دوران جنگ کے ایک ڈاکٹر کی کہانی

ان شہریوں کا مداوا جنہوں نے ہمارا محاصرہ کیا تھا

گفتگو: احمد رضا امیری سامانی
ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2020-05-05


اس سال گرمیوں کے وسط میں ڈاکٹر حامد دقاق زادہ کو حوزہ ہنری اصفہان کے دفتر میں آنے کی دعوت دی۔ ڈاکٹر صاحب کافی مصروف تھے لیکن میں نے بھی انٹرویو کرنے کی ضد نہ چھوڑی۔ آپ اصفہان میں آنتوں اور جگر کے ڈاکٹر ہیں۔ اور تقریبا تیس سالوں سے اصفہان میڈیکل یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبر بھی ہیں۔ چالیس مہینے میدان جنگ میں طبی امداد فراہم کرنا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ انکی سماعت کافی کمزور ہوچکی ہے اسی لئے آلے کا استعمال کرتے ہیں۔

 

ڈاکٹر صاحب پہلا سوال یہ ہے کہ آُپ کب اور کہاں پیدا ہوئے؟

میرا تعلق اصفہان کے علاقے طوقچی سے ہے لیکن میری جائے پیدائش کربلا کی ہے۔ میں سن ۱۹۵۹ کو پیدا ہوا۔ اور کربلا میں پیدا ہونے کا قصہ کچھ یوں ہے کہ میرے والدین کے یہاں جو بچہ بھی پیدا ہوتا وہ مرجاتا تھا۔ کسی نے آکر میرے والدین کو نصیحت کی کہ " اگر اپنے بچے کی کربلا میں ولادت کی نذر کرو گے تو تمہارے بچے زندہ بچ جائیں گے" اور یہی ہوا۔ اس کے بعد میرے والدین کی تمام اولادیں کربلا میں ہی ہوئیں اور زندہ بھی رہیں۔ میں آکر سے تیسرے نمبر پر تھا ایک شہید ہوگیا اور میں آخرسے ایک اوپر ہوگیا۔ میرے والد کی اصفہان کے علاقے سرائے مخلص میں درزی کی دکان تھی اور وہ کوٹ پینٹ سلائی کرتے تھے۔ میں اسکول جانے سے پہلے والد صاحب کی مدد کے لئے انکی دکان پر جاتا تحا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں ان کے ساتھ ہی کام کیا کرتا تھا چونکہ والد صاحب کے مالی حالات اچھے نہیں تھے۔ والد صاحب بوڑھے ہوچکے تھے اور ہم انکی دکان میں ہی بڑے ہوئے تھے۔ ایک دفعہ اس بازار میں آگ لگی تو والد صاحب کی دکان بھی جل گئی اسکے بعد انہوں نے کسی اور کی دکان پر نوکری کرلی اور ہم بھی ان کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے تاکہ ہماری زندگی کا پہیہ چل سکے۔

 

آپ کو یاد ہے کس سال والد سے الگ ہوکر کام شروع کیا؟

میں نے ۱۹۷۹ کے بعد سے اپنے والد کے پاس جانا کم کردیا، چونکہ میرے والد کہا کرتے تھے کہ درزی کا ہنر کوئی مناسب ہنر نہیں ہے اور انہوں نے مجھے زرگری کا کام سیکھنے پر لگا دیا۔ ایک سال بڑھئی کا کام بھی سیکھنے گیا لیکن دوبارہ زرگری کے کام میں مشغول ہوگیا تاکہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرسکوں۔ حتیٰ اصفہان یونیورسٹی میں داخل ہونے کے بعد بھی گرمیوں کی چھٹیوں میں جا کر کام کیا کرتا تھا تاکہ اپنے سال بھر کے اخراجات پورے کرسکوں۔

 

