تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – چھٹی قسط

مجتبیٰ الحسینی

مترجم: سید مبارک حسنین زیدی

2019-10-13


ج۔ صدام کی تصاویر

وزارت نشرو اشاعت نے صدام کی مختلف رنگین تصاویر کو چھاپنے اور اُسے منتشر کرنے اور اسی طرح صدام کی تصویر کے ساتھ مختلف میڈلز تیار کرکے انہیں تقسیم کرنے کا اقدام کیا۔ اسکول میں پڑھنے والے اسٹوڈنٹس مجبور تھے کہ وہ اسکول میں داخل ہوتے وقت اپنے سینوں پر یہ میڈلز لگائے، اس کے علاوہ کلائی پرباندھنے والی گھڑی کے شیشے کے نیچے صدام کی تصویر لگائی گئی اور مختلف سائز میں اُس کے مجسمے بنائے گئے اور انہیں بڑے بڑے شہروں میں داخل ہونے کی جگہ پر نصب کردیا گیا۔ انھوں نے اسی حد پر اکتفاء نہیں کیا، لوگوں کو اپنے گھروں میں صدام کی تصویریں لگانے پر مجبور کیا۔ بالآخر ۵ دینار کے سکوں پر پہلے تین گھوڑوں کی تصویر آتی تھی اس کو بھی ہٹا کر اس کی جگہ صدام کی تصویر لگادی۔

د۔ فیسٹیولز

اسی طرح وزارت نشرو اشاعت نے عراق کے مختلف شہروں خاص طور سے بغداد، موصل اور حلہ میں ثقافتی اور ہنری (آرٹ) فیسٹیولز کا انعقاد کروایا تاکہ ظہور اسلام سے پہلے جاہلیت کے تمدن کی یاد منائی جائے، جیسے بابلیوں اور آشوریوں کے فیسٹیولز، اور اس طرح صدام کی حکومت اور اس تمدن کے درمیان ایک پیوند اور جوڑ برقرار کریں۔ ان میں سب سے نمایاں فیسٹیول حلہ شہر میں ہونے والا "بخت النصر" فیسٹیول تھا  جس نے "کل کا بخت النصر ، آج کا صدام حسین" کے نعرے سے بہت وسعت پائی۔ ان فیسٹیول کے ساتھ ساتھ بیہودہ اور ناپسندیدہ محافل اور نشستیں بے پناہ اخراجات کے ساتھ منعقد کی گئیں؛ حالانکہ مساجد اور مقدس مقامات جو ڈھہ جانے کی حد تک خراب ہوچکے ہیں، کی تعمیر پر ذرا سی بھی توجہ نہیں دی گئی اور نہ دی جائے گی۔

صدام کی بے ادبی اور بے شرمی اس حد تک پہنچ گئی کہ اُس نے مصر کے مسیحی خبرنگار "امین اسکندر" کو اپنی زندگی کے بارے میں کتاب شائع کرنے کی اجازت دی  اور اُس سے کہا کہ وہ اس کتاب میں اُس کیلئے ایک ایسا جعلی شجرہ نامہ ترتیب دے جو امام علی (ع) سے جاکر ملتا ہو۔ اب کس کے اندر اتنی جرائت تھی جو تاریخ کے اس واضح جعلی پن پر اعتراض کرتا اور صدام کی حقیقت اور حقیقی شجرہ نامہ کے بارے میں کوئی بات زبان پر لاتا، مجھے نہیں معلوم!

