یادوں بھری رات کا۳۰۷ واں پروگرام – دوسرا حصہ

سمندری گشت

پائلٹ آر پی جی سے فائر کرنے والا اور طیارہ آر پی جی بن گیا!

مترجم: کنیز طیبہ

2020-04-18


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۳۰۷  واں پروگرام، جمعرات کی شام، ۲۴  اکتوبر ۲۰۱۹ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اس پروگرام میں امیر حبیبی، محمد غلام حسینی اور عطاء اللہ محبی نامی پائلٹوں  نے عراق کی ایران پر مسلط کردہ جنگ کے دوران اپنے واقعات کو بیان کیا ۔

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کے ۳۰۷ ویں پروگرام کی میزبان داؤد صالِحی نے دوسرے راوی کی تقریر سے پہلے کہا: "پروگرام کے دوسرے راوی سن ۱۹۵۲ء  میں تیز پرواز کرنے والے عقابوں کے شہر  بروجرد میں پیدا ہوئے۔ وہ ایسے شخص ہیں جن کا فضائی آرمی میں آنا بھی کسی حادثہ سے کم نہیں، اس حد تک کہ ایک دن وہ ٹیکسی میں کسی شخص سے واقفیت پیدا کرتے ہیں اور اُس سے خلاء بانی کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور وہ بھی رہنمائی کردیتا ہے اور اس طرح وہ فضائی آرمی میں آجاتے ہیں۔ وہ ایسے ہیں جو کچھ عرصہ تک "چٹانوں کے مہمان" رہے اور ہم اُن کی کچھ یادوں کو سننے کیلئے یہاں جمع ہیں۔"

پھر پائلٹ بریگیڈیئر محمد غلام حسینی نے کہا: "اس آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران فضائی آرمی تیر کے نشانے پر تھی۔ جس دن عراق نے ایران پر حملہ کیا، ایران اور خاص طور سے فضائی آرمی کے حالات بہت خراب تھے۔ حالات اس طرح کے تھے کہ یونٹوں میں جواکثر خلاء بان تھے، وہ  کیپٹن اور میجر  درجے کے جوان خلاء بان تھے اوراُن میں کچھ کرنل بھی تھے۔ ہم ان افراد کے ساتھ مسلط کردہ جنگ کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔ نوژہ (نقاب) بغاوت کی وجہ سے بری افواج کے جو حالات تھے خاص طور سے خوزستان کی  ۹۲ ویں آرمرڈ بریگیڈ کی حالت تو بالکل خراب تھی۔ جس زمانے میں عراقی افواج نے ایرانی سرزمین پر قدم رکھا، ہمارے پاس سطحی افواج نہیں تھیں جو اُن کیلئے رکاوٹیں ایجاد کرتیں۔ دزفول چھاؤنی کو خالی کرنے کا حکم بھی صادر ہوچکا تھا۔ بہت سے طیاروں کو محاذ سے پیچھے لے جایا چکا تھا۔  کچھ محدود طیاروں کو جوان خلاء بانوں کے ساتھ رکھا ہوا تھا؛ ایسے خلبان جو سیکنڈ لیفٹیننٹ اور فرسٹ لیفٹیننٹ کے درجے پر تھے اور کچھ تعداد میں کیپٹن درجے کے لوگ تھے کہ جن کی پرواز کے تجربہ سے استفادہ کر رہے تھے۔

