یادوں بھری رات کا۳۰۳ واں پروگرام

جلال شرفی کے واقعات کے بارے میں

مریم رجبی

مترجم: کنیز طیبہ

2019-08-25


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۳۰۳  واں پروگرام، جمعرات کی شام، ۲۷ جون ۲۰۱۹ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اس پروگرام میں محبوبہ عزیزی، علی رضا مسافری اور سید جلال شرفی  نے "مسٹر سیاہ چال: بغداد میں ایرانی ڈپلومیٹ جلال  شرفی کے اغوا ہونے کے واقعات" نامی کتاب کے بارے میں گفتگو کی اور اس کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی۔

 

ایرانی تشخص کی علامت

یادوں بھری رات کے اس پروگرام میں واقعات کی کتاب "مسٹر سیاہ چال" کی مؤلفہ محبوبہ عزیزی سب سے پہلی راوی تھیں۔ انھوں نے کہا: "ایک نئی  کتاب منظر عام پر آئی ہے کہ اس کی پیدائش میں تھوڑا بہت میرا بھی حصہ ہے۔ آرٹ شعبے میں جنگ کی خصوصی  لائبریری میں روازنہ بہت سی کتابیں  ہماری نظروں کے سامنے سے گزرتی ہیں جن کی ہم تحقیق کرتے ہیں  اور انھیں پڑھتے ہیں۔ ان میں سے بعض کتابیں واقعات پر مشتمل ہوتی ہیں۔ دراصل لائبریری میں ایک حصہ انہی واقعات کی  کتابوں  کا ہے۔ بہتر ہوگا کہ میں کتابوں کی تعداد  بیان کروں۔ مجموعی طور پر ہمارے پاس ۲۵۰۹ واقعات کی کتابیں ہیں جوروزانہ، سوانح عمری،زبانی، قید کے واقعات  اور عراقیوں کے واقعات کی صورت میں جمع ہوتی ہیں۔ میں تقریباً بارہ سالوں سے جنگ کی خصوصی لائبریری میں کام کر رہی ہوں اور مجھے اپنے کام سے لگاؤ ہے۔  مجھے پتہ ہے کہ جناب شرفی کے واقعات نظر بندی یا قید  کی ادبیات سے مربوط ہیں کہ قید سے فرار اسی ادبیات کی ایک ذیلی قسم ہے۔ اس طرح کی بعض کتابیں بہت زیادہ امانتاً دی جاتی ہیں اور بعض کم دی جاتی ہیں، بعض الماریوں کی زینت بنتی ہیں اور وہاں سے ہلتی بھی نہیں ہیں۔ مجھے ہمیشہ ایسی کتابوں کی فکر رہتی ہے  کہ جن کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ مجھے شروع سے یہ پریشانی لاحق ہے کہ کیا یہ کتاب پڑھی جائے گی؟ میں سوچتی تھی کہ بعض کتابیں کیوں پڑھی جاتی ہیں اور بعض کتابوں کو ہاتھ بھی نہیں لگایا جاتا؟ اور کتابیں کس طرح لکھی جائیں کہ لوگ حالیہ معاشی شرائط کے باوجود اپنی جیب سے پیسے نکال کر اُنھیں خرید لیں؟ اس وقت میں خوش ہوں کہ "مسٹر سیاہ چال" نامی کتاب منظر عام پر آئی ہے کہ جس میں میرا بھی حصہ ہے اور اُس نے دوسری کتابوں کے درمیان اپنی جگہ بنالی ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ وہ پڑھی جانے والی کتابوں کی صف میں ہوگی۔ اس سے پہلے بھی میں نے کچھ عرصے تک ویرائش کا کام انجام دیا تھا اور مختلف قسم کی تحریریں دیکھی تھیں؛  لہذا میں لکھنے سے لابلد نہیں تھی اور میں اُس کی مشکلات سے تھوڑا بہت آگاہ تھی۔ لیکن کتاب کی صورت میں یہ میری پہلی تحریر ہے۔

