آسمانی سردار

الٰہی کمانڈر اور شیطانی کمانڈر

محسن کاظمی

مترجم: سید نعیم حسین شاہ

2020-01-30


تاریخ میں ہمیشہ سے دو طاقتیں نبرد آزما رہی ہیں: ایک طاقت خیر  اور نیکی اور دوسری طاقت شر اور برائی کی۔ ایک طاقت اچھائی کی، دوسری برائی کی،  ایک نور کی ، دوسری تاریکی کی، ایک طاقت خوبصورتی کی اوردوسری بدصورتی کی، ایک طاقت عشق کی دوسری نفرت کی۔ انہی مثبت اور منفی  دو طاقتوں تلے رہ کر مؤرخین، تاریخ کے اوراق لکھتے رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کو شیطان کے ہرکارے اپنی جانب کھینچتے رہے ہیں تو کچھ دیگر افراد  کو رحمان کے نمائندے دعوت حق دیتے رہے ہیں۔ ہر زمانے کے مفکر حضرات، خیر اور شر کے "مقولہ ثنویت" پر بحث کرتے چلے آئے ہیں۔ قرآن کریم کے عظیم مفسر  علامہ طباطبائی  (رح) نے خیر اور شر کا جو تعارف کروایا ہے اس کے مطابق خیر بذات خود مطلوب ہے اور شر بذات خود نامطلوب ہے۔

طویل عرصے سے ایک دوسرے کے مد مقابل رہنے والی ان دو طاقتوں نے الٰہی نمائندہ (ہیرو) اور شیطانی نمائندہ (ولن) کو جنم  دیا ہے۔ ہیرو معاشرے کا محافظ ہے جبکہ ولن معاشرہ کا دشمن۔ ہیرو کا چین اور سکون معاشرے کے سکون کی بدولت قائم رہتا ہے جبکہ ولن کا ہم و غم معاشرے میں بے چینی پیدا کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے بے آرام ضمیر کو سکون پہنچا سکے لیکن وہ ایسا کرنے سے قاصر ہے۔

ہیرو(الٰہی کمانڈر)  خدا کی صفات کا مظہر ہوتا ہے  جبکہ ولن (شیطانی کمانڈر) کا باطن شیطان کا گھر ہوتا ہے۔ ہیرو امر خدا کا پیرو ہوتا ہے اور اسی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے رنج اٹھاتا ہے۔ جبکہ ولن ابلیس  کا غلام ہوتا ہے جو اس کے اشاروں پر لوگوں کا سکون برباد کرنے پر تُلا رہتا ہے۔ ہیرو، اپنے وجود کو آنے والی نسلوں میں دیکھ رہا ہوتا ہے جبکہ ولن آئندہ نسلوں کا دشمن اور قاتل ہے۔ ہیرو خبر دے کر اور علی اعلان دشمن کو زَک پہنچا ہے جبکہ ولن چھپ کر وار کرتا ہے۔

تاریخ کے خون آلود صفحات ولن کی سفاکیت اور درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں جبکہ انسان ساز صفحات اور تحریریں  ہر دور کے ہیرو کی شرافت کا پتہ دیتی ہیں۔  تاریخ کے کچھ ایسے صفحات کو ملاحظہ فرمائیے: صدر اسلام کی تاریخ، حماسہ عاشورا، آغوز خانیوں اور مغلوں کے حملوں کا صفحہ، پہلی اور دوسری جنگ عظیم، ایران اور عراق کی آٹھ سالہ جنگ۔ "سویی" میں آتیلاؤں کو یاد کیجئے، نیورون کا صفحہ، اسکندریوں کا صفحہ، ابو سفیانیوں، معاویہ اور یزیدیوں کا صفحہ اور ہٹلر کا صفحہ وغیرہ۔ اسی طرح اس کے مقابلے میں آریا برزن کا صفحہ، سورناؤں کا صفحہ، اور اسی طرح ہر دور کے علی (ع)، ابوذر، سلمان، مقداد، عمار ، مالک اشتر، عباس (ع)، حسین (ع)، شہید ہمت، شہید باکری ، خرازی ، صیاد ، حججی اور قاسم سلیمانی جسی صفات کے حامل افراد کے صفحات۔

