۲۲ مارچ سن ۱۹۶۳ء کی دوپہر، مدرسہ فیضیہ

مترجم: سید نعیم حسین شاہ

2019-12-12


ہمیں اطلاع ملی کہ امام خمینی ؒ اپنے گھر میں تقریر کریں گے۔ میں بھی اپنے چند دوستوں کے ہمراہ اگلے دن صبح قم کے لئے روانہ ہوگیا۔ جب ہم قم شہر کی سڑکوں کے نزدیک پہنچے تو دیکھا کہ بس برانچ  سروس کی گاڑیاں کھڑی ہیں۔ ہم نے سوچا کہ کیوں یہ گاڑیاں یہاں کھڑی ہیں لیکن دراصل ہمیں شہر کے موجودہ حالات کا علم ہی نہ تھا۔

امام خمینی ؒ کا گھر حرم [حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا] کے سامنے والی تنگ و باریک گلیوں میں سے ایک گلی میں تھا۔ ہم گھر میں داخل ہوئے اور اوپر والی منزل میں جاکر بیٹھ گئے۔ لوگ مسلسل آ رہے تھے۔ حضرت امام خمینی ؒ کی تشریف آوری مقررہ وقت پر ہونا تھی کہ جس میں آج تاخیر نظر آرہی تھی۔ ہم نے کچھ دیر انتظار کیا، پھر اچانک امام داخل ہوئے اور صحن کے ایک طرف تشریف فرما ہوگئے۔ تقریباً پندرہ منٹ امام بیٹھے رہے اور کچھ نہ بولے اور پھر اسی حالت میں اٹھ کر چلے گئے۔ اس کے بعد جناب خلخالی آئے اور انھوں نے گفتگو کی۔ لوگ ابھی بھی مسلسل آرہے تھے یہاں تک کہ باقاعدہ اعلان ہوگیا کہ امام گفتگو نہیں کریں گے۔

اس کے بعد ہم مدرسہ فیضیہ چلے گئے۔ مدرسہ فیضیہ کے  پروگرام کا وقت سہ پہر ۳ سے ۵ بجے تک کا تھا۔ ہم ۳ یا ۴ بجے مدرسہ فیضیہ گئے۔ اس وقت بھی لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ جناب انصاری قمی، جو مشہور واعظین میں سے تھے، منبر پہ خطاب کر رہے تھے۔ ان کی تقریر کے دوران ہی ایک شخص نے کہا: فلاں فلاں کی سلامتی کے لئے صلوات ۔۔۔ سب نے صلوات پڑھی اور جناب انصاری نے دوبارہ گفتگو شروع کی تو پھر مجمع میں ایک اور جگہ سے آواز بلند ہوئی۔ فلاں اور فلاں کی سلامتی کے لئے صلوات۔ لوگوں نے اب بھی صلوات پڑھ دی۔ اس بار بھی جناب انصاری نے اپنی تقریر کو جاری رکھنا چاہا تو مجمع سے پھر  صلوات پڑھوانے کا نعرہ بلند ہوا۔ اب معلوم ہوا کہ یہ پروگرام خراب کرنے کی سازش ہے۔ عین اسی وقت مجمع میں ہی بیٹھا ہوا ایک طالب علم اٹھا اور بلند آواز سے کہا: خاموش! (بکواس بند کرو!) اس کا یہ کہنا تھا کہ کچھ افراد اس کو مارنے کے لئے ٹوٹ پڑے۔ جناب انصاری کا تو کچھ پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ اس ہجوم سے کب اور کیسے نکلے؟ اور پھر ان لوگوں نے "جاوید شاہ" کے نعرے لگانا اور بیچارے طالب علموں کو مارنا پیٹنا شروع کردیا۔

میں بھی  فوراً بھاگا اور چچا زاد بھائی کے کمرے میں جاکر دم لیا۔ میرا چچا زاد بھائی اُس وقت اسی مدرسہ کا طالب علم تھا ۔۔۔ شاہ کے حامی ان حضرات کو اندھا دھند مار رہے تھے اور مغرب تک وہیں رہے۔ پھر وہ سیڑھیوں سے اوپر آئے اور کہنے لگے کہ کچھ (طالب علم اور دیگر افراد) کمروں میں چھپے ہوئے ہیں۔ بس پھر کیا! سب کے سب ہاتھوں میں ڈنڈے لئے ٹوٹ پڑے۔ ہمارے کمرے تک بھی پہنچ گئے اور دروازے پر آکر چلانے لگے کہ باہر نکلو۔ لیکن ہم جو چند ا فراد وہاں پر چھپے ہوئے تھے، کسی نہ کوئی بھی ردّ عمل نہیں دکھایا۔ وہ باہر کھڑے ہوکر چلاتے رہے۔ پھر دیکھا کہ کسی کی موجودگی کے کچھ آثار نظر نہیں آرہے۔ اتنے میں ایک بظاہر تہرانی شخص  جو طالب علم تھا یا شاہ کا حامی، نے لات مار کر دروازہ توڑا اور باقی کچھ افراد کمرے میں داخل ہوگئے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ بظاہر کمرہ خالی ہے تو  ہمیں مخاطب کرکے کہنے لگے پردوں کے پیچھے سے نکل آؤ جلدی۔ لیکن ہم (میں سے کوئی چوکا تک نہیں) نے اپنی سانسیں تک روکی ہوئی تھیں۔ وہ دوبارہ بولے ، ہم نے پھر بھی کوئی ردّ عمل نہیں دکھایا۔ آخرکار وہ مجبور ہوکر چلے گئے اور ساتھ والے کمرے میں چھپے افراد کی درگت بنانا شروع کردی۔ یہ تو خدا کا کرنا تھا کہ انھوں نے ہمیں نہیں دیکھا۔ ہماری زبانوں پر مسلسل ورد جاری تھا۔ جب اندھیرا چھا گیا تو کسی نے آکر کہا کہ: "باہر آجاؤاب، چلے گئے ہیں وہ" اب یہ پتہ نہیں کہ وہ بتانے والا طالب علم تھا یا کوئی اور۔  لیکن ہم جب باہر آئے تو اندھیرا مکمل چھا گیا تھا اور صحن بالکل خالی تھا۔ صحن میں عمامے، عبائیں اور دیگر سامان بکھرا پڑا تھا۔ اس وقت میرے پاس ایک عبا تھی، اسے میں نے بغل میں دبایا اور گیراج جانے کے لیے  سیڑھیاں اترنے لگا کیونکہ کچھ دوستوں نے رات ۸ بجے کی تہران سے روانہ ہونے والی ٹرین کی ٹکٹ خرید رکھی تھی۔ جب میں مدرسہ فیضیہ کے دروازے سے باہر نکلا تو کیا دیکھا کہ سڑک کے دونوں اطراف میں پولیس والے کھڑے ہیں۔ میں نےفوراً سر  کو جھکایا اور ان پولیس والوں کے بیچ میں سے آرام سے نکل کر گیراج کا رُخ کیا۔ دوستوں نے دیکھتے ہیں مجھ سے پوچھا: کہاں تھے؟ میں نے سارا قصہ سنا ڈالا۔ خلاصہ یہ کہ اس رات ہم سب دوست بس میں بیٹھے اور تہران واپسی کی راہ لی۔


15khordad42.ir
 
صارفین کی تعداد: 2424



http://oral-history.ir/?page=post&id=8943