امیر ثامری کی یادوں کے ساتھ – دوسرا حصہ

خرم شہر میں جدوجہد کے ایام

فائزہ ساسانی خواہ

مترجم: سید مبارک حسنین زیدی

2020-01-27


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کے خبر نگار امیر ثامری کے ساتھ گفتگو کرنے بیٹھے ہیں تاکہ وہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے ابتدائی سالوں اور عراق کی ایران پر مسلط کردہ جنگ کے ابتدائی ایام کے بارے میں بتائیں۔ اس انٹرویو کے پہلے حصے میں، انھوں نے خرم شہر کے ابوذر گروپ کا تعارف کروایا۔ اب آپ اُن کے انٹرویو کا دوسرا حصہ ملاحظہ فرمائیں۔

جب جنگ شروع ہوئی اُس وقت آپ کہاں تھے؟

ہم جنگ کے پہلے دن (۲۲ ستمبر ۱۹۸۰ء) آرام کرنے کیلئے بارڈر سے واپس آچکے تھے ۔  ہم اسکول کھلنے کیلئے تیار ہو رہے تھے۔ خرم شہر میں ابوذر گروپ کے لڑکے  یہ سوچ رہے تھے کہ وہ کیسے دن میں مدرسہ جائیں گے اور راتوں کو بارڈر پر جاکر ڈیوٹی انجام دیں گے۔ چونکہ اب ایک سال کا عرصہ گزر چکا تھا کہ ہمارا کام یہی تھا۔ یا بعض اوقات شہر میں جو مختلف مناسبتوں سے ریلیاں نکلتی تھیں ہم اُن کی محافظت کا کام انجام دیتے تھے اور رات کو دوبارہ سرحد پر چلے جاتھے تھے۔ خرم شہر کے لڑکے بالکل بھی آرام نہیں کرتے تھے۔ واقعاً خدا گواہ ہے کہ بہت زحمت اٹھاتے تھے۔ آپ کو بالکل بھی یقین نہیں آئے گا وہ خالی ہاتھ کے ساتھ مقاومت اور جدوجہد کرتے تھے۔  ہم اُس دن (۲۲ ستمبر ۱۹۸۰ء) شام کے وقت شہر کے اندر تھے  کہ اچانک دھماکوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں اور یہاں سے جنگ کا آغاز ہوا۔ ہمیں ان آوازوں سے واقفیت نہیں تھی۔ ہم کہتے تھے: یہ کس چیز کی آواز ہے؟ کہا کرتے: ٹینک کے گولے کی آواز ہے، ہم نے ابھی تک ٹینک کے گولوں کی آواز نہیں سنی تھی۔ ہم نے جو ٹریننگ کورس کیئے تھے، اُس میں ہم نے بندوق، مارٹر، ہینڈ گرنیڈ، آر پی جی وغیرہ کی آوازیں سنی ہوئی تھیں، لیکن ٹینک کے گولے کی آواز نہیں سنی تھی۔

 

اُس دن شہر کی حالت کیسی تھی؟

عوام سراسیمگی کے عالم میں تھی۔ ہسپتال زخمیوں سے بھرے ہوئے تھے اور شہر میں ایک عجیب سی حالت تھی۔ ہر چیز بکھر چکی تھی۔ واقعی میں پہلا دن بہت سخت تھا۔ ایسا دن تھا کہ اُس کے بارے میں کچھ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے فوراً افراد کو جمع کیا اور بارڈر کی طرف بڑھے۔ آپ تصور نہیں کرسکتے کہ میرے والد  کس صورت حال میں ہم کو وہاں لیکر گئے۔ تمام افراد ہتھیاروں سے لیس تھے لیکن حواس باختہ تھے۔ ڈرائیور کے اتنے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے کہ اُس نے راستے میں ایک کیبن میں گاڑی گھسا دی۔ بہت ہی عجیب و غریب کیفیت تھی۔

 

آپ شلمچہ بارڈر کی طرف گئے  تھے؟

جی۔ ہم شلمچہ کی طرف گئے تھے اور وہاں ہماری بعثیوں سے جھڑپ ہوئی۔ اُس علاقے میں ہماری تین یا چار چیک پوسٹیں تھی کہ مومنی چیک پوسٹ سے شلمچہ تک کا فاصلہ ہمارے اختیار میں تھا۔ ہم تین دستوں میں بٹے ہوئے تھے؛ سپاہ، فوج اور عوامی فورس۔ ساحلی افواج سے بھی دو افراد تھے۔ ایک سپاہی تھا اورایک افسر ، جس کا نام عباسی تھا، جو مومنی ساحلی چیک پوسٹ پر کافی عرصے سے کمانڈر تھا۔ فوج کے چار، پانچ افراد اور پانچ ، چھ سپاہی تھے۔ منصور مفید جو میرا کلاس فیلو تھا، وہ میرے دستے کا اسٹین گن چلانے والا تھا۔ علی وطن خواہ اور دوسرے بہت سے افراد ہمارے ساتھ تھے۔

