تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – بارہویں قسط

مجتبیٰ الحسینی

مترجم: سید مبارک حسنین زیدی

2019-12-17


بعثی ڈاکٹروں اور کمپاؤڈروں نے جواب میں  کہا: "تم اُس کی خاطر خود کو تھکاؤ نہیں۔ ہمیں بھی خون کی ضرورت ہے۔"

میں ایک لحظہ کیلئے ساکت ہوگیا۔ خدایا میں کیا کروں؟ ایک طرف سے یہ لوگ میری مخالفت کر رہے ہیں اور دوسری طرف سے وہ مسلمان ہے  اور زخمی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ کیا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہوں تاکہ اُس کی موت کا تماشا دیکھوں؟ بالآخر میں نے سکوت کو توڑا اور اُن سے کہا: "ہمارے کندھوں  پر انسانیت کی ذمہ داری ہے۔ یہ انسان زخمی ہے  اور اسے ہماری مدد کی ضرورت ہے۔ ان سب باتوں کے علاوہ وہ ایک قیدی ہے اور حتماً اُس کے پاس ایسی معلومات ہیں کہ ہوسکتا ہے وہ معلومات ہماری افواج کیلئے مفید ہوں۔"

وہ لوگ تھوڑی دیر تک ایک دوسرے کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے رہے اور پھر انھوں نے کہا: "ڈاکٹر صحیح کہہ رہا ہے۔"

وہ فوراً مدد کرنے کیلئے دوڑ پڑے۔ بالآخر مشکل کا حل مل ہی گیا اور میں نے اُسے خون کی دو ڈرپس لگادیں۔ ایک گھنٹے بعد اُسے ہوش آگیا  اور اُس نے فارسی میں کچھ کہا  جو میری سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے کمپاؤڈر "ابو عصام" کو پکارا جو شہر "کفری" کا رہنے والا اور فارسی زبان پر تسلط رکھتاتھا۔ اُس نے قیدی کی باتوں کو ہمارے لیے  ترجمہ کیا۔ قیدی نے تعجب کے ساتھ پوچھا: "آپ لوگ کون ہیں؟ یہ کون سی جگہ ہے؟ میں یہاں پر کیوں ہوں؟"

جب نسبتاً  اُس کی حالت بہتر ہوگئی تو پھر میں نے اُس کو بصرہ کے فوجی ہسپتال روانہ کردیا۔ ایک ہفتہ کے بعد ایک دیندار کمپاؤڈر کے ذریعے میں اُس کی وضعیت اور حالت سے باخبر ہونے میں کامیاب ہوا۔ اس کمپاؤڈر نے مجھے بتایا کہ  اُس کا آپریشن ہوا ہے اور وہ زخمی قیدیوں کے کمرے میں ایڈمٹ ہے۔