یادوں بھری رات کے اس پروگرام کے میزبان داؤد صالِحی نے عزیزی سے پوچھا: "ان واقعات کی تلخی اور مٹھاس کے بارے میں بتائیں؛ اُس چیز کے بارے میں جس نے آپ کو یہ کتاب لکھنے میں بہت اذیت اور تکلیف دی۔" عزیزی نے جواب دیا: " شروع سے لیکر آخر  تک میرے لئے اس کتاب کا موضوع بہت حیران کرنے والا تھا؛ کتاب کی مولفہ کے عنوان سے نہیں بلکہ جناب شرفی کا سب سے پہلا واقعہ سننے کے لحاظ سے۔ ان واقعات میں اچھے دن بھی تھے اور ایسے دن بھی تھے کہ جن میں جناب شرفی نے جو مشکلات اٹھائی تھی، اُن کو سن کر میرا پورا وجود غم سے لبریز ہوجاتا۔ اگر میں اُن کے واقعات کے بارے میں گفتگو کرنا چاہوں، وہ زمانہ تھا کہ جب وہ وصفی کے ہاتھوں شکنجوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وصفی اُن کا نگہبان تھا۔ اس بات کے پیش نظر کہ وصفی بہت سے مواقع پر دوسرے بد اخلاق نگہبانوں سے زیادہ اچھے رویے اور نرمی سے پیش آتا تھا، لیکن وہ اکثر ایسے شکنجے دیتا تھا۔ ایسے شکنجے کہ جن کو سننے سے انسان کا دل تڑپ جائے۔ وہ انھیں تار سے مارتا۔ جن دنوں میں وہ سیاہ چال میں تنہا تھے۔ انھیں جو زخم لگے تھے وہ انھی زخموں کے ساتھ وہاں اپنا وقت گزارتے۔ ان واقعات کے اچھے دنوں کا زمانہ بھی وہ تھا کہ جب جناب شرفی کو اپنے گھر والوں کی یاد آتی ہے۔ ایک دن وہ تھا جب آکر انھیں انٹرویو کیلئے تیار کرتے ہیں۔ یعنی وہ مسلسل ایک طرح کی حالت سے باہر نکل آئے۔ چونکہ اُن شرائط میں سخت تھا،کیونکہ یہ بات اُن کیلئے غیر معمولی تھی۔"

میزبان نے کہا: "یہ حادثہ ۵۸ دنوں پر مشتمل تھا کہ آپ نے اُن میں سے دس دنوں کا کتاب میں ذکر نہیں کیا  اور مطالب کے درمیان اُ ن کو بیان کیا ہے۔ ان ۴۸ دنوں میں مسلسل ایک جیسے واقعات تکرار ہوتے ہیں، خاص طور سے شروع کے دس سے بارہ دنوں میں پڑھنے والے کیلئے یہ تکرار موجود ہے۔ ہر روز ایک آدمی آتا ہے اور کھانا رکھ دیتا ہے۔ جلال شرفی کچھ نکات کے بارے میں سوچتے ہیں، حشرات اور چوہوں کو دیکھتے ہیں اور یہ کہانی روزانہ تکرار ہوتی ہے۔ مسٹر سیاہ چال، ایک دو میٹر چوڑے اور تین میٹر لمبی سیاہ چال کے اندر تھا۔ آپ نے جان بوجھ کر اس تکرار کو بیان کیا ہے؟" عزیزی جواب میں کہتی ہیں: "جب کسی شخص کو کسی محدود جگہ پر رکھتے ہیں اور اُس کے پاس کوئی چیز بھی نہیں ہوتی، اُس کیلئے کچھ چیزیں تکرار ہوتی ہیں۔ یہ تکرار جناب شرفی کیلئے تکلیف دہ تھیں اور میں نے ان تکراروں کو بیان کرنا ضروری سمجھا تاکہ پڑھنے والا اس چیز کو درک کرے جو جناب شرفی پر گزری ہے۔ مجھ سے کہا گیا شاید ان تکراروں کا نہ لانا بہتر ہوتا، لیکن میں جان بوجھ کر انھیں لائی ہوں تاکہ پڑھنے والوں کو اُن سختیوں کا کچھ احساس تو ہو۔"