 

آپ کے سپاہیوں کی تعداد  کتنی تھی؟

اگر میں غلطی نہ کروں تو ہم کم سے کم چالیس افراد تھے۔ہمارے لئے کھانا اور جنگی سامان آتا اور ہم لوگ لڑتے۔ فوج کا جنگی سامان بھی وہاں تھا۔ ہم نے دشمن کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی۔ ہم آر پی جی اور اس طرح کے ہتھیاروں سے  استفادہ کرتے تھے۔ وہاں پر چیفتن نامی ایک  ٹینک بھی لائے ہوتے تھے لیکن وہ کام نہیں کرتا تھا۔ اس کے باوجود عراقیوں کے مورچے ہمارے مورچوں کی نسبت مضبوط اور محکم تھے۔

سپاہ خرم شہر کے کمانڈر محمد جہان آراء، وائرلیس کے ذریعہ بار بار پوچھ رہے تھے: "کیا خبر ہے؟ آپ لوگ کیا کر رہے ہیں؟" اور ہم رپورٹ دے دیتے۔ ہم چند دنوں تک وہاں رہے یہاں تک کہ ہمارے وائرلیس کی بیٹری ختم ہوگئی اور ۴۸ گھنٹے گزر چکے تھے کہ ہمارے لئے کھانا نہیں لایا گیا۔ ہمیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کریں؟ ہمارا کسی سے رابطہ نہیں تھا اور ہمیں نہیں پتہ تھا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟! ہمارا رابطہ صرف عراقیوں سے تھا کہ ہم ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ بجلی تھی نہیں کہ ہم اُس کے ذریعے وائرلیس کو چارج کرلیتے۔ میں نے محمد جہان آرا سے آخری دفعہ جو بات کی تھی، ۴۸ گھنٹے پہلے کی تھی۔ اپنے والد سے بھی فون پر بات کیئے ہوئے بیس گھنٹے گزر چکے تھے  لیکن ابھی تک ہم  سے کسی نے نہیں کہا تھا کہ واپس آجاؤ۔ ہم ۲۱ افراد تھے۔ سپاہ کے پانچ افراد تھے۔ فوج  کے بھی دو ا فراد باقی رہ گئے تھے۔ حقیقت میں ہم ۴۸ گھنٹوں سے دشمن کے محاصرے میں تھے۔

عراقی دوسری طرف سے شہر میں داخل ہوچکے تھے اور ہمیں پتہ بھی نہیں تھا۔ عراقی ریلوے اسٹیشن اور  وہاں بنی ہوئی عمارتوں تک پہنچ گئے تھے۔ ہم کہاں تھے؟ ہم ابھی تک شلمچہ میں تھے۔ میں نے دیکھا کہ ہم ۴۸ گھنٹوں سے لڑ رہے ہیں، اس عرصہ میں ہم نہ سوئے  اور نہ ہی ہماری جگہ دوسری افواج آئیں۔ ہم تھک چکے تھے۔ ہمیں کیا کرنا چاہیے تھا؟ میں نے فیصلہ کیا کہ جس طرح بھی ہو میں اپنے فوجیوں کے ساتھ عقب نشینی کرتا ہوں اور ہم شہر واپس چلے جاتے ہیں۔ میں نے اُن سے کہا: "کوئی بھی ہماری مدد کرنے نہیں آرہا ہے، ہمیں پیچھے جاکر دیکھنا چاہیے کہ معاملہ کیا ہے۔"میں نے سپاہ کے افراد سے بھی کہا: "آئیں چلتے ہیں۔ میرے خیال سے یہاں کچھ ہوا ہے۔ ۴۸ گھنٹے سے نہ ہی کھانا آیا ہے اور نہ ہمارے و ائرلیس کام کر رہے ہیں۔" انھوں نے کہا: "ہم اس جگہ کو  نہیں چھوڑ سکتے۔ اس کام کیلئے محمد جان آراء ہمیں دستور دیگا تو ہم  یہاں سے ہٹیں گے۔" میں نے کہا: "محمد تمہیں دستور دے سکتا ہے، مجھے تو کوئی دستور نہیں دیتا۔ میں اپنے سپاہیوں کو لیکر جا رہا ہوں۔ میرے خیال سے آپ لوگوں کو نہیں رکنا چاہیے۔ آپ صرف پانچ افراد ہیں۔" انھوں نے دوبارہ وہی بات دہرائی: "نہیں! جہان آراء کی طرف سے دستور صادر ہونا چاہیے۔" میں نے کہا: "ٹھیک ہے۔" ہر لحاظ سے میں اپنے گروپ کا کمانڈر تھا۔ جب ہم جانے کیلئے تیار ہو رہے تھے میں نے  مومنی چیک پوسٹ کے کمانڈر افسر عباسی کو دیکھا جس نے میرے پاس آکر کہا: "تم کیا کر رہے ہو؟" میں نے کہا: "کچھ نہیں۔ میں اپنے افراد کو لیکر جانا چاہ رہا ہوں۔"اُس نے کہا: "تم کیا کہتے ہو  کہ مجھے کیا کرنا چاہئیے؟"  میں نے کہا: "تم انچارج ہو، چیک پوسٹ تمہارے اختیار میں ہے، میں بتاؤں کہ تمہیں  کیا  کرنا چاہئیے؟ میں کون ہوتا ہوں تمہیں بتانے والا؟ اگر مجھے اختیار ہوتا تو میں کہتا کہ گاڑی میں بیٹھو اور چلو۔" اس بارے میں تھوڑی گفتگو کے بعد، وہ اپنے سپاہیوں کے ساتھ جیپ میں بیٹھے اور وہ ہم سے پہلے چلے گئے۔