جنگ شروع ہوئے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود، ہماری افواج نے حملہ کرنا بند کردیا تھا اور مستحکم مورچوں میں دفاعی پوزیشن سنبھالی ہوئی تھی۔ اب کوئی کارنامہ انجام دینا ایرانی فوجیوں کے ہاتھ میں تھا۔ اب وہ جھوٹی کامیابی کا ہیجان اور احساس جسے  حکومت کے ذرائع ابلاغ نے فوجیوں کے دل میں ایجاد کردیا تھا، جھاگ کی طرح بیٹھ چکا تھا۔ اُس کے بعد سے مختلف درجوں کے فوجی ایک دوسرے سے سوال کیا کرتے :در واقع جنگ شروع ہونے کا مقصد کیا تھا؟  ہم نے ایران کی سرزمین پر قبضہ کیوں کیا ہے؟  پس ایرانی افواج کا وہ عظیم لشکر کہاں ہے  جس کا حکومت دعویٰ کرتی تھی  کہ انھوں نے عراق پر حملہ کرنے کیلئے اُسے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے؟ یہ سوالات اور اس طرح کے دوسرے سوالات حقیقت میں عراقی فوجیوں کا قدرتی ردّعمل تھا اُس عمل کے بارے میں جب حکومت نے ایران کے خلاف  جنگ شروع کرنے کیلئے انہیں قانع کیا تھا، اُن کا دعویٰ یہ تھا کہ ایران کے حملے کا دفاع کرنے کی خاطر، سرحدی شہروں سے ایرانی توپخانوں کو دور کرنے کیلئے اور عراق کے قبضہ شدہ علاقوں کو واپس لینے کیلئے جنگ کا آغاز کر رہے ہیں۔ لیکن عراقی فوجیوں نے جنگ کی یہ مدت گزرنے جانے کے بعد کس چیز  کا مشاہدہ کیا؟ پہلی بات تو یہ کہ فوج نے ایرانی سرزمینوں پر حملہ کرتے وقت اپنے مقابلے میں کسی تیار اور جنگی اسلحوں سے لیس فوج کو نہیں دیکھا۔ دوسری بات یہ کہ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنے قبضہ شدہ علاقوں کو آزاد کرانے چاہتے ہیں، جبکہ انھوں نے نہ صرف اپنی افواج کی پیش قدمی کو ایران کی سرزمین کے اندر  روکا بلکہ ایران کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرکے اپنے اختیار میں بھی لے لیا۔ تیسرے یہ کہ وہ لوگ ایران کے توپخانے کی رینج سے زیادہ فاصلے سے ایرانی علاقوں میں داخل ہوگئے تھے۔ چوتھے یہ  کہ عراق نے ایران کے سینکڑوں دیہاتوں اور چند شہروں جیسے خرم شہر، مہران، قصر شیرین اور بستان پر قبضہ کرلیا تھا  اور اسی طرح اُن کے فارسی ناموں کی جگہ اُن کے عربی نام رکھ دیئے تھے۔ عراق نے انتظامی امور کے حوالے سے ان شہروں کو اپنے سرحدی صوبوں سے مربوط کردیا تھا  اور حکومتی عمارتوں پر اپنے جھنڈے کو لہرا دیا تھا۔ عراق نے کچھ شہروں میں جیسے خرم شہر، بستان اور ہویزہ میں اسکول، حکومتی بازار اور میڈیکل سینٹر کھولنے کا اقدام کیا۔ میں نے خود عراق کے نئے نقشے کا مشاہدہ کیا تھا جسے حکومت نے چھاپا تھا۔ اس نقشہ میں، ایران کے شہر اور مقبوضہ زمینیں عراق  سے وابستہ ہوگئی تھیں۔ اس کے علاوہ شوش، دزفول، ا ہواز اور آبادان جیسے شہروں کو اپنے نقشہ میں ملحق کرنے کیلئے عراقی حکومت کی کوششیں ڈھکی چھپی نہیں تھیں۔

ان تمام سامراجی اقدامات کے باوجود، صدام دعویٰ کر رہا تھا کہ ایران ، عراق پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ ان حوادث اور واقعات  نے عراقی حکومت کے جھوٹے دعوؤں کو برملا کردیا  اور ثابت کر دیا کہ یہ جنگ عراقی سرزمین کے دفاع کی خاطر نہیں بلکہ فقط اور فقط ایران پر حملہ کرنے کیلئے شروع ہوئی ہے۔ ان حقیقتوں نے ہماری ا فواج پر  اثر ڈالا اور اُن سے جنگ جاری رکھنے کا  جذبہ سلب کرلیا، اس طرح سے کہ اب وہ جنگ شروع ہونے کے ابتدائی دنوں کی طرح اپنی طرف سے جنگ لڑنے کی دلچسپی ظاہر نہیں کر رہے تھے۔

ایک بار پھر جفیر

۱۶ اکتوبر سن ۱۹۸۰ ء والے دن مجھے ایک موبائل میڈیکل یونٹ کے ساتھ بیسیویں بریگیڈ کے "ب" ہیڈ کوارٹر روانہ کردیا گیا البتہ مجھ سے چند دن پہلے ڈاکٹر "نعیم" وہاں پہنچ چکے تھے۔ یہ ہیڈکوارٹر  جفیر علاقے اور حمید چھاؤنی – حمید چھاؤنی  کے غرب سے بالکل ایک کلومیٹر کے فاصلے پر – کے درمیان واقع تھا۔ اس ہیڈ کوارٹر کی کمانڈ اسٹاف کے سیکنڈ کرنل "عدنان" کے ذمہ  تھی۔ اُس نے علاقے کے مضبوط قلعہ کو اپنے لیے مخصوص کر رکھا تھا، حالانکہ اُس کے زیر تحت کام کرنے والے افراد  بیابان میں پڑے ہوئے تھے اور انھوں نے ایران کے فضائی حملوں سے بچنے کیلئے  گڑھوں میں پناہ لی ہوئی تھی ۔

