جسے آپ تلاش کر رہے ہیں، وہ میں ہی ہوں!

مترجم: سید نعیم حسین شاہ

2019-11-12


انقلاب کے اوائل میں حالات بہت سنجیدہ تھے، کوئی بھی ’’لویزان‘‘ چھاؤنی جانے کو تیار نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ عمید زنجانی صاحب کو پوچھنا پڑا: ’’کیا کوئی ’’لویزان‘‘ چھاؤنی جانے کے لیے تیار ہے؟‘‘

 میں نے اپنے تئیں سوچا کہ  ’’کاخ سعد آباد ‘‘  جانے کو تو بہت سے افراد تیار ہوں گے، تو کیوں ناں میں ’’لویزان‘‘ چھاؤنی چلا جاؤں! وہاں ایک ٹیکسی ڈرائیور تھا جو کمیٹی میں ہوتا تھا اسے ملا کر ہم چار دیگر افراد نے اسلحہ اٹھایا اور گاڑی میں بیٹھ کر ’’لویزان‘‘ چھاؤنی کی طرف چل پڑے۔

خود مجھے درست معلومات نہیں تھیں کہ لویزان ہے کہاں؟ بس ڈرائیور سے کہا لویزان جانا ہے!

مغرب کے قریب ہم وہاں پہنچے۔ پہلے تو ہم نے ٹیلی فون ایکسچینج کا چکر لگانا ضروری سمجھا جو چھاؤنی کے برابر میں تھا اور اپنا ٹھکانا بھی وہی بناکر احباب کو وہاں بٹھا دیا۔ ایسا کرنے سے وہاں کا کنٹرول کسی حد تک ہمارے اختیار میں آگیا۔ دراصل ٹیلی فون ایکسچینج پہلے پہنچنے کا ہمارا مقصد یہ تھا کہ سننے میں یہ بات آئی تھی کہ فوج کا اصلی مواصلاتی سسٹم اسی ایکسچینج میں نصب تھا۔ سو ہم ڈر رہے تھے کہ کہیں فوج اسے خود ہی خراب نہ کردے ورنہ بعد میں چھاؤنی خالی ہاتھ رہ جائے گی یہی سوچ کر ہم نے ایکسچینج کی سیکیورٹی کا منصوبہ بنالیا۔ رات کو ہم وہیں رکے اور وہیں ہم نے ترانہ ’’ایران، ایران‘‘ پہلی بار ریڈیو سے سنا، گویا انقلاب اسلامی کامیابی سے ہمکنار ہوچکا تھا جس کی ہمیں تہہ دل سے بہت خوشی محسوس ہو رہی تھی۔

اگلے دن میں اکیلا لویزان چھاؤنی کے اندر گیا، بری فوج کے کمانڈر کا ہیڈ کوارٹر ’’لشکرک روڈ‘‘ کے سامنے والی سڑک پر تھا۔ میں اندر گیا گارڈ روم کا چکر لگایا۔ اطراف کا باریک بینی سے جائزہ لیا، میں نے دیکھا کہ کچھ افراد ’’چیذر‘‘ کمیٹی سے چھاؤنی کی حفاظت کے لئے آئے ہیں۔ جناب موسوی کو دیکھا جو مشہد میں جیل کے اندر میرے ساتھ تھے۔ وہ ’’چیذر انقلاب کمیٹی‘‘ کے ہیڈ کے بھائی تھے۔ میں نے ان سے علیک سلیک کی۔ جب ہم چھاؤنی میں (پہرے کی خاطر) گشت کر رہے تھے تو اچانک مجھے لگا کہ اس چھاؤنی کے جنگلے جیسے میں نے پہلی بھی کہیں دیکھے ہیں۔ سوچ بچار سے کام لیا تو پتہ چلا کہ یہ وہی جنگلے ہیں جب مجھے مشہد جیل سے پوچھ گچھ کے لئے یہاں (تہران) لایا گیا تھا۔ ساواک کے سپاہیوں نے مجھے کالے شیشوں والی عینگ پہنا رکھی تھی، اسی وقت عینک کے اطراف سے میری نگاہ ان جنگلوں پر پڑی تھی۔

جب مجھے [مشہد سے] پوچھ گچھ کی غرض سے تہران لا رہے تھے تو مجھے کچھ اندازہ نہیں تھا کہ کہاں لے کر جا رہے ہیں۔ لیکن ان جنگلوں کو دیکھ کر مجھے مزید جائزہ لینے کا تجسس ہوا۔ اب جو میں آفیسر گارڈ بلڈنگ میں داخل ہوا تو پتہ چلا کہ بالکل اسی جگہ پر مجھے قید میں رکھا گیا تھا۔ تفتیش کے لئے مجھے یہاں رکھا گیا تھا۔ اُس وقت جو میرا حبس خانہ تھا اب وہاں مشین گن نصب تھی۔ یہ ماجرا میرے لئے سبق آموز تھا۔ ایک وارننگ تھی۔ مجھے لگا کہ یہ تقدیر الہی تھی کہ میں اتنے سارے مراحل تھے کروں حتی کاخ سعد آباد جانے سے چشم پوشی کروں اور ’’لویزان‘‘ چھاؤنی کا رُخ کروں اور یہاں آکر اپنی آنکھوں سے دیکھوں کہ چھ ماہ پہلے جس جگہ میں پہلوی حکومت کے سیاسی جیل میں قیدی بن کر آیا تھا آج وہ جگہ ہمارے قبضہ میں ہے اور آج میں اسی جگہ کا فاتح بن کر آیا ہوں۔

