انقلاب اسلامی میں مساجد کا کردار

اصفہان کی مسجد امام

مریم طحان

مترجم: سید نعیم حسین شاہ

2019-12-15


اصفہان شہر میں ایران  کی سب سے قدیمی اور تاریخی مساجد میں سے ایک اصفہان کی "مسجد امام" ہے جس کا تاریخ کے ہر دور میں لوگوں کی سیاسی اورمذہبی زندگی میں اہم کردار رہا ہے۔

اصفہان میں "میدان نقش جہان" میں واقع اہم اور تاریخی مساجد میں سے ایک مسجد یہی ہے جو ماضی میں "مسجد مہدیہ" ، "مسجد المہدی" اور "مسجد شاہ" کے نام سے معروف تھی۔ اسی طرح "مسجد سلطانی" او ر "مسجد جامع عباسی" بھی اس مسجد کے نام تھے، لیکن انقلاب اسلامی رونما ہونے کے بعد اسے "مسجد امام" کا نام دے دیا گیا۔

ایران میں مسجد سازی کی ہزار سالہ پرانی تاریخ کے نمایاں ہنر اور صفوی دور حکومت میں معماری کی بہترین شاہکار اس مسجد کا آغاز سن ۱۰۲۰ ہجری قمری میں صفوی بادشاہ، شاہ عباس اوّل کے حکم پر" میدان نقش جہان" کے جنوب میں کیا گیا البتہ اس کی خوبصورتی اور دیگر لوازمات پر کام، شاہ عباس اوّل کے جانشینوں یعنی شاہ صفی، شاہ عباس دوّم اور شاہ سلیمان کے زمانے میں اختتام کو پہنچا۔

اس مسجد کی تعمیری خصوصیات، پتھر کے کام، اس میں لگے دلکش ٹائلز، حسین اور بے مثال تزئین  آرائش اور دیگر نفیس کارناموں کا اگر جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ یہ ایران کے معماری آثار کے کمال کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اس کا شمار ان بڑی مساجد میں ہوتا ہے جن کے چار چار ایوان ہیں۔ خود یہ مسجد ۱۲۲۶۴ مربع میٹر پر محیط ہے۔ ۵۲ میٹر کی اونچائی کا بلند و بالا عظیم گنبد جو ٹائلز اور دیگر ہنر پاروں کو سموئے ہوئے ہے، نگاہوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے؛ اس گنبد پر لگی خوبصورت لاجوری اینٹوں کے پس منظر میں کتبہ نصب ہے۔ اس مسجد کی دیگر خصوصیات میں شامل وہ چار مینارے ہیں جن میں سے دو مسجد کے اندر ۴۸ میٹر اونچائی کے ساتھ اور دو داخلی دروازے کے پاس ۴۲ میٹر اونچائی کے ساتھ سر بفلک ہیں اور مجموعی طور پر میدان نقش جہان  میں خود نمائی کرتے  نظر  آتے ہیں۔  ان دو میناروں پر ٹائلنگ کا کام ہوا ہے اور ٹائلنگ کے کام کے اندر نفاست  کے ساتھ "محمد" اور "علی" کے نام تکراری طور پر ان کے اوپر نقش کی صورت میں لکھے گئے ہیں۔ قبلہ والے ایوان کی اونچائی ۱۵ میٹر اور جنوبی ایوانوں کی بلندی ۱۳، ۱۳ میٹر ہے۔

مسجد کے دلکش  اور دیکھنے کے لائق جو حصے ہیں ان میں ست رنگی (سات رنگوں والی) اینٹ نما ٹائلز، بڑے جنوبی گنبد کے مرکز میں آواز کی بازگشت، ایک ہی جیسے سنگ مرمر کے لگے بڑے بڑے پتھر، نفیس سنگ آب شامل ہیں اور نیز اس کے ساتھ پتھر کا مثلث نما شکل کا ٹکڑا جو مسجد کے جنوب مغرب میں و اقع ایک مدرسے میں زمین پر معین جگہ میں خاص انداز سے نصب ہے اور اصفہان شہر کے چاروں موسموں میں ظہر کا شرعی وقت بتاتا ہے اور یہ آخر الذکر مورد دراصل شیخ بہائی کے اقدامات میں سے ہے جو شاہ عباس اول کے دورِ حکومت میں تھے اور معروف ریاضی دان، عالم اورفقیہ کے عنوان سے جانے جاتے تھے۔

