چہلم کی پیادہ روی کا سفرنامہ لکھنے کے لئے دس نکات

وہ سفرنامے جو انٹرویو کی بدولت دلچسپ ہوجاتے ہیں

از قلم: محمد مہدی عبد اللہ زادہ

مترجم: سید نعیم حسین شاہ

2019-11-24


کچھ وجوہات کی بنا پر کافی عرصہ سے سفرنامہ نویسی کے متعلق دلچسپی اور افادیت سامنے آ رہی ہے، ایک زمانے میں جب آج کی طرح سفر کرنے کی سہولیات میسر نہ تھیں اور نہ ہی آج کی طرح کا  تیز مواصلاتی نظام ہوا کرتا تھا، انگشت شمار افراد ہی سفر کیا کرتے تھے اور پھر دوران سفر کے واقعات و تجربات کو تحریر کرتے تھے تاکہ دوسرے لوگ استفادہ کریں ۔ پس بنابر این سفرنامہ، راوی کے واقعات اور تفصیلات سے تشکیل پاتا ہے ۔ اس طرح جب فوٹو گرافی کا رواج نہیں تھا تو بعض افراد پینٹنگ کے ذریعے روداد سفر بیان کرتے تھے۔

ہر سفر نامہ  جہاں راوی کے واقعات کو بیان اور پھر محفوظ کرتا ہے وہیں اگرچہ ضمنی طور پر ہی سہی جغرافیائی، تاریخی، ادبی اورانسانی معلومات بھی فراہم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے سفرنامے، نئے سفر کرنے والوں کی رہنمائی کے لئے منبع کی حیثیت رکھتے ہیں اور ساتھ ساتھ ان افراد کے لئے بھی مفید ہوتے ہیں جو تاریخ، مذہب، سیاست اورمعاشرے کے مسائل  میں تحقیق کرنا چاہتے ہوں۔ پس ایک سفرمانہ نویس کو اخلاقی مہارت دکھاتے ہوئے واقعات کو ان کی اصلی شکل اور حقیقت کے ساتھ بیان کرنا چاہیے نہ کہ اپنی سوچ اور دوسروں کے ذوق کے مطابق۔

ہمارے ملک ایران میں سن ۲۰۱۱ سے اربعین کے سفر نے باقاعدہ شکل اختیار کی اور اربعین کے حوالے سے سفر نامہ نویسی کی تحریک کو کافی سراہا گیا۔ چہلم کے سفرنامے کے عنوان سے متعدد کتابیں چھپیں۔ میڈیا میں سفرناموں پر مقالات کو کافی کوریج دی گئی۔ کاش وہ وقت بھی آجائے کہ جب کم از کم اربعین کے زائرین کی آدھی تعداد ہی سفرنامہ لکھنے لگے، بھلے مختصر ہی کیوں نہ ہو۔

میرے خیال میں درج ذیل نکات کا خیال رکھنے سے چہلم کے سفرنامے لکھنے کی کمیت اور کیفیت میں بہتری آسکتی ہے:

۱۔ جو لکھنا چاہتے ہیں پورے یقین کے ساتھ لکھئے۔ شک و شبہ اور تردید پیدا نہ ہونے دیجئے۔ نیز تحریر رواں اور بیان سادہ ہو کیونکہ ہمارا ہدف ادبی متن لکھنا نہیں۔ گفتگو جیسا عام فہم انداز تحریر میں اپنائیے اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ قاری آخری تحریر تک اکتاہٹ سے دوچار نہیں ہوگا۔

۲۔ اگر تصاویر لینے کا امکان موجود ہو تو ضرورت کی حد تک متعلقہ تصاویر ضرور لیں کیونکہ مخاطب اور قاری کے لیے ہماری تحریر میں جان اگرآئے گی تو مناسب تصاویر سے آئے گی۔ ایک ایک تصویر وہ وہ مطالب بیان  کردیتی ہے جنہیں بیان کرنے سے قلم عاجز ہوتا ہے۔

۳۔ آج ذرائع ابلاغ تحریر، تصویر اور فلم کے ذریعے اربعین کے مسافروں کی رپورٹیں پیش کرتا ہے جو بذاتِ خود قابل تحسین ہے لیکن اس کی ایک مشکل ہے اور وہ یہ کہ اربعین کے سفرنامہ نویس  کا کام قدرے مشکل ہوجاتا ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا سفرنامہ کسی دوسرے سفرنامے کے ساتھ شباہت اختیار نہ کرے تو اس کا بہترین راہ حل "انٹرویو" ہے۔ بس آپ کو عراقی لوکل عربی کے ہزار کے قریب الفاظ آنے چاہئیں۔ اگر ایسا ہے تو عراقی عوام اور موکب والوں سے آپ ہمکلام ہوسکتے ہیں اور اگر آپ کے لیے عربی الفاظ  سیکھنا مقدور نہ ہو تو پھر کوئی مترجم ہمسفر آپ کی یہ مشکل حل کرسکتا  ہے۔ اب آپ کے سفرنامے میں  جہاں انٹرویو ہوگا وہاں اس میں دلچسپی آہی جائے گا۔

۴۔ ہر پیشے کا اپنا ایک خاص اخلاق ہوتا ہے۔ اسی اصول کے تحت سفرنامہ نویسی کرنے والا عوام الناس اور تاریخ کی نسبت امین ہوا کرتا ہے۔ واقعات، تجربات اور مشاہدوں میں کسی چیز کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینا، حقیقت میں خیانت ہے ۔ جو جیسا ہے اسے من و عن ویسا ہی بیان کیجئے، نہ کم نہ زیاد۔