سپاہ نے ہمیں ایک سفید رنگ کی ٹویوٹا ڈبل کیبن  دی ہوئی تھی۔ جیسا کہ ہمارے افراد کی تعداد ۲۱ تھی، ہمیں سوار ہونے میں تھوڑا وقت لگا۔ ہمیں تقریباً دو کلومیٹر کا فاصلہ کچے راستہ پر طے کرنا تھا۔ میں آگے بیٹھا ہوا تھا۔ جس راستہ پر ہم لوگ  جا رہے تھے، میں نے دیکھا کہ ہائی وے کے اُس طرف ایسا لگ رہا تھا جیسے ریت کا طوفان ہے۔  منصور مفید میرے برابر میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے پہلے اُسے بعد میں دوسرے افراد کی طرف رُخ کرکے کہا: "ریت کا طوفان آیا ہے!" گاڑی سپاہ کی تھی اوراُس کا ڈرائیور بھی اُن کے سپاہیوں میں سے تھا۔ ڈرائیور نے کہا: "وہاں پر طوفان ہے تو یہاں پر طوفان کیوں نہیں ہے؟!" میں نے کہا: "مجھے نہیں پتہ! حتماً اُس طرف ریت کا بھنور ہے!" میرے خیال سے جناب عباسی اور اُن کے سپاہی ہم سے تقریباً ۵۰۰ میٹر آگے  تھے اور جلدی ہائی وے  تک پہنچ گئے تھے۔ ہائی وے زمین کی سطح سے تقریباً ڈیڑھ یا دو میٹر اوپر تھا۔ میں نے دور سے دیکھا  جناب عباسی گاڑی سے نیچے اترے ہیں اور انھوں نے اوپر سے نیچے چھلانگ لگادی ہے۔ میں نے تعجب سے کہا: "عباسی نے نیچے کیوں چھلانگ لگائی؟"چند لمحوں بعد دیکھا اُس کی جیپ  ہوا میں گئی اور ڈرائیور باہر نکلنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ میں اس فکر میں ڈوبا ہوا تھا کہ کیا حادثہ پیش آیا ہے؟ جب جیپ ہوا میں اُڑی، اُس وقت ہمیں پتہ چلا کہ وہاں معاملہ گڑبڑ ہے۔ ہم جلدی سے وہاں پہنچے۔ ہم نے دیکھا کہ عباسی اپنے موٹے جسم اور بڑے پیٹ کے ساتھ ہماری گاڑی کی طرف دوڑا آرہا ہے۔ ہم رک گئے۔ ہم نے پوچھا: "کیا ہوا ہے؟" اُس نے کہا: "مارے گئے!" میں نے کہا: "کیوں؟ تم پر کس نے حملہ کیا ہے؟" اُس نے کہا: "ٹینک کے گولے نے! اُس طرف عراقی ٹینک اورفوجی گاڑیاں بھری ہوئی ہیں!" اسی اثناء میں، میں نے دیکھا کہ ایک ٹینک اپنے مرکز سے باہر نکلا اور ہماری طرف بڑھنے لگا۔ چونکہ عراقیوں نے بھی دیکھ لیا تھا  کہ اُدھر سے مٹی اڑھ رہی ہے اور اُن کی طرف بڑھ رہی ہے، حتماً انھوں نے اپنے فوجیوں کو بتا دیا تھا کہ سامنے سے دو گاڑیاں آپ لوگوں کی طرف آرہی ہیں، اُنھیں اڑا دو۔ ایک کو مار دیا تھا اور دوسری جو ہماری گاڑی  تھی وہ رہ گئی تھی۔ منصور نے مجھ سے کہا: "سردار آر پی جی سے اُس کو اڑا دیں۔"اب ٹینک سے ہمارا فاصلہ تقریباً کوئی ۲۰۰ میٹر تک کا تھا اور ٹینک کا ڈرائیور ہائی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ میرے پاس آر پی جی کے صرف پانچ گولے تھے۔ میں نے کہا: "کیا میں پاگل ہوں جو اُسے ماروں ؟ اس ایک کو مار دیں گے تو بقیہ ٹینکوں کا کیا کریں گے؟ یہاں ہمارے پاس آر پی جی کے کتنے گولے ہیں؟" اُس نے کہا: "یہ تو ہماری طرف آرہا ہے! ہم کیا کریں؟" میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا۔ میں نے بقیہ افراد سے کہا: "سب نیچے اُتر جائیں۔" وہ نیچے اُتر گئے۔ میں نے گاڑی کی چابی ڈرائیور سے لی اور  فوراً ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ  کر گاڑی کو اسٹارٹ کیا۔ میں نے ساتھیوں سے کہا: "آپ لوگوں اسی ہائی وے کے نیچے رہیں تاکہ ٹینک کا ڈرائیور آپ لوگوں کو نہ دیکھ سکے۔" میں نے گاڑی کی اسپیڈ دبائی اور مومنی چیک پوسٹ کی طرف واپس چلا۔ جب گاڑی ۶۰ یا ۷۰ کی رفتار سے چل رہی تھی، میں نے نیچے چھلانگ لگادی اورساتھیوں کی طرف دوڑ پڑا۔ میں نے دیکھا کہ ٹینک پچاس میٹر کے فاصلہ سے  ہائی وے پر کھڑا ہے۔ اُس نے حتماً دیکھا لیا تھا کہ ہماری گاڑی مومنی چیک پوسٹ کے اطراف میں اُن کے فوجیوں  کی طرف واپس جا رہی ہے اور وہاں پر بھی بعثی ہمارے انتظار میں تھے، اُس نے فائر نہیں کیا اور اُس نے وائرلیس پر اطلاع دیدی ہوگی کہ ایرانیوں کی گاڑی میری نگاہوں سے خارج ہوچکی ہے، اب تمہاری طرف واپس آ رہی ہے۔

