یادوں بھری رات کا۳۰۶ واں پروگرام – دوسرا حصہ

کشمیر کے واقعات


مریم رجبی

مترجم: کنیز طیبہ

2020-03-12


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۳۰۶  واں پروگرام، جمعرات کی شام، ۲۶ ستمبر۲۰۱۹ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اس پروگرام میں علی سید ناصری، سرباز روح اللہ رضوی اور محمد سرور رجائی نے کشمیر اور افغانستان میں انقلاب اسلامی ایران کے اثرات کے بارے میں بتایا۔

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کے ۳۰۶ ویں پروگرام کے میزبان داؤد صالِحی نے دوسرے راوی کے بیان سے پہلے کہا: "ایک اور فرد جو ایران اور کشمیر کے مابین رابطے برقرار رکھنے میں بہت موثر رہے ہیں، سید قلبی حسین رضوی ہیں۔  اس شخص نے امام خمینی (رح) کی باتوں کو گرہ سے باندھ لیا تھا اور آہستہ آہستہ کشمیر میں جمہوری اسلامی کے مبلغ میں تبدیل ہوگئے تھے۔ جب دفاع مقدس کا مرحلہ پیش آیا، وہ افراد جو ایک علاقے میں اُن کے ساتھ رہتے تھے، انھوں نے اُن کے دروازے پر جاکر کہا ہم ایران کی حفاظت کرنے کیلئے محاذ پر جانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے ایران کی حمایت کیلئے اپنے زیورات  بھارت میں موجود ایران کے سفارت خانے کے سپرد کردیئے۔  جس زمانے میں خر م شہر کی آزادی کا واقعہ رونما ہوا، ہمارے لوگوں کو بہت زیادہ خوشی ہوئی، کشمیر اور اُس علاقے کے افراد کو بھی اتنی ہی خوشی ہوئی تھی۔ اُن کا نام اس وجہ سے قلبی حسین ہے کہ اُن کے والد کو امام حسین (ع) سے خاص لگاؤ تھا  اور وہ اپنے بیٹے کا نام قلبی حسین رکھتے ہیں۔ کئی سالوں بعد قلبی حسین امام خمینی (رہ) سے محبت اور لگاؤ کے سبب اپنے بیٹے کا نام سرباز روح اللہ (روح اللہ کا سپاہی) رکھتے ہیں۔ اُن کے فرزند  ۲۲ ستمبر سن ۱۹۸۰ کو پیدا ہوئے، جس دن عراق نے ایران پر حملہ کیا اور لوگوں میں ایک نا اُمیدی کی لہر دوڑ گئی۔ انھوں نے اس نا اُمیدی کو ختم کرنے کیلئے  اور سرزمین ایران سے اپنے عشق اور الفت کو  ثابت کرنے کی خاطر اپنے بیٹے کا یہ نام رکھا۔"

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کے ۳۰۶ ویں پروگرام کے دوسرے راوی سرباز روح اللہ تھے۔ انھوں نے کہا: "میں اپنے مرحوم والد کی طرح جب بھی کشمیر کے بارے میں بات کرتا ہوں تو میرا عقیدہ ہوتا ہے کہ کشمیر  امت اسلامی کا ایک ٹکڑا ہے۔ جس طرح اُس کا ایران کے ساتھ تاریخی، ثقافتی اور دینی پیوند لگا ہوا ہے، دنیائے اسلام کے کسی اور ملک کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ کشمیر امت اسلام کا وہ ٹکڑا ہے کہ جس نے اسلام، ثقافت، سخاوت اور تجارت کو ایران سے سیکھا ہے۔ جب اس سرزمین پر انقلاب رونما ہوا، اس کی گونج کشمیر میں بہت زیادہ سنائی دی گئی۔ میں نے گذشتہ چار سے پانچ سالوں مختلف دوست احباب سے کہا ہے کہ وہ آکر کشمیر کا نظارہ کریں۔ کم سے کم پچاس یا ساٹھ ثقافتی افراد نے کشمیر میں قدم رکھا کہ کشمیر دیکھنے کے بعد اُن کی نگاہ  اور رائے میری جیسی ہوگئی۔ کشمیر کو ایک بہت ہی پرانا زخم لگا ہوا ہے کہ جس نے دوبارہ رسنا شروع کردیا ہے اور جس نے لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کردیا ہے۔ آج تقریباً آٹھ ملین کشمیری مسلمانوں کے محاصرے کا ۵۳ واں دن ہے۔ رابطہ منقطع ہوگیا ہے، اطلاعات  نہیں پہنچ رہیں اور کشمیر یوں کی طرف سے اٹھنے والی ہر آواز  اور ہر اعتراض کو سرکوب کر دیا جاتا ہے۔ کشمیر میں سرگرم رہنے والے اچھے خاصے افراد گرفتار ہوچکے ہیں کہ جن میں سے بہت سے ہمارے دوست تھے اور ہمیں نہیں معلوم کہ وہ لوگ اس وقت کہاں ہیں۔ سینکڑوں افراد ربڑ کی گولیوں اور آنسو گیس کی فائرنگ سے زخمی ہوچکے ہیں۔ وہاں پر رعب اور وحشت کی فضا قائم ہے۔ ان تمام واقعات کے باوجود بہت سے اسلامی ممالک خاص طور سے عرب ممالک نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے جو بہت ہی افسوس کا مقام ہے۔"