سردشت کے علاقے میں آپ کی کیا ذمہ داریاں تھیں؟

وہاں پر میں سپاہ کے شعبہ صحت کا انچارج تھا اور ایک اسپتال کی ذمہ داریاں بھی سنبھال رکھی تھیں۔ ایک ۵۰ بستروں پر مشتمل اسپتال تھا۔ ایک سال وہاں رہا پھر اصفہان واپس آگیا اور اپنی پڑھائی مکمل کی اسکے بعد محاذ جنگ پر چلا گیا۔ سردشت میں جتنا عرصہ رہا فقط ہیلی کاپٹر کے زریعے زخمیوں کو لانا لے جانا کرتا رہا ۔ ہمیں ہمیشہ ابتدائی طبی امداد کے لئے استعمال ہونے والی چیزوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ساز و سامان نہیں تھا۔ محاصرہ شدید تھا۔

 

محاصرہ کتنا شدید تھا؟

بہت زیادہ حالات خراب تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار ایک بٹالین میجر شہرام فر کی سربراہی میں سردشت کے ۲۰ کلومیٹر نزدیک پہنچ چکی تھی۔ بانہ اور سردشت کے درمیان ۶۷ کلومیٹر کا فاصلہ تھا، لیکن راستہ ریگستانی اور خراب تھا، یہ لوگ ۲۰ کلومیٹر پیشروی کے بعد پھنس گئے اور انکا محاصرہ کرلیا گیا اور ایک بڑی تعداد شہید بھی ہوگئی۔ خود میجر شہرام فر نے بھی کافی استقامت دکھائی لیکن شہید ہوگئے۔ مجھے یاد ہے کہ سردشت سے ۱۲۰ ملی میٹر توپوں سے دشمن کی طرف گولے برساتے تھے ۔ البتہ فاصلہ کافی زیادہ تھا اور مجاہدین کی تعداد بھی کافی کم تھی جس کی وجہ سے محاصرہ توڑ نہیں پارہے تھے۔ بس ایک بیرک فوج تھی اور اسکی کمانڈ کرنل کشاورزی تھے جو بعد میں شہید ہوگئے، خدا انکی مغفرت کرے۔ انکی بیرک میں دو ٹینک اور ایک ۱۲۰ ملی میٹر کی توپ تھی۔ راتوں کو کوملہ اور ڈیموکریٹس آتے تھے اور نزدیک آکر مائیکروفون پر کہتے تھے"خمینی کے کارندوں ہتھیار ڈال دو"۔ کردی زبان میں کہتے "جاش خمینی"۔ ہم انکی آواز کو واضح طور پر سنتے تھے۔ راتوں کو حملے کرتے تھے اور دن میں بھاگ جایا کرتے تھے۔

 

کتنا عرصہ محاصرے میں رہے؟

جب میں گیا تو محاصرے میں تھے۔ جب ایک سال بعد واپس گیا تب بھی محاصرے میں ہی تھے۔ اسکے علواہ ، شہر میں اور اسکے اطراف میں ضد انقلابیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ البتہ جب تک ہم وہاں تھے سردشت نے سقوط نہیں کیا لیکن ہر رات وہاں جھڑپیں ہوتی تھیں۔

 

