اس نے خود کو ("شام" میں) شہادت کی بس تک پہنچادیا

"پچاس سالہ خزاں" نامی کتاب پر ایک نظر

سیده پگاه رضا زاده

مترجم: ضمیر رضوی

2020-03-12


 

" پچاس سالہ خزاں" مدافع حرم شہید کمانڈر "محمد جمالی" کی زوجہ "مریم جمالی" کی یادوں کی ایک کتاب ہے۔ جسے "خط مقدم" پبلشر نے  کچھ مہینے پہلے 2019ء  کی خزاں میں 168 صفحوں پر مشتمل، 2500 پاکٹ سائز نسخوں کی صورت میں،  بیس ہزار تومان کی قیمت کے ساتھ، جنگ کی زبانی تاریخ کے شائقین کے لیے پیش کیا۔یہ کتاب "شہدائے مدافع حرم" کے موضوع، فاطمہ بہبودی کے قلم، محمد مہدی عقابی کی ایڈیٹنگ اور انجمن شہدائےصوبہ کرمان کے تعاون سے بازار تک پہنچی ہے۔

شہید کمانڈر جمالی کی زوجہ کی زبانی، ان کی کہانی کی روشن تصویر کے طور پر اور زبانی تاریخ اور دستاویزی فلم کی شکل میں اس کتاب کا جائزه لیا جا سکتا ہے۔ کتاب کی مصنفہ نے شام میں ہونے والی جنگ کی ان کہی یادوں کو آسان الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے ساده زبان میں لکھا ہے اس طرح سے کہ کتاب پڑھنے والا کتاب کے چند ابتدائی صفحات پڑھتے ہی کتاب کی طرف راغب ہو جاتا ہے اور آخر تک کتاب کو پڑھتا ہے۔  شہید مدافع حرم اور ان کی زوجہ کی ذاتی زندگی کی کچھ یادیں جس میں انھوں نے کئی نشیب و فراز کے ساتھ دکھ اور مشکلات برداشت کی ہیں۔  اس کتاب میں ہم ان جنگوں اور آپریشنز کی زبانی تاریخ سے روبرو ہوں گے جن میں شہید جمالی موجود تھے۔ مصنفہ نے جنوری 2019ء  میں شہید جمالی کی زوجہ مریم جمالی سے ملاقات کی اور وه کتاب کے مقدمے میں کہتی ہیں کہ جس دن میری شہید جمالی کی زوجہ سے ملاقات تھی اسی دن شہزادی دمشق، جناب زینب (س) کی ولادت  کا دن تھا اور میں حضرت زینب (س) کی وفات کے دن مصنفہ، شہید جمالی کی زوجہ کا انٹرویو پورا کرنے کے لیے صوبہ کرمان کے شہر "بابک" گئی تھی اور انہیں شہید کی والده سے ملاقات بھی کرنی تھی۔  ان ملاقاتوں کا نتیجہ، 14 گھنٹے کی گفتگو ہے۔

پہلے باب میں ہم شہید جمالی اور ان کی زوجہ کی شادی کی کہانی اور یادوں کے بارے میں آگاہ ہوں گے۔ مریم جمالی بیان کرتی ہیں کہ کس طرح اپنی پھپھو کے بیٹے سے ان کی واقفیت ہوئی۔  اسی باب کے صفحہ نمبر 24 پر ہم پڑھیں گے شہید جمالی کے پہلے محاذ پر جانے کی کہانی ان کی والده کی زبانی، ان کی والده کہتی ہیں جب جنگ شروع ہوئی تو وه گیارہویں کلاس میں تھا۔  اس کا کلاس فیلو رفسنجان سے آیا۔ میں نے پوچھا ہمارے محمد کی کیا خبر ہے؟ اس نے کہا وه تو فوجی ٹریننگ حاصل کرنے گیا ہے، وه محاذ پر جانا چاہتا ہے۔ کل صبح سویرے روانہ ہوگا...