ہم نے اپنے آپ کو اُن کی نگاہوں سے مخفی کیا ہوا تھا۔ ہم خوف اور کپکپاتے ہوئے خدا کی بارگاہ میں دعا کررہے تھے کہ میں نے اُنہیں جو دھوکہ دیا ہے یہ کارگر ثابت ہوجائے۔ چونکہ اگر وہ ہماری طرف فائر کرتے تو ہم سب کے پرخچے اُڑا دیتے۔ گاڑی گئی اور اُس طرف تقریباً ایک کلومیٹر تک جہاں بیابان تھا، وہاں وہ اپنے  گرد گھومی اور اُس نے اُن کا دھیان بٹا دیا۔ شاید ٹینک کا ڈرائیور جو ہائی وے سے پچاس کلومیٹر دور کھڑا ہوا تھا، اُسے واپسی کا حکم دیدیا تھا۔ وہ واپس چلا گیا اور ہم بہت مشکل سے دو دو افراد کی صورت میں شہر  واپس پہنچے۔ ہم بارہ گھنٹے بعد خرم شہر پہنچے تھے۔

 

بعد والے دنوں میں آپ لوگوں کی  صدام کی افواج سے جھڑپیں کہاں پر ہوئیں؟

ہماری دشمن کے ساتھ جھڑپ خرم شہر کے شروع میں، نو ساختہ عمارتوں کی طرف شروع ہوئی۔ ہم نے وہاں کچھ سپاہیوں کو وسائل فراہم کئے۔ شہر کے افراد بھی مدد کرنے آئے ہوئے تھے۔ میں جب تک بارڈر پر تھا میں نے عوام کو نہیں دیکھا  تھا۔  جب ہم میں سے کچھ افراد شہید ہوگئے، کچھ افراد چند دنوں کے بعد گئے۔ آج کل کچھ افراد دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ خرم شہر میں ہونے والی ۴۵ روزہ جدوجہد میں تھے، ہمیں پتہ ہے کہ کون لوگ تھے اور کون لوگ نہیں تھے۔ ایک جناب عالی کا دعویٰ ہے کہ  میں وہاں تھا۔ کیا  ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ وہاں رہا ہو اور ہم نے اُس خالی شہر میں اُسے نہ دیکھا ہو؟  اس وقت یہ عمارت خالی ہے، یہاں سے کوئی گزرے کیا آپ اُسے نہیں دیکھیں گے؟ دیکھیں گے۔ مگر یہ کہ کوئی کانفرنس یا اجلاس ہو اور یہاں پر لوگوں کا اتنا زیادہ رش ہو  کہ آپ کچھ لوگوں کو نہ پہچانیں اور نہ دیکھ پائیں۔ لیکن جب یہ عمارت خالی ہے ایک یا دو افراد یہاں سے گزریں، آپ کو اُن کے گزرنے کی آواز آئے گی؛ وہاں بھی ایسا ہی تھا۔ کچھ لوگ گئے اور کچھ لوگوں کو ہم جاکر دوبارہ لیکر آئے۔ خرم شہر پر قبضہ ہوجانے کے بعد میں خود قم  گیا  اور جو لوگ خرم شہر سے چلے گئے تھے اُنہیں واپس لایا اور کہا: "جناب آپ یہاں پر مزدوری کرنے آئے ہیں، مستری کا کام کر رہے ہیں، اچھی بات ہے آئیے اپنے شہر کیلئے جنگ لڑیں اور یہاں پر آپ کو جو پیسے ملتے ہیں اُس سے زیادہ وہاں پر حاصل کریں۔" انھوں نے دیکھا کہ یہ تو بہت اچھا کام ہے اور وہ واپس آگئے۔