عراقی افواج کا دریائے کرخہ سے گزرنے میں  فضائی آرمی نے جو مقابلہ کیا تھا وہ بے نظیر تھا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے چاہے وہ میڈیا ہو اور چاہے ہمارا ادارہ،  جنگ کے شروع میں فضائی آرمی نے جو زحمات اٹھائی تھیں وہ اس چیز کو لوگوں تک نہیں پہنچا سکے؛ یہ کہ کیا حوادث پیش آئے ہیں۔ عراقی افواج کرخہ سے عبور کرنے کے لیے تیرتا ہوا پل لگا رہی تھی  تاکہ وہ اپنے وسائل اور سامان کو پانی کے اس طرف لے آئے۔ کوئی طیارہ دزفول سے پرواز کرتا۔ زمین سے اٹھنے کے وقت سے لیکر اپنے بمب گرانے کے وقت تک، شاید پانچ منٹ کا وقت بھی نہیں لگتا تھا۔ طیارہ ہلکی رفتار اور نچلی پرواز کے ساتھ اس پل کو گرانے کیلئے اقدام کیا کرتا تاکہ وہ لوگ نہ آسکیں۔ چونکہ اگر وہ لوگ آجاتے اور اندیمشک کو الگ کر دیتے تو حقیقت میں خوزستان ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ ہمارے ۸۰ فیصد پائلٹ شہید ہوئے، جنگ کے پہلے سال میں شہید ہوئے اور ان ۸۰ فیصد میں سے بھی ۸۰ فیصد لوگ جنگ شروع ہونے کے بعد دو مہینے کے اندر شہید ہوئے یہاں تک کہ ہم عراق کو اندر گھسنے سے روکے رکھیں اور اپنی سطحی ا فواج کو تیار کرلیں  کہ وہ صف آرائی کرکے کچھ کام انجام دے سکیں۔ پائلٹ آر پی جی سے فائر کرنے والا اور طیارہ آر پی جی بن گیا! فضائی آرمی کا وظیفہ مشخص ہے؛ تیز رفتار ردّ عمل دکھانے والی فوج کے عنوان سے دشمن ملک کے اہم حصوں کو تباہ کرنا، لیکن ان مشنوں کی حدود اتنی زیادہ ہوگئی تھی  کہ اس کے علاوہ کہ دشمن ملک کے اہم حصوں کو تباہ کرنا تو سر فہرست تھا، ہمیں بری افواج کو بھی سپورٹ کرنا تھا، گزرنے والی کشتیوں  کو بھی سپورٹ کرنا تھا، زخمیوں اور اسلحوں کوحمل کرنے کی بھی ذمہ داری تھی۔ فضائی آرمی میں سب نے زحمت اٹھائی ہے۔ ہمارے پاس ایسے گمنام فوجی ہیں جو جہاز کھڑے ہونے والے اسٹیشنوں پر کام کرتے ہیں اور ٹیکنیکل فیلڈ کے افراد ہیں۔ دوسرے شعبوں میں بھی  موجود ہمارے اسٹاف کے لیے دن اور رات کوئی معنی نہیں رکھتے تھے۔

جنگ کے پہلے سال صدامی افواج کی فضائی آرمی نابود ہوگئی۔ اب اُن کے پاس کچھ نہیں بچا تھا۔ لیکن مغربی ممالک نے اُن کی بہت مدد کی۔ جدید طیارے اور  میزائل اُن کے اختیار میں دیئے گئے۔ جب میں علاج کرانے کی غرض سے برطانیہ گیا ہوا تھا،  بی بی سی نے خود لندن میں ایک پروگرام دکھایا جس میں کیمیائی مواد کے حمل و نقل اور اُس سے بم بنانے کی کیفیت کے بارے میں بتایا گیا تھا؛ یہ بتایا گیا تھا کہ انھوں نے کس طرح اس کام کو شروع کیا، اُسے کس طرح ہالینڈ تک اور پھر وہاں سے مختلف راستوں کے ذریعے عراق تک پہنچایا اور اس کام میں جرمنی، برطانیہ، ہالینڈ اور ۔۔۔ جیسے ممالک ملوث تھے۔ اُسی زمانے میں جب میں برطانیہ میں تھا، بہت سے کیمیائی بم سے زخمی ہونے والے زخمیوں کو لایا گیا تھا  کہ متاسفانہ اُن میں سے کوئی بھی واپس نہیں آیا۔ ہمیں واقعاً ان زحمات کی قدر دانی کرنی چاہئیے؛ کہ ہم نے کس طرح کی زحمات اٹھا کر دشمن کو اپنی سرزمین سے باہر نکالا ہے۔

