یادوں بھری رات کا۳۰۴ واں پروگرام – دوسرا حصہ

وہ زمانہ جب میں ایک تاریک کمرے میں تھا ۔۔۔

مریم رجبی

مترجم: کنیز طیبہ

2019-11-24


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۳۰۴  واں پروگرام، جمعرات کی شام، ۲۵ جون ۲۰۱۹ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اس پروگرام میں بخشعلی علیزادہ، ابراہیم خدا بندہ اور محمد ہاشم مصاحب نے مجاہدین خلق آرگنائزیشن(منافقین) اور مرصاد آپریشن سے متعلق اپنے واقعات کو بیان کیا۔ اس رپورٹ کے پہلے حصے میں آپ بخشعلی  علیزادہ کے واقعات کو پڑھ چکے ہیں۔

پروگرام کے دوسرے راوی ابراہیم خدا بندہ تھے۔ انھوں نے کہا: "میں سن ۱۹۵۳ء میں تہران میں پیدا ہوا۔ سن ۱۹۷۱ء میں البرز ہائی اسکول سے ریاضی میں میٹرک کی سند حاصل کرنے کے بعد، میں پڑھائی جاری رکھنے کیلئے انگلستان چلا گیا۔ انقلاب کے بعد تک اسلامی انجمنوں کا ممبر رہا۔ سن ۱۹۷۸ء میں نوفل لوشاتو میں بھی سرگرم رہا تھا۔ میں سن  ۱۹۸۰ء سے انگلستان میں مجاہدین خلق فاؤنڈیشن میں بھرتی ہوگیا اور سن ۲۰۰۳ء تک، یعنی میں نے ۲۳ سال اس فاؤنڈیشن کے بین الاقوامی ارتباط کے حصے میں کام کیا۔ میں نے ۲۰ سے زیادہ ممالک کا سفر کیا اور اس سلسلے میں مجھے جو ذمہ داری سونپی گئی اُسے انجام دیا۔

جس زمانے میں فروغ جاویدان آپریشن (کہ جس کے مقابلے میں مرصاد آپریشن انجام پایا) ہوا، میں دبئی میں فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں کا انچارج تھا۔ وہاں کچھ تنظیمیں تھیں اور میں چند منافع بخش کمپنیوں میں، افرادی ، سیاسی اور مالی کاموں کو انجام دیتا۔ مجھ سے کہا گیا کہ تمہارے اختیار میں جتنے بھی افراد ہیں اُن سب کو عراق بھیج دو۔ انہیں بہت جلدی تھی۔ ہم نے کاموں کو بہت تیزی سے سمیٹا اور کمپنیوں کو بند کردیا۔ کچھ حمایت کرنے والے تھے کہ ہم نے سب کو چھٹی دیدی۔ ہمارے پاس دبئی میں شرطہ کے عنوان سے کچھ افراد تھے۔ وہ پولیس تھے۔ ہم نے کہا فی الحال ان سب سے رابطہ ہوا میں معلق ہے یہاں تک کہ دیکھیں گے کہ بعد میں کیا ہوتا ہے۔ میں نے سب کو عراق کی طرف روانہ کردیا  اور خود آخری فرد کے عنوان سے کویت، اردن اور اُس کے بعد بغداد کی طرف روانہ ہوا۔

مجھے کوٹ، پینٹ اور سامسونائٹ کے بیگ کے ساتھ ایئر پورٹ سے اشرف کے ہیڈ کوارٹر لے گئے۔ وہاں پر مجھے ایک زیتونی رنگ کا یونیفارم دیا گیا جس پر استری کی لکیریں بنی ہوئی تھیں لیکن وہ دو سائز بڑا تھا۔ ہمیں گاڑی میں بٹھایا گیا اور خانقین کے ہیڈ کوارٹر لے گئے۔ وہاں ہمیں توضیح اور تشریح دی گئی کہ آپریشن شروع ہوگیا ہے، افراد جا چکے تھے اور اس وقت واپس آرہے ہیں۔ کسی جگہ ایک فرد نے مجھ سے کہا: تم نے ابھی تک اپنے ہاتھوں میں کوئی اسلحہ لیا ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ اُس نے کہا: آج تک کوئی فائر کیا ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ وہ چند منٹوں کے اندر ایک کلاشنکوف لیکر آیا اور مجھے اُس کو چلانا سکھایا اور میں نے فائر کیا۔ اُس نے کہا: بس اتنی سی بات تھی۔ اب تم نے ٹریننگ حاصل کرلی ہے! جب فائرنگ ختم ہوگئی، میں نے اسلحہ کی نالی کو پکڑلیا اور جیسا کہ وہ گرم تھی، میرا ہاتھ نالی سے چپک گیا اور چھالا پڑ گیا۔ اُس نے کہا: تم تو بالکل ہی زیرو میٹر ہو تمہیں یہی نہیں پتہ کہ اتنی فائرنگ کرنے کے بعد، اسلحے کی نالی گرم ہوجاتی ہے او ر اُس کو ہاتھ نہیں لگایا جاسکتا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ بہت سے افراد اسی صورت حال  میں تھے؛ یعنی لوگوں کو باہر سے بہت تیزی کے ساتھ جمع کیا تھا۔

خانقین میں چونکہ کافی حد تک اسٹریچر اور افراد نہیں تھے، مجھے انچارج بنا دیا تھا کہ میں زخمیوں کو گود میں اٹھا کر ایک کیمپ کے اندر لے جاؤں جو ہسپتال کی طرح کا تھا۔ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کون سا زخمی زندہ ہے اور کون سا مر چکا ہے۔ زخمیوں کو ٹرک کے اندر ایک کے اوپر ایک ڈال کر لاتے تھے اور ہم انہیں اتارتے تھے۔ میرا پورا لباس اور چہرہ خون میں غرق ہوچکا تھا۔ ایک آدمی میری طرف متوجہ ہوا اور اُس نےکہا: فوراً لیٹ جاؤ، تم شاید بہت زیادہ زخمی ہوگئے ہو! میں نے کہا: مجھے تو کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ یہ میرا اپنا خون نہیں ہے۔ آپریشن اس طرح سے ختم ہوا۔ جس طرح کہ جناب علیزادہ نے کہا، اس ناکامی  سے نظامی نقصان ہونے سے زیادہ، تمام افراد کو نفسیاتی طور پر نقصان پہنچا چونکہ ہم سب کا تصور یہ تھا کہ  بہت آسانی سے تہران تک پہنچ جائیں گے۔

