ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح؛ ساتواں حصہ

ایک آدمی دروازے پر ہے آپ سے کوئی کام ہے

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2020-02-22


انجمن کے ساتھ دوبارہ ملحق ہوئے تقریباً تین ماہ کا عرصہ گذر گیا تھا ایک دن معصومہ نے مجھے کنارے لے جا کر بغیر کسی مقدمہ کے کہا:

-کیا تم شادی کے خلاف ہو؟؟

میں نے پرجوش انداز میں کہا:

ہاں بالکل، ابھی میں شادی کا نہیں سوچتی۔

اس نے کہا:

اگر میں ابھی اپنے بھائی کے لئے تمہارا رشتہ مانگوں تو؟؟؟

میں بوکھلا گئی، میرے گال حیاء کی سرخی سے لال ہوگئےاور میں انجمن میں علی سے ہونے والی دعا سلام کے واقعات یاد کرنے لگی ۔ یہ سوچ کر کہ علی بھِ مجھ سے مل کر خوش ہوتا تھا میں کھل اٹھی۔

میں جانتی تھی کہ جب یہ لوگ رشتہ مانگنے آئیں گے تو کوئی مجھے کچھ بولنے کی اجازت نہ دے گا اس لئے ضروری تھا کہ میں ایک بار علی سے مل لوں اور اپنی باتیں اس کے روبرو خود کروں ۔ اس کام کے لئے میں نے امی جان سے اجازت مانگیکہ رشتہ طلب کرنے سے پہلے میں ایک بار علی سے ملنا چاہتی ہوں۔ ماں جی نے برتن دھونے ہاتھ روکا اور آہستہ سے استغفراللہ کہا اور جونے کو پانی میں ڈبو کر پلیٹ مانجھنا شروع کردی۔ میں نے بمشکل تھوک نگلتے ہوئے دوبارہ اجازت طلب کی تو ماں جی نے غصہ سے برتن کا پانی میرے ہاتھ پر پھینکا اور کہا:

-تیرے بھائیوں کو کون منہ دے گا؟؟

میں مسکرا دی کیونکہ انکا یہ جواب ان کے راضی ہونے کی غمازی کر رہا تھا۔

معصومہ آگے گئی میں اس کے پیچھے میرے دل میں ہول اٹھ رہے تھےایک لمحہ کو بڑے بھائی کا غصیلہ چہرہ میری آنکھوں کے سامنے آگیا اور ایک کڑواہٹ سی میرے وجود میں اتر گئی، لیکن کوئی چارہ نہ تھا علی سے مجھے ہر حال میں ملنا تھا۔ میں نے تیزی سے قدم بڑھانا شروع کردیئے کہ کہیں معصومہ سے پیچھے نہ رہ جاوں۔ خیابانِ سیزدہ آبان[1]  کے کنارے علی اپنی  گاڑی "ژیانش" میں ہمارا منتظر تھا۔اس پر نظر پڑی تو دل بلیوں اچھل پڑا، گلے میں کانٹے پڑ گئے میں نے تھوک نگلتے ہوئےاپنے چہرے کو مظبوطی سے تھام لیا۔ معصومہ نے اگلا دروازہ کھولا کہ میں سوار ہوجاوں میں ہچکچائی تو اس نے مجھے گاڑی میں دھکا دے دیا اور علی کو خدا حافظ کہہ کر چل دی۔ طے یہ پایا تھا کہ معصومہ بھی اس ملاقات میں ہمارے ساتھ ہوگی مگر آخر وقت میں وہ چوکا دے گئی اور میں علی کے ساتھ تنہا رہ گئی۔ گاڑی کا ماحول میرے لئے گھٹن کا باعث تھا اور میں خود کو عذاب میں گرفتار پا رہی تھی۔ میں نے آہستہ سے سلام کیا علی نے بھی گاڑی چلاتے ہوئے جواب سلام دیا۔

-اگر میرے بھائیوں نے مجھے دیکھ لیا تو ہم دونوں کا خون کر دیں گے۔۔۔

اس خیال کے آتے ہی میں اپنی حرکت پر ایک لمحہ کو شرمندہ سی ہوگئی۔ گاڑی کا اگلا حصہ اس قدر تنگ تھا کہ میں علی سے جڑی بیٹھی تھی  اس طرح کہ ہل بھی نہ سکتی تھی۔ میں خوڈ کو سمیٹے  گاڑی کے دروازے سے ایسے لگی بیٹھی تھی کہ ابھی باہر گری کہ اب گری۔ میں نے کھنکھار کر گلا  صاف کیا  کہ بات کا آغاز کروں ۔ الفاظ پنچھی بن کر اڑ چکے تھے کرنے کی ہزاروں باتیں تھیں مگر لگتا تھا کہ کچھ کہنے کو ہے ہی نہیں۔ میں نے خیالات کو جمع کیا اور سکوت کو توڑا۔