 

خلق عرب قضیے کی حمایت کرنے والے افراد جو شہر میں رہ گئے تھے کیا وہ خرم شہر میں ۴۵ روزہ جدوجہد کے زمانے میں سرگرم تھے؟

وہ دشمن کا پانچواں ستون تھے۔ وہ ہمارے وائرلیس پر آجاتے اور ہمیں دھمکیاں دیتے تھے۔ اس کے علاوہ، عراق ریڈیو سے ہمارا نام لیا جاتا تھا۔ اس بات کو افراد نے بہت دفعہ سنا تھا۔ میزبان مجھے میرے نام سے پکارتا اور کہتا: "امیر!" ایک فرد جو عراق ریڈیو میں ہمارے خلاف کام کرتا تھا، وہ میرا کلاس فیلو تھا۔ وہ ریڈیو پر میرا اور میرے والد کا نام لیتا اور کہتا: "تم لوگ عرب ہو، تمہیں ہمارا ساتھ دینا چاہئیے!" پہلے اُس نے دوستانہ انداز میں بات کی، جب دیکھا کوئی جواب نہیں دے رہے مجھے برا بھلا کہنے لگا اور دھمکیاں دینا شروع کردیں۔ وہ کہتا: "ہم بغیر جنگ کے ہی خرم شہر پر فتح کرلیتے، تم لوگوں نے ایسا کرنے نہیں دیا، لیکن اب ہم جنگ کے ذریعے یہ جگہ تم سے لے لیں گے!"

 

دشمن کے مقابلے میں ہمارے فوجیوں اور وسائل کی صورت حال کیسی تھی؟

ہماری افواج اور وسائل بہت کم تھے۔ ہم کئی گھنٹوں تک جنگ لڑتے رہتے لیکن ہمیں سپورٹ کرنے والی افواج نہیں تھیں اور ہماری ضرورت کے مطابق پانی اور کھانا ہم تک نہیں پہنچتا تھا۔ راتوں کو تھکاوٹ کی وجہ سے ہم مجبور ہوتے کہ پیچھے آئیں ، آرام کریں اور کھانا کھائیں؛ بغیر اس کے  کہ ہماری جگہ تازہ دم فوجیں جاتیں! بعثی اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے اور جہاں پر ہم مستقر ہوتے تھے اور جو جگہ ہم نے بہت محنت اور سختی کے ساتھ حفظ کی ہوتی تھی اُس پر قبضہ کرلیتے تھے اور اگلے دن جب ہم اُس علاقے میں واپس جاتے دوبارہ جدوجہد  اور مزاحمت کرتے اور اُنہیں پیچھے دھکیلتے۔ البتہ ایسا نہیں تھا کہ اگر مثال کے طور پر دشمن سو میٹر آگے آگیا تھا تو ہم اُسے اُسی اندازے کے مطابق پیچھے دھکیل دیتے تھے، بہت زیادہ جو پیچھے کرتے تھے، بیس میٹر کرتے تھے۔

 

شہر خالی ہوجانے اور فوجی کم ہوجانے سے شہر کا ماحول کیسا تھا؟

اب ہم اپنوں کو غیر سے تشخیص نہیں دے پا رہے تھے۔ بعثیوں کی ایک شیطنت یہ تھی کہ وہ عوامی فورسز کو قیدی بنالیتے تھے، پھر اُن کے لباس پہن لیتے تھے اورہمیں پکڑنے کی خاطر لوگوں کے درمیان میں کھڑے ہوجاتے تھے۔ وہ ہمیں زندہ  پکڑنے کیلئے بہت مشتاق تھے۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ ہمیں پتہ نہیں ہوتا تھا کہ ہمارے نزدیک میں جو افراد ہیں وہ ایرانی ہیں یا عراقی! البتہ ہم بھی نمایاں ہوچکے تھے۔ انسان ایک مرتبہ خیال نہیں رکھتا، دو مرتبہ خیال نہیں رکھتا لیکن بعد میں متوجہ ہوجاتا ہے۔ اگر ہم عام لوگوں میں سے چار پانچ افراد کو ایک ساتھ دیکھتے تو اُن کی طرف نہیں جاتے تھے۔ مگر یہ کہ ہمیں یقین ہوجائے کہ وہ ایرانی ہیں، اگر یقین نہیں ہوتا تھا تو نہیں جاتے تھے۔