سرباز روح اللہ رضوی نے اس طرح سے اپنے واقعات بیان کرنا شروع کئے: "میرے مرحوم والد کے بہت سے واقعات ہیں اور وہ تاریخ نوٹ کرنے میں بہت دقیق تھے۔ اُن کے پاس یاد داشت لکھنے والی ڈائریاں تھیں جس میں وہ بہت سے واقعات لکھتے تھے۔ وہ منظم ذہن کے مالک تھے۔ تقریباً سن ۲۰۰۴ء میں میرے ذہن میں ایک خیال آیا کہ اگر  ان واقعات  کا اندراج نہیں ہوا تو نقصان ہوگا۔ میں قم کے مرکز اسناد میں گیا اور مرکز اسناد میں کام کرنے والوں سے کہا کہ انقلاب اسلامی کی عالمی ہویت کے بارے میں کچھ واقعات ہیں، جو ان سرحدوں سے باہر رونما ہوئے ہیں۔ ان کا کہیں پر اندراج ہونا چاہئیے۔ انھوں نے رضایت کا اظہار کیا اور کہا: آپ کس کے بارے میں کہہ رہے ہیں؟ میں نے کہا: ایک کشمیر کا رہنے والا بندہ خدا ہے  جس کا نام قلبی حسین رضوی کشمیری ہے۔ انھوں نے کہا: آپ اُن سے ملاقات کیلئے ایک میٹنگ رکھیں۔ میں نے وہ میٹنگ رکھی، میٹنگ کے بعد وہ سمجھ گئے کہ وہ میرے والد ہیں۔ انھوں نے پوچھا: تم نے کیوں نہیں بتایا تھا کہ تمہارے والد ہیں؟ میں نے کہا: اس لئے کہ کوئی غلط فہمی نہ ہوجائے۔ تقریباً بیس طولانی نشستوں میں ہونے والے انٹرویوز کے بعد مرکز اسناد نے "قلبی حسین رضوی کشمیری کے واقعات" نامی کتاب چھاپی۔