 

عید نوروز ۲۰۰۷ء پر خوشی کی خبر

پروگرام کے دوسرے راوی ایسے شخص تھے کہ جنھوں نے جنوب کے اکثر آپریشنز  اور ملک کے مغربی علاقوں میں ہونے والے تمام آپریشنز میں شرکت کی تھی۔ وہ جنگ میں ایثار و فداکاری کے وجہ سے اپنی نامناسب حالت کے باوجود، گرگان سے اس پروگرام میں شرکت کرنے آئے تھے تاکہ اپنے دیرینہ دوست جلال شرفی کے بارے میں کچھ بیان کریں۔ علی رضا مسافری نے کہا: "میں اس وقت گرگان میں وزیر خارجہ کا نمائندہ ہوں۔ مجھے سن ۲۰۰۵ ء میں بغداد میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصل خانہ میں ڈیوٹی کیلئے بھیجا گیا اور مجھے اپنے بڑے بھائی جناب شرفی کے ساتھ کام کرنے کا شرف نصیب ہوا۔ ہماری وزارت خارجہ میں دور دور سے سلام علیک تھی لیکن وہاں پر ہمارے تعلقات قریبی ہوگئے۔ وزارت خارجہ میں ہم دونوں کے عہدے مختلف تھے۔ جناب شرفی ایران اور عراق کے دو طرفہ سیاسی روابط میں  سفارت ایران کے سیاسی مشاور تھے اور میں وزارت خارجہ میں پارلمانی قونصلر کا جانشین تھا۔ ہم وہاں پر ایک دوسرے سے بہت قریب تھے۔ کیونکہ ڈپلومیٹ وہاں اکیلے رہتے تھے ، نا امنی کی وجہ سے اُن کے گھر والوں کا وہاں نہ رہنا بہتر تھا۔ ہماری زندگی ہمارے کام سے جڑی ہوئی تھی۔ میں نے وہاں پر جناب شرفی کے اندر جو صداقت اور شرافت دیکھی اس وجہ سے مجھے اُن سے خاص لگاؤ پیدا ہوگیا تھا۔ ہمارے ایک ساتھ کام کرنے کو ایک سال کا عرصہ گزر گیا۔ ۴ فروری سن ۲۰۰۷ والے دن ہم بینک ملی کے افتتاح کے کاموں کو انجام دے رہے تھے۔ جناب شرفی جناب اسماعیل مہدوی کے ساتھ بینک کی سجاوٹ کا کام دیکھنے گئے۔ خدا حافظی کرتے ہوئے  مجھے پریشان لاحق ہوئی  اور میں نے جلال شرفی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا مجھے ایک عجیب سا احساس ہو رہا ہے ، مجھے تمہاری فکر لاحق ہے۔ تم اپنا خیال رکھنا۔ تم تین  مرتبہ سورہ "قل ھو اللہ" پڑھ کر اپنے اوپر پھونک لینا۔ جناب جلال نے جواب میں کہا: و اللہ خیر الحافظین، پریشان نہیں ہو۔ جب انھوں نے وہاں کے کاموں کو دیکھ لیا، جناب شرفی گاڑی پر سوار ہونے کیلئے جلدی تیار ہوگئے اور یوں اُن کے اغوا کی کاروائی ہوئی۔ چند مسلح افراد نے زبردستی انھیں گاڑی میں بٹھایا۔ اُن میں سے ایک دو لوگ عراقی پولیس سے درگیر ہوئے۔ ہم نے بہت کوشش کی اور عراقی عہدیداروں ، اِدھر اُدھر کے لوگوں سے سوال جواب کئے، ہمیں پتہ چلا تکفیری گروپس جو امریکیوں کے زیر نظر کام کر رہے ہیں، انھوں نے اغوا کیا  تھا۔ ہمیں اُن کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔ عراقی عہدیدار بھی کہہ رہے تھے کہ ہم نے کچھ پیغامات بھیجے ہیں کہ ہم تبادلہ کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن اُن کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ بہرحال یہ سخت دن بھی گزر گئے۔