اس عظیم مسجد کے دو بڑے ہال ہیں جو آپس میںملے ہوئے ہیں۔ ایک ہال مسجد کے مشرق کی طرف اور دوسرا مغرب کی طرف ہے اور یہ دونوں مسجد سے متصل ہیں۔ مشرقی ہال قدرے بڑا لیکن سادہ ہے اور تزئینی کام سے خالی ہے اور مغربی ہال چھوٹا ہے لیکن سات رنگ کی ٹائلز سے مزین ہے۔ نیز اس کا محراب اب بھی اصفہان شہر کی تمام مساجد کے محرابوں سے زیادہ خوبصورت ہے۔ اس مسجد کے دو گوشوں، جنوب مغرب اور جنوب مشرق میں ایک ایک مدرسہ متصل ہے، جنوب مشرق والا مدرسہ "مدرسہ ناصری" کہلاتا ہے۔ اس میں طلاب کے لیے رہائشی کمرے بھی موجود ہیں اور جنوب مغربی مدرسہ کا نام "مدرسہ سلیمانی" یا "سلطانی" ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ "مدرسہ ناصری" کی تعمیر "ناصر الدین شاہ قاجار" کے دور حکومت میں ہوئی اور "مدرسہ سلیمانی" شاہ سلیمان صفوی کے زمانے میں تعمیر کیا گیا۔

معمار علی اکبر اصفہانی نے اس مسجد کو تعمیر کیا جبکہ نظارت کی ذمہ داری محب علی بیک اللہ نے انجام دی اور خوشنویسی کے  فرائض علی رضا عباسی، عبد الباقی تبریزی، محمد رضا  اور محمد صالح امامی نے انجام دیئے اور کتبے تحریر کیئے۔

اصفہان کی مسجد امام جو آج تک اصفہان کے سیاحتی مراکز میں سے ایک  ہے، قاجاریہ سلسلہ حکومت کے زمانے سے عبادتی مقام ہونے کے علاوہ تمام لوگوں کے لیے سیاسی اور اجتماعی مشکلات کے حل کے لیے بھی مرکزی جگہ تھی۔ مثال کے طور پر عصر مشروطہ میں اس مسجد میں اہم واقعات رونما ہوئے ہیں۔  جب محمد علی شاہ قاجار نے اپنا ظلم شروع کیا اور مجلس کی طرف توپوں کا رُخ موڑ دیا تو اصفہان شہر کے زندہ دل شہریوں  نے آقائے نجفی اور الحاج آقائے نور اللہ نجفی اصفہانی کی قیادت میں مسجد کا کنٹرول سنبھال لیا اور اسی مسجد میں ہی اس قاجاری حاکم کے سپاہیوں سے لڑے اور آخرکار ضرغام السلطنت کی سربراہی میں بختیاری کے مجاہدین جب آن پہنچے تو اس ظالم حکومت کا تختہ اُلٹ دیا اور یوں اصفہان فتح ہوگیا۔ نیز اسی مشروطہ کے زمانے میں ۱۳۲۵ ہجری قمری میں جب مونس السلطنت، یعنی حاکم اصفہان ظل السلطان کی بیوی نے الحاج آقائے نور اللہ نجفی اصفہانی کے گھر میں پناہ لی تو اس کے بیٹے صارم الدولہ نے ہی  اسے گولی مار کر قتل کردیا؛ جس کے نتیجے میں اصفہان کے لوگوں نے غصے میں آکر مسجد میں احتجاج کیا۔ یہ روش اصل میں اُس وقت قدیمی دور سے رسم کے طور پر رائج تھی جس پر لوگ نازک حالات میں عمل کرتے تھے۔

اس مسجد کے بڑے کارناموں میں سے ایک کارنامہ عید کی نماز منعقد کرنے کا تھا جو اس وقت سے آج تک عظیم الشان اجتماع  کے ساتھ منعقد ہوتی ہے۔ نیز یہ مسجد اس وقت ان اہم مساجد میں سے ایک تھی جہاں لوگ عید فطر اور عید قربان کی نماز ادا کرنے آتے تھے لیکن پہلوی  دور حکومت میں رضا شاہ نے ایک چال چلی اور ان مساجد کو آثار قدیمہ کا عنوان دیکر نماز عیدین کے اجتماع کو سرکاری طور پر بند کروا دیا اور کہا کہ یہ مساجد ملکی تاریخ کا سرمایہ ہیں اور ان کی حفاظت ضروری ہے اس کے بعد اہم سیاسی حالات میں بھی لوگوں کے اجتماع میں کمی آگئی۔