اس کے بعد دوسرے باب میں مریم جمالی، شہید جمالی کے محاذ پر جانے کے سبب اپنی پریشانی اور دکھوں کو بیان کرتی ہیں، جس وقت آپریشن "خیبر" میں ان کے بازو میں گولی لگی اور ایک دوسرے آپریشن میں وہ گولہ باری سے اعصابی اختلال میں مبتلا ہو گئے تھے۔ مریم جمالی صفحہ نمبر 34 پر اس وقت کی طرف اشاره کرتی ہیں جب سردار جمالی کو دھماکے کی لہر نے زخمی کیا تھا اور چند دن تک ان کی حالت واقعی اچھی نہیں تھی اور وه بعض اوقات ٹوٹے پھوٹے الفاظ بولتے تھے جنہیں میں سمجھ نہیں پاتی تھی۔  لیکن اس کے باوجود ان کے حواس بالکل ٹھیک کام کر رہے تھے اور وه  ڈائری میں اپنے نوٹس لکھتے تھے۔  

شہید جمالی کی زوجہ نے ایک مرتبه ہمت کی اور چھپ کر ڈائری پڑھ لی۔ وه کہتی ہیں: "میں نے دیکھا، لکھا ہوا تھا کہ آپریشن کربلا-5 کے دوران ہم پندره دن تک جڑواں کینال میں تھے۔ انھوں نے ہمارے سروں پر اس قدر آگ برسائی کہ گویا ہمارے پیروں تلے زمین ہل رہی تھی اور بچے کے جھولے کی طرح  ڈول رہی تھی۔"  شہید جمالی کی زوجہ اس وقت انیس سال کی تھیں، اس وقت وه اسکول جاتی تھیں اور شہید جمالی محاذ پر جاتے تھے اور مختلف آپریشنز میں شرکت کرتے تھے۔

تیسرے باب میں، شہید جمالی سن 1988ء  میں  لشکر-41 ثارالله کے آپریشنز میں شرکت کرنے کے لیے اپنی زوجہ اور بچے کے ساتھ اهواز جاتے ہیں۔ یہ باب شہید کی زوجہ کی اپنے بچے کے ساتھ ایک ایسے شہر میں تنہائیوں کی داستان ہے جسے وه بالکل بھی نہیں جانتے تھے اور وہ شہر ان کے لیے اجنبی شہر تھا۔  اسی باب کے آخر میں دفاع مقدس کی کامیابی اور ان کا اپنی جائے پیدائش کرمان واپسی کی جانب اشاره ہوتا ہے۔

اس کے بعد چوتھے باب میں شہید کمانڈر حاج قاسم سلیمانی کے حکم سے کمانڈر جمالی کے مشن پر جانے کی بات سامنے آتی ہے۔ محمد جمالی، کمانڈر محمودی کے ساتھ شرپسندوں کا مقابلہ کرنے کے لئے سیرجان روانہ ہوتے ہیں۔  اس آپریشن کا طولانی اور تھکا دینے والا ہونے کی وجہ سے شہید جمالی کی زوجہ مجبور ہوجاتی ہیں کہ وه  بچے کو لے کر اپنے شوہر کے ساتھ سیرجان جائیں۔  صفحہ نمبر 66 پر شہید جمالی اپنے اس آپریشن کے لیے جانے کی وجہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں: " سیرجان شہر کے لوگ چند اسمگلروں کی وجہ سے امن سے محروم ہیں اور ہم جا رہے ہیں تاکہ ان کا مقابلہ کریں اور شہر میں خواتین اور بچوں کے لئے امن قائم ہو۔  انسان کے پاس رات کی روٹی نا ہو مگر امن و امان ضرور ہو!"

پانچویں  باب میں ان لوگوں کے دوباره سفر کی تیاری اور اس خاندان کی کرمان سے روانگی کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ مریم جمالی، اس آپریشن اور اشرار کے ساتھ جنگ کی دشواریاں نقل کرتی ہیں۔ صفحہ نمبر 71 پر ہم شہید جمالی کی آپریشن سیرجان کی یادیں کچھ یوں پڑھتے ہیں: "شرپسندوں سے جنگ، عراقیوں سے جنگ سے زیاده مشکل ہے۔ یہ لوگ ہمارے ہم وطن ہیں، ہمارے جیسا ہی لباس پہنتے ہیں، ہم ایک ہی زبان بولتے ہیں، اسی لیے اچانک وار کرتے ہیں۔ " اس کے آگے پانچویں باب میں مریم جمالی کہتی ہیں: "اس وقت مجھے پتا چلا کہ سیرجان کی لڑائی در حقیقت وہی جنگ ہے جسے گوریلا وار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لیکن صاحب الزمان(ع) بریگیڈ نے بھی شرپسندوں کا ایسا مقابلہ کیا کہ انھوں نے ایک فورس بھی نہیں گنوائی اور کبھی کبھی وه لڑائیوں میں بھیس بدل کر چھپ جاتے تھے اور شرپسندوں کے مرکز پر حملہ کرتے تھے-"