قم کے مرکز اسناد کے دوستوں سے یہ طے پایا کہ میں ریکارڈنگ کی جگہ مقرر کروں اور خود ہی آکر نشستوں کو منظم کروں اور  یوں انٹرویوز ریکارڈ ہوں۔ گفتگو کرتے وقت بہت دفعہ آغا صاحب رو پڑتے تھے، خاص طور سے جب امام خمینی کا نام آتا؛ اس کے باوجود کے کمرہ خالی ہوتا تھا اور صرف میں ہوتا تھا اور وہ اپنے تاریخی واقعات  کو بیان کر رہے ہوتے تھے۔ وہ امام خمینی سے عجیب محبت کرتے تھے۔ والد صاحب رونما ہونے والے بہت سے واقعات میں موجود تھے، جیسے حج پر قتل و غارت گری کا واقعہ۔ اُن میں اور اُن کے کچھ دوستوں میں کشمیر میں ہونے والے مظالم کو بیان کرنے کی واقعاًٍ بہت جرائت تھی۔ آغا صاحب کے واقعات میں بہت  ہی نشیب و  فراز تھے، لیکن اُن کے واقعات کا نکتہ اوج دفاع مقدس اور  خرم شہر کی فتح سے مربوط ہے۔ جب خرم شہر فتح ہوا تو کارگل کے لوگ خوشی میں جھوم اُٹھے اور وہاں جشن کا سماں ہوگیا تھا۔ اگلے دن سیکیورٹی فورسز کے افراد قلبی حسین کی تلاش میں آئے اور بالکل اُسی ادارے میں گئے جہاں میرے والد صاحب کام کرتے تھے۔ سن ۱۹۸۲ء تک میرے والد صاحب ایران نہیں آئے تھے اور انھوں نے فارسی، ریڈیو ایران سن کر اور کشمیر میں آئے ہوئی ایرانی اسٹوڈنٹس سے سیکھی تھی۔ اُن کی ملازمت اور زندگی تھی اور انھوں نے ایران آنے کا سوچا بھی  نہیں تھا۔ بتاتے ہیں کہ اُس دن ادارے کا انچارج نہیں آیا تھا اور اصل میں میرے والد صاحب صوبہ جموں و کشمیر میں ثقافتی ادارے کے معاون انچارج تھے، ایسی جگہ کہ ہم اس وقت وہاں جانا چاہیں، ہم جس راستے سے بھی  وہاں جائیں، اس کے کوہستانی راستے میں سات گھنٹے لگتے ہیں۔ اُس زمانے میں راستہ آج سے زیادہ سخت تھا۔ میرے والد صاحب نے بتایا کہ میں دفتر کے اندر داخل ہوا  اور میں نے دیکھا کہ جیپ پر فوج کے دو  آدمی آئے ہیں ، ہم نے منشیوں کو باہر نکال دیا۔ انھوں نے کہا: یہاں پر کوئی قلبی حسین نام  کا شخص ہے جو بیرونی ممالک کے مفاد میں کام کر رہا ہے۔ والد صاحب بیان کرتے ہیں کہ  میں نے حضرت زہرا (س) سے  توسل کیا اور کہا: آپ لوگوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ اگر کوئی یہاں اس طرح کا کام کر رہا ہے تو وہ دفتری اوقات میں یہ کام نہیں کر رہا اور دوسری طرف سے ہمارے ادارے کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ دفتری اوقات کے بعد ادارے میں کام کرنے والے افراد کی جستجو کرے۔ دوسری بات یہ کہ آپ لوگ جان لیں کہ کارگل ایک شیعہ نشین علاقہ ہے اور یہاں کے لوگوں کا امام خمینی اور اسلامی جمہوریہ ایران سے رابطہ صرف سیاسی رابطہ نہیں ہے۔ یہ لوگ امام خمینی کی تقلید کرتے ہیں۔ آپ لوگوں کو بہت دھیان رکھنا چاہیے کہ  آپ کی کسی حرکت سے لوگوں کے احساسات اُبھر جائیں اور یہ سرحدی علاقہ نا امن ہوجائے۔