یہ مسجد جیسے مشروطہ کے دور میں مزاحمتی جوانوں اور عوام الناس کا مرکز تھی۔ دوسرے پہلوی شاہ کے دور میں بھی انقلابیوں کا مرکز رہی ہے اسی بنا پر اس کی اہمیت کچھ کم نہ تھی اور اصفہان کے لوگوں کے لیے مرکزی نکتہ کے طور پر سمجھی جاتی تھی۔ آیت اللہ العظمیٰ سید حسین بروجری جو اس وقت کے بڑے مرجع تقلید تھے، کی رحلت کے بعد  ماتم داروں اور عزاداروں کی انجمنیں شہر کے مختلف گوشوں سے اسی مسجد کا رُخ کر رہی تھیں اور لوگ اس مرجع تقلید کے ایصال ثواب کے لیے رکھی گئی مجالس میں شریک ہو رہے تھے۔ ان مجالس میں مومنین کو صبر کی تلقین کی جارہی تھی اور ان سے کہا جا رہا تھا کہ مستقبل میں اسلام اور مرجع تقلید کے حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ مسجد نہ فقط عبادت و معنویت، مذہبی و سیاسی تقاریر اور معروف شخصیات کے لئے ایصال کیلئے رکھی جانے والی  مجالس کا مرکز تھی بلکہ احتجاج کے مراکز میں بھی شمار ہوتی تھی، مثال کے طور پر جب تہران میں یکم مئی سن ۱۹۶۱ء کو بہارستان چوک میں ایک اعتراض کرنے والے استاد ڈاکٹر ابو الحسن خان علی کو قتل کیا گیا تو اصفہان کے ثقافتی افراد نے احتجاج بھی کیا اور ڈاکٹر خان علی کے ایصال ثواب کے لئے مسجد شاہ میں مجلس بھی منعقد کی۔

سن ۱۹۶۰ء  کی دہائی میں علی امینی کی حکومت نے جب اراضی کی اصلاحات کے منصوبہ کا اعلان کیا تو ایران بھر میں اس کی مخالفت میں آواز بلند ہوئی اور اصفہان میں یہ مخالفت،  ساواک کی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اصفہان کے نامورعلماء میں سے آقائے  آیت اللہ سید حسین خادمی کے ذریعے فروری سن ۱۹۶۲ء میں آشکار ہوئی اور کھل کر سامنے آئی اور انھوں نے اصلاحات اراضی کے اس منصوبے کی کھلم کھلا مخالفت مسجد کے منبر سے کی اور لوگوں کو اس مسئلے پر احتجاج کی خاطر ابھارا۔

اس مسجد سے متعلق زیادہ تر واقعات سن ۱۹۶۲ء، ۱۹۶۳ء کے محرم کے مہینوں سے مربوط ہیں لیکن چونکہ ماہ محرم کے اکثر پروگرام اصفہان شہر کے دیگر حصوں اور مساجد میں بھی منعقد ہوتے تھے تو ا س وجہ سے اس مسجد میں کم ہی کوئی مشکل پیش آتی تھی اور امن و امان سے تمام پروگرام نمٹ جاتے تھے۔ عام دنوں میں مشکل پیش آنے کی وجہ شاید یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس مسجد کے پر رونق پروگراموں سے پہلوی حکومت ڈر کر انہیں روکنے کی خاطر یہ بہانہ بناتی تھی کہ یہ مسجد ایک تاریخی اثاثہ ہے اور اسے محفوظ رہنا چاہیے سو اس میں کسی پروگرام کا انعقاد نہ کیا جائے۔