میں مختصراً اپنے سابقہ کام کے بارے میں بتادوں۔ جس زمانے میں ہم باہر کام کرتے تھے، بعض اوقات ہمیں نشستوں میں شرکت کیلئے عراق لے جاتے تھے۔ ہم اپنی باری آنے تک کبھی ایک سے دو مہینے عراق میں رہتے تھے۔ ہماری مسعود رجوی کے ساتھ نشست ہوتی تھی۔ وہ ہمارے سیاسی کاموں کیلئے ہمیں قانع کیا کرتا اور ہم واپس چلے جاتے۔ ان سفروں میں سے ایک دفعہ مجھے فوجی حکمت عملی کی کلاسز میں لے گئے۔ احمد واقف  کہ جس کا اصلی نام مہدی براعی اور وہ فاؤنڈیشن کے کمانڈروں میں سے تھا، وہ بجلی کی سرعت والے حملے کی ٹریننگ دیتا تھا۔ وہ کہا کرتا کہ اس طرح کا  کام، پہلے ہٹلر کے ذریعے انجام پایا؛ جرمنی کے باشندے اُسے پلک جھپکنے والی جنگ کہتے ہیں۔ ہٹلر اس طریقہ کار سے چھ دنوں کے اندر فرانس کے تمام  مورچوں سے عبور کرسکا اور اس ملک پر قبضہ کرلیا۔ کام کا طریقہ کار اس طرح سے ہے کہ بہت دھیمے انداز میں اور تیزی کے ساتھ حرکت کی جاتی ہے۔ فروغ جاویدان آپریشن بھی مکمل طور پر انہی بنیادوں پر تھا، سب کے سب ہائی وے پر، تیز رفتاری کے ساتھ اور حتی زرھی ٹینک بہت ہلکے ، پہیے والے برازیل کے کاسکاول ٹینکس تھے۔ اُس زمانے میں عراق کی ایران کے ساتھ جنگ برابری کی بنیاد پر نہیں تھی۔ اس اعتبار سے برابر نہیں تھی کہ عراق، فرانس سے میراژ، روس سے سوخو اور سویڈن سے اسکانیا خریدتا، لیکن ایران پابندیوں کی وجہ سے حتی خار دار تاریں بھی نہیں خرید سکتا تھا۔ جنگ اس صورت میں جاری تھی۔  میں نے بعد میں اس موضوع کے بارے میں پڑھا۔ منافقین کے ایران پر حملہ کرنے کا طریقہ ، داعش کے حملے اور موصل کی تسخیر سے بہت شباہت رکھتا ہے۔ یعنی اُسی صورت میں انجام پایا۔ بہت ہی کم عرصے میں ایرانی توپ خانوں اور ٹینکوں کے خطوط کو پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ طے پایا تھا کہ چند آپریشنوں میں تیاری کرلی جائے او ر اُس کے بعد آخری آپریشن اور تہران کی فتح حاصل ہو۔ سب سے پہلے فکہ کو  تسخیر کرنے کیلئے آفتاب آپریشن اور مہران کو تسخیر کرنے کیلئے چلچراغ آپریشن انجام پایا ۔ طے تھا مغربی اسلام آباد کو تسخیر کرنے کیلئے ایک اور آپریشن انجام دیا جائے اور اُس کے بعد کرمانشاہ کی طرف بڑھا جائے۔ وہ جو کچھ ہوا اور جس نے مجاہدین خلق فاؤندیشن کو اُس لمحے حیرت میں ڈال  دیا، ایران کا ۵۹۸ قرار داد کو قبول کرنا تھا۔ اُس نے تما م حساب کتاب کو خراب کرکے رکھ دیا۔ اس کے فوراً بعدمسعود رجوی صدام حسین سے ملنے گیا۔ قرار داد قبول کرنے کا پہلے مقدمہ، جنگ بند کرنے کو قبول کرنا تھا۔ رجوی نے صدام سے کہا کہ وہ جنگ بندی کو قبول نہ کرے  اور اُس نے اُس سے وعدہ کیا کہ اس جنگ میں حتماً کامیابی ہوگی، چونکہ اُن کی منصوبہ بندی مکمل ہے۔ صدام کا جواب یہ تھا کہ میں نے پہلے اس قرارداد کو قبول کیا ہے، اس کے علاوہ یہ کہ اب مجھ میں جنگ جاری رکھنے کی ہمت نہیں۔ فقط رجوی صدام کو قانع کرنے میں کامیاب رہا کہ وہ چند دنوں کیلئے چھٹیوں پر چلا جائے، جنگ بندی کا اعلان نہ کرے اور  جب تک یہ آپریشن انجام نہیں پاجاتا کوئی جواب نہ دے، لہذا فاؤنڈیشن کا منصوبہ تبدیل ہوگیا  اور مغربی اسلام آباد پر قبضہ کرنا  جو ایجنڈے میں شامل تھا، وہ تہران  کی طرف جانے سے بدل گیا۔

آپریشن پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے تحت مغربی اسلام آباد تک جاری رہا اور کرمانشاہ کی طرف حرکت کرنا شروع کردی۔ فاؤنڈیشن کو ایک دفعہ پھر ایران کی طرف سے غفلت  کا سامنا ہوا اور وہ یہ تھا کہ ایران فاؤنڈیشن کے برخلاف  قدیمی فوج کے ساتھ آگے نہیں آیا۔ شہید صیاد شیرازی نے مکمل طور سے جنگ کے منصوبے کو تبدیل کردیا۔ جنگ کا منصوبہ اس صورت میں تھا کہ انھوں نے صرف رضاکار افراد لئے اور انہیں کلاشن اور آرپی جی سے مسلح کیا اور آپریشن والے علاقے کے راستے کے اطراف میں موجود بلندیوں پر لوگوں کو پہنچادیا گیا تھا۔ جیسا کہ ایسی صورت میں فاؤنڈیشن کی حرکت، توپ، ٹینک ، طیارے اور بمباری کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ جس طرح کہ آپ نے دیکھا موصل پر فوراً ہی قبضہ ہوگیا اور قدیمی فوج ذرا بھی مقابلہ نہیں کرسکی۔ حلب میں بھی اسی صورت میں تھا  اور قدیمی فوج داعش کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں کرسکی۔ یہ معاملہ ایران میں مختلف تھا۔ ایرانی فورسز کو فوراً مجاہدین کے حرکت کرنے والے راستے کے اطراف میں موجود ٹیلوں پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے لے جایا گیا  اور وہ وہاں کمین لگا کر بیٹھ گئے، خاص طور سے چہار زبر کے موڑ پر۔ اسی وجہ سے اس آپریشن کا نام مرصاد (کمین) رکھا گیا، چونکہ اصلی قضیہ، دشت حسن آباد، ماھی دشت، سیاہ خور اور خاص طور سے چہار زبر کے موڑ پر مجاہدین کا توقف تھا۔ مجاہدین کرمانشاہ کے نزدیک رک جاتے ہیں  اور سپاہی بکھر جاتے ہیں۔ میں جن لوگوں سے بات کر تا، وہ کہتے کہ ہر طرف سے کلاشنکوف  کی گولیاں برس رہی تھیں، جیسے بالکل ہمارے قریب ہیں۔ یہ عقب نشینی کرنے پر مجبور ہوگئے اور جانی نقصان بھی اٹھایا۔ یہ کام ، جیسا کہ بعد میں داعش نے بھی اس سے استفادہ کیا، اس کی چند خصوصیات ہیں۔ ایک یہ کہ حملہ کرنے والے سپاہی کوشش کرتے ہیں کہ تیزی کے ساتھ لوگوں میں شامل ہوجائیں۔ اس کام سے سامنے والی فوج کیلئے راستہ بند ہوجاتا ہے، یعنی وہ فضائی بمباری یا بھاری اسلحے سے استفادہ نہیں کرسکتے۔ جب مجاہدین سڑک پر لوگوں کے آمد و رفت کی جگہ پر چلتے تھے، جب وہ شہروں میں داخل ہوتے تھے، حتی ایرانی طیارے اُن سڑکوں پر بمباری نہیں کرسکتے تھے جس پر یہ چل رہے ہوتے تھے، چونکہ ان کے درمیان عام لوگ بھی ہوتے تھے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ درندگی کے ساتھ وارد عمل ہوا جاتا ہے، وہی کام جسے داعش انجام دیتی۔ مرصاد آپریشن میں حتی حیوانات پر بھی رحم نہیں کیا گیا۔ کھیتوں اور گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ لوگوں کے دلوں میں رعب اور وحشت کی حالت ایجاد کر دی جاتی۔ بعض افراد جو مرصاد میں تھے، وہ ہم سے کہتے کہ ہمیں کہا گیا ہے کہ قیدی نہیں پکڑنا ہے! جو بھی سامنے آجائے، حتی اگر وہ اپنے آپ کو تسلیم بھی کردے، آپ اُس کو  مار دیں!انھوں نے حتی اسلام آباد کے ہسپتال سے بیماروں کو ہسپتال کے بیڈوں سے اٹھا کر ہسپتال کے احاطے میں جمع کیا اور اُن پر گولیاں برسا دیں! اس خبر پھیلا دیا گیا۔ وہ اس طریقہ کار سے وارد عمل ہوئے تھے لیکن چہار زبر میں مرصاد میں پھنس گئے اور عقب نشینی کرنے پر مجبور ہوگئے۔

