۲۱ جولائی ۱۹۶۳ء کو گرگان میں ہونے والی تقریر

مترجم: ابو میرآب زیدی

2019-09-18


سن ۱۹۶۳ء کے ماہ محرم الحرام میں، فیضہ کا حادثہ ہونے کے بعد اور ۱۵ خرداد کے قیام سے پہلے، میں تبلیغ کیلئے گرگان شہر گیا۔ اُن دنوں میرے میزبان، امام خمینی سے محبت کرنے والی شخصیت مرحوم حاج غلام رضا حاتمی تھے۔ انھوں نے اور دوسرے بعض دوستوں اور ساتھیوں نے اس وجہ سے کہ میں ماہ محرم اور صفر میں گرگان میں رہ سکوں  اور پرسکون انداز میں تبلیغ کرسکوں، گرگان کے امنیتی اور انٹیلی جنس ادارے میں رجوع کرکے میری طرف سے وعدہ اور تعہد دیا تھا کہ میں سیاسی مسائل کے بارے میں بات نہیں کروں گا، اگرچہ میں نے کسی بھی قرارداد اور تعہد نامہ پر دستخط نہیں  کئے تھے، لیکن دوستوں اور میزبان کی خاطر، میں نے اپنے لئے لازم اور ضروری سمجھا کہ اس تعہد پر عمل کروں۔ دوسری طرف سے میرا ضمیر مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتا  تھا کہ میں حکومت کے جرائم میں آلودہ کاموں اور جو حادثہ فیضیہ میں پیش آیا تھا، اُس بارے میں خاموشی اختیار کروں اور کچھ نہ بولوں۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض انقلابی دوستوں جیسے مرحوم شہید باہنر اور جناب نور مفیدی جو گرگان میں موجود تھے، انھوں نے بہت اصرار کرکے مجھ سے چاہا کہ میں تیز لہجے میں انقلابی تقریر کروں اور جو چیز ملک کے سیاسی مسائل کے بارے میں کہی جانے کے قابل ہے اُسے بیان کروں؛ لیکن اُسی دلیل کی وجہ سے جو ذکر ہوئی، میں اس درخواست کا مثبت جواب نہیں دے سکتا تھا۔ اس کے علاوہ اگر میں ایک پرجوش اور انقلابی تقریر کر ڈالتا، مجھے جبری طور پر منبر پر جانے سے روک دیا جاتا اور میں نے جن ابحاث اور مسائل کو بیان کرنے کے بارے میں سوچا تھا اور جو لوگوں کیلئے بھی دلچسپ تھے ان سب کا موقع ہاتھ سے نکل جاتا۔ ان سب باتوں کے پیش نظر میں نے فعلاً اس چیز کو ترجیح دی کہ میں سیاسی موضوعات کو نہ چھیڑوں۔ بہرحال ایام گزرتے گئے اور ہم آہستہ آہستہ ماہ صفر کے آخری دنوں کے نزدیک ہوگئے۔

