ایسے پائلٹ کی یاد میں جس نے اپنی روداد خود سنائی

منصور قربانی

مترجم: سید نعیم حسین شاہ

2020-02-18


خبر سنتے ہی میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ گویا خبر نہیں گولی تھی جو میرے سینے کے آار پار ہوگئی تھی۔ مختصر لیکن بہت تکلیف دہ: بریگیڈیئر جنرل پائلٹ اکبر توانگریان اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ان کی نماز جنازہ اور آخری الوداع کے موقع پر جو کیفیت مجھ پر طاری تھی اس نے میرے ذہن میں پہلی ملاقات کی یادیں تازہ کردیں۔ یہ ملاقات کچھ زیادہ پرانی نہ تھی۔ لگ بھگ دو سال پہلے کی بات تھی۔ میں نے اس قدر مسلسل ان سے رابطے کئیے۔ آخر کار وہ ایک دن ہمارے دفتر کی  طرف  آہی گئے۔ اس وقت ہمارا دفتر ایک بڑے پارک کے بیچ میں تھا اور بڑی فضا کی جگہ تھا۔ اُس پہلی ملاقات میں ان کی جو تصویر میرے ذہن میں رہ گئی وہ کچھ اس طرح تھی "ایک ایسا مرد جس نے چہرے پر ماسک لگا رکھا تھا" ظاہری بدن تو زخموں سے چور تھا لیکن اس کی باطنی روح بہت طاقتور تھی۔ ایسی روح جو جھکی ہوئی کمر  پر سیدھی کمر کو ترجیح دیتی تھی۔ بیماری نے پھیپھڑں، جگر اور بدن کے کچھ دیگر اعضا میں جڑیں پھیلا دی تھیں۔ ان تمام تکالیف کے باوجود یہ شخص کبھی کبھار ہی کمر پہ ہاتھ رکھ کر اسے سیدھا کرتا تھا۔

اکبر توانگرایان ۱۹ ستمبر سن ۱۹۵۱ء میں اصفہان میں پیدا ہوئے، فانٹوم لڑاکا طیارے کے پائلٹ تھے۔ ۶۱ ویں اور ۳۱ ویں شکاری بٹالین کے کمانڈر تھے۔ چابہار ایئربیس کے نائب کمانڈر بھی رہے۔ شکاری چھاؤنی نمبر ۱۰ کے کمانڈر اور پائلٹ کالج کے کمانڈر بھی رہے۔ شہید بابائی ایئربیس کے علاقے میں قائم مقام بھی رہے، فضائی  انڈسٹری میں ٹیسٹ آپریشنز کے سربراہ اور کامیابی حاصل کرنے والے بہترین گولڈ میڈلسٹ وغیرہ تھے۔

اس دن بریگیڈئیر جنرل صاحب آئے تھے۔ دراصل ہمارے دفتر سے متعلق انھوں نے کچھ سوالات جوابات کرنا تھے۔ وہ جانتا چاہتے تھے کہ اصفہان میں مزاحمتی مرکز کہاں ہے؟ اور ہم یہاں پر کون سی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہم بھی اسی بات پر خوش تھے کہ ایک بڑی شخصیت سے ملاقات کا شرف ملا ہے تو جو کچھ سمجھ میں آیا انہیں بتاتے چلے گئے۔ انٹرویو کی کیفیت، اپنا مقصد اور جن احباب سے ہم نے انٹرویو لئے تھے اور یہ صاحب بھی انہیں جانتے تھے، کے بارے میں بتایا، جیسے بریگیڈیئر امیر نوربخش، رہائی پانے والے پائلٹ حسن نجفی۔

جب ہماری یہ "خود نمائیاں" اچھی طرح سے ان کے دل میں بیٹھ چکیں اور ان کا ہمارے دفتر بھی آناجانا زیادہ ہوگیا تو ہم بھی "اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں" کی طرح واقعی دل جمعی سے ان کے سامنے بیٹھتے اور ان کی گفتگو سنتے۔ ہر چیز اور جگہ سے متعلق سیر حاصل بحث کرتے۔ قدیمی اصفہان اور اس کے کُشتی خانوں سے لیکر سیستان اور بلوچستان کے شہروں اور ان کے اطراف میں واقع دیہاتوں تک کو زیر بحث لاتے۔ جنگ کے وہ تھکے ہارے لڑاکا طیارے بھی ہماری گفتگو کا حصہ ہوتے جو دشمن پر بمباری  کرکے سکون پاتے تھے۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ "انزلی" نامی مقام پر ملکی سطح کا اجلاس ہونا تھا جس میں "مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز" کے عہدیداران مدعو تھے۔ ہم بھی گئے تھے۔ جانے سے پہلے ہمیں ایک خط موصول ہوا جس کے ساتھ کتاب "آسمان پر ایک کتبہ" (پائلٹ اکبر صیاد بورانی کے واقعات پر مشتمل کتاب) کے متن سے اقتباس بھی شامل تھا۔ تو ہماری ذمہ داری یہ تھی کہ اس کتاب پر ہم نے اپنا اظہار خیال اور اپنی آراء پیش کرنا تھیں۔ ہم نے اس کتاب کا متن بریگیڈیئر اکبر توانگرایان کے سامنے رکھا، وہ پائلٹ اکبر صیاد بورانی کے دوستوں میں سے تھے اور زیادہ سے زیادہ ان کے واقعات نقل کرتے تھے تاکہ ہم اس کتاب کی اصلاح میں آگے بڑھ سکیں۔ آخرکار وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ انھوں نے ماسک اپنے چہرے سے اتار پھینکا اور دفتر سے اٹھ کر چلے گئے۔ جب میں انزلی پہنچا تو میں نے وہاں پر موجود گیلان شہر میں مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کے انچارج سے عرض کی کہ وہ اس کتاب کی رونمائی کے موقع پر بریگیڈئیر توانگریان کو مدعو کریں۔