اس آپریشن کیلئے بہت سے امریکائی [جو فاؤنڈیشن کے ممبر تھے] فوراً امریکا سے آگئے اور آپریشن میں شریک ہوگئے  اور اس بات کی گواہی امریکیوں کے وہ جلے ہوئے پاسپورٹ دیں گے  جو چہار زبر میں، حال ہی میں بننے والے عجائب خانہ میں نمائش کیلئے رکھے گئے ہیں۔ فاؤنڈیشن نے جو منصوبہ بندی کی تھی، وہ زیادہ غیر منطقی نہیں تھی۔ بعد میں داعش نے شام  اور عراق میں جس منصوبہ پر عمل کیا تھا، وہ وہی منصوبہ تھا کہ فاؤنڈیشن جس پر  ایران کے مغرب میں عمل کرنا چاہتی تھی۔ بعد میں مسعود رجوی کے دل میں شہید صیاد شیرازی کیلئے بہت کینہ پیدا ہوگیا تھا، چونکہ اُس نے کسی بھی صورت میں ایسے نتیجے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ ایک دفعہ صدام حسین کے بیٹے پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا، رجوی نے صدام سے کہا کہ یہ شہید صیاد کا کام ہے تاکہ اُنہیں  قتل کرنے کیلئے، صدام سے مدد حاصل کرے۔ مجاہدین نے داعش کی طرح افراد کے ذہنوں کو کنٹرول کرنے کیلئے اسلام سے حد سے زیادہ سوء استفادہ کیا تھا۔ یعنی یہ افراد واقعاً یہ سوچتے تھے کہ وہ اسلام کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ میں مسعود رجوی کی باتوں کے بارے میں سوچا کرتا تھا۔ ایک دفعہ مرصاد آپریشن کے بعد جب وہ عقب نشینی کرنے پر مجبور ہوا، اُس نے کہا ہمارا ایران کے خلاف محاذ، پہلے شام، پھر عراق اور اُس کے بعد ایران ہے! مجھے بالکل بھی اُس کی باتوں کا مطلب سمجھ نہیں آیا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ وہ کس طرح پہلے شام، پھر عراق اور اُس کے بعد ایران آئے گا؟ یہ کیسا منصوبہ ہے؟! یہ بات ایک کوڈ ورڈ تھا کہ ہم نے بعد میں اس بات کے معنی کو عملی صورت میں دیکھا۔ فاؤنڈیشن کی داعش سے ایک اور مشابہت یہ تھی کہ فاؤنڈیشن کے سپاہیوں کو یورپ اور امریکا سے ترکی لایا گیا اور انہیں ترکی سے عراق میں داخل  کیا گیا۔ یعنی فاؤنڈیشن کے تمام افراد اس صورت میں آئے، حتی وہ لوگ جو ایران میں تھے، پہلے ترکی اور اُس کے بعد عراق کی طرف گئے۔ داعش نے بھی اسی صورت میں اپنے سپاہیوں کو جمع کیا۔"

اس کے بعد، یادوں بھری رات کے پروگرام کے میزبان سید داؤد صالِحی نے کہا: "آپ ہمیں نجات سائٹ کے بارے میں بھی بتائیں تاکہ یادوں بھری رات کے پروگرام میں آئے ہوئے افراد جان لیں کہ آپ، جناب علیزادہ اور آپ کے دوسرے دوست کس کام میں مشغول ہیں؟" خدا بندہ نے جواب میں کہا: "مجھے نہیں معلوم آپ لوگوں کو خبر ہے یا نہیں، لیکن ایرانی سپریم قومی سلامتی کونسل نے ایک قانون پاس کیا ہے کہ رہبر نے بھی اس قانون  کی تائید کی ہے۔ قانون یہ ہے کہ اگر منافقین کے افراد توبہ کرلیں اور اس فاؤنڈیشن سے باہر آجائیں تو  اُنہیں معاف کردیا جائے گا، وہ ایران واپس آکر آزادانہ طور پر زندگی گزار سکتے ہیں۔ میرے پاس تقریباً ستر لاکھ افراد کے اعداد و شمار ہیں جو آزادانہ طور پر ایران میں اس صورت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے افراد نے نہیں چاہا کہ اُن کی شناخت اور اُن کا سابقہ فاش نہ ہو اور ایران کی عدلیہ نے بھی اس بات کو قبول کرلیا ہے۔ اس بات کے بغیر کے کوئی اُن کی سابقہ زندگی کے بارے میں جانے، وہ ایران میں زندگی گزار رہے ہیں اور کام و کاج میں مصروف ہیں۔ ان افراد میں سے کچھ لوگ، ہم نے، انجمن نجات کے نام سے ایک انجمن بنائی ہے۔ یہ انجمن سن ۲۰۰۵ میں بنی اور ہم نے کوشش کی کہ فاؤنڈیشن کے افراد کے گھر والوں سے رابطہ قائم کریں۔ بہت سے گھر والوں کو پتہ نہیں تھا کہ اُن کے فرزند اشروف چھاؤنی میں ہیں۔ دراصل وہ لاپتہ تھے۔ ہم نے ان گھرانوں کے عراق جانے کا مسئلہ حل کیا۔ یہ لوگ بہت زیادہ دفعہ گئے۔ ہم نے اُن کے فرزندوں کی نشانیاں دیں کہ یہ فرد ان مشخصات کے ساتھ اشرف چھاؤنی میں ہے۔ ہم فاؤنڈیشن کے افراد کی ایک لسٹ بنانے میں کامیاب ہوئے اگر کوئی شخص ہم سے رجوع کرے  اور پوچھے کہ فلاں شخص فاؤنڈیشن میں ہے؟  تو ہم کافی حد تک یہ بات طے کرسکتے ہیں کہ یہ شخص فاؤنڈیشن میں ہے یا نہیں؟ بہت سے افراد مارے چکے تھے اور اُن کے گھر والوں کو پتہ نہیں تھا، یا لاپتہ ہوگئے تھے اور ہمیں پتہ چلا کہ وہ فاؤنڈیشن میں ہیں۔ ہم اس کام کو اسی طرح جاری رکھیں گے۔