کمانڈر جمالی اور ان کے ساتھیوں کی تین سال اور کچھ مہینوں کی دن رات کوششوں کے بعد سیرجان ایک پر امن شہر میں تبدیل ہو جاتا ہے اور ان کی اور ان کے ساتھیوں کی بہادری کا رعب و دبدبه شہر سے کوچ کر جاتا ہے۔ محمد جمالی کے چھوڑے ہوئے نوٹس سے معلوم ہوتا ہے که وه لوگ ہر آپریشن سے ہفتہ دس دن پہلے واقفیت کے لئے جاتے  تھے اور تحقیقات کرتے تھے۔ جب انہیں پتا چل جاتا تھا که شرپسند کہاں سے آئے ہیں، کہاں جارہے ہیں اور ان کا ٹھکانہ کہاں ہے تو وه فورسز کو الرٹ کردیتے تھے اور آپریشن شروع کردیتے تھے۔ در حقیقت انٹیلی جنس- آپریشن کی اہم ذمہ داری بھی کمانڈر جمالی کے کاندهوں پر تھی۔ چھٹے باب میں شہید محمد جمالی، لشکر ثارالله-41 کرمان میں واپس آجاتے ہیں، اسی طرح 2003 میں شہر بم میں زلزلے کے بعد پہلے بھیجے گئے لوگوں کے عنوان سے شهید کی کچھ  امدادی کاروائیاں پڑھیں گے۔

ساتویں  باب میں سن 2007ء  کی خزاں میں شہید جمالی کی کرنل کے رینک میں ریٹائرمنٹ نظر آتی ہے۔ اسی طرح صفحہ نمبر 108 پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ کس طرح کمانڈر جمالی کو شام بھیجا گیا۔ شہید محمد جمالی 2013ء  کے ایام فاطمیہ میں، جنگ کے بعد، ہر سال کی طرح کمانڈر سلیمانی کے گھر پر ہونے والی جناب فاطمه زهرا (س) کی مجلس عزا میں جاتے ہیں۔ حاج قاسم سلیمانی کا طریقہ یہ ہے که وه دروازے پر کھڑے رہتے ہیں اور خود مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ رات کو جب محمد گھر آتے ہیں تو اپنی زوجہ کو بتاتے ہیں که حاج قاسم سلیمانی نے کہا ہے کہ اگر ابھی تمہیں کوئی خاص کام نہ ہو تو شام چلے جاؤ۔ شہید جمالی کی زوجہ بتاتی ہیں که جس وقت شہید محمد جمالی اس بات کو اپنی زبان پر لائے تو وه خوشی کے مارے پھولے نہیں سما رہے تھے اور بغیر کہے معلوم تھا کہ انھوں نے حاج قاسم سلیمانی کی درخواست کو دل سے قبول کرلیا ہے۔ اسی طرح یہ باب کمانڈر کے خاندان کے، ان سے رخصت ہونے اور ایئرپورٹ سے ان کی روانگی کا ذکر کرتا ہے۔ کمانڈر جمالی سن 2013ء  کے اگست کے آخر میں شام روانہ ہوئے۔