جب میں "انزلی" سے واپس آیا  تو میں ایک مفصل اور اہم انٹرویو کی تلاش میں لگ گیا اور ساتھ ساتھ ایئر فورس سے متعلق اصطلاحات جاننے میں مصروف ہوگیا۔ اس سلسلے میں، میں نے جناب حجت شاہ محمدی جو رائٹر بھی ہیں اور ایئر فورس کے ریٹائرڈ پائلٹ بھی، سے بات کی تو جواب میں انھوں نے بہت خوشی کے ساتھ فوراً انٹرویو  لینے کے لئے حامی بھرلی اور بریگیڈیئر کے واقعات کی تدوین کیلئے آمادہ ہوگئے۔ انٹرویو کے لئے جگہ اور وقت کا تعین ہوگیا لیکن بریگیڈئیر صاحب کی طیبعت ناساز تھی، کھانسی زیادہ اور گلا خراب تھا۔ کیموتھراپی کی وجہ سے سر کے بال جھڑ چکے تھے اور بچے کھچے بال بہت کمزور اور نازک تھے۔ طبیعت خراب ہونے کے باوجود انھوں نے واقعات سنانا شروع کئے اور اپنی زبان کی تاثیر کی بدولت ہمارے اذہان کو جولائی ۱۹۸۳ء میں لے گئے۔ اور ایک ایسے آپریشن کا ذکر شروع کیا جس میں تین لڑاکا طیارے فانٹوم F-4 شامل تھے اور انھوں نے بغداد کی فضائی حدود میں کاروائی کرنا تھی۔ لیکن بریگیڈئیر صاحب کا طیارہ فنی خراب کے باعث عین وقت پر روانہ نہ ہوسکا اور یوں وہ، اپنے معاون پائلٹ خسرو شاہی سمیت اس آپریشن میں شریک نہ ہوسکے اور جن کو رخصت کیا ان میں سے عباس پائلٹ سے وہ آخری ملاقات تھی۔ عباس اسی آپریشن میں ابدی پرواز کر گئے اور اکبر توانگرایان صاحب صرف آہیں بھرتے رہ گئے۔

وقت تیزی سے گزرتا ہے اور ہمارا حقیر سا بجٹ تمام تر واقعات کو جزئیات سمیت محفوظ رکھنے کے لئے ناکافی ہوتا ہے۔ کاش کہ ہمارے پاس اتنا بجٹ ہوتا کہ ہم تمام سپاہیوں کی لحظہ بہ لحظہ روداد کو محفوظ رکھ سکتے اور ضائع ہونے سے بچا سکتے۔ اے کاش ریکارڈ محفوظ رکھنے والا بٹن ہمارے لئے تمام موقعوں پر فراہم ہوتا تاکہ جنگ کی تاریخ شہدا کے سینوں میں رہتے ہوئے سپرد خاک نہ ہوتی۔ اے کاش ہم ان بے شمار سچے واقعات کو اتنی آسانی سے نظر انداز نہ کریں۔ کسی سپاہی، فوجی یا کمانڈر نے ہمیشہ زندہ نہیں رہنا۔ کاش اس زمینے میں زیادہ سے زیادہ کام کریں۔

اس سال ۲۰۱۹ء صرف جناب بریگیڈئیر پائلٹ اکبر توانگریان ہی نے اس دار فانی کو الوداع نہیں کہا بلکہ ہم اصفہان میں ان جیسے اور بھی پیاروں کو سپرد خاک کرچکے ہیں۔ رہائی پانے والے پائلٹ حسن نجفی، کمانڈر الحاج احمد فضائلی جو امام حسین ؑ یونیورسٹی کے سابق کمانڈر تھے، رحیم انصاری، میرین یونٹ کے ۲۵ ویں ڈویژن کے کمانڈر کہ جو اپنے واقعات کی کتاب "اَروند کی ڈولفین مچھلیاں" کے منتظر تھے اور دیگر دسیوں فوجی کہ جن میں سے ہر ایک بذات خود ایسے ہی واقعات کی ایک کتاب تھا جو جنگی تاریخ کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہو۔ اللہ ان پر اپنی رحمتیں نازل کرے اور درجات بلند فرمائے۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2112



http://oral-history.ir/?page=post&id=9077