میں جیسے ہی علاقے میں داخل ہوا، میں سمجھ گیا کہ ڈاکٹر نعیم بیسیویں بریگیڈ کے "پ" ہیڈ کوارٹر یعنی محاذ کی سب سے اگلی لائن  پر اسٹاف کے سیکنڈ کرنل "جواد ا سعد شتینہ" کی کمانڈ میں روانہ ہوگئے ہیں۔ یہ کرد کمانڈر حکومت کے نزدیکی دوستوں اور ساتھیوں میں سے سمجھا جاتا تھا۔ اُس کا والد جو ایک قبیلہ کا رئیس تھا اُس نے کرد انقلابیوں  کو سرکوب کرنے والی کاروائیوں میں شرکت کی تھی۔ علاقے میں داخل ہوتے ہی  مجھے خبر ملی کہ  یہ علاقہ فضائی حملوں کی زد میں ہے۔

دوپہر کے وقت سورج کی کرنیں  حمید چھاؤنی پر  پڑ رہی ہوتیں۔ اس چھاؤنی میں سات منزلہ آٹھ عمارتیں تھیں۔ اُن کے بیچ میں  پلروں پر بنی پانی کی ٹنکیاں آسمانوں کو چھو رہی تھیں۔ اگلے دن صبح کے وقت، ناشتہ کرنے  کے بعد میں ایک محکم پناہ گاہ کے پاس اور ایک ایسی ایمبولنس کے برابر میں  بیٹھ کر باتیں کر رہا تھا جو ایک گہرے گڑھے میں کھڑی ہوئی تھی۔ صبح ۷ بجے ہم پر دو طیاروں نے حملہ کردیا۔ اُن دو طیاروں میں سے ایک طیارے نے اپنے بمبوں کو دفاعی پوزیشنوں پر اور دوسرے طیارے نے اپنے بمبوں کو براہ  راست ہمارے سروں پر گرایا۔ جب بمب تیزی کے ساتھ زمین کی طرف آرہے تھے، میں نے دیکھا تھا؛ ایک ایسا منظر جس کی مثل میں نے سینمائی فلموں کے علاوہ نہیں دیکھی تھی۔ یہ بمباری جس سے خوش قسمتی  کے ساتھ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا،  اس نے ہمیں رعب اور وحشت میں مبتلا کردیا۔ بمبوں نے زمین پر گرتے ہی، اپنے پھٹنے سے ایک بہت بڑا گڑھا بنا دیا۔ ایک گھنٹے بعد میں، سیکنڈ کرنل "رحمان" اور میجر "مہدی" ہم سب نے مل کر اس گہرے گڑھے کی ایک یادگار تصویر بنائی۔

شام کے وقت اسٹاف کے سیکنڈ کرنل "عدنان" نے مجھے اپنی پناہ گاہ میں حاضر ہونے کا کہا۔ قہوہ سے پذیرائی اور معمولی تکلفات کے بعد، اُس نے اپنے کالے رنگ  کے دستی بیگ میں سے چند  پاکٹ پرس نکالے جس میں تصویریں اور شناختی کارڈ تھے۔

جب میں نے خوب اچھی طرح اُن کی چھان پھٹک کرلی، میں متوجہ ہوا کہ یہ اُن خلاء بان اسیروں کے پرس ہیں جنہیں کچھ عرصہ پہلے قیدی بنایا گیا تھا۔ پرسوں میں دوسری چیزیں جو شامل تھیں اُس میں سبز رنگ کے جیبی سائز کے قرآن تھے جس پر فارسی نقش بنے ہوئے تھی اور خلاء بانوں کی زوجات کی با حجاب تصاویر تھیں۔ میں نے احساس کیا کہ قرآن اور حجاب، انقلاب اسلامی کا پیغام اور ایران کی مسلمان عوام کا تشخص ہے۔ میں نے سیکنڈ کرنل "عدنان" سے پوچھا: "کیا ان میں سے جنت کی چابیاں بھی ملی ہیں؟"

اُس نے جواب دیا: "نہیں۔"

مجھے معلوم تھا کہ وہ ان جھوٹی چابیوں کو ڈھونڈنے کیلئے قیدیوں کے سینے اور گردنوں کی بھی تلاشی لیں گے۔ حقیقت میں جنت کی چابیاں ایک افواہ تھی کہ عراق کے ذرائع ابلاغ نے امام خمینی اور انقلاب کا مذاق اڑانے کیلئے زبانوں پر جاری کر رکھا تھا اور مسلسل کہے جا رہے تھے کہ خمینی ایرانی فوج کے سپاہیوں  کے جوش و جذبے کو بڑھانے کیلئے جنت کی چابیوں کو  اُن کے گلے میں لٹکا دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ چاہتے تھے کتاب "مفاتیح الجنان" جو ایرانی فوج کے پاس تھی، کو جنت کی چابیوں کے حساب میں ڈال دیں۔

جاری ہے ۔۔۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2718



http://oral-history.ir/?page=post&id=8952