پرانے زمانے کی آلبم سے ایک تصویر

ایک عظیم شخصیت کے بارے میں دو دوستوں کی روایت

مترجم: سید مبارک حسنین زیدی

2020-03-14


گذشتہ ہفتے مزاحمتی ادب کا مرکز ایک ایسے دوست سے ہاتھ دھو بیٹھا  کہ جسے نمایاں ہونے کا شوق نہیں تھا۔ ہدایت اللہ بہبودی اور احمد فیاض نے چند سطروں میں جناب احد گودرزیانی کے واقعات کو بیان کیا ہے۔

 

اُن کے چہرے پر نگاہ پڑتے ہی مجھ جنت کی یاد آجاتی

میں احد گودر زیانی کا کوئی واقعہ نہیں بیان کرسکتا  چونکہ میں تقریباً ۳۰ سالوں سے اُن سے مانوس تھا اور اُن کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ کوئی واقعہ اُس وقت تشکیل پاتا ہے جب دو افراد اتفاقی طور پر ایک دوسرے سے ملاقات کریں ، یا اُن کے ساتھ کوئی خاص حادثہ پیش آیا ہو، لیکن میں نے "احد" کے ساتھ تین دہائیاں گزاری ہیں اور یہ دوستی اس سے کہیں بڑھ کر ہے کہ میں کوئی واقعہ سنا کر اُن کی یاد مناؤں۔ بہرحال اُن تیس سالوں کا ایک حصہ جو میں نے احد کے ساتھ گزارا، اُس میں سے آٹھ سال سے زیادہ کا عرصہ پندرہ  روزہ مجلہ "کمان" میں گزرا ہے۔ میں مرتضیٰ سرہنگی، کوروش پارسانژاد اور احد گودرزیانی کے ساتھ اس مجلہ میں کام کرتا تھا۔ اگر میں احد کے بارے میں کچھ کہنا یا لکھنا چاہوں، تو میں اُسی زمانے میں جاؤں گا جب ہم نے پندرہ روزہ مجلہ "کمان" نکالنے کا کام شروع کیا تھا۔

۲۲ جنوری سن ۱۹۹۷ء  کو، جس دن جمعہ تھا  میں نے  اپنے دوستوں کی روزانہ یاد داشت کے عنوان سے یہ بند  لکھا جو پندرہ روزہ مجلہ "کمان" کی نسبت ہماری دلچپسی  اور ہمارے قریب ، مخلص  ہونے اور مشترکہ حس رکھنے  کی حکایت کرتا ہے۔  اس تاریخ اور "کمان" کے پہلے ایڈیشن میں ڈھائی مہینے کا فاصلہ ہے کہ اُس وقت ہم اُسے شائع کرنے کے مقدمات فراہم کر رہے تھے۔