والد صاحب نے کہا: خدا نے میری بات میں  ایسا اثر ڈال دیا کہ اُس آرمی افسر نے بھی تائید کی اور کہا: آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ میں نے اُس سے کہا: آپ مجھے اجازت دیں کہ  جس آدمی کے بارے میں آپ کہہ رہے ہیں میں اُسے  تحقیق کرکے ڈھونڈوں کہ  وہ کون ہے۔ وہ آرمی افسر مان گیا اور چلا گیا۔ وہ گیا اور  میں نے گھر کی طرف  دوڑ لگادی۔ گھر میں خرم شہر کی آزادی کے پوسٹر اور دوسری چیزیں تھیں۔ جیسا کہ مجھے لگ رہا تھا کہ وہ دوبارہ میری تلاش میں آئیں گے، میں نے اُن تمام چیزوں کو جمع کیا۔ میں نے سرینگر واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ آغاصاحب سرینگر کے رہنے والے نہیں تھے۔ اُس زمانے میں سرینگر پہنچنے میں تقریباً دس سے بارہ گھنٹے لگتے تھے۔ کوئی گاڑی نہیں ملی۔ سامان لے جانے والے ٹرک تھے۔  میں ٹرک پر بیٹھ کر سرینگر شہر تک پہنچا۔ اس روایت میں دوسری طرف سے پیش آنے والے ایک اور واقعہ کی داستان ہے۔ میرے والد نے ۲۴ مئی کی دوپہر سے لیکر ۲۵ کی صبح  تک  بیٹھ کر واقعات لکھے۔ صبح کی آذان کے وقت انھوں نے کہا: میں تین دعائیں مانگ کر سو گیا۔ دوسری طرف سے جو داستان تھی وہ ایران میں تحریکوں کی کانفرنس کا انقعاد تھا۔ کشمیر کے علاقے سے دو لوگوں کانام تجویز کیا گیا تھا۔ اُن میں سے ایک نام میرے والد صاحب کا تھا۔ انھیں نہیں پتہ تھا کہ ایسا ہونے والا ہے۔ والد صاحب نے بتایا: میں بارہ گھنٹے بعد سرینگر پہنچا اور میں سیدھا اپنے سالے، جناب سید محمد کے گھر پہنچا۔ جناب سید محمد وہ پہلے عالم دین تھے جنہوں نے بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ انقلاب اسلامی اور امام خمینی  ؒ کے نظریئے کو بیان کیا۔ وہ نجف کے طالب علم تھے اور وہیں پر امام خمینی ؒ  کی شخصیت سے آگاہ ہوئے تھے۔ انقلابی ا فراد اور انقلابی طالب علموں کے اکٹھا ہونے کی جگہ جناب سید محمد کا گھر تھا۔ اُن  کے گھر کا کمرہ سیاسی میٹنگوں کا گڑھ تھا۔ میرے والد نے کہا: جب میں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ میٹنگ ہو رہی ہے اور سارے ایرانی طالب علم بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے مجھ سے کہا: آپ ٹیلی گراف دریافت کرنے کی وجہ سے آئے ہیں؟ میں نے کہا: کون سا ٹیلی گراف؟ انھوں نے کہا: ہم نے آپ کیلئے ٹیلی گراف بھیجا ہے۔ میں نے پوچھا: کیسا ٹیلی گراف؟ انھوں نے بتایا: ایران میں کانفرنس  ہو رہی ہے ، آپ اور جناب غلام علی گلزار کو اس کانفرنس میں شرکت کیلئے دعوت دی گئی ہے۔ آغا صاحب نے کہا: میرے چہرے پر بہار آگئی۔ دو دن پہلے رات کو دعا کی  اور وہ دعا آہستہ آہستہ قبول ہو رہی ہے۔

میرے والد نے کہا: میں نے چند دنوں میں دہلی جاکر  ویزا لیا اور ایک فلائٹ سے تہران پہنچ گیا اور وہاں سے سیدھا  ہم امام خمینی  ؒ سے ملنے کیلئے گئے۔ میں نے پہلی دعا جو مانگی تھی، یعنی بت شکن زمان کو دیکھوں، میری یہ دعا پوری ہوگئی۔ اس کے فوراً بعد ہم سے کہا گیا کہ آپ لوگوں کو آزاد ہونے والے علاقوں میں لے جائیں گے۔ ہمیں لیکر گئے اور ہم نے بستان سے خرم شہر تک کا نظارہ کیا۔ میری دوسری آرزو بھی پوری ہوگئی۔ اسی طرح بتایا گیا کہ مہمانوں کو امام رضا (ع) کی زیارت کیلئے لے جائیں گے۔ ہمیں زیارت پر لے کر گئے اور میں نے پہلی مرتبہ اپنے جد کی زیارت کی۔ ہم رضوی ہیں اور ہمارا شجرہ برقعی سادات سے ملتا ہے؛ یعنی ہم لوگ اصل میں قمی ہیں۔ والد صاحب نے بتایا: زیارت کے بعد ہم واپس دہلی جانے کیلئے جہاز پر بیٹھے کہ میں نے اپنے ہاتھ پہ ہاتھ مارا۔ میں نے کہا: خدایا میں نے تین دعائیں مانگی تھیں اور تو نے تینوں دعائیں قبول کرلیں، لیکن میں ایک دعا بھول گیا تھا! میں بھول گیا تھا کہ میں اپنی پھوپھی کی زیارت کیلئے شہر قم جانے کی دعا کروں۔ میں نے وہیں جہاز میں سے توسل کیا۔ وہ کانفرنس کے بعد دہلی واپس آگئے اور اُس کے بعد کشمیر آئے  اور ابھی ایک سال نہیں ہوا تھا کہ دوبارہ سازمان تبلیغات اسلامی نے  انہیں دعوت دی۔ وہ ایک سال بعد ایران کے شہر تہران آئے اور پھر وہاں سے تعلیم حاصل کرنے کیلئے قم منتقل ہوگئے اور اپنی عمر کے آخر تک حرم حضرت معصومہ (س) کے مجاور رہے۔"