پہلوی حکومت کے خلاف سر عام عوامی مزاحمت اور مخالفت کے آغاز سے قبل، محرم کے عشروں سے اٹھنے و الے اعتراضات اور مخالفتوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔ سن ۱۹۶۰ء کی دہائی میں اصفہان میں رائج یہ تھا کہ عاشورا کے دن "یا لثارات الحسین ؑ" کے عنوان سے عزاداری کی انجمن جوش و خروش سے تشکیل پاتی، جس میں علماء، دیندار تاجر، ڈاکٹرز، ثقافتی ادارے، کلرک حضرات، بازاری افراد، اسکول کالجوں کے طلباء اور مزدور طبقہ کے افراد شریک ہوتے۔ یہ سب لوگ پہلے مسجد شاہ میں جمع ہوتے  وہاں سے چار باغ مسجد کی جانب روانہ ہوتے ؛ ہاں کبھی کبھی یوں بھی ہوتا کہ پہلوی حکومت کی طرف سے کسی رکاوٹ و شرارت سے بچنے کے لیے نقطہ آغاز کو "مسجد سید" اور نقطہ اختتام کو "مسجد شاہ" قرار دیتے اور اس مسجد میں عزاداری کرتے۔

سن ۱۹۶۳ء کے عاشور میں اصفہان کی بہت سی ماتمی انجمنوں نے شرکت کی۔ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق ان میں سے کچھ افراد، مسجد سید میں اور کچھ افراد علماء کی دعوت پر "زحمت کش پارٹی" اور "قومی محاذ" کے افراد سمیت مسجد شاہ میں جمع ہوئے۔ البتہ اس شرط کے ساتھ کہ ایک آواز میں نعرہ بازی نہیں ہوگی اور مقرر کو تقریر سے قبل حکومت کے نوٹس میں لایا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق شام پانچ بجے کے قریب مختلف شعبہ ھای زندگی سے وابستہ پانچ ہزار کے قریب لوگ مسجد شاہ میں جمع ہوئے پھر مدرسہ چار باغ کی طرف روانہ ہوئے کہ جہاں محکمہ اوقات نے عزاداری کی اجازت دے رکھی تھی۔ یہ ریلی، مسجد سید، کے پروگرام سے مختلف تھی، پر امن اور عوام اور سپاہیوں کے درمیان بغیر کسی مزاحمت اور جھڑپ  کے شروع اور ختم ہوگئی۔ اس طرح کی ریلی کو "ڈیمنسٹریشن ریلی" کہا جاتا تھا۔ اور حضرت امام کے حامیوں نے اس نئے طریقے کی یہ روش ایجاد کی تھی۔ یہ ریلی کسی قسم کے نعرہ بازی سے خالی تھی۔ مسجد شاہ سے برآمد ہوتی اور مدرسہ چار باغ پہ اختتام پذیر ہوجاتی اور صرف ایک آدمی اس کے آگے آگے قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے چلتا تھا۔

سن ۱۹۶۴ء کے محرم کے لئے ادارہ اوقاف نے عزاداری کے انعقاد کا قرعہ مسجد شاہ کے نام پر نکالا تاکہ بغیر  کسی مشکل کے اصفہان کے عزادار شہریوں کی میزبانی کرے، جیسے کہ اوپر ذکر ہوا کہ محرم کی عزاداری کا انعقاد مسجد سید یا مسجد شاہ جیسی اہم مساجد میں ہوتا تھا۔ کبھی نقطہ آغاز مسجد شاہ اور نقطہ اختتام مسجد سید تو کبھی اس کے برعکس ہوتا تھا۔ اگرچہ سن ۱۹۶۳ء  کے عاشورا کا پروگرام مسجد شاہ میں امن وا مان کے ساتھ منعقد ہوتا تھا لیکن آیت اللہ خادمی کی قیادت میں روشن فکر علماء گذشتہ سال ۱۲ محرم کو شہید ہونے والے شہداء کا پروگرام مسجد سید میں رکھنا چاہتے تھے۔ اسی لئے انھوں نے بلدیہ سے اجازت لینا چاہی لیکن مسئولین نے مخالفت کی۔ دراصل ان علماء کا ہدف یہ تھا کہ عصر عاشورا مساوی با روز جمعہ ۲۲ مئی سن ۱۹۶۴ء، کی ریلی کے پروگرام کے لیے کہ جو مسجد سید سے میدان نقش جہان کی طرف روانہ ہونا تھی، اجازت لیں اور اِدھر سے مسجد شاہ نے بھی اسی سال کے محرم کے لیے ادارہ اوقاف سے اجازت لے رکھی تھی۔ تو اب حکومت کی توقع کے خلاف ایک ایسا اعلامیہ صادر ہوا جس پر علماء، بازاری طبقہ اور کچھ نامور افراد کے دستخط موجود تھے اور ساواک کی طرف سے بار بار ہدایات کے باوجود آیت اللہ خادمی، علماء اور لوگوں نے بغیر اجازت کے مسجد سید  سے عصر عاشورا کو اعتراض آمیز ریلی کا آغاز کردیا۔ لیکن ظہر عاشورا کو مسلح فوجیوں ے دس ٹرک، کچھ جیپیں اور سو پولیس  اہل کار اور ساواک کے تین سو افراد پر مشتمل اس لاؤ لشکر نے مسجد سید کے اندر اور اس کے اردگرد محاذ سنبھال لیئے۔ جب مسجد مکمل بھر گئی اور بہت سارے لوگ باہر فٹ پاتھوں پر جمع ہوگئے تو بلدیہ کے ہیڈ، آفیسر محمود صدقی اور امن کمیٹی کے سربراہ نے مسلح فورس کے کمانڈر کو حکم دیا کہ جب یہ سب لوگ مسجد شاہ سے مسجد سید جانے کے لئے باہر نکلیں تو ان پر حملہ کریں اور اگر مزاحمت کریں تو کلاشنکوف استعمال کریں۔ اس کے نتیجے میں یہ لوگ مسجد شاہ تک نہیں پہنچ پائے اور عزاداری ادھوری رہ گئی۔