ہماری کوشش نجات کیلئے ہے؛ کس معنی میں نجات؟ ایک یہ کہ وہ افراد جو فاؤنڈیشن کے ہاتھوں قید و گرفتار ہیں  یا حتی ذہنی طور پر قید ہیں  اور وہ فاؤنڈیشن کے پروپیگنڈے کے دھوکے میں آگئے ہیں، اُن کو باہر نکال سکیں۔ یہ بہت سخت کام ہے، کیونکہ اُن سے رابطہ کرنا ممکن نہیں ہے! لیکن ہم اس مدت میں انکشاف کرنے اور آگاہی فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ میں خود ایران کی تمام یونیورسٹیوں میں گیا ہوں اور وہاں جاکر بات کی ہے۔ میں نے ٹیلی ویژن پر بہت سے انٹرویو ز دیئے ہیں۔ بہت سے ڈاکومنٹریز بنائی ہیں۔ مجاہدین خلق فاؤنڈیشن اب بھی مختلف ناموں سے جوانوں کو بھرتی کر رہی ہے؛ مثال کے طور پر سوشل میڈیا پر صحافی کو  بھرتی کرتے ہیں۔ ایک جوان رضاکارانہ طور پر حاضر تھا۔ انھوں نے اُس سے چاہا کہ وہ اُن کیلئے یونیورسٹی سے خبریں لائے اور وہ اُسے اس کام کے پیسے دیتے۔ کچھ عرصے بعد اُس سے کچھ اور قسم کے کام کا تقاضا کرنے لگتے ہیں اور اُسے بعد میں پتہ چلا کہ یہ جو کام مجھ سے کروانا چاہتے تھے ، یہ تو جاسوسی ہے اور یہ ایسی معلومات ہیں جو نہیں جانی چاہئیے اور اُس نے ڈھونڈ کر دوسروں کو دیں۔ اُس نے کہہ دیا تھا: میں تعاون نہیں کروں گا۔ اُس سے کہتے ہیں: ان دو سالوں میں تم ہمارے لئے کام کر رہے تھے، دراصل تم مجاہدین خلق فاؤنڈیشن کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔ ہم اگر یہ بات سیکیورٹی ادارے والوں کو بتادیں، تو تم جانتے ہو کہ تمہارے ساتھ کیا ہوگا۔ وہ بندہ خدا ایک سال تک اسی طرح اور ڈر کے مارے اُن کے ساتھ تعاون کرتا رہا یہاں تک کہ ایک دن جاکر اُس نے اپنے آپ کو پیش کردیا۔ فاؤنڈیشن بہت ہی ماہرانہ انداز میں لوگوں کو جذب کرتی ہے۔ مسعود رجوی کہا کرتا تھا: ہمارا ایک اہم ترین جذب، نظام کے سب سے پہلے صدر کو جذب کرنا تھا۔ میں نے اپنے کانوں سے سنا کہ رجوی بات کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ جب انقلاب آیا، ہر  کوئی پارٹی بنانے اور سیاسی کام کرنے کے درپے تھا،  لیکن ہم ایک فوجی اسٹرکچر کی تلاش، ملائیشیا کی تشکیل اور اسلحہ جمع کرنے کے درپے تھے اور ہم نے اپنے نفوذ کرنے والے افراد کو ہر جگہ بھیجا؛ جہاں بھی ہمارے نفوذ کرنے والے افراد اپنے اثر چھوڑنے میں کامیاب ہوئے، انھوں نے اپنا اثر چھوڑا، جیسے صدر مملک بنی صدر کا دفتر اور جہاں وہ اپنا اثر چھوڑنے میں کامیاب نہیں ہوئے، اُس جگہ کو دھماکے سے اُڑا دیا، جیسے جمہوری پارٹی کا دفتر۔ وہ بارہا  کہا کرتا کہ ہم انقلاب کے شروع سے اپنے آپ کو ایران سے فوجی مقابلے کیلئے تیار کر رہے تھے۔  مسعود رجوی  سن ۱۹۸۱ سے پہلے دو مرتبہ مخفیانہ طور پر فرانس گیا۔ وہاں فرانس کی حکومت کے ذریعے عراق سے متصل ہوا اور یہ طے پایا تھا کہ سن ۱۹۷۹ میں عراقی باہر سے اور مجاہدین اندر سے اسلامی جمہوری کے کام کو تمام کردیں۔

اسیروں کے کیمپ سے رابطے کے بارے میں مجھے یاد ہے کہ فاؤنڈیشن کا ایک مسئول مہدی ابریشم چی بیان کرتا ہے کہ ہم نے عراقی حکومت سے موافقت کرلی ہے کہ کیمپوں کے حالات اور شرائط کو شدت کے ساتھ سخت کریں۔ اُس کے بعد فاؤنڈیشن کے ممبران وہاں جاتے اور حتی مجاہدین خلق فاؤنڈیشن کا نام لئے بغیر، کہا کرتے کہ ہم ایران کے چیریٹی ادارے کے افراد ہیں، ہم آپ لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور پھر آپ کو یورپ لے جائیں گے۔ خاص طور سے وہ افراد جو جسمانی تکالیف میں مبتلا تھے اور بہت زیادہ دباؤ کا شکار تھے، وہ اُن کے دھوکے میں آجاتے۔ ان افراد میں سے بعض لوگوں سے میرا رابطہ تھا۔ فلاں شخص کہتا کہ میں نے دو سالوں سے شیمپو، صابن اور گرم پانی کو نہیں دیکھا یا کہا کرتے کہ  دو سالوں سے دانت کے درد میں مبتلا ہوں  لیکن کوئی علاج نہیں ہو رہا، لیکن فاؤنڈیشن میں انہیں سہولت فراہم کی جاتی اور اُن کا علاج کرتے تھے اور پھر آہستہ آہستہ بتا دیتے کہ یہ جگہ مجاہدین خلق سے مربوط ہے اور ماجرا یہ ہے۔ بہت سے افراد واپس جانا چاہتے تھے، اُن سے کہتے کہ آپ لوگ یہاں رہے ہیں اور اگر واپس جائیں گے، کوئی بھی آپ کی باتوں پر یقین نہیں کرے گا اور آپ کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا۔ یعنی اس ڈر سے کہ اگر میں واپس چلا جاؤں تو مجھے پھانسی ہوجائے گی فاؤنڈیشن میں روک جاتے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کے پاس ریڈ کراس والوں کا نمبر تھا۔ ریڈ کراس والے اُن سے انٹرویو لیتے اور کہتے کہ آپ چاہیں تو ایران واپس جاسکتے ہیں  یا فاؤنڈیشن میں ہی رہ سکتے ہیں۔ اُس کے بعد مسعود رجوی نے ایک نشست رکھی۔ میں اُس نشست میں تھا۔ اُس نے ان تمام افراد کو جمع کیا اور کہا کہ آپ لوگوں کیلئے ایک چال چلی گئی ہے، آپ لوگوں کو ایران لے جانا چاہتے ہیں، ٹارچر اور پھانسی دیں گے۔ جب آپ لوگ ریڈ کراس والوں کے پاس جائیں، اُن سے کہیں کہ ہم فاؤنڈیشن میں واپس جانا چاہتے ہیں۔ بہت سے لوگ ڈر گئے اور اپنے آپ سے کہنے لگے کہ اگر ہم ایران واپس چلے گئے، ہم کیا جواب دیں گے کہ ہم کیوں مجاہدین فاؤنڈیشن میں تھے؟ اُن میں سے ایک بڑی تعداد ایران واپس آگئی کہ میں اُن میں سے کافی لوگوں سے رابطہ میں تھا۔ وہ بتاتے تھے کہ ذرا بھی اذیت اور تکلیف  نہیں تھی۔ اُن لوگوں کو معاف کردیا گیا ، حتی اُن کے قید میں رہنے والی مدت کا بھی لحاظ رکھا گیا۔ یعنی اپنی طرف سے اس حد تک مہربانی اور تعاون  کو دکھایا گیا۔ البتہ کچھ لوگ ڈر بھی گئے اور وہیں رہے، لیکن آہستہ آہستہ جب صدام کا تختہ اُلت گیا اور کچھ لوگ البانیہ چلے گئے، وہ لوگ الگ ہوگئے۔