میری یاد داشت یہ ہے: "میں تھا، مرتضی سرہنگی اور احد گودر زیانی۔ ہم نے  کمان دفتر کے باقی ماندہ کاموں کو نمٹایا، ہر جگہ تقریباً صاف ستھری اور تمیز ہوچکی تھی اور خوش قسمتی سے دفتر کا  اوپن کچن ان چیزوں سے تشکیل پایا تھا: پلاسٹک کی پلیٹوں کا ایک سیٹ، چھ عدد سیکنڈ ہینڈ چاقو، ایک ٹرے، تین عدد چینی رکھنے والے پیالے، ٹافیاں رکھنے کے پیالے، گیس کی کیتلی، چھ گلاسوں کا سیٹ، دو کچرے کی بالٹیاں، برتن دھونے کیلئے سرف اور جونا۔ مرتضیٰ نے شیشوں کو صاف کیا، احد سے جہاں تک ہوسکتا تھا اُس نے جھاڑو دی اور میں نے حمام کو دھویا۔ جب ہم کام سے فارغ ہوئے تو شام کے چار بج رہے تھے۔ آدھا گھنٹہ باتیں کرنے میں گزر گیا"۔ میری اس تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ اس مجلے میں ہماری ایک دوسرے سے کیا نسبت تھی۔ مجلہ چھپنا شروع ہوگیا۔ مجھے یاد ہے احد نے اُس پہلے ایڈیشن کے لئے ایسا زبردست کام کیا۔ جناب سرہنگی نے بہت زحمت اٹھائی تھی اور سردار شہید محمد ابراہیم ہمت کی زوجہ سے انٹرویو  کے حالات سازگار بنائے تھے۔ محترمہ ژیلا بدیھیان نے اس بات کو قبول کرلیا تھا کہ وہ مجلہ جس کا ابھی تک ایک ایڈیشن بھی منظر عام پر نہیں آیا تھا، اُس سے گفتگو کریں۔ احد اس گفتگو کیلئے اصفہان گئے۔ یہ گفتگو مجلہ کمان کے پہلے ایڈیشن میں شائع ہوئی۔ منتشر ہونے والے مطالب پڑھنے میں بہت جذابیت رکھتے تھے اس طرح سے کہ یہ بات اس بات کا باعث بنی کہ ہم اُس کی اشاعت کے بعد اُسی روش کو جاری رکھیں اور دوسرے مشہور و معروف شہید سرداروں کی زوجات سے بات چیت کریں ، حتی یہ گفتگو کا  مجموعہ  "بانوی ماہ"  (چاند کی ملکہ) کے عنوان سے کتاب کے سانچہ میں شائع ہوا۔ ایسے  آثار جو آئیڈیل میں تبدیل ہوگئے۔ مجھے یاد پڑتا ہے روایت فتح اور ٹیلی ویژن کے پروگرام  کیلئے اس آئیڈیل پروگرام سے استفادہ کیا گیا۔ بہرحال اس کام کی قدر و قیمت احد گودر زیانی سے مربوط ہے۔ احد بہت ہی توانا انسان تھے۔ انھوں نے اُسی زمانے میں جب مجلہ "کمان" کا کام شروع ہو رہا تھا  اور جس طرح ہر مجلے کے آغاز میں مشکلات ہوتی ہیں، انھوں نے شادی کرکے اپنا گھر بسا لیا تھا۔

مجلہ "کمان" بہت تنگدست تھا اور وسائل کی کمی تھی۔ ہم میں سے کوئی بھی اس مجلہ سے تنخواہ نہیں لیتا تھا۔ ہم تمام کاموں کو مفت انجام دیتے تھے۔ احد نے انہیں شرائط کے ساتھ آٹھ سال تک اس مجلہ کے ایڈیٹر  کے طور پر کام کیا اورہم سے تعاون کیا اور شروع سے لیکر آخر تک یعنی اس مجلہ کے ۲۰۰ ایڈیشن میں اداریہ لکھنے والے تھے۔ اُن کی درآمد کا سلسلہ کہیں اور سے تھا۔ اُن کی ایسی شخصیت تھی جو کسی سے تقاضا نہیں کرتی تھی۔ اسی وجہ سے یہ ثقافتی چہرہ  اُن سوابق کے ساتھ کرایہ کے گھر میں رہائش پذیر تھا اور اس وقت اُن کے گھر والوں کو کہ جن کا سرپرست اُن سے بچھڑ گیا ہے، سختی کا سامنا ہے۔ وہ ایسے انسان تھے  جو کسی سے کوئی توقع نہیں رکھتے تھے۔ اُن کا دوسرا رُخ نہیں تھا اور اُن پر نگاہ پڑتے ہیں سمجھ میں  آجاتا تھا کہ اُن کا ظاہر اُن کے باطن جیسا ہے۔ وہ بہت کم لوگوں سے اپنی مشکلات کے بارے میں بات کرتے تھے۔ وہ بیماری جس نے اُنہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا  تھا اور اُنہیں ۵۰ سال کی عمر میں ہم سے چھین لیا، وہ سب سے پوشیدہ تھی۔ اُن کےانتقال میں ایک ہفتہ رہ گیا تھا جب ہمیں پتہ چلا کے احد کو قلبی عارضہ ہے۔  سب کو تعجب ہوا کہ  ایسا کیوں ہوا کہ  کوئی اس بات سے آگاہ نہیں تھا۔ میں جب بھی اُن کے چہرے کے طرف نگاہ کرتا بہترین ممکنہ تصور کرتا جو میرے ذہن میں خداوند متعال کی جنت ہے۔ یہ حس اس وقت سے مربوط نہیں ہے کہ جب وہ جا چکے ہیں، میں اُن کی نسبت ہمیشہ سے یہی احساس رکھتا تھا اور رکھتا ہوں۔