 

اس بارے میں آپ کو کوئی واقعہ یاد ہے؟

ایک دن ہم،  پندرہ سولہ افراد کے قریب ایک گاڑی میں تھے اور شاہراہ حافظ سے گزر رہے تھے۔ پچاس میٹر کے فاصلے پر کچھ افراد اُس طرف  کھڑے ہوئے تھے۔ اس سے پہلے کہ ہم اُن تک پہنچتے، ایک بوڑھے مرد نے ہمیں نجات دلائی۔ اُس بوڑھے مرد نے اچانک ہمیں آواز لگائی اور کہا: "اُس طرف نہ جائیں  اس طرف آجائیں۔" ہم فوراً بوڑھے مرد کی طرف گئے اور ہم نے پوچھا: "کیا ہوا ہے؟" انھوں نے کہا: "میرے خیال سے یہ لوگ عراقی ہیں!" میں نے کہا: "نہیں بابا ایرانی ہیں۔  اگر عراقی ہوتے تو ہمیں مار چکے ہوتے۔" اُن میں کچھ ایرانی اسیر موجود تھے اور ہمیں نہیں  پتہ تھا کہ وہ لوگ اسیر ہوچکے ہیں۔

میں گاڑی سے نیچے اُتر گیا۔ جب ہم گلی میں گئے تو وہ بھی گلی کے  نکڑ پر آگئے۔ میں نے اُنہیں آواز لگائی اور اُن میں سے ایک کو کہا: "آؤ۔" اُس نے کہا: "تم آؤ۔ ڈرو نہیں ہم ایرانی ہیں۔" میں نے اُنہیں چکر دیا اور ہم سمجھ گئے کہ وہ عراقی ہیں۔ وہ شخص بہت آسانی سے ہمیں مار سکتا تھا لیکن نہیں مارا۔ پچاس میٹر کے فاصلے سے آپ سامنے والے شخص کو بہت آسانی سے  اسلحہ کے ذریعے مار سکتے ہیں لیکن مجھے نہیں معلوم اُس نے کس دلیل کی بنیاد پر یہ کام نہیں کیا۔ شاید وہ ہمیں زندہ پکڑنا چاہتے تھے۔ غیر منظم جنگوں اور منظم جنگوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ جب آپ کسی شخص کے سامنے کھڑے ہوں، اور آپ نہیں جانتے ہوں وہ آپ کا اپنا ساتھی ہے یا دشمن۔ وہاں آپ کو بہت جلدی فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اُس وقت ہمیں ان چیزوں کے بارے میں نہیں پتہ تھا اور ہمیں کوئی تجربہ نہیں تھا۔

آپ کو بالکل بھی یقین نہیں آئے گا، ہم سے اس قدر کہا گیا تھا کہ فلاں توپخانہ اور فلاں ڈویژن پہنچنے والا ہے اور آرہا ہے، جب میں نے شہر کے کسی نقطہ پر کسی ڈویژن کو دیکھا، میں اپنی پناہ گاہ سے باہر نکل آیا اور اُن کے سامنے کھڑا ہوگیا اور کہا: "ساتھیوں! پہنچ گئے!" کیسا ڈویژن! اُسی ڈویژن نے ہمیں تہس نہس کردیا۔ میں نے اُن کی خوشامد کی، لیکن اُنھوں نے میری طرف گولی چلانا شروع کردی۔ اگر میں اُسی وقت اُن پر سبقت لے جاتا اور اپنی اسٹین گن کا رُخ اُن کی طرف – جو ہم نے صدامی فوج سے لی تھی – کرلیتا، میں کم سے کم پچاس افراد کو مار دیتا۔

 

یہ جو آپ سے وعدہ کرتے تھے یہ ڈویژن آرہا ہے، وہ ڈویژن آرہا ہے، اس سے آپ کو حوصلہ ملتا تھا  اور آپ اُمید وار ہوجاتے تھے ۔۔۔

اور یہ چیز اس بات کا باعث بنی تھی کہ ہم دشمن کو اپنی فوج سمجھ بیٹھے تھے!میرے سامنے عراقی ڈویژن تھا!