ماہ صفر کی ۲۹ تاریخ [۲۱ جولائی ۱۹۶۳ء]کا دن آگیا۔ اس حالت میں کہ مسجد گلشن کے تمام ہال اور اُس کے اطراف کے صحن اطراف کے گاؤں اور دیہاتوں سے آئی ہوئی  عوام سے بھرے ہوئے تھے، میں منبر پر گیا اور میں نے مجلس کے آخری مقرر کے عنوان سے،  اپنی باتوں کا آغاز کیا ۔ میں نے ان باتوں کو ایسے ماحول اور حالات میں اپنی زبان پر جاری کیا جب ساواک کے کارندے جو ایک طرح سے ہمارے لئے آشنا اور پہچانے ہوئے تھے، منبر کے آس پاس اور مسجد کے گوشہ و کنار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے تقریر کے شروع میں کہا کہ آج  میرے اندر تقریر اور باتیں کرنے کی ہمت نہیں ہے، چونکہ میرا دل پیش آنے والے مسائل اور مصائب سے درد میں مبتلا ہے اور میں بہت غمگین اور پریشان ہوں۔ میں کس طرح تقریر کرسکتا ہوں، حالانکہ آخری چند مہینوں کے دوران، شاہ کے کارندے نے مدرسہ فیضیہ پر ، جو ہم طلباء کے رہنے اور درس و بحث کرنے کی جگہ ہے دو مرتبہ حملہ کیا  اور بہت زیادہ جنایات کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس کے بعد مجھ پر مجلس میں حاضر لوگوں پر جو اثر پڑا اُس کے پیش نظر میں نے کہا: "مجھ سے طلاب کی صورتحال اور فیضیہ کی اُجڑی حالت کے بارے میں نہ پوچھیں کہ وہ وضاحت اور بیان کے قابل نہیں ہے۔ اے گرگان کے رہنے والوں ہمارے گھروں کو اُجاڑ دیا گیا ہے، حرم حضرت معصومہ (س) کے کبوتروں کے آشیانوں کو آگ لگادی ہے اور انہیں ویران کردیا گیا ہے۔ ان کبوتروں کے پروں کو کاٹ   اور نوچ لیا گیا ہے۔"میں نے اسی ترتیب سے پوری داستان کی وضاحت دی اور اس کے بعد میں نے مجلس میں حاضر لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا: "لیکن آپ لوگوں نے بھی کوتاہی کی ہے! آپ لوگ جو ایسے شہر میں رہتے ہیں جو ایک دن دار الایمان  کے نام سے جانا جاتا تھا، آپ لوگوں نے امام خمینی کو جو صاحب عزا اور صاحب مصیبت تھے، تعزیت کیوں نہیں پیش کی؟آپ لوگوں نے علماء کی مدد کرنے کیلئے جلد بازی سے کیوں کام نہیں لیا؟ آپ لوگوں نے کیوں ہماری حمایت اور مدد نہیں کی؟ ہم امام زمانہ (عج) سے آپ کی شکایت کریں گے!"

ان باتوں سے مجلس کا ماحول اشتعال انگیز اور مجلس میں آئے ہوئے عام لوگوں کو  جنہیں حادثہ کے بارے میں صحیح معلومات نہیں تھیں اور حتی ساواک کے کارندوں  کو متاثر کردیا۔ میرے دوست اور میرے میزبان بھی اسی طرح آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر حیرت  کے ساتھ مجھے دیکھ رہے تھے، اس لئے کہ میں نے کس طرح اُن کے تعہد  کو اہمیت نہیں دی اور ان باتوں کو شروع کردیا۔ میں نے اسی طرح اپنی باتوں کو جاری رکھا کہ اچانک مجھے احساس ہوا کہ میرے دل پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور ایسا لگ رہا تھا کہ دھڑکن رکنے والے ہے اور دل کام کرنا بند کردیگا۔ میں نے بے ربط باتیں کرکے اپنی باتوں کو سمیٹا اور منبر سے نیچے اتر آیا اور میں اپنے دوستوں کے ساتھ مسجد سے باہر آگیا۔ گھر میں، جناب حاتمی اور دوسرے دوستوں نے  مجھ حملہ کردیا کہ آپ نے کیوں اس طرح کیا اور اس طرح کی باتیں کی؟ میں نے اُن کے جواب میں عرض کیا: "خدا کی قسم! میں امام زمانہ (عج) سے کہ میں اُن کا نوکر اور سپاہی ہوں اور آپ لوگ بھی اسی وجہ سے میرا احترام کرتے ہیں شرمندہ ہوں کہ میں اس قضیہ اور حادثہ سے کے بارے میں کچھ کہے بغیر گزر جاؤں اور لوگوں کو کچھ نہ بتاؤں۔" حاج غلام رضا حاتمی جو میری جان کی سلامتی کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے تھے، انھوں نے اُسی رات، مسجد میں مغربین کی نماز  اور رات کا کھانا کھانے کے بعد، مجھے دو لوگوں کے ساتھ ایک گاڑی کے ذریعے قم کی طرف روانہ کردیا  اور اُن دو افراد کی ذمہ داری لگائی کہ مجھ خود قم تک اور میرے گھر تک چھوڑ کر واپس آئیں۔ اگلے دن ساواک کا سربراہ ان دوستوں کو بلاتا ہے اور اُن سے پوچھتا ہے کہ فلاں شخص کہاں  ہے اور اُس نے کیوں تمہارے وعدے اور تعہد کے خلاف ان باتوں کو بیان کیا؟ یہ لوگ جواب دیتے ہیں، وہ آدھی رات کو فرار کر گئے اور ہمیں خود بھی صحیح سے نہیں معلوم کہ وہ کیوں ان مسائل میں وارد ہوئے اور اس طرح کی باتیں کی؟


15khordad42.ir
 
صارفین کی تعداد: 2553



http://oral-history.ir/?page=post&id=8794