ہ۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن

صدام کی تعریف و تمجید میں اُس کی حرکات و سکنات اور اس کی تقریروں کی ویڈیو دکھانے  اور اس کے مقابلے میں انقلاب اسلامی اور اُس کے رہبروں کے بارے جعلی رپورٹیں تیار کرنے کیلئے مختلف آلات سے کام لیا گیا۔ انھوں نے کمال بے شرمی کے ساتھ انقلاب اور اس کے قائدین کو آڑے ہاتھوں لیا اور خود امام خمینی کی شخصیت، آقای بہشتی، آقای خامنہ ای اور آقای رفسنجانی کو اپنے پروپیگنڈے کے حملے کی زد پر قرار دیا۔ لیکن بنی صدر اور اُس کے حامی افراد کو ناپسندیدہ القاب سے نوازا نہیں گیا۔ اُن دنوں مجھے اس کام کی دلیل سمجھ نہیں آئی تھی، لیکن جب میں نے ایران میں قدم رکھا اور جب میں نے ان شخصیات کے بارے میں جانا، تو مجھے اس پروپیگنڈے کی وجہ سمجھ میں آئی۔ میں نے خود ایک بعثی اسیر "نزر السامرایی" جو کسی بڑے عہدے پر فائز تھا اور عراقی بعث پارٹی کے الثورہ اخبار کا انچارچ تھا اُس کی زبان سے سنا  تھا کہ وہ کہہ رہا تھا: "بنی صدر کے بارے میں وزارت نشرو اشاعت کو صدام کے دفتر کی طرف سے کچھ احکامات جاری ہوئے ہیں جس میں  تاکید کی گئی ہے کہ بنی صدر کو مورد توہین قرار نہ دیا جائے۔" ان حقائق کو جنگ کے دوران بنی صدر کی خیانتوں نے فاش کردیا۔

و۔ عوامی مشاعرے

یہ مشاعرے امام خمینی اور انقلاب اسلامی کے خلاف اور صدام اور اُس کی حکومت کیلئے بے جا تعریف و تمجید کرنے والی سب سے نمایاں تبلیغاتی کارکردگی تھی۔ ان مشاعروں  میں عراق کے مختلف نقاط کے علاقائی شعراء  کہ جو عام طور سے اخلاقی فساد میں مبتلا ہوتے ہیں، وہ شرکت کرتے اور لوگوں کے سامنے شعر کے سانچے میں توہین آمیز باتیں  پیش کرتے۔ اور وہ اس طرح کی بیہودہ باتیں کرکے توقع رکھتے تھے کہ اس طرح وہ انعام کے طور پر نقد پیسے، گاڑیاں اور رہنے کیلئے زمینیں لینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اشعار کے مضامین، غالباً صدام کی مدح اور تعریف ، عراقی عوام کو ایرانی عوام اور امام خمینی کے خلاف بھڑکانے والے ہوتے تھے۔ بہتر ہوگا کہ سوال کریں کہ "اصلی زبان عربی کی حفاظت" کا قانون کیا ہوا؟ ایک زمانہ تھا جب قومی محاذ پر  کمیونسٹ ، بعثیوں کے ساتھ مل گئے تھے۔ اُن کی سیاسی کارکردگیوں میں سے عامیانہ اشعار کی ترویج کرنا تھا، اور "عریان سید خلف" اور "مظفر نواب" جیسے شعراء کو اوپر چڑھانا کہ جنہیں ایسے اشعار پڑھنے پر تشویق دلائی جاتی۔ لیکن جس وقت بعثیوں نے کمیونسٹوں کے اپنے مخالف گروپ میں نفوذ کرنے کے خطرے کا احساس کیا، انھوں نے "اصلی زبان عربی کی حفاظت" سے ایک قانون بنا کر اس طرح کے عامیانہ اشعار کی نشر و اشاعت کی روک تھام کی۔ کیونکہ عامیانہ اشعار میں محلوں میں بولی جانے والے زبان استعمال ہوتی ہے اور اس طرح عربی زبان کی فصاحت خطرے میں پڑ جاتی۔ اور یہ صرف ایک بہانہ تھا کیونکہ موقع پرست بعثیوں نے اس نظریہ"ہدف وسیلہ کو جائز قرار دیتا ہے" پر تکیہ کیا، انھوں نے کمیونسٹوں کے تبلیغاتی حربے کو اپنے تبلیغاتی اہداف کو عملی صورت دینے کیلئے استفادہ کیا، عربی زبان اور اس کی اصالت کو فراموشی کے سپرد کردیا  اور اس وزارت کے زیر نظر عامیانہ اشعار کے مشاعروں -جو مندرجہ بالا فیصلے لینے میں دخالت رکھتے تھے – کی ٹیم بنائی۔ ان مشاعروں نے سادہ لوح عوام کو فریب دینے اور اُن کے جذبات کو بھڑکانے میں اور حکومت کے فائدے اور ایران کے اسلامی انقلاب اور امام خمینی کے خلاف اہم کردار ادا کیا۔