متأسفانہ لوگوں کے پاس فاؤنڈیشن سے متعلق جو معلومات ہیں، اُس کی سازشوں اور اُس کی خیانتوں کے بارے میں وہ بہت کم ہیں۔ سوائے چند افراد کے جو  امور کی دیکھ بھال  کرتے تھے، عام لوگ جو کچھ ہوا یعنی ظلم  اور دھوکہ دہی کے پہلوؤں سے بے خبر ہیں۔ مثال کے طور پر عراق میں فاؤنڈیشن کے ممبران سے کہا جاتا کہ آپ اپنے گھر والوں کو فون کریں، صدام نے تہران پر میزائل مارا ہے، آپ دیکھیں کہ آپ کے گھر والے صحیح و سلامت ہیں  یا نہیں؟ یہ ہمارے لئے عجیب تھا کہ فاؤنڈیشن ہمارے گھر والوں کی فکر میں ہو۔ ایک سسٹم کے ذریعے کہ جس دو طرفہ کہا کرتے تھے، عراق سے جرمنی یا فرانس فون کرتے تھے اور وہاں سے ایران  کہ فون سننے والے سمجھتا تھا کہ جرمنی یا فرانس سے فون آیا ہے۔ فون کرتے اور پوچھتے: آپ خیریت سے ہیں؟ وہ لوگ کہا کرتے: خیریت سے ہیں۔ یہ پوچھتے: میزائل لگا ہے؟ اُس موقع پر عراق ایران پر میزائل مارتا،  ان فون کے ذریعے مشخص ہوجاتا کہ میزائل کہاں لگا ہے۔ فاؤنڈیشن ان معلومات کو جمع  کرتی  اور عراقی میزائل برسانے والوں کیلئے  مفت کا واچ مین تھا کہ وہ لوگ بعد والے میزائل کو صحیح جگہ پر گرائیں۔ نہ فاؤنڈیشن کے اُس ممبر کو اور نہ ہی اُس گھرانے کو پتہ چلتا ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ وہ پیچیدہ ترین شرائط میں بھی ایران کے اندر کی معلومات حاصل کرلیتے اور ابھی بھی  یہ کام کر رہے ہیں۔ وہ لوگ اس وقت سب سے زیادہ فائدہ سوشل میڈیا سے اٹھا رہے ہیںَ مثلاً اینسٹا گرام پر مختلف پوسٹوں کے ذریعے وارد ہوتے ہیں اور دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ اپنے بارے میں بالکل بھی کچھ نہیں بتاتے اور آہستہ آہستہ کوشش کرتے  ہیں کہ جوانوں کو اپنے اندر جذب کریں۔ وہ کسی بھی صورت میں بہت زیادہ اور عام لوگوں  کو جذب کرنا نہیں چاہتے۔ وہ بہترین کو جذب کرنا چاہتے ہیں۔ خاص طور سے وہ افراد جو کلیدی موضوعات رکھتے ہیں یا ایسے جوان جن کے والد کلیدی موضوعات رکھتے ہیں تاکہ اس طرح وہ ایران کے اندر نفوذ کریں۔"

حاضرین میں سے ایک نے پروگرام کے میزبان تک ایک سوال پہنچایا کہ جس میں پوچھا گیا تھا:"آپ کس طرح ۲۳ سال تک وہاں رہے اور آپ کو اس پلیدی اور نجاست کے بارے میں پتہ نہیں چلا اور اس وقت آپ اس پلیدی اور نجاست کے بارے میں بات کر رہے ہیں؟! میزبان نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: "ایک دفعہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایران کی وزارت اطلاعات اور عدلیہ  کہتی ہے کہ اگر کوئی توبہ کرلے، وہ آئے اور آکر اپنی معمولی زندگی کا آغاز کرے۔ یعنی تحقیق کے بعد اس بات پر بہت یقین رکھتے ہیں کہ  وہاں پر ایک اہم برین واشنگ  کی جا رہی تھی۔ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ وہ شخص جو آیا ہے، شاید جاسوس ہے، شاید کسی پلید نقشہ کے ساتھ آیا ہے، لیکن وہ جانتے ہیں کہ وہاں پر کیا کچھ ہوا ہے۔ یعنی وہ برین واشنگ اتنی زیادہ تھی کہ آپ ۲۳ سال تک  اُس میں درگیر رہے تھے اور اپنی خدمات پہنچاتے رہے۔ آپ اتنے سالوں تک وہاں  تھے ہمیں بتائیں کہ کیا ہوا؟"

خدا بندہ نے کہا: "یورپ میں اور خاص طور سے فرانس میں ایک انجمن بنائی گئی ہے جس کا عنوان "مائیں، فراموش شدہ قربانیاں" ہے۔ یہ داعش کے ممبران کی مائیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر ایک فرانسیسی جاتا ہے اور جاکر مسلمان ہو جاتا ہے، وہ شام جنگ کرنے جاتا ہے اور آخر میں ایسی جگہ پہنچ جاتا ہے کہ لوگوں کے سر کاٹ رہا ہے۔ ذہن کو کنٹرول کرنے کی بحث ہے۔ میں نے "فرقہ ھا در میان ما" نامی ایک کتاب کا ترجمہ کیا ہے۔ اس کتاب کو مارگریٹ ٹیلر سینگر نامی خاتون نے تالیف کیا ہے۔ چاہے مجاہدین خلق ہوں یا داعش ہوں، یہ لوگ اسلام یا مسیحیت کے بہانے خراب ذہن کو استعمال کرنے کا طریقہ استعمال کرتے ہیں۔