 

آپ کو یاد ہے شہر کی کون سے جگہ یہ واقعہ پیش آیا تھا؟

جی،  مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ وہ لوگ خیابان طالقانی کی طرف سے آرہے تھے۔ دشمن کی انفنٹری فوج اس طرح ہماری طرف بڑھ رہی تھی کہ میں کہہ رہا تھا یہ ایرانی ہیں! ایسا لگ رہاتھا کہ ایک بڑا سا سانپ حرکت کر رہا  ہے۔ تین لائنوں میں آگے بڑھ رہے تھے، ایک آگے اور  دو فاصلے کی رعایت کے ساتھ  ایک دوسرے کے پیچھے تھے۔ جہاں تک آنکھیں دیکھ پا رہی تھیں وہاں تک عراقی تھے جو ہماری طرف بڑھ رہے تھے۔ مجھے بہت افسوس ہوا کہ میں پہلے ہی موقع پر کیوں نہیں سمجھ گیا کہ یہ دشمن کی فوج ہے،  تاکہ میں پہلے اُن کی طرف فائرنگ کردیتا۔

جدوجہد کے دنوں کے وسط میں  پانچویں ستون کا کردار کیا تھا؟

اب خرم شہر میں کسی پانچویں ستون  کا وجود نہیں تھا۔ بعثی اچھے اور برے کو ایک ساتھ مار رہے تھے۔ اب اُنہیں نہیں پتہ تھا کہ کون پانچواں ستون ہے اور کون نہیں ہے! صرف آگے بڑھ رہے تھے۔ جہاں تک ممکن تھا ہم شہر کے وسط میں روکے ہوئے تھے اور اُنہیں آگے بڑھنے نہیں دے رہے تھے۔

 

آپ کی نظر میں خرم شہر پر قبضہ ہونے میں پانچویں ستون کی خیانت کا کتنا ہاتھ تھا؟

کچھ وقت کے بعد پانچویں ستون کی خیانت کا وجود نہیں تھا۔ زیادہ تر، دشمن کے وسائل اور اُن کی افواج کی زیادتی تھی جو جنگ  کو اُن کے فائدے میں لے جارہی تھی۔ مثال کے طور پر ہم بیس افراد جاکر اُن سے لڑتے تھے، بعد میں گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری تعداد کم ہوجاتی۔ مثلاً علی وطن خواہ جو قاسم مدنی کے ساتھ اسیر ہوگئے تھے وہ ہمارے سپاہیوں میں سے تھے۔ وہ مجھ سے دو دن کی چھٹی لیکر گئے تھے  کہ ماہ شہر میں جاکر اپنے گھر والوں سے ملیں اور پھر واپس آجائیں لیکن وہ  راستے میں اسیر ہوگئے۔ یہ بیس افراد ہوگئے اٹھارہ افراد، سپاہیوں میں سے کچھ افراد شہید بھی ہوئے، ہوگئے سولہ افراد، ہماری کچھ ساتھی زخمی بھی ہوئے اور دن بہ دن ہماری تعداد کم سے کم تر ہو رہی تھی۔ میں خود دو مرتبہ زخمی ہوا لیکن عراقی  افواج! وہ کم نہیں ہوتی تھیں۔

 

آپ کس زمانے میں اور کہاں زخمی ہوئے؟

پہلی دفعہ  ۱۴ اکتوبر ۱۹۸۰ء والے دن جب میں آر پی جی سے فائرنگ  کر رہا تھاکہ ایک گرنیڈ ہمارے نزدیک آکر پھٹا۔ اُس کے دو ٹکڑے، ایک میری گردن میں اور دوسرا میرے پیر میں لگا۔ مجھے دوسرے زخمی ہونے والے ساتھیوں کے ساتھ آبادان کے طالقانی ہسپتال منتقل کردیا گیا لیکن میں ہسپتال سے فرار کر گیا اور دوبارہ خرم شہر واپس آگیا۔ کچھ دنوں بعد دوبارہ زخمی ہوگیا؛ جب مجھے دوسری دفعہ زخمیوں کے ساتھ طالقانی ہسپتال لے گئے، وہ نرس جو مجھے پہچانتی تھی مجھ سے ناراض تھی۔ مجھے بہت درد ہو رہا تھا اور میں نے اُس سے کہا: "محترمہ مجھے بہت درد ہو رہا ہے۔" اُس نے میری طرف اشارہ کیا اور اپنے ساتھ کام کرنے والی سے کہا: "اس اکھڑ مزاج کو فی الحال باہر ہی رکھو۔ پہلے دوسروں کی دیکھ بھال کرو۔" مجھے بہت برا لگا۔ میں نے اُس وقت کے صدر ابو الحسن بنی صدر کو بھی ہسپتال میں دیکھا، جو زخمیوں کی عیادت کرنے آیا ہوا تھا۔

 

جب خرم شہر پر قبضہ ہوا اُس وقت آپ کہاں تھے؟

میں ہسپتال میں ایڈمٹ تھا۔ جس رات خرم شہر پر قبضہ ہوا، مجھے خبر نہیں تھی۔

 

