  انجنیئرنگ اور  روڈ کنسٹرکشن  یونٹس نے محاذ اور اگلے مورچوں ، اور پچھلے مورچوں کے درمیان رابطہ سڑکیں اور عراق کے اندر بارڈر تک آنے والی راستوں پر روڈ ڈالنے کا کام مکمل کر لیا تھا۔  فوج سڑکیں اور پل بنانے کے لیے وزارت برائے روڈ کے سول عملہ کی صلاحیتوں اور تجربے کا استعمال کر رہی تھی۔ ان میں سےایک گروه نے اہواز- خرم شہر ریلوے لائن کو توڑ دیا اور اپنی فوج کے لیے راستے اور پناہ گاہیں بنانے کے لیے اس ریلوے لائن کی لکڑی اور پٹری( یہاں تک کہ ریلوے لائن کے گرد پڑی ریت) کو استعمال کیا۔  ایک دن کچھ ایرانی جنگجو ہیلی کاپٹروں نے حمید چھاؤنی کے قریب اپنی روزمرہ کے کام میں مشغول کچھ کنٹینرڑ اور لوڈرز  پر حملہ کردیا۔  تمام کنٹینرز اور ان کے ڈرائیوروں کو جلانے کے بعد وہ ہیلی کاپٹرز، ایرانی سرزمین کے اندر واپس لوٹ گئے۔  اس وقت کچھ عراقی طیاروں نے ان کا پیچھا کیا لیکن ان کی  کوششیں ناکام رہیں۔  اگلے دن، محکمہ برائے روڈ کنسٹرکشن صوبہ "انبار"کے کچھ فوجی کارکن ریلوے لائن کی پٹریاں نکالنے میں مشغول تھےکہ ایک بم دھماکے سے ایک ڈرائیور جاں بحق اور تین کارکن زخمی ہوگئے۔ اس طرح سے عام لوگ بھی جنگ کے نقصان سے محفوظ نہ رہ سکے۔  9 مارچ 1981ء  کو گیارہواں فیلڈ میڈیکل یونٹ پنے تمام اہلکاروں اور ساز و سامان کے ساتھ اپنے نئے مقامات پر منتقل ہوگیا، جو حمید چھاؤنی سے دو کلومیٹر جنوب مغرب،  جفیر سے 11 کلومیٹر شمال مشرق، اور حمید چھاؤنی اور گاؤں جفیر کے درمیان رابطہ سڑک کے نزدیک واقع تھا۔

نئے مقامات درحقیقت نویں فیلڈ میڈیکل یونٹ کے پڑاؤ کی جگہ تھی جو ایک مہینہ پہلے آبادان روانہ ہو چکے تھے۔ گاؤں جفیر کے  مٹی کے گھر ہمارے لئے محلوں کی مانند تھے جنہیں مجبوراً چھوڑ کر ہمیں ایک ایسے بیابان کے لئے روانہ ہونا بڑا کے جس کی زمینی پناہ گاہوں اور پرانی خندقوں میں چوہے اور کیڑے مکوڑے رہتے تھے۔  اس علاقے کا کچھ فوجی یونٹس نے چاروں طرف سے احاطہ کیا ہوا تھا جس میں پانچویں فیلڈ ڈویژن کا بیس،  20 ویں بریگیڈ کا "ب" بیس،  کاتیوشا فائرنگ پلیٹ فارمز اور اینٹی ائیر کرافٹ "سام"میزائلز  کا بیس شامل تھا۔

لوگوں کے جمع ہو جانے کے بعد ہمارا سب سے پہلا کام اپنی اپنی جگہوں کی صفائی تھا۔  ہم نے ڈاکٹرز کے لیے دو خندقیں بنائیں، ایک خندق آرام کے لئے اور ایک دوسری بڑی خندق جو زمین کے اندر تھی زخمیوں کا علاج کرنے کے لئے۔ یونٹ کے افراد نئے حالات کی وجہ سے دن رات خندقیں کھودنے میں مصروف  رہتے تھے۔  زمین کے اندر علاج کی جگہ(کلینک) بنانے میں ایک ہفتہ لگا۔  یہ خندق دس میٹر لمبی، تین میٹر چوڑی اور دو میٹر اونچی بنائی گئی تھی۔ اس خندق میں دوائیوں اور آلات کی حفاظت کیلئے اور زخمیوں کا علاج کرنے کے لئے کمرے اور راہداریاں بنائی گئی تھیں۔  دوائیاں پلاسٹک کی ایک تھیلی میں لپٹی ہوئی تھیں۔ اب ہمارے پاس زمین کے اندر ایک چھوٹا میڈیکل ڈینٹل یونٹ اور ایک کلینک تھا۔

جاری ہے۔۔۔


سائیٹ: تاریخ شفاھی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2338



http://oral-history.ir/?page=post&id=9227