کوئی ایسا دن نہیں گزرتا تھا جس دن ہم جناب شرفی کی طرف سے پریشان نہ ہوں۔ دو اپریل سن ۲۰۰۷ء والے دن قونصل خانہ کے اکثر افراد چھٹی پر گئے ہوئے تھے۔ میں دو تین لوگوں کے ساتھ قونصل خانہ میں تھا۔ یعنی ۳۵ ڈپلومیٹ میں سے، قونصل خانہ میں صرف تین چار لوگ بچے تھے۔ وہ شیعہ حضرات جو قونصل خانہ سے رابطے میں تھے، انھوں نے بتایا کہ جناب جلال ہمارے پاس ہیں۔ ساتھی فوراً گئے  اور جناب شرفی جو وہاں سے فرار کرنے میں کامیاب  ہوئے تھے اور خود اپنے عراقی دوستوں تک پہنچ گئے تھے، کو وہاں سے اپنی تحویل میں لیا۔ انھوں نے خود تشخیص دے لی تھی کہ اگر دوبارہ قونصل خانہ کے نزدیک آئے، وہ لوگ گھات لگائے بیٹھے ہیں اور اُن کے دوبارہ اغوا ہونے کا احتمال پایا جاتا ہے۔ ہم مضطرب حالت میں اُن کا انتظار کر رہے تھے۔ جناب شرفی آئے ، ہم نے دیکھا کہ اُنھیں زنجیریں اور ایک عربی لباس  جبہ پہنایا ہوا ہے۔  ہم نے دیکھا کہ جناب شرفی اپنی فوجی ورزشوں کے سابقہ کے باوجود ایک نحیف و لاغر جسم میں تبدیل ہوگئے تھے۔ ایک طرف سے ہم پریشان تھے اور دوسری طرف سے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ ہم نے بڑی مشکل سے اُن زنجیریں کو کاٹا۔ اس مدت میں اُن کو اغوا کرنے والا گروپ جو امریکی ہرکارہ تھا، قونصل خانے کے گرد منڈ لا رہا تھا۔ قونصل خانے کے نگہبانوں نے ہمیں بتایا کہ بہت زیادہ مشکوک گاڑیاں گزر رہی ہیں۔ ایک دو گاڑیوں میں اسلحہ بھی دیکھا گیا تھا۔ اسی مدت میں مجھے فون کیا گیا ، میں نے دیکھا تو وہ ایک عراقی نمبر تھا۔ ایک خاتون نے فارسی میں مجھ سے کہا: جناب مسافری؟ میں نے کہا: جی، فرمائیے۔ اُس نے کہا کہ تہران ٹیلی ویژن کے خبرنگار اور جناب شمشادی کے دوست بغداد میں ہیں۔ اُس نے پوچھا: ہم آپ سے جناب شرفی کی آزادی کے بارے میں پوچھنا چاہ رہے تھے؟ ہم اُن کی آزادی کی خبر کا اعلان کرنا چاہتے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ اُن لوگوں کا تعلق حتماً اشرف چھاؤنی اور منافقین سے ہے۔ مجھے پورا یقین ہوگیا تھا۔ میری چھٹی حس نے مجھے خبردار کردیا کہ اُن لوگوں کو پتہ ہے کہ قونصل خانے میں ہم  محدود لوگ ہیں  اور احتمال پایا جاتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی صورت حملہ کرکے جناب شرفی کو لے جائیں۔ میں نے کہا جناب شرفی آئے تھے  اور مخصوص گارڈ کے ساتھ بارڈر کی طرف چلے گئے۔ اُس نے پوچھا: یعنی اس وقت وہ راستے میں ہیں؟ میں نے کہا: نہیں، وہ اس وقت ایران کے اندر ہیں۔ جب وہ ہسپتال پہنچ جائیں تو آپ وہاں جاکر اُن سے ملاقات کرسکتے ہیں۔ اُس نے کہا: آپ کو یقین ہے؟ میں نے کہا: محترمہ، چونکہ جناب شمشادی کے ساتھ کام کرتی ہیں  ، اس وجہ میں یہ ساری باتیں آپ کی خدمت میں عرض کر رہا ہوں۔ میں نے یہ چال چلی تاکہ کم از کم اُس دن قونصل خانہ پر ہونے والے دوبارہ حملہ کو روکا جائے۔