جب میں "چٹانوں کے مہمان" نامی کتاب لکھنا چاہ رہا تھا، میں اس تردید کا شکار تھا کہ کیا میں یہ کتاب لکھوں یا نہیں  لکھوں؟ ایک دوست کہہ رہا تھا کہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے اچھا ہے کہ وہ جانیں جنگ کے زمانے میں ایران میں کیا حوادث رونما ہوئے ہیں۔ اسیری کے زمانے میں میری شرائط  ایسی نہیں تھی کہ میں ناموں اور معلومات کو یاد رکھتا۔ چونکہ بہت کٹھن شرائط  تھیں۔ جب  میں  نے چاہا کہ محترمہ صبوری صاحبہ کے ساتھ کتاب لکھنا شروع کروں، میں بہت سے افراد  اور جگہوں کے نام بھول چکا تھا۔ میں یہ بات بتادوں کہ میری اسیری عراق میں نہیں تھی، میں ایران میں اسیر تھا! میں کردستان کی ڈیموکریٹک پارٹی کے ہاتھوں قیدی بنا تھا اور انھوں نے مجھے تقریباً چار سے پانچ مہینے تک رکھا۔ جب ہم نے کتاب لکھ ڈالی تو اُس میں بہت سی غلطیاں تھیں۔ ہمارا کام تقریباً اختتام پر تھا۔ میرا ایک دوست تھا جس نے ریٹائر ہونے کے بعد ڈرائی  فروٹ کی ایک دوکان کھول لی تھی۔ اُس نے دوکان میں اپنے پیچھے والی دیوار پر اپنی طیارے کے ساتھ  والی تصویر لگائی ہوئی تھی۔ ایک شخص اُس  کی دوکان میں پستے خریدنے گیا۔ اُس نے وہ  تصویر دیکھ کر پوچھا آپ پائلٹ ہیں؟ اُس نے بھی کہا: ہاں؛ میں پائلٹ تھا۔ اُس نے کہا: میں ایک غلام حسینی نام کے پائلٹ کی تلاش میں ہوں۔ آپ اُسے جانتے ہیں؟ دوکان والے دوست نے کہا: ہاں، وہ تو میرا دوست ہے۔ وہ شخص بولا: میں وہی کردی ہوں جو اسیری کے دوران اُس کے لیے  ڈاکٹر لیکر آیا تھا۔ میرا اُس سے ملنے کو بہت دل کر رہا ہے۔ رات کو میرے دوست نے مجھے فون کرکے کہا: ایک آدمی ہے جو تم سے ملنا چاہتا ہے۔ وہ تمہارا ٹیلی فون نمبر مانگ رہا تھا میں نے نہیں دیا، لیکن میں نے اُس کا نمبر لے لیا ہے۔ میں نے اُسے فون کیا تو پتہ چلا کہ وہ وہی حمزہ آریا ہے؛  ایسا فرد کہ جب مجھے قیدی بنایا گیا، وہ ایک دن بعد میری خاطر ڈاکٹر کے پاس گیا۔ میں نے اس بات کو اچھا شگون جانا اور اپنے آپ سے کہا کہ ہمیں کتاب کے لیے جو معلومات درکار ہیں،  میں وہ اُس سے لے لوں گا۔ میں نے محترمہ صبوری صاحبہ کو فون کیا اور اُن کے ساتھ اُس فرد سے ملنے چلا گیا۔ میں نے دیکھا کہ اُس کے بال بھی میری طرح سفید ہوچکے ہیں اور اُس کا ایک پیر بھی کٹ چکا ہے۔ اُس نے امان نامہ لے لیا تھا اور تہران میں رہنے لگا تھا۔ ہم نے اُس سے بہت سی معلومات حاصل کی؛ لوگوں  اور محلوں کے نام اور جو چیزیں میں بھول چکا تھا۔ ہم نے اُسے کتاب کی تقریب رونمائی میں شرکت کرنے کی دعوت دی اور وہ آیا۔ کتاب میں اُس کی تصویر بھی ہے۔