 

اُس کی جدائی میں جو چلا گیا، اُس کے سوگ میں جو تھا ۔۔۔

حالانکہ مکتب الصادق (ع) گروپ سوشل میڈیا پر ایک چینل کے عنوان سے دفاع مقدس اور کربلائے پانچ اور خاص طور سے اس مکتب کے شہداء کی یاد میں بہت جدوجہد اور کوششیں کر رہا ہے؛ اچانک سے اس گروپ کے ایک ممبر کا میسج، گروپ میں سکوت اور اس کے بعد لوگوں پررقت طاری کردیتا ہے۔ میسج مختصر تھا : "افسوس سے کے ساتھ خبر دی جاتی ہیں کہ احد گودر زیانی اب سے کچھ دیر پہلے اس دار فانی سے کوچ کر گئے"۔

میں خبر سنتے ہی مبہوت ہوگیا اور مکتب الصادق (ع) کے افراد سے مکمل معلومات حاصل کرنے کیلئے نکل پڑا۔ البتہ دس دن پہلے جب "احد گودر زیانی" قلبی بیماری کی وجہ سے ہسپتال میں ایڈمٹ ہوئے تھے، میں اُن کی خیریت دریافت کر رہا تھا اور ظاہراً خطرے کی کوئی بات نہیں تھی، لیکن خدا کی مشیت اس میں تھی کہ دفاع مقدس اور انقلاب کے اس نمایاں محقق  کے ساتھ گزرے ہوئے بہترین سالوں کے بعد اب جدائی کا وقت آجائے۔ میں اُسی رات تصویروں کی ایک پرانی البم کو تلاش کرتا ہوں  تاکہ میں نے احد نامی جوان کے ساتھ  سن ۸۹ سے سن ۹۲ تک جو چار سال گزارے تھے ، اُن سالوں کو ذہن میں لاکر اُن کی یادوں کو دہراؤں۔  وہ زمانہ کے ابھی میرے بالوں میں چاندی نہیں آئی تھی اور جوانی کی شرارتیں تصاویر میں نمایاں تھیں۔ مجھے  چند سال قبل  اُن سے ٹیلی فون پر ہونے والی  گفتگو یاد آتی ہے   جسے رپورٹ کی صورت میں میڈیا پر پیش کرنا طے تھا، لیکن وہ کام ابھی تک روکا ہوا تھا۔ صوتی فائلوں کو ڈھونڈنے میں اچھا خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔ اُن سالوں کی ایک تصویر جو ابھی تک کسی کی نظر سے نہیں گزری میں اُسے گروپ پر ڈالتا ہوں کہ میں نے مذاق میں "احد" کے سامنے مائیک پکڑا ہوا تھا تاکہ اُس سے بات چیت کروں۔ سن ۹۰ یا ۹۱ کی گرمیوں میں سمنان کے شہمیرزاد ٹریننگ سینٹر میں ۱۷ یا ۱۸ سال کے سن میں ہم میں سے کوئی سوچتا بھی نہیں تھا ایک دن ہم خبرنگار یا رپورٹر اور مؤلف بن جائیں گے لیکن اُنہی سالوں میں مرحوم کا لکھائی اور خبر نگاری  میں دلچسپی رکھنا اور شوق بہت واضح تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک خبرنگار کے انداز میں، مائیک اُن کے سامنے رکھا اور سب دوستوں کے سامنے اُن  سے ایک سو ال پوچھا، اُن کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ آئی اور انھوں نے  دوستوں کے سامنے سنجیدگی کے ساتھ ایسا بہترین جواب دیا کہ تمام لوگ وجدمیں آگئے۔ جیسا کہ میں سپاہ کے تبلیغاتی اوراشاعتی مرکز میں ایک مشہدی ہونے کے عنوان سے دن رات اور اکیلا کام کرتا تھا؛ اس وجہ سے بعض اوقات وہ مہربانی فرما کر مجھے میرے دفتر فون کرتے اور مجھے ناشتہ کی دعوت دیتے۔ ان ناشتوں میں حسین بہبودی ہمیشہ ہمارے ساتھ ہوتے تھے۔ کبھی کبھار میں بھی ناشتہ  کی دعوت دیدیا کرتا تھا اور ہم تینوں افراد زیادہ تر روز مرہ موضوعات پر بحث اور گفتگو کرتے۔