کچھ ایسا ہی سانحہ سن ۱۹۶۴ ء میں دوبارہ رونما ہوا۔ جب اصفہان کے لوگوں نے نومبر سن ۱۹۶۴ء میں امام خمینی کی جلا وطنی کے خلاف اعتراض کی خاطر ہڑتال کا منصوبہ بنایا۔ انقلابیوں نے لوگوں  کو دعوت دی تاکہ مسجد سید میں جمع ہوکر مسجد شاہ کی طرف روانہ ہوں۔ اس بار بھی پہلوی حکومت کو اصفہان میں کسی ردّعمل  کی  توقع نہ تھی۔ سو اس نے فوراً مظاہرین کو منتشر کرنے کا حکم دیا اور یوں اعتراض کرنے والے مسجد شاہ تک نہ پہنچ سکے۔ ساواک کی رپورٹوں میں مسجد سید میں پولیس اورعوام کے مابین جھڑپوں اور مارپیٹ کا  ذکر آیا ہے۔

تو اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے مسجد شاہ اصفہان، حکومت کے خلاف مزاحمت اور مشکلات ایجاد کرنے والوں کا مرکز بن سکتی تھی لیکن حکومتی بہانے بازیاں اور مختلف چالیں اس میں رکاوٹ رہیں۔ ان بہانے بازیوں میں مثال کے طور پر یہ بہانہ بھی شامل تھا کہ یہ قدیمی مساجد تاریخی اثاثہ ہیں، عبادت و سیاحت اور ان میں جمع ہونا اور ریلیاں نکالنا ان کو تباہ کرنے کے مترادف ہے  اور وغیرہ وغیرہ۔ اور یوں لوگوں کو مسجد شاہ میں ایسے اجتماعات منعقد کرنے سے روکا گیا جس کے نتیجے میں اس مسجد کی سیاسی سرگرمیوں میں نمایاں کمی آئی حتی کہ اس کے بعد کے سالوں میں اور خصوصاً سن ۱۹۷۷ء اور سن ۱۹۷۸ء میں مسجد شاہ میں کسی قسم کی عوامی فعالیت کی کوئی رپورٹ یا کوئی اطلاع، ذرائع میں کہیں نہیں آئی بلکہ واعظین کی تقاریر کے پروگرام بھی اس مسجد میں شاذ و نادر منعقد ہوتے تھے؛ وہ بھی حجت الاسلام اکبر ہاشمی رفسنجانی کی مسجد شاہ میں تقریر جو انھوں نے امام خمینی ؒ کے بارے میں سن ۱۹۶۶ء میں کی تھی۔


15khordad42.ir
 
صارفین کی تعداد: 3589



http://oral-history.ir/?page=post&id=8950