سرباز روح اللہ نے میزبان کے پوچھے گئے سوال  کہ لوگ آپ کے نام پر کیا ردّ عمل دکھاتے تھے کہا: "یہ نام لوگوں کے لئے ایک معمولی نام تھا۔ میرے اسکول کے دوست مجھے ابھی بھی سرباز کے نام سے بلاتے ہیں۔ ایران میں رہنے میں ہماری لئے کچھ مشکلات بھی تھیں، چونکہ ہم ایرانی نہیں تھے اور نہیں ہیں۔ خاص طور سے اُس زمانے میں جب اقامت اور پاسپورٹ کی تمدید کا زیادہ مسئلہ تھا ۔ میرے والد صاحب بہت ہی منظم اور قانونی آدمی تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ پاسپورٹ بننے میں ایک دن بھی تاخیر ہو۔ جب میں اسکول میں پڑھتا تھا، میرے والد صاحب جس ادارے میں کام کرتے تھے وہاں پر پیش آنے والی ایک مشکل کی وجہ سے اقامت کی تمدید میں تاخیر کا مسئلہ کھڑا ہوا تھا اور فطری طور پر ہمیں جرمانہ بھرنا تھا۔ ہم سے کہا گیا کہ آپ پورے گھر والے عدالت میں جائیں۔ ہم عدالت میں گئے اور قاضی نے سب کے نام لئے۔ جب وہ میرے نام پر پہنچے تو انھوں نے تعجب سے میرے نام کی وجہ پوچھی۔ جب میرے والد نے بتایا تو وہ بہت متاثر ہوئے۔"

سر باز روح اللہ رضوی نے آخر میں کہا: "ہم ایک سال جو تہران میں رہے، وہاں ہم محلہ آذری میں رہتے تھے اور ہم ہر ہفتہ بہشت زہرا (س) جاتے تھے۔ آغا صاحب بتاتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دفعہ بہشت زہرا (س) گئے اور واپس آتے ہوئے، ڈرائیور نے ہم سے پوچھا کہ آپ لوگوں کا کوئی جاننے والا یا رشتہ دار یہاں دفن ہے؟ آغا صاحب کا ایک مخصوص لہجہ تھا اور جب وہ بات کرتے تھے تو دوسرے افراد سمجھ جاتےتھے کہ وہ ایرانی نہیں ہیں۔ آغا صاحب نے کہا: جاننے والے ہیں؛ شہید بہشتی ہمارے جاننے والے ہیں، شہید رجائی ہمارے جاننے والے ہیں، یہاں پر مدفون تمام شہداء ہمارے جاننے والے ہیں۔ ڈرائیور نے کچھ نہیں کہا، لیکن اُس کا رویہ ہم سے اچھا نہیں تھا۔ میرے والد صاحب یہ واقعہ سنانے کے بعد، ایک اور واقعہ سناتے تھے اور وہ یہ تھا کہ ہم ایک دفعہ بہشت زہرا (س) سے و اپس آرہے تھے۔ میں "میں روح اللہ کا سپاہی۔۔۔" شعر پڑھا رہا تھا۔ ڈرائیور میری آواز سن کر، ہمارے گھر تک روتا ہوا آیا اور اُس نے ہم سے پیسے بھی نہیں لئے۔ آغا صاحب یہ دونوں واقعات ایک ساتھ سناتے تھے۔ سب کے ساتھ تلخیاں پیش آتی ہیں، لیکن آغا صاحب واقعات کو اس طرح بیان کرتے تھے  کہ سننے والے ہر دو رُخ کو دیکھ لیں۔ اس وقت میرے والد صاحب کی قبر بہشت معصومہ (س) میں علماء اور فضلاء کے پہلے ردیف میں ہے۔"

جاری ہے ۔۔۔


سائیٹ تاریخ شفاھی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2352



http://oral-history.ir/?page=post&id=9123