کس بنیاد پر یہ صف آرائی ہے؟ ان محاذ آرائیوں کی اساس کیا ہے؟ ولن حضرات اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے طاقت کے نشے میں بد مست ہوکر ہر من چاہا ظلم کرنے کو تیار ہیں لیکن پاکیزہ باطن والے بہادر سپوت (ہیرو) ان کی سازشوں کو نقش بر آب کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کا سامنا کرتے ہیں تاکہ معاشرے میں ذلالت اور پستی کو حاکم نہ ہونے دیں۔ خون آشام اور درندہ صفت ولن (شیطانی کارندہ) جب معاشرے کا ہر طرح سے استحصال کرتے ہیں تو ایسے حالات میں ہیروز اپنی جان کا  نظرانہ پیش کرکے معاشرے کو نئی زندگی عطا کرتے ہیں۔

ہیرو الٰہی خصلتوں اور انسانی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں۔ ہیرو بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کا شریک غم بھی ہوتا ہے۔ خو د سختیاں جھیلتا ہے تاکہ معاشرے کے افراد پرسکوں رہیں۔ ہیرو معاشرے میں امن اور سکون برقرار رکھنے کے لئے دہشت گردی اور تباہی سے نبرد آزما رہتا ہے۔ اس کی جنگ، صلح کے قیام کے لئے ہوتی ہے۔ اس کا غم و غصہ ظلم و نا انصافی کے خلاف ہوتا ہے۔ اس کی موت شہادت ہوا کرتی ہے۔ جبکہ ولن لوگ، بیچاری عوام کے منہ سے ان کا نوالہ تک چھین لیتے ہیں۔ زور زبردستی اور قتل و غارت گری ان کا پیشہ ہوتا ہے اور انہیں صرف دنیا کی لالچ ہوتی ہے۔ اور آخرکار ان ولن صفت افراد کی زندگی کی تحریر خودکشی، فائرنگ، پھانسی اور اسی طرح کی موت پر آکر ختم ہوجاتی ہے۔

مذکور بالا سطروں میں بیان کی گئی الٰہی کمانڈروں کی صفات کے ساتھ جونام بَھلا لگتا ہے وہ ہے؛ قاسم سلیمانی۔ ایسے بہادر سپوت کہ جن کا ذکر و فکر دین اور وطن کی سربلندی تھا اور وہ سرتاپا اسی پاکیزہ ہدف کے ساتھ جیئے۔ ان کی جنگ خطے سے کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے تھے۔ اور (دور حاضر کے شقی ترین افراد یعنی) داعش کو نابود کرنا ان کا ھم و غم تھا۔ قاسم سلیمانی کو کسی پل چین نہ تھا۔ ان کی سوچ بس یہ تھی کہ خطے کو داعش کے ناپاک وجود سے پاک کیا جائے اور خطے میں امن و امان کا قیام ہو۔ صلح صفائی ہو اور وہ ایک بہادر خدائی کمانڈر کی مانند خدا اور خلق خدا کی راہ میں قربان ہوئے اور شہادت پائی۔ سلیمانی انتظار کی وہ آنکھ ہیں جس نے اسلامی جمہوریہ ایران کو جنگ کے خطرے سے دور، طوفان سے محفوظ اور اپنے ملک کے لوگوں کو امن و امان کی ٹھنڈی چھاؤں تلے شاد وآباد خدائے واحد کی بندگی کرتے دیکھنا ہے  جو خدائے رحمان کے شاکر بندے ہیں اور ان کا شکر اس بات پر ہے کہ خدا نے ان کو جینے کا حق عطا کیا ہے۔



 
صارفین کی تعداد: 2589



http://oral-history.ir/?page=post&id=9036