-میں نہیں چاہتی کہ شادی کے بعد ایک کھلونے کی گڑیا بن کر گھر میں زندگی گذاروں میں اپنی سرگرمیوں اور مصروفیات کو جاری رکھنا چاہتی ہوں۔

ابھی میں اتنا ہی کہہ پائی ہونگی کہ ہم شاہ عبدالعظیم اسکوائر پہنچ گئے۔ علی نے یو ٹرن لیا ، میں دعا کر رہی تھی کہ کوئی جاننے والا ہمیں دیکھ نہ لے ۔ میں نے اپنے جملوں کی وضاحت کرنی شروع کی ۔ علی خاموشی سے صرف میری باتوں کو سن رہا تھا۔ میری بات مکمل ہوئی تو  علی نے بڑے اطمینان سے کہا :

-درحقیقت اسی لئے میں نے آپ کا انتخاب کیا ہے کہ آپپ میرے کاموں میں میرا ہاتھ بٹائیں۔

اب اسکی باری تھی کہ وہ اپنی پسند نا پسند کا اظہار کرے اور میں سنوں۔ دس منٹ نہ ہوئے ہوں گے کہ ہم وہیں آ موجود ہوئے جہاں سے ہم نے سفر کا آغاز کیا تھا۔  میں نے اس کو خدا حافظ کہا اور جلدی سے گاڑی سے اتر گئی۔ میں نے اپنے چہرے کو ایسے پکڑا ہوا تھا کہ میری ہتھیلی پسینہ سے بھیگ گئی تھیاور انگلیاں سن ہوچکی تھِیں۔ چند قدم گھر کی طرف بڑھی تو جان میں جان آئی اور اب مجھے اطمینان خاطر نصیب تھا اور وہ اضطراب جو کچھ پہلے میرے دل کو گھیرے ہوئے تھا اب اس کا نام و نشان تک نہ تھا۔ میں خوشی سے سرشار راستہ طے کرنے لگی اور اس کوشش میں تھی کہ علی کی باتوں کو حرف بہ حرف اپنے ذہن دہراوں اور ذہن نشین کر لوں۔

علی ہی میرے خوابوں کا شہزادہ تھا مگر میں اس کہانی کا فقط ایک کردار تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ علی کی سادہ لوحی اور سادہ لباسی میرے خاندان والوں کو نہ بھائے گی اور وہ راضی نہ ہونگے مگر میں اپنا فیصلہ کر چکی تھی۔ علی نے رشتہ والے دن اپنی سادہ لوحی میں واضح اعلان کردیا کہ وہ ایران میں نہیں رہے گا اور جیسے بھی بن پڑا تبلیغ  مذہب تشیع اور تبلیغ انقلاب ایران کے لئے ملک سے باہر جائے گا۔ علی لوگوں کے گھر سے نکلتے ہی میرے گھر والوں نے اس کی برائیاں شروع کر دیں  ماں جی، ابو، بھائی سب نے یک بعد دیگرے اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی سب کے سب اس کی مخالفت پر کمر بستہ تھے۔ یہ لوگ جو تقابل علی اور دوسرے آئے ہوءے رشتوں میں کر رہے تھے میرے لئے بے معنی تھا ۔ میں تن تنہا ان سب کے مقابلے پر کھڑی تھی میرا کہنا تھا کہ یا علی یا کوئی بھی نہیں۔ اس حربے سے گھر والوں کی شدت پسندی میں کچھ کمی آئی انہوں نے راضی تو نہ ہونا تھا مگرسخت رویہ کچھ ہلکا پڑ گیا۔  رشتہ کی بات کے دوران جو کچھ علی کہہ گیا تھا اس کا اثر یہ ہوا کہ میرے والد نے نکاح میں یہ شرط رکھ دی کہ رہائش کی جگہ کے  انتخاب کا حق میرا ہوگا اور علی سے کہا:

-اگر تمہارا اخلاق اچھا ہوا تو میری بیٹی دنیا کے دوسرے کنارے تک تمہارے ہمراہ ہوگی اور اگر ایسا نہ ہوا تو اس شرط کی وجہ سے تم اس کو مجبور نہ کر سکو گے۔

مجھے یاد نہیں پڑتا کہ شادی کے انتظامات میں سے کچھ بھی خوشی خوشی ہوا ہو ہر ہر بات ہر ہر مسئلہ پر گھر میں ایک جنگ چھڑی رہتی تھی۔

 

[1] ایک سڑک کا نام



 
صارفین کی تعداد: 2520



http://oral-history.ir/?page=post&id=9085