۵۔ اس طرح کے روحانی سفرنامہ لکھنے کے لئے دیگر تمام افراد کی طرح راستے میں لگے عمودوں (پولوں) کو قدم بہ قدم پیچھے چھوڑنا ہوگا۔ بس آپ کی ان پر پڑنے والی نگاہ بغور ہونی چاہیے۔ جس شخص نے چاہے کسی بھی وجہ سے مشی نہیں کی یا کم کی ہے تو اس نے اسی حساب سے وہ تجربہ کھو دیا ہے جو اسے مشی سے حاصل ہونا تھا۔ مثال کے طور پر تقریباً سات سو عمود گزارنے کے بعد زائرین کی رفتار اور روش میں تبدیلی آجاتی ہے۔ اور اگر کوئی سفرنامہ نویس پانچ سو عمود سے زیادہ پیدل نہ چل سکے تو اس کی تحریر کی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں کیونکہ اس نے نہ ہی زائرین کے پاؤں پر چھالے، خستہ حال بدن، تھکے چہرے  اور نہ ان موکبوں کا اندر سے مشاہدہ کیا جہاں زائرین کے پاؤں اور کندھوں کی مالش کی جاتی ہے۔

۶۔ جزئیات کی طرف توجہ رکھنے کی اپنی خاص اہمیت ہے۔ اس سفرنامہ نویسی کی ایک بڑی مشکل جزئیات کو نظر انداز کرنا اور کلی بات کرنا ہے۔ سفرنامہ ایسا ہو کہ جس میں قارئین کو ہر ممکنہ سوال کا جواب ملے مثال کے طور پر جب تحریر میں کھانے کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں تو بتائیے کہ دن کے کھانے میں نجفی چنے کی دال اور قیمہ کا سالن تھا۔ اس سے پڑھنے والے کو خودبخود تجسس ہوگا کہ ایرانی  چنے کی دال اور قیمہ کے سالن اور نجفی چنے کی دال اور قیمہ کے سالن میں کیا فرق ہے؟ تو پس اسی رو سے اس نجفی کھانے میں استعمال ہونے والی اشیاء کا ذکر اور پکنے کا طریقہ بھی سفرنامے کا حصہ ہوگا۔

۷۔ سفرنامے میں راوی، جگہ اور وقت کی جزئیات بیان کرنے سے بھی اس میں چاشنی آتی ہے کیونکہ واقعات کی اہمیت اور بہتر ادراک تب ہی حاصل ہوگا جب مشاہدات و تجربات اور انٹرویوز کے وقت اور جگہ  کو سرسری لیکن لازمی طور پر بیان کیا جائے۔

۸۔ آپ کو اپنی تحریر کی نسبت تعصب ہونا چاہیےیعنی دوسروں کی تنقید اور آراء سے ہرگز مت گھبرائیں اور آخر تک ڈٹے رہیں جو لوگ دوسروں کی تنقید اور آراء سے ڈرتے ہیں دراصل وہ اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔

آپ اپنا سفر نامہ عوامی ہاتھوں تک پہنچانے کے لئے اسے کتابی شکل دے سکتے ہیں۔ اگر تحریر کا حجم کم ہے تو متعلقہ سائٹس پر ڈال دیں۔ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ذاتی ویبلاگ بناکر مختصر وقت میں یہ کام انجام دے سکتے ہیں۔ اپنے ذاتی ویبلاگ پر اپنا سفرنامہ ڈال کر گویا آپ نے ان افراد کی مشکل آسان کی ہے جو اربعین کی مشی کے متعلق تحریری مواد کے متلاشی ہیں۔

۹۔ کچھ افراد، سفرنامے کو سفر میں ہی مکمل کر دیتے ہیں اور کچھ مطلوبہ عناوین کو فوری طور پر لکھ لیتے ہیں اور مناسب جگہ پہنچ کر وضاحت دے دیتے ہیں اور کچھ تو تصاویر بناکر محفوظ کرلیتے ہیں جبکہ کچھ اپنے تجربات اور مشاہدات کو ریکارڈ کرلیتے ہیں تاکہ بعد میں تحریر کرسکیں۔ چونکہ اس سفر کا دورانیہ بذاتہ کم ہے اور زائر زیادہ تر سفر میں رہتا ہے تو اس رو سے مناسب یہی ہے کہ ہر فرد اپنے ذوق اور سلیقہ کے مطابق اس سفرنامہ کو قلم و قرطاس کے سپرد کرے۔

۱۰۔ اربعین کے متعلق سفرنامہ لکھنے کا طریقہ اگر آپ کو چاہیے تو میرا مشورہ یہ ہے کہ اس موضوع پر لکھے گئے دیگر افراد کے سفرنامے پڑھئیے اور پڑھ کر فوراً خود لکھنا شروع کردیں۔ دوسروں کے تحریر کردہ سفر نامے پڑھنے کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ آپ کے اندر سفرنامہ کا انگیزہ پیدا ہوگا۔ ایسا کرنے سے آپ ضمناً جہاں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی مہارت حاصل کرلیں گے وہاں لازمی طور پر یہ بھی سیکھیں گے کہ زیادہ لکھنے سے آپ کی تحریر میں روانی اور چاشنی آئے گی اور یہ جان لیں کہ اس سفرنامہ کے تحریر کرنے میں یہ بات قطعا ضروری نہیں ہے کہ آپ کا انداز تحریر کسی مشہور کاتب  کی تقلید ہو۔



 
صارفین کی تعداد: 3510



http://oral-history.ir/?page=post&id=8897