 

اچانک کتنی جلدی ۔۔۔

میرے ذہن میں مرحوم ابو الفضل زروئی نصر آباد کی ایک نظم اُبھر رہی ہے! دریا، دریا، دریا، دریا/ روتی آنکھیں اشکوں کا دریا ہیں/ اُس کی جدائی میں جو چلا گیا / اُس کے سوگ میں جو تھا/ "میں کب سے اس دیار میں ہوں ۔۔۔" لیکن تم، اے عزیز/ "اچانک کتنی جلدی" ۔۔۔

تہران میں واقع شاہراہ استاد نجات الٰہی پر سپاہ کا تبلیغاتی اور اشاعتی دفتر وہ جگہ ہے جہاں  پر میں سن ۱۹۹۲ء میں مرحوم گودر زیانی کے ساتھ آخری دفعہ مل کر بیٹھا تھا۔ وہی  ایام کے جب وہ امام حسین (ع) یونیورسٹی میں ادبیات فیکلٹی میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ؛ سپاہ کے مجلوں کی چھپائی اور اشاعت میں بڑھ چڑھ کر اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔ وہ جو سن ۱۹۶۹ء میں پیدا ہوئے ہیں،  وہ میڈیا ایجوکیشن ڈویلپمنٹ سینٹر میں اخبار اور صحافت سے جڑ جاتے ہیں اور سن ۱۹۹۴ء سے  آرٹ شعبے میں محقق اور مؤلف کے عنوان سے کام کر نے لگے۔  انھوں نے سن ۱۹۹۶ء میں "مرتضی سرہنگی" اور "ہدایت اللہ بہبودی" کے ساتھ  پندرہ روزہ کمان کے  انتظامی امور کو اسلامی انقلاب کی تاریخ و ادب میں سنہری نسل کے لکھاریوں کے عنوان سے سنبھالا  اور آرٹ شعبہ میں کام کرنے کےعلاوہ انھوں نے سپاہ پاسداران کے تبلیغاتی اوراشاعتی دفتر کے ساتھ بھی اپنے تعاون کو جاری رکھا۔ یہ وہ سال ہیں جو حقیقت میں  احد گودر زیانی کے نمایاں اور برجستہ ہونے کا نقطہ آغاز تھے۔

مرحوم احد گودر زیانی دفاع مقدس کے موضوع اور شہداء سے رابطہ برقرار کرنے کے طریقہ  کار میں اس بات کے قائل تھے کہ داستان اور حادثات کی تال (rhythm) اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ کہتے تھے: "پیغامات پر مبنی کام بھی پائیدار ادب کے حیطہ میں لکھے جاتے ہیں لیکن آج کل کے مخاطبین ایک طرح سے ماجرے کے طریقہ کی جستجو میں ہیں۔ کسی داستان میں رونما ہونے والے واقعات؛ یا تو بیرونی ہوتے ہیں یا اندرونی۔ بیرونی وہ حادثات ہیں جو رونما ہوئے ہیں۔ ایسا آپریشن جس میں شہید شرکت کرتا ہے،  وہ محاصرہ جو کیا جاتا ہے و ۔۔۔ البتہ ہمارے لئے اندرونی واقعہ بھی اہم ہے۔ مثال کے طور پر ایک شہید جیسے شہید فرومندی، وہ ایسی شخصیت تھے جو ہمیشہ آگے کی طرف حرکت کرتے تھے۔ اُن کے اندرونی انقلاب کلی طور پر اس بات کا نتیجہ ہیں کہ اُن کی وجہ سے بیرونی رویوں نے تشکیل پائی" اور فوجی مشاور، دفاع مقدس کی ادبیات اور آئین کے مشہور شاعر  جو مرحوم گودر زیانی کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں؛ بہت ہی افسوس کے ساتھ اس نامدار محقق کی جدائی میں، اُن کی خصوصیات کے بارے میں کہتے ہیں: اُن کا اصلی ہم و غم، انقلاب  اور ۱۵ خرداد (۴ جون) کے بارے میں نئے اور تازہ آثار پیش کرنا تھے  تاکہ یہ بات ہمیشہ جوان نسل کے ذہنوں  اور یادوں میں باقی رہے۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2308



http://oral-history.ir/?page=post&id=9132