امریکیوں کیلئے بہت سخت شکست تھی کہ جناب شرفی اُن کے ہاتھوں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ انھوں نے اپنے فرار کا نقشہ بہت ہی ماہرانہ انداز میں کھینچا تھا اور خدا پر توکل کرتے ہوئے انھوں نے یہ کام انجام دیا۔ ہمیں جناب شرفی کے چہرے پر شدید اضطراب دکھائی دے رہا تھا۔ بالآخر دن رات کی تاریکی میں ڈھل گیا  اور میں نے دیکھا کہ جناب شرفی ابھی بھی مضطرب ہیں۔ انھوں نے کہا: وہ آئیں گے اور مجھے لے جائیں گے۔ میں نے کہا: پریشان نہ ہوں۔  صحیح ہے کہ ہماری تعداد کم ہے، لیکن عراقی نگہبان بھی ہیں۔ وہ ۴۸ گھنٹے نہ سونے کے بعد فرار کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ میں نے دفاع مقدس کے دوران اپنے فوجی سابقہ  اور اسلحہ کی پہچان اور اس طرح کی باتوں کے پیش نظر، عراقی نگہبان سے درخواست کی کہ وہ اپنا اسلحہ مجھے قرض کے طور پر دیدے۔ میں نے اُس سے کہا میں اسے صرف اپنے کمرے میں رکھنا چاہتا ہوں تاکہ جناب شرفی مطمئن ہوجائیں۔ اُس نے کہا: کون سے کمرے میں؟ میں نے کہا: اُن کے کمرے میں۔ ہم نے اُس رات اُن کو دو تین کمروں میں ردّ و بدل کیا کہ آخر میں، میں نے اُن سے اُس عمارت میں اپنے کمرے میں آنے کا کہا  اور ہم نے دروازے کو بند کرلیا۔ میں صبح تک جناب شرفی کے سرہانے چوکیداری کرتا رہا۔ وہ صبح تک بے چینی کے عالم میں کئی بار نیند سے اٹھے اور مجھے سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ وہ لوگ آئے؟ میں کہتا: نہیں، جناب جلال۔ یہ یوزی گن میرے پاس ہے۔ پہلے میں شہید ہوں گا  پھر وہ آپ تک پہنچ پائیں گے۔ بالآخر صبح ہوگئی۔ جب میں نے جناب شرفی کیلئے ناشتہ بنایا، اُن کی انگلیوں میں حتی روٹی توڑنے کی طاقت نہیں تھی، یعنی وہ اس حد تک کمزور ہوچکے تھے۔ مختصر سے ناشتے کے بعد ہم نے اپنے ٹیلی ویژن والوں اور عراقی عہدیداروں کو بلایا، کیونکہ ہمیں پتہ تھا کہ امریکیوں نے سخت شکست کھائی ہے، اُن کے دوبارہ اغوا ہونے کا سو فیصد احتمال موجود تھا۔ وزارت خارجہ کا ایک سیاسی مشیر جو دو مہینے اُن کے پاس تھا وہ اُس کو گنوا  چکے تھے۔ وہ لوگ ان ڈپلومیٹس کے ایک اہم تبادلہ کے درپے تھے اور جیسا کہ اُن کو پتہ تھا کہ قونصل خانہ میں ہماری تعداد کم ہے، وہ انھیں دوبارہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔ کچھ تدبیریں سوچی گئیں اور جناب سید حسین ذوالانواری کے ساتھ ایک میٹنگ رکھی۔ جب عراقی عہدیدار آئے، میں نے خود ٹیلی ویژن کے خبرنگار سے درخواست کی، جب ہم انھیں تحویل میں دے رہے ہوں تو آپ اس کی ریکارڈنگ بند نہیں کیجئے گا یہاں تک کہ انھیں بکتر بند گاڑی میں بٹھا کر مہران بارڈر  لے جاکر تحویل نہ دیدیں۔ ہم نے انھیں عراقی سیکیورٹی فورسز کی تحویل میں صحیح و سالم حالت میں دیا اور اُس کے بعد عراقی سیکیورٹی فورسز کی ذمہ داری تھی۔ عراقی کہہ رہے تھے: ویڈیو کیوں بنا رہے ہیں؟ آپ لوگ مطمئن رہیں۔ میں نے اس بات پر زور دیا کہ ہم اس لئے ویڈیو بنا رہے ہیں کہ آپ جان لیں کہ ہم انھیں آپ کو صحیح و سالم دے رہے ہیں۔ آپ کو امانت کا خیال رکھنا چاہیے اور انھیں صحیح وسالم ایرانی فورسز کی تحویل میں دیں۔ اس طرح سے ہم جناب شرفی کو صحیح و سالم حالت میں بارڈر تک پہنچا سکے۔ اس کے جزئیات میں بہت سی باتیں ہیں کہ میں اس پروگرام میں اُن کو بیان کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔"