میرے ایران آنے کا طریقہ کار یہ تھا کہ میں نے شام (سوریہ) میں ایک مشن انجام دینا تھا۔ ایک ایرانی تاجر کے روپ میں کہ میں ایران سے شام تجارت کیلئے گیا ہوں،  میں عراق سے فرانس دو میلیون ڈالر بھیجنے میں مصروف تھا۔ میں شام میں اپنے دوست کے ساتھ گرفتار ہوجاتا ہوں۔ کسی طریقے سے دو مہینے بعد، ہماری اصلیت کھل جاتی ہے۔ ہمیں آدھی بیہوشی کی حالت میں ایران کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ ہم اوین جیل میں چلے گئے۔ تفتیشی افسر میرے قریب آیا۔ میں نے فوراً کہا کہ میرے گوشت، کھال اور ہڈیوں میں رجوی رچا بسا ہوا ہے، تلاشی لو تاکہ ہم واپس جائیں، تمہاری معلومات حاصل کرنے کی حسرت تمہارے دل میں ہی رہ جائے گی! تفتیشی افسر نے مجھ سے پوچھا؛ آپ نے رات کا کھانا کھایا ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ شاید جہاز میں میرا سر اور چہرہ بندھا ہوا تھا۔ اُس نے کہا: خالی پیٹ تو گفتگو نہیں کی جاسکتی، میں کھانے  کی تلاش میں جاتا ہوں۔ وہ گیا اور اُس نے واپس آکر کہا: بہت معذرت، کھانا ختم ہوچکا ہے۔ آؤ چلیں ہم خود ہی کچھ بناتے ہیں۔ وہ مجھے نگہبانوں کی طرف لے گیا۔ چائے خانہ کی طرح کا کمرہ تھا۔ اُس نے ہاف فرائی انڈا بنایا اور اُس کے ساتھ آٹے کا حلوا بھی لے آیا۔ دستر خوان بچھایا۔ میرے دوست نے کہا:  میں نے کئی سالوں سے آٹے کا حلوا نہیں کھایا۔ ہم نے کھانا تناول فرمایا اور صبح کی اذان تک باتیں کرتے رہے۔ ہم بالکل بھول چکے تھے کہ ہم اسلامی جمہوریہ ایران کے اندر ہیں اور جیسا کہ رجوی کہتا تھا، ہمارے اور جمہوری اسلامی کے بیچ میں ایک خون کا دریا ہے! اِس کے بعد اُس نے کہا: آپ لوگ جاکر سوجائیں۔ دوسرے دن صبح کے وقت آئے اور ہمیں گاڑی میں بٹھا کر تہران کی سیر کروائی۔ میں ۳۲ سالوں سے ایران نہیں آیا تھا۔ میں تہران کی کسی جگہ کو نہیں  پہچانتا تھا۔ دوسرا دن بھی اسی طریقہ سے گزر گیا۔ بالآخر تفتیش  کی باقاعدہ نشست شروع ہوئی۔ تفتیشی افسر آیا اور اُس نے کہا: تفتیش کرنے والا سوال پوچھے گا اور ملزم  جواب دیگا۔ مجھے کوئی سوال نہیں کرنا۔ میں جو چیز جاننا چاہتا ہوں، وہ مجھے پتہ ہے۔ اگر تمہیں کوئی سوال کرنا ہے تو مجھ سے پوچھ لو۔ یعنی یہ معاملہ برعکس ہوسکتا ہے۔ تم جوکہ ملزم ہو، تم سوال کرو اور میں جو کہ تفتیشی افسر ہوں، میں جواب دوں گا۔ خلاصہ یہ کہ ہم نے بہت بحث و تکرار کی۔ میں نے کہا: آپ لوگوں نے اسی اوین جیل میں حاملہ عورتوں کو پھانسی پر لٹکایا ہے! تفتیشی افسر نے کہا: اگر میں نے ثابت کردیا جن دلائل کی بنیاد پر کسی کو اوین جیل میں پھانسی نہیں دی جاتی ، اُن میں سے ایک دلیل حاملہ ہونا ہے، تو کیا تم فاؤنڈیشن کی حمایت کرنا چھوڑ دو گے؟ میں نے کہا: نہیں! نشستیں اس طرح گزر رہی تھیں۔ ہم اُس کے پاس جاتے اور وہ ہمارے سامنے ٹافیاں اور مٹھائی پیش کرتا، ہم گپ شپ لگاتے اور واپس چلے جاتے۔ ہم ہر دو مہینے بعد جاتے تھے اور وہ تفتیشی افسر ہماری مہلت بڑھا دیتا۔

میری جو ذہنیت بن چکی تھی میں اُس کی وجہ سے اوین جیل میں ٹی وی نہیں دیکھتا تھا اور اخبار نہیں پڑھتا تھا؛ میں کہتا: یہ نظام کا ٹی وی ہے، میں اسے نہیں دیکھوں گا! میں کتاب نہیں پڑھا کرتا تھا! میں کوشش کرتا تھا جس طرح میں نے ٹریننگ حاصل کی ہے اور جس طرح مجھے کنٹرول کیا گیا،  میں اپنے ذہن کو اُسی حالت میں رکھوں۔ کہ ایک دن میرے بھائی، مسعود خدا بندہ  جو رجوی کے بہت نزدیک اور انگلینڈ میں تھا، وہ الگ ہوا یا ایک طرح سے کہا جا سکتا ہے فرار کر گیا، اُس نے میرے لیے "فرقہ ھا درمیان ما" نامی کتاب بھیجی۔ میں نے اُس کی ورق گردانی کی تو دیکھا وہ امریکا میں موجود  فرقوں کے بارے میں ہے۔ میں نے دیکھا کہ یہ کتاب نہ ایران اور نہ ہی مجاہدین خلق سے کوئی ربط رکھتی ہے، پس میں نے اُسے پڑھنا شروع کردیا۔ جب میں نے اس کتاب کو پڑھا، جیسے میرے سامنے سے پردے ہٹ گئے ہوں۔ کتاب ذہن کو کنٹرول کرنے اور برین واشنگ کے بارے میں  تھی۔ میں نے دیکھا کہ اس کتاب میں جن تمام حربوں کا ذکر آیا ہے، بالکل اُنہی حربوں کو فاؤنڈیشن میں لاگو کیا گیا ہے۔ بعد میں مسعود نے کہا کہ میں نے یہ کتاب امریکا سے رجوی کیلئے بھیجی۔ اُس نے مجھے دی اور میں نے اُس کا ترجمہ کردیا۔ نفسیات سے متعلق بہت سی کتابیں بھیجتے۔ مسعود کے فاؤنڈیشن سے جدا ہونے کی وجہ بھی یہی نفسیات سے متعلق کتابیں تھیں جو امریکا سے آتی تھیں اور ان سب پر فاؤنڈیشن میں عمل ہوتا تھا۔ میرے بھائی نے ایک کتاب "زندگی در اشراف" لکھی ہے۔ اُس نے اُس میں لکھا ہے کہ ایک دن چار امریکی صحافی  فرانس میں رجوی سے ملنے گئے۔  اُن کے لباس ایک جیسے تھے۔ اُن کا حلیہ صحافیوں والا نہیں تھا۔ وہ لوگ زیادہ تر جاسوسی کرنے والے ادارے کے کارکن لگ رہے تھے۔  رجوی نے اپنی تمام ملاقاتوں کے برعکس، اُن سے بغیر مترجم کے بات کی۔ رجوی کی انگلش اتنی اچھی نہیں تھی کہ وہ اُن سے آرام سے بات کرلے، لیکن وہ مترجم رکھنے کیلئے راضی نہیں ہوا۔ اُس میٹنگ کے بعد اُس نے عراق جانے کا فیصلہ کیا اور عراق ، آزادی بخش  فوج و غیرہ کا پروگرام شروع ہوا۔ مسعود کہتا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ یہ امریکی منصوبہ تھا کہ وہ عراق جائے۔ اُس زمانے میں عراق مغربیوں کیلئے محبوب تھا۔ محمد محدثی، بین الاقوامی تعلقات میں ہمارے مسئول تھے۔ برطانیہ کے وزارت دفاع میں ایک دفعہ ہماری ملاقات تھی کہ وہاں پر میں مترجم کی حیثیت سے تھا۔ انھوں نے کہا کہ آپ صدام حسین کے ساتھ گئے ہیں اور مشخص تھا کہ وہ مغربیوں کیلئے محبوب ہے۔ طارق عزیز امریکا جایا کرتا اورریگن  وائٹ ہاؤس  میں آتش کدے کے سامنے اُس کی پذیرائی کیا کرتے۔ وائٹ ہاؤس میں مہمانوں کی پذیرائی کیلئے سب سے اعلیٰ پروٹوکول، آتش کدے کے سامنے ہے؛ مثال کے طور پر نتین یاھو وہاں جاتے ہیں۔ رامسفیلڈ جو بعد میں وزیر دفاع بنا، جنگ کے دوران ایک وفد کے ساتھ آتا ہے اور صدام سے ملاقات کرتا ہے۔ صدام کے ہاتھ کھلے تھے اور وہ جہاں سے چاہتا اسلحہ اور وسائل لے لیتا۔