اس بات کے گزرنے کے بعد اور دو سال پہلے۔ ایک رات میں ٹیلی ویژن پر کوئی پروگرام دیکھ رہا تھا۔ رات کے گیارہ بجے میرے فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے فون اٹھایا تو ایک شخص نے میٹھے آذری لہجے میں پوچھا: جناب غلام حسینی؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ اُس نے کہا: میں نے تبریز کے ٹیلی فون ایکسچینج سے فون کیا ہے۔ میرے بھائی نے آپ کی کتاب پڑھی ہے وہ آپ کے ٹیلی فون نمبر کی تلاش میں ہے۔ مجھے آپ کا نمبر مل گیا ہے، اگر آپ اجازت دیں تو میں اُسے نمبر دیدوں تاکہ وہ آپ سے رابطہ کرلے۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد اُس کے بھائی نے فون کرکے کہا: جناب خلاء بان! جب آپ اسیر ہوئے تھے، میں اُس علاقے میں سیکیورٹی ادارے کا افسر تھا اور آپ نے کتاب میں جن تمام افراد کا نام لیا ہے ، میں اُنہیں جانتا ہوں۔ اُن میں سے کچھ زندہ ہیں اور کچھ لوگوں کا انتقال ہوگیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ کو اس علاقے میں لیکر جاؤں۔ میں بھی چاہتا تھا کہ وہاں جاؤں اور جاکر دیکھوں کہ میں جس علاقے میں اُترا تھا، وہ کیسا تھا۔ خاص طور سے کچھ گھر والوں کے ایک دو افراد سے ملاقات کروں جنہوں نے میرے ساتھ مہربانی کی تھی؛ کاک خِدِر نام کا ایک گھرانہ کہ جن کی کہانی کتاب میں ہے کہ انھوں نے کس طرح خود کو خطرے میں ڈالا اور مجھے وہاں سے نجات دلائی کہ بعد میں اُس کی وجہ سے اُنہیں بہت اذیت اٹھانی پڑی۔ پھر میں ایک مہینے پہلے ھریس گیا، وہاں سے اُسے لیا تاکہ وہاں سے مہاباد اور پھر وہاں سے پَسوِہ جائیں۔ پسوہ، وہ علاقہ تھا جہاں میں آزاد ہوا تھا۔ ہمیں وہ فرد ملا جو مجھے گھوڑے کے ذریعے اِدھر سے اُدھر لے جا رہا تھا۔ اُس نے جیسے ہی مجھے دیکھا، سٹپٹاگیا اور بولا: پائلٹ صاحب! ہم نے آپ کو بہت اذیت پہنچائی۔ میں نے کہا: اب جو تم نے مجھے اذیت پہنچائی ہے، آؤ چلیں چل کر اُس علاقے کو دیکھتے ہیں جہاں میں پیراشوٹ کے ذریعہ نیچے اترا تھا۔ اُس نے کہا: جس گاڑی پر آپ لوگ ہیں اس سے تو نہیں جاسکتے۔ ہمیں جیپ کی طرح کی کوئی گاڑی لینی پڑے گی۔ بہرحال ہم نے ایک جیپ کا انتظام کیا اور اُس کے ذریعے وہاں گئے۔ جب میں وہاں پہنچا، اب مجھے پتہ چلا تھا کہ میں کہاں گرا تھا! بہت ہی پیچیدہ اور کٹھن راستوں والا علاقہ تھا۔ متاسفانہ ہمارے پاس مووی کیمرہ نہیں تھا کہ ہم وہاں کی ویڈیو بناتے، لیکن ہم نے تصویریں کھینچ لی تھیں۔ ہمیں ایک اور دفعہ کا پروگرام بنانا ہے تاکہ اُس دفعہ مووی کیمرہ لے جاکر ویڈیو بنائیں۔"

پائلٹ بریگیڈیئر محمد غلام حسینی  نے یادوں بھری رات کے ۳۰۷ ویں پروگرام  میں اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے، قید ہونے سے پہلے اپنے آخری مشن اور اسی طرح اپنے قید کے زمانے کے بارے میں بتایا۔ آپ اس روایت کو  یادوں بھری رات کے ۳۰۷ ویں پروگرام کی اگلی رپورٹ میں پڑھیں گے۔

جاری ہے ۔۔۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2411



http://oral-history.ir/?page=post&id=9166