آپ کو  کس نے قبضہ ہونے کی خبر دی؟

ابوذر گروپ کے ساتھیوں نے مجھے یہ خبر دی۔  مسعود پاکی – کہ خدا اُس پر رحم کرے، جو بعد میں شہید ہوگئے – منصور مفید، علی رضا دُر –  جو بہت ہی اچھا لڑکا تھا، وہ خرم شہر کا رہنے والا نہیں تھا، وہ دشمن سے لڑنے کیلئے ماہ شہر سے  خرم شہر آیا ہوا تھا – اور دو تین دوسرے ساتھی جو میری عیادت کرنے آئے تھے  انھوں نے خرم شہر پر قبضے کی خبر دی۔

 

آپ کی کیا حالت ہوئی ؟

میری حالت بہت خراب ہوئی۔ میں ایک دم دیوانہ ہوگیا تھا۔ میں ساتھیوں پر چلّا رہا تھا اور کہہ رہا تھا: "میں ایک دن نہیں تھا!تم لوگ شہر پر قابو نہیں رکھ سکے! میں دو دن بعد واپس آجاتا۔" البتہ اب دشمن کے سامنے مزاحمت کرنا بہت سخت ہوچکا تھا۔ واقعاًٍ شہر پر قابو  رکھنا مشکل ہوگیا تھا! ہمارے گروپ میں سے صرف ساتھ آٹھ افراد رہ گئے تھے۔ کیا ہم ان افراد کے ساتھ خرم شہر  کو دشمن کے نرغہ سے بچا سکتے تھے؟

۱۳، ۱۴ اکتوبر ۱۹۸۰ء سے پتہ چلتا ہے کہ خرم شہر پر قبضہ ہو رہا ہے۔ اگر ہم اس وقت سے ۲۶  اکتوبر تک کے وقت کو کہ جس دن خرم شہر پر قبضہ ہونے کی خبر نشر ہوئی، ملحوظ رکھیں، دفاع کرنے والی فورسز نے غیرت مندانہ طریقے سے اس مدت میں شہر کو سنبھالے رکھا اور وہ وہاں سے بھاگنے اور شہر پر قبضہ ہونے دینے کیلئے تیار  نہیں تھے۔

جی، صحیح بات ہے۔ جس وقت میں زخمی ہوا تھا صرف ایک یا دو شاہراہیں ہمارے اختیار میں تھیں لیکن وہاں پر موجود سپاہی وہاں سے جانے کیلئے تیار نہیں تھے۔ دشمن پوری قدرت کے ساتھ آگے آچکا تھا لیکن وہ ہمیں شہر سے باہر نکالنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ ساتھی خالی ہاتھوں کے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے۔ اگر ہمارے پاس پہلے دن والے سپاہی ہوتے، آپ یقین کریں کہ خرم شہر پر قبضہ نہیں ہوتا، چونکہ ہم نے جنگ لڑنے کا طریقہ سیکھ لیا تھا۔

 

خرم شہر پر قبضہ ہوجانے کے  بعد، آپ  نے دوبارہ اپنے گروپ کو کیسے سمیٹا؟

خرم شہر پر قبضہ ہوجانے کے بعد ابوذر گروپ کا شیرازہ بکھر گیا۔ ہمارے کچھ سپاہی شہید اور بعض افراد اسیر ہوگئے تھے، اب ہمارے پاس وہ پرانی والی تعداد نہیں تھی۔ دوسری طرف سے شہید جہان آر اء بھی اصرار کر رہے تھے کہ فورسز ایک دوسرے میں ملحق  ہوجائیں۔

 

آپ نے بیت المقدس اور خرم شہر کو آزاد کرانے والے آپریشن میں شرکت کی تھی؟

جی ۔ بیت المقدس آپریشن کیلئے سپاہ نے ہمیں بلایا تھا۔

 

جب آپ دوبارہ اپنے شہر میں داخل ہوئے تو آپ کیسا محسوس کر رہے تھے؟

سب خوش ہو رہے تھے لیکن میری حالت دوسری تھی۔ جب میں نئے پل سے خرم شہر میں داخل ہوا  اور میں نے دیکھا کہ شہر بالکل خالی اور ہر جگہ ویران ہے، میں اُس سے آگے نہیں گیا۔ عراقی اپنی گاڑیوں کو  سیدھا کھڑا کرکے چلے گئے تھے  تاکہ ہماری فوجیں وہاں نہ اُتریں۔ اصلاً مجھے میرے پیر شہر کی طرف حرکت کرنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ میں روتے ہوئے گاڑی میں بیٹھا اور اپنے ہیڈ کوارٹر واپس آگیا۔ میں چار پانچ دنوں تک وہاں رہا۔ ساتھیوں نے جتنا کہا: "اٹھو چلیں شہر کو دیکھیں" میں نہیں گیا۔ میری حالت بہت خراب تھی اور میں نے ایک سال تک خرم شہر میں قدم نہیں رکھا۔

میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے اپنا وقت ایران کی اورل ہسٹری سائٹ کو دیا۔

میں بھی آپ کا شکر گزار ہوں۔



 
صارفین کی تعداد: 2714



http://oral-history.ir/?page=post&id=9034