آٹھواں باب، دوسرے پیراگراف میں کچھ یوں شروع ہوتا ہے: "حاجی بوٹ اور خاکی لباس میں آئے، وه تھکے ہوئے تھے۔ اچانک میں نے دیکھا کہ میری بیٹی کی الماری کو غور سے دیکھ رہے ہیں، میں نے پوچھا حاجی کیا ہوا؟ انہوں نے کہا: مجھے داعشیوں کے جوتوں کے نیچے پڑی شامی چھوٹی بچیوں کی خاک آلود گڑیائیں یاد آگئیں!" کتاب کے اسی باب میں صفحہ نمبر 120 پر عزیزوں کی محفل میں، کمانڈر جمالی کی زبان سے جنگ کی خوبصورت یادوں میں سے ایک واقعہ بیان ہوتا ہے اور اسی طرح ہم شہید جمالی کی شہادت سے پہلے،ان کے آخری ایام کے بارے میں پڑھیں گے۔ کتاب کے صفحہ نمبر 125 پر شہید کمانڈر کی زبانی ایک شعر کچھ یوں نقل ہوتا ہے: "بارالها! من نمی خواهم که در بستر بمیرم/      یاری ام کن تا به راهت در دل سنگر بمیرم/    دوست دارم در میان آتش و خون و گلوله/  د و ر      ا ز      ا ین     کا شا نه    بمیر م"

 ترجمہ : "الٰہی  میں   نہیں   چاہتا   کہ   بستر  پر   مروں/ کر مدد میری که خندق میں تیری راه پر  مروں / چاہتا ہوں  آگ و گولی  اور خوں کے درمیاں / اس    آشیانے    سے    دور   ہو  کر  مروں"

نواں باب کمانڈر جمالی کی شہادت کے  واقعے اور ان کے اہل خانہ کو ان کی شہادت کی اطلاع ملنے کی کیفیت کو بیان کرتا ہے۔ صفحہ نمبر 136 پر کمانڈر محمودی، شہید جمالی کا ایک واقعہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں:" ہم جفیر میں تھے، ایک رات محمد جمالی واقفیت کے لیے گئے تھے۔ رات زیاده ہو چکی تھی اور وه واپس نہیں لوٹے تھے۔ میں خندق میں جوانوں کے پاس لیٹا ہوا تھا لیکن مجھے نیند نہیں آرہی تهی، صبح کے تقریبا تین چار بجے میں نے خندق کے کنارے ایک طویل القامت سایہ دیکھا ، میں سمجھ گیا کہ یہ محمد جمالی ہی ہیں۔  انھوں نے جوانوں پر ایک نظر ڈالی اور خندق کے شروع میں لیٹ گئے۔ دس پندره منٹ بعد اٹھے اور آہستہ آہستہ باہر چلے گئے، میں بھی ان کے بعد اٹھا اور ان کے پیچھے چلا گیا۔ وہ خندق سے کچھ میٹر آگے گئے جہاں جوانوں نے نئی خندق کھودی تھی وه گڑھے میں اترے اپنی جیب سے واک مین نکالا اور آن کیا، شیخ حسین انصاریان پڑھ رہے تھے۔ جمالی پر رقت طاری ہوگئی۔ اب نہ رو تو کب رو۔ وه اس طرح آه و زاری کر رہے تھے کہ ان کے آنسو بہانے سے میری سسکیاں بن گئیں۔  میں نے ان کی سرگوشیاں سنیں:" اے خدا! ان چند سالوں میں، جو تونے  مجھے زندگی دی ہے، مجھ سے کتنے گناه ہوگئے کہ مجھے شہادت نصیب نہیں ہوتی؟!"

دسویں باب میں ہم شہید کے اہل خانہ کی ان کے جسد خاکی سے ملاقات اور دردناک رخصت کے سخت لمحات کے بارے میں پڑھیں گے۔  اسی طرح صفحہ نمبر 147 پر شہید جمالی کی تدفین کے موقع پر کمانڈر حاج قاسم سلیمانی کی تقریر کے کچھ حصوں کی جانب اشاره ہوتا ہے:" شہید جمالی آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران بسیجی تھے اور جنگ کے بعد تھی انھوں نے ایک بسیجی کی طرح زندگی گزاری۔ اگر وه آٹھ سالہ جنگ کی شہادت والی بس سے ره گئے، تو انھوں نے خود کو شام کی شہادت والی بس تک پہنچا دیا۔"


سائیٹ تاریخ شفاھی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3373



http://oral-history.ir/?page=post&id=9126