مجھے یقین آگیا کہ یہ اللہ کی مشیت ہے۔ اور اس نے ہی یہ سب کچھ کیا اور یہ سارے پروگرام بنائے۔ میں وہاں سے نکل کر احاطے کے اندر گشت کرنے لگا۔ اپنی سوچوں میں گم ٹہل رہا تھا کہ میری نگاہ ایک ادھیڑ عمر فرد پر پڑی جو ’’چیذر‘‘ کمیٹی کے اراکین میں سے تھا اور چھاؤنی کے داخلی دروازے پر کھڑا ہے۔ میں اس کے پاس گیا اور ایسے ہی گپ شپ شروع کردی۔

باتوں باتوں میں اس نے پوچھا: ’’کہاں کے رہنے والے ہو؟‘‘ میں نے کہا: خراسانی ہوں اور لُر زادہ کمیٹی کی طرف سے چھاؤنی کی حفاطت کے لئے آیا ہوں۔

اس نے پھر پوچھا: کیا آپ اس آفیسر کو جانتے ہیں جس نے چند ماہ قبل مشہد میں چھاؤنی کے کمانڈر کو مارا تھا؟

میں مسکرا دیا اور کچھ نہ کہاَ تھوڑا رک کر کہا: ’’ہاں جانتا ہوں۔‘‘

وہ دوبارہ بولا اور کہا: اسے تفتیش کے لیے یہاں لایا گیا تھا لیکن ابھی کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے۔ ہمارا یہ خیال تھا کہ لویزان چھاؤنی کے تہہ خانوں میں ہوگا۔ جبھی تو ہم یہاں آئے ہیں تاکہ اسے آزاد کروائیں لیکن اس کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ اب مجھے ہنسی آگئی، میں نے کہا: ’’جسے آپ تلاش کر رہے ہیں وہ میں ہی ہوں!‘‘

مزے کی بات یہ ہے کہ وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ میں جو یہاں پہرے دے رہا ہوں ضرور یہیں سے آزاد ہوا ہوں اور اب اسلحہ اٹھا کر یہاں چھاؤنی کی حفاظت کر رہا ہوں۔ اسے یہ خبر نہ تھی کہ میں ایک بڑا یوٹرن لے کر [مشہد سے] یہاں پہنچا ہوں۔ میں نے سارا ماجرا اسے سنا دیا اور اس بات پر زور دیا کہ یہ سب اللہ کا کرنا تھا تاکہ میں یہاں آکر اپنی آنکھوں سے حقیقت حال دیکھوں۔ وہ بندہ خدا تو مان ہی نہیں رہا تھا۔ مذاق سمجھ رہا تھا لیکن جب اسے یقین آگیا تو مجھے صحیح و سالم دیکھ کر خوش ہوا۔

اس نے پوچھا:’’تو کیا آپ نے اپنی فائل تلاش کرکے یہاں سے اٹھالی ہے؟‘‘

میں نے پوچھا: ’’کیوں اٹھاؤں؟‘‘

اس نے کہا کہ ’’لازمی اٹھالیں سب ایسا ہی کرتے ہیں۔‘‘

میں نے کہا: میرے خیال میں اس کی ضرورت نہیں۔

اس نے پھر سے کہا: بھئی اٹھالو اپنی فائل ۔۔۔!

میں نے اس کی طرف دیکھا اور اپنے آپ سے کہا کہ یار اسے دیکھو ۔۔۔ کہہ رہا فائل اٹھالو۔ کیا ہوگا فائل اٹھالینے سے وہ بھی اس وقت کہ جب انقلاب حال ہی میں رونما ہوا ہے اور ابھی کئی مشکلات و مسائل باقی ہیں۔ اس نے چند نام بھی لیئے اور بتایا کہ ان افراد نے جاکر اپنی فائلیں اٹھالی ہیں۔ میں نے کہا: میں اساسی طور پر اس طرح کے کام میں دلچسپی نہیں رکھتا اور مجھے اپنی فائل کی اطلاع بھی نہیں کہ کہاں ہے؟ میرے خیال میں اس کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اپنی فائل اس لئے اٹھالوں اگر شاہ واپس آگیا تو دوبارہ گرفتار کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو۔

میں کوئی ہفتہ بھر وہاں رہا ہوں اور چھاؤنی کی حفاظت کی ذمہ داری میرے پاس تھی۔ جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ کافی تک امن و امان قائم ہے اور کوئی خاص مشکل نہیں ہے۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2440



http://oral-history.ir/?page=post&id=8880