۸۔ فوجی آمادگی و تیاری

جنگ شروع ہونے سے چند مہینے پہلے، حکومتی سسٹم کی خدمت کرنے والے سپاہیوں کی چھٹی بند کردی گئی۔ سن ۱۹۴۹ میں پیدا ہونے  والے افراد احتیاطی طور پر خدمت انجام دینے کیلئے حاضر کئے گئے۔ افسروں اور عہدیداروں کو بہت ہی کم قیمت اور قسطوں پر رہنے کیلئے زمین اور بہترین گاڑیاں عطا کرنے والے فیصلے کئے گئے اور غیر فوجی اداروں میں فوج سے فارغ ہونے والوں کی بھرتی کو تا اطلاع ثانوی بند کردیا گیا۔ دوسری طرف سے عراقی فوج کے ڈویژنوں اور بریگیڈ کی بہت بڑی تعداد جنگی مشقیں کرنے لگیں اور ان مشقوں میں فرضی دشمن کو – کہ گذشتہ کے خلاف اس دفعہ ایران تھا ،نہ اسرائیل – مورد حملہ قرار دینے لگے۔ عراقی فوجیوں نے اُسی حکمت عملی کی نمائش کی جس پر ایرانی سرزمین پر حملے کرتے ہوئے  عمل کیا تھا اور یہ وہ حقیقت ہے کہ سپاہ کے تیسرا اسٹاف  اسے بخوبی آگاہی رکھتا ہے۔

اس معاملے میں قابل ذکر نکتہ، اس حملے کی منصوبہ بندی میں برطرف ہونے والے شاہ کے حامی ایرانی افسروں کی شرکت تھی۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ لوگ کس حد تک ایران کے اسلامی انقلاب سے بغض رکھتے تھے؛ اور یہ بات طے ہے کہ اس جنگ کو صرف عراق کی بعثی حکومت نے نہیں بلکہ اسلام کے تمام دشمنوں نے ایران اور اسلام کے انقلاب کے خلاف شروع کیا تھا۔ شاہ کے فرار کرنے والے افسروں نے ایران کی فوجی اور دفاعی پوزیشن میں بعثی حکومت کو معلومات فراہم کیں۔ یہ بات مجھے میرے ایک دوست "عبد الغنی سُمیسم" نے بتائی جو البکر فوجی کالج میں کام کرتا تھا۔ وہ سن ۱۹۸۰ میں جون کے مہینے میں کسی دن  کرامہ ہسپتال میں مجھ سے ملنے آیا اور کہا: "میرے پاس بہت ہی اہم اور رازدارنہ خبر ہے کہ تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم اس کے بارے میں کسی کو نہیں بتاؤ گے!"

میں نے پوچھا: "کون سی خبر ہے؟"

اُس نے کہا: "عراق کا ارادہ ہے کہ وہ عربستان (خوزستان) کے علاقہ کو جدا کرنے کیلئے، ایران پر جنوبی علاقہ سے حملہ کرے۔"

میں نے جواب میں کہا:"تم حتماً مذاق کر رہے ہو؟"

اُس نے کہا: "نہیں، یہ بات بالکل سنجیدہ ہے۔"

میں نے پوچھا: "تمہارے پاس کیا دلیل ہے؟"

اُس نے کہا: "صدام نے وزیر دفاع اور فوج کے اعلیٰ افسروں اور ان کے ساتھ ایران کے چار اعلیٰ افسروں سے، البکر فوجی کالج میں چند دنوں تک میٹنگ رکھی ہے اور اُس کے بعد ایران اور عراق کے سرحدی پٹی، خاص طور سے عربستان کے علاقے کے دسیوں نقشوں کو چھاپنے کا حکم صادر کیا ہے۔ تکریت، موصل اور سامرا کے بہت سے سپاہی جو ہمارے ساتھ تھے، وہ اس معاملے سے آگاہی رکھتے ہیں۔"

"عبد الغنی سمیسم" سن ۱۹۸۱ کے شروع میں گرفتار ہوگیا اور اُسے پھانسی دیدی گئی۔

دوسرا نکتہ یہ کہ عراق کے فوج یونٹ، فوجی مشقیں کرنے کے بعد اپنے چھاؤنیوں میں واپس نہیں آئے، بلکہ ایران اور عراق کے بارڈر کی طرف بھیج دیئے گئے اور اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ اُن کی پہلے سے حملہ شروع کرنے کی نیت تھی۔

جاری ہے ۔۔۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2903



http://oral-history.ir/?page=post&id=8831