ایک سال استقامت ؟

جی، سخت کام تھا۔ مجاہین کو ہیلی کاپٹروں کے زریعہ شفٹ کیا جاتا تھا۔ ہمیں ایندھن پہنچانے میں بھی مشکلا کا سمنا کرنا پڑتا تھا۔ ہر تین چار دنوں بعد، ایک ہیلی کاپٹر ٹاپ کوور کے ساتھ کوبرا ہیلی کاپٹر میں ایندھن لے کر آتا تھا۔ جس زمانے میں میں وہاں تھا، ہمارے گیارہ ہیلی کاپٹرز ما گرائے گئے تھے۔ کاص طور پر ان ہیلی کاپٹرز کو نشانہ بنایا جاتا تھا جن میں مسافر یا زخمی سوار ہوتے تھے۔ جب بھی سردشت میں کوئی ہیلی کاپٹر آتا تو خوشی پھیل جاتی تھی۔ میں کود بھی ہیلی کاپٹر کی آواز سن کر بہت زیادہ خوشی محسوس کرتا تھا۔ سردیوں کے موسم میں وہاں برف بھی کافی پڑتی تھی۔ بعض اوقات دس دنوں تک برف باری ہوتی تھی اور دو میٹر تک برف جمع ہوجاتی تھی ایسے میں ہیلی کاپٹر زمین پر نہیں اتر پاتے تھے۔ ایسے میں ہیلی کاپٹرز خطرات مول کر اپنی ذمہ داریاں نبھاتے تھے۔ مثلا ایندھن کے چار چار بیرل نیٹ میں ڈال کر نیچے لٹکاتے اور ان پر بہت زیادہ فائرنگ ہوتی۔ شہر چھوٹا تھا اور ہمیں شاید اتنا زیادہ ایندھن کی ضرورت بھی نہیں تھی لیکن شہر میں ایندھن پہنچانے کا فضائی راستے کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا۔

 

سردشت میں سب سے زیادہ کہاں سے مجاہدین بھیجے گئے تھے؟

سپاہ اور رضاکار فورس کے جو سپاہی وہاں موجود تھے ان میں سے اکثر اصفہانی تھے۔ سقز وغیرہ جیسے شہروں میں مشہدی مجاہدین کی تعداد زیادہ تھی۔

 

جو خواتین اور بچے وہاں زندگی گذار رہے تھے وہ متاثر نہیں ہوئے؟ وہ زخمی نہیں ہوئے؟ شہید نہیں ہوئے؟

ہمیں زیادہ ٹارگٹ کیا جاتا تھا۔ عام شہریوں کی جانب فائرنگ نہیں کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ وہاں پر یہ بات کی جاتی تھی کہ ایک کلاشنکوف ۳۵ ہزار تومان کی اور اگر ایک پاسدار کو مارا تو بھی ۳۵ ہزار تومان ملیں گے۔ ایک پاسدار جو وہاں ثقافتی سرگرمیوں میں مشغول تحا خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں کے لئے کام کررہا تھا اسے انہی نوجوانوں میں سے ایک نے جو اسے پہچانتا تھا شہید کردیا ہمیں وائرلیس پر بتایا گیا کہ ایک پاسدار کے سر پر گولی مار کر اسے شہید کردیا گیا ہے۔ ہم نے ایک ایمبولینس بھیجی جو پانچ منٹ میں اس زخمی پاسدار کو لے آئی۔ میں اور ایک اراک سے تعلق رکھنے والا پاسدار ایمبولینس کی طرف دوڑے جیسے ہی ہم اس کے اسٹریچر کو ایمبولینس سے نیچے اتارنے لگے اچانک ہم پر شدید فائرنگ شروع ہوگئی۔ تب ہمیں احساس ہوا کہ وہاں موجود دیگر افراد آگے کیوں نہیں بڑھے۔ جیسے ہی میگزین ختم ہونے کی آواز آئی تو ہم فوری طور پر اسٹریچر کو اسپتال کے اندر لے گئے۔ ہمیں دور سے نشانہ بنایا گیا تھا اس لئے شاید ہمیں گولیاں نہیں لگیں اور انکا منصوبہ ناکام ہوگیا۔ اس پاسدار کے خون کا گروپ بی تھا۔ اسکے سر میں گولی لگی تھی اور وہ شہید ہوگیا۔ اس طرح کے واقعات وہاں کا معمول تھے۔ مگرب کے بعد سڑکوں پر نکلنا محال تھا، یعنی امکان ہی نہیں تھا۔ بہت سخت حالات تھے۔ لیکن ہم سب تندہی کے ساتھ اپنا کام انجام دیتے تھے۔ ہم اپنے ملک کے لئے استقامت دکھا رہے تھے۔

 

ڈاکٹر صاحب بہت شکریہ آپ نے اپنا قیمتی وقت ہمیں دیا

 

 

 


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3110



http://oral-history.ir/?page=post&id=9192