امام خمینی کے نمائندوں کا ملتا جلتا ردّعمل

مترجم: سید مبارک حسنین زیدی

2020-03-12


سن ۱۹۷۸ء میں، ایک دن صبح سویرے میں تبریز کے ایک محلے ششگلان میں موجود ولی عصر (عج) مدرسہ میں چکر لگانے گیا، مجھے بتایا گیا کہ آیت اللہ سید محمد علی قاضی طباطبائی نے فون کیا تھا۔ میں نے فوراً فون کیا، شہید قاضی نے فرمایا: "حکومت کے ایک دو افراد آئے تھے اور انھوں نے کچھ مسائل سامنے رکھے ہیں؛ اگر آپ کیلئے ممکن ہو تو آپ یہاں تشریف لے آئیں"۔

میں قاضی صاحب کے گھر چلا گیا۔ قاضی صاحب نے اپنے خادم سے کہہ رکھا تھا کہ جب فلاں صاحب آئے، اُن کے اندر آنے سے پہلے مجھے بتا دینا۔ میں جیسے ہی صحن میں داخل ہوا، قاضی صاحب اپنے کمرے سے باہر نکلے اور کہا: "وزیر اعظم کی طرف سے ایک دو لوگوں کے ساتھ ڈاکٹر ماجدی آئے تھے۔ اُن کا کہنا یہ ہے کہ میں نجف جاؤں اور وہاں جاکر آقا (امام خمینی) سے کہوں  کہ وہ شاہ کو ہٹانے اور حکومت بدلنے  کے معاملے سے پیچھے ہٹ جائیں اور اپنی جدوجہد کیلئے بنیادی قانون کو اصلی  محور قرار دیں! ۔۔۔ مجھے ان لوگوں کو جواب دینا ہے، میں نے سوچا کہ آپ سے بھی مشورہ کرلوں کہ حکومت کی درخواست کے مقابلے میں ہمیں کون سا راستہ اختیار کرنا چاہئیے؟" میں نے کہا: "اگر آپ اجازت دیں تو ہم ان افراد سے گفتگو کرتے ہیں۔" ہم نے اُس طاغوتی وفد کے ساتھ گفتگو کا آغاز کیا۔ اُن کا کہنا یہ تھا کہ ہم طیارہ اور دوسرے وسائل آپ کو فراہم کرتے ہیں، آپ نجف جائیں اور حکومت کا پیغام آقای خمینی تک پہنچائیں۔ ہمارا تو خیال یہ ہے کہ اس پیغام کو پہنچانے کیلئے قاضی صاحب بہت ہی مناسب  رہیں گے۔

قاضی صاحب اُن کی باتیں سن رہے تھے اور خاموش تھے، میں نے اُن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "میں جناب (قاضی صاحب) سے معذرت چاہتے ہوئے کہ میں ان سے پہلے لب گشائی کر رہا ہوں، یہ تبریز اور آذر بائیجان میں امام خمینی کے نمائندے ہیں۔ لیکن تہران، قم، مشہد، شیراز اور ملک کے دوسرے بڑے شہروں میں  بھی آقا (امام خمینی) کے مشہور اور با نفوذ نمائندے ہیں اور وہ افراد قاضی صاحب کی نسبت امام خمینی سے زیادہ نزدیک ہیں اور اُن سے زیادہ رابطے میں ہیں: جیسے جناب مطہری، جناب منتظری، جناب بہشتی وغیرہ۔ آیت اللہ خمینی شاید قاضی صاحب سے زیادہ اُن کی بات کو اچھی طرح سنیں، آپ لوگ اُن کے پاس کیوں نہیں گئے؟

اور دوسری باتیں بھی ہوئیں، لیکن اُن لوگوں کے پاس میری بات  کا کوئی قابل قبول جواب نہیں تھا۔ بالآخر اُس دن طاغوت کا وہ بھیجا ہوا وفد، کہ جن کی شہید قاضی صاحب سے بھی اُمید ٹوٹ گئی تھی، واپس چلا گیا اور ہمیں دھمکی دی کہ تاریخ ایران  کے اس حساس موڑ پر، کچھ ایسے مولوی حضرات ہیں کہ اگر وہ ملک کے خیر خواہ عہدیداروں سے تعاون نہیں کریں گے، تو اُن کے ساتھ اچھا رویہ اختیار نہیں کیا جائے گا! اُس کے بعد انھوں نے اُن افراد کا نام لیا کہ اُن کی اُس بلیک لسٹ میں بندہ حقیر کا نام بھی تھا! لیکن خداوند متعال کی مدد سے، حق کامیابی کی بلندیوں سے ہمکنار ہوتا چلا گیا اور پھر طاغوت اور طاغوت پرست پستی اور کھائیوں میں گر گئے تھے۔

وہ لوگ چلے گئے، بعد میں پتہ چلا کہ وہ لوگ تبریز آنے سے پہلے، تہران اور قم میں امام کے ایک ایک نمائندے کے پاس گئے تھے  اور جیسا کہ انھوں نے اُن لوگوں کو منفی جواب دیدیا تھا، آخر میں نہیں معلوم کس کے اشارے یا کس کے کہنے اور کس تصور کے ساتھ مرحوم قاضی صاحب کے پاس آئے تھے، خدا ہی بہتر جانتا ہے!


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 2102



http://oral-history.ir/?page=post&id=9128