پروگرام کے میزبان نے جب اُن سے اس بارے میں سوال پوچھا کہ جناب شرفی، آپ اور دوسرے دوست جو قونصل خانہ میں تھے، تو اُن کیلئے کیا اہمیت رکھتے تھے، انھوں نے اس کے جواب میں کہا: "ایک ڈپلومیٹ، بھیجنے والے ملک کا دوسرے ملک میں نمائندہ ہوتا ہے۔خاص طور سے سیاسی ڈپلومیٹ جو دو ملکوں کے مابین ہونے والی سیاسی مشاورت میں اہمیت رکھتا ہے۔ دو ملکوں کے درمیان قرار دادوں اور پیمانوں کے انعقاد یا وزیروں کے سفر پر جانے سے مہینوں پہلے مشاورت کی جاتی ہے۔ اور اس کے علاوہ وہ اُس ملک کا باقاعدہ نمائندہ ہوتا ہے اور وہ اُس ڈپلومیٹ سے کوئی خاص امتیاز حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر جناب شرفی کی جسمی توانائی نہ ہوتی، وہ جو ورزش کرنے والے فوجی تھے اور اُن کا اس کام میں کئی سالہ تجربہ تھا، خدا ہی جانتا ہے کہ اُن کے ساتھ کیا ہوتا۔ اور ایک ڈپلومیٹ سے ضروری معلومات نکلوا سکتے ہیں۔ اُسے اپنی مرضی کے مطابق بات کہنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ اس طرح سے بہت سوء استفادہ ہوتا ہے۔  ہم وزارت خارجہ والے افراد کو اس طرح تربیت دی جاتی ہے کہ جہاں بھی ہماری ڈیوٹی لگادی جائے، ہم جاتے ہیں؛ اب ایک دفعہ کوئی یورپی ملک ہوتا ہے جہاں امن زیادہ ہوتا ہے یا عراق، یمن اور شام جیسے ممالک جہاں صورتحال بحرانی ہے۔ ہم دل و جان کی بازی لگا کر جاتے ہیں۔ ہم اس نظام کے سپاہی ہیں۔ اُسی عراق میں سن ۲۰۰۴ اور ۲۰۰۵ میں ہمارے ساتھ ایک ثقافتی مشاور تھے، جناب خلیل نعیمی جو دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ ہمارے ڈپلومیٹس پر سڑکوں پر کئی مرتبہ فائرنگ کی گئی کہ ہمارے افراد وہاں سے فرار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اُس زمانے میں عراق میں خودکش گاڑیاں تھی  کہ آکر قونصل خانے کی دیوار سے ٹکراتے اور ایک خطرناک دھماکہ ہوتا۔ وہ لوگ دیوار توڑ کر دوبارہ حملہ کرسکتے تھے۔

ہم نے ایسے دن گزارے ہیں  کہ صبح نہیں پتہ ہوتا تھا کہ رات تک زندہ رہیں گے یا نہیں۔ مثال کے طور پر جس زمانے میں صدام کو پھانسی ہوئی، ہم لوگ وہاں تھے۔