اس سوال کے جواب میں کہ سب لوگ مجھ سے ہی پوچھتے ہیں، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ فرض کریں  آپ ۲۳ سال سے ایک تاریک کمرے میں ہیں۔  آپ کو صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کمرے میں کیا ہو رہا ہے۔ پھر اچانک کوئی بلب جلا دیتا ہے۔ آپ کو یہ سمجھنے کیلئے کتنا وقت لگے گا کہ  اس کمرے میں کیا ہو رہا ہے؟  ۲۳ سال کا عرصہ لگے گا؟ نہیں! آپ ایک لمحہ میں سمجھ جائیں گے وہ تمام باتیں جو آپ سے کہی گئیں ہیں، جھوٹی تھیں۔ اس کتاب نے میرے ساتھ یہی کام کیا۔ اچانک سے پردے کو ہٹا دیا۔ اگر شام کے جیل میں مجھے اختیار دیا جاتا کہ میں اوین یا ابو غریب میں سے کسی ایک جیل کا انتخاب کرلوں، میں حتمی طور پر ابو غریب کا انتخاب کرتا۔ مثلاً ہم سے کہا جاتا کہ تہران کی میونسپلٹی کے کارکنوں کا ایک کام یہ ہے کہ وہ صبح سویرے آتے ہیں اور لاشوں کو نالیوں کے اندر سے نکال کر جمع کرتے ہیں، لوگوں کے باہر نکلنے سے پہلے! کہا کرتے تھے کہ اگر کسی خاتون نے میک اپ کیا ہو تو اُس کے ہونٹوں پر بلیڈ  مار دیتے ہیں! میں نے ابھی حال ہی میں سنا ہے کہ ٹرمپ نے کہا ہے: ایران کے لوگ ایک روٹی کیلئے ترس رہے ہیں! دشمن کا پروپیگنڈہ مسلسل چل رہا ہے۔ مجھے کافی حد تک انگریزی آتی ہے اور میں دوسرے پیشے کے عنوان سے  سیاحوں کا میزبان ہوں اور ترجمہ کرتا ہوں۔ میرا بہت سے غیر ملکی باشندوں سے سامنا ہوتا ہے یا  وہ صحافی جو ایران آتے جاتے ہیں ، میں اُن سے بات کرتا ہوں۔ ان ۱۶ سالوں میں جب سے میں ایران میں ہوں، مجھے ایک بھی ایسا غیر ملکی باشندہ نہیں ملا جس نے یہ نہ کہا ہو: میں نے ایران میں جو دیکھا، جو میرے ذہن میں تھا اُس سے ۱۸۰ ڈگری  فرق کرتا ہے۔ یعنی بالکل مختلف ہے۔ فاؤنڈیشن پروپیگنڈا کیا کرتی تھی کہ  جو کوئی بھی ایران جائے تو اُس نے غداری کی ہے، چونکہ ایران جانے کا مطلب یہ ہے کہ اُس نے انٹیلی جنس ادارے کے ساتھ تعاون کیا ہے؛ ورنہ وہ کیسے ایران چلا جاتا اور زندہ واپس بھی آجاتا؟! حتی ایسے لوگ رہے ہیں جنہوں نے دو مرتبہ ہجرت کی ہے۔ یعنی میں بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو تقریباً سن  ۱۹۸۱ میں ہجرت کرکے ایران سے چلے گئے، لیکن دوبارہ اپنے سامان اٹھا کر ایران واپس آگئے ہیں۔

ذہن کے کنٹرول ، پروپیگنڈے اور برین واشنگ کی بحث بہت ہی سنجیدہ ابحاث میں سے ہے  کہ داعش میں بھی اس سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ جس وقت میں جیل میں تھا، ایک دفعہ القاعدہ  کے دو افراد بھی میرے ساتھ تھے۔ اُن میں سے ایک کہتا ہے: فلاں کتاب میں لکھا ہوا ہے، امام علی (ع) نے فرمایا کہ تمہاری سب سے بڑی دشمن، تمہاری عقل ہے! میں نے کہا: عقل فقہ کے ارکان میں سے ایک ہے، تم یہ بات کہاں سے کر رہے ہو؟ مثال کے طور پر جب ٹیلی ویژن پر سید حسن نصر اللہ کو دکھایا جاتا، وہ جاتا اور ٹیلی ویژن پر تھوک دیتا اور اُن کی تصویر سے جھگڑا کرتا! تفتیش کرنے والے تمام افراد حوصلے، صبر اور متانت سے کام کرتے تھے۔ اس طرح سے کہ حتی کبھی میری برداشت بھی جواب دے جاتی! تفتیش کرنے والے کی کوشش یہ تھی کہ حقیقت کو پہچنوائیں۔ جب میں اوین جیل میں گیا، میں نے اپنے آپ کو ہر چیز کیلئے تیار کرلیا تھا۔ میں سخت ترین اور جان لیوا اذیتیں سہنے کیلئے تیار تھا۔ حتی پھانسی کے پھندے پر بھی لٹکنے کیلئے تیار تھا۔ میں صرف ایک چیز کیلئے آمادہ نہیں تھا، یہ کہ ہم بیٹھ کر ایک ساتھ گفتگو کریں۔ یہ کام فاؤنڈیشن میں نہیں ہوتا تھا۔ منطقی بحث کرنےکیلئے  میرے پاس دلائل کم ہوتے اور میں نہیں کر پاتا۔ مثلاً میں دیکھتا کہ تفتیش کرنے والا  تنقید کرتا ہے اور بہت سی تنقیدوں کو قبول کرتا ہے، لیکن میں منافقین پر ہونے والا چھوٹا سا اعتراض بھی برداشت نہیں کرپاتا۔  میرے ذہن کا حساب کتاب گڑبڑا گیا؛ یہ کیسے ہوسکتا ہے انٹیلی جنس ادارے کا ایک تفتیشی افسر ہو لیکن  اعتراض کو قبول کرلے؟ وہ مان لیتا اور کہتا: تمہاری باتیں صحیح ہیں، ہمارے پاس فلاں چیز کی کمی ہے۔ میں اُس کی طرح نہیں ہوسکا۔ مجھے احساس ہو رہا تھا کہ میں آہستہ آہستہ ٹوٹ رہا ہوں۔ ایک جگہ پر آکر میرا ذہن میرے کنٹرول سے نکل گیا۔ اچانک سے مجھے ایسے لگا جیسے میں بغیر کسی سہارے کے  ہوں۔ میں جب تک اُس عقیدہ پر تھا، مطمئن تھا اور میں شکنجوں، پھانسی اور ہر کام کیلئے آمادہ تھا، لیکن اچانک مجھے پتہ تھا کہ اب تک جو سنا تھا، جھوٹ تھا۔ یہ کہ اب تک میں جس قبر کے کنارے بیٹھا آنسو بہا رہا تھا اُس میں تو کوئی جنازہ ہی نہیں   ہے۔ وہاں پر تفتیش کرنے والے نے میری مدد کی۔ حتی اُس نے  مجھے دوبارہ سے حوصلہ دیا اور مجھے کھڑا کیا۔ حتی پہلے دن انھوں نے کہا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ تمہیں وہی پہلے والا ابراہیم خدابندہ،   جیسا کہ تم تھے ویسا بنا دیں؛ وہی کہ جو اسلامی انجمن میں تھا، وہی  کہ جو نوفل لوشاتو میں تھا۔ خلاصہ یہ کہ ایک مقام پر آکر تمام چیزیں واضح ہوگئیں۔"

حاضرین میں سے کسی نے پوچھا: "مسعود رجوی کے انجام کے بارے میں بتائیں؟  کیا واقعاً وہ کومہ میں چلے گیا ہے یا کچھ اورانجام ہوا ہے؟ خدابندہ نے جواب دیا: "مسعود رجوی نے فاؤنڈیشن کی تقدیر کو صدام کی تقدیر سے جوڑ دیا۔ حقیقت میں صدام کی پھانسی کے بعد وہ بھی پیچھے ہٹ گیا۔ فاؤنڈیشن صدام حسین کے بعد مغرب میں اُس کی جگہ کسی جایگزین کی تلاش میں تھی۔  بہترین جایگزین اسرائیل اور سعودی عرب تھے۔ وہ لوگ فاؤنڈیشن سے اُس کی سابقہ شکل میں استفادہ کرنا نہیں چاہتے تھے۔ یعنی مغرب میں ایسی فاؤنڈیشن کو قبول کرنا  ممکن نہیں تھا جس نے شاہ کے زمانے میں امریکیوں کو قتل کیا ہو،  اپنے اندر ہی انسانی حقوق کے قوانین کو روندا ہو اور جس نے صدام کا ساتھ دیا ہو۔ وہ ان تمام سابقہ چیزوں کو صاف  کرکے ایک نئی غیر دہشت گرد  فاؤنڈیشن سے استفادہ کرنا چاہتے تھے؛ ایسی فاؤنڈیشن جس نے اسلحہ کو ایک طرف رکھ دیا ہے اور اب سیاسی کاموں میں مشغول ہے۔ لہذا سعودی عرب نے فاؤنڈیشن کو مسعود کو ہٹانے کا مشورہ دیا، لیکن اگر فاؤنڈیشن یہ کام کرتی، تو وہ دوہرے پن اور تناقض کا شکار ہوجاتی؛ ذہن کو کنٹرول کرنا اور برین واشنگ مسعود رجوی کی جذاب شخصیت کی بنیاد پر فاؤنڈیشن میں انجام پاتا تھا۔ یعنی اگر فاؤنڈیشن میں یہ کہا جاتا کہ ہم نے مسعود رجوی کو ہٹا دیا ہے، تمام کاموں کی بنیادیں تباہ ہوجاتیں۔ ان تمام صفات کے ساتھ مسعود رجوی ہے بھی اور نہیں بھی۔ وہ فاؤنڈیشن کی بین الاقوامی سرگرمیوں میں نہیں ہے۔ کسی جگہ بھی حاضر نہیں ہوتا۔ اُس کی تصویر، آواز اور کوئی تحریر نہیں ہے، لیکن فاؤنڈیشن کے اندر اُس کے پیغامات کو پڑھتے ہیں تاکہ بتایا جاسکے وہ ہے۔ یہ کہ جسمانی طور پر اُس کا سر زمین کے اوپر ہے یا زمین کے اندر ہے اتنا اہم نہیں ہے، اہم یہ ہے کہ مغرب نے مسعود رجوی سے خالی فاؤنڈیشن کو اپنی اختیار میں لے لیا ہے اور وہ اُس کو ہٹا چکی ہے۔ اسی وجہ سے ترکی فیصل نے مجاہدین کی نشست میں، جان بوجھ کر مرحوم مسعود رجوی کے کلمہ سے دو بار استفادہ کیا۔ فاؤنڈیشن نے اس بات کی تکذیب کی، لیکن ترکی فیصل اُس کے بعد بھی اُن کی بات کی تکذیب کرنے کیلئے تیار نہیں ہوا  اور اُس نے کوئی جواب بھی نہیں دیا۔ فاؤندیشن کے ایک رکن سے پوچھا گیا کہ اُس نے مسعود رجوی کیلئے اس کلمے سے کیوں استفادہ کیا؟ اُس نے کہا: یہ کلمہ احترام کی وجہ سے تھا! اس شخص کے ساتھ کوئی بھی حادثہ پیش آیا ہو، وہ چاہے جس ملک میں بھی ہو، زندہ ہو یا مردہ ہو، سیاسی اور اجتماعی منظر نامہ پر اُس کا کوئی مقام نہیں۔ وہ لوگ فاؤنڈیشن کو مریم رجوی کے ساتھ  آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس سال اُس ویلپنت نامی سالانہ جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی کہ جس میں تمام امریکی آتے تھے اور نظام کی تبدیلی کے بارے میں باتیں کرتے تھے۔ بولٹن، گینگریج، جولیانی و ۔۔۔ جیسے مہمان نہیں آئے۔ فاؤنڈیشن بروکسل کے ایک چوک پر چھوٹا سا مظاہرہ کرنے پر مجبور ہوئی۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ایران کے خلاف وہ حملے اور الزامات لگانے اور وہ جدوجہد جو ایران کی طرف سے دیکھی ، اُس کے بعد  امریکامجاہدین فاؤنڈیشن سے استفادہ کرنے کو ختم کر رہا ہے۔  اس وقت بھی یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ مریم رجوی کو کینسر ہوگیا ہے۔ شاید وہ بھی مسعود رجوی  کے پاس چلی جائے  اور وہ کسی دوسرے شخص کو لانا چاہ رہے ہوں۔

جدا ہونے والے افراد کے سینکڑوں واقعات اور تجربات نجات سائٹ پر موجود ہیں۔ جہاں پر دنیا کی ممکنہ ڈکٹیٹر شپ کی اعلیٰ ترین حد پر عمل کیا جاتا ہے اُن میں سے ایک جگہ اشرف  کا کیمپ ہے۔ ہم وہاں کے بارے میں جو تصویر آپ کو دکھا رہے ہیں وہ بہت چھوٹی اور ناچیز ہے۔ اشرف کیمپ کے اندر جو شخص تنقید کرتا ہے، اُسے بے شمار بلاؤں اور مشکلات میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ سوال پوچھنا ممنوع ہے۔ گھر والوں کے بارے میں سوچنا ممنوع ہے۔ شادی اور عطوفت ممنوع ہے۔"

جاری ہے ۔۔۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2486



http://oral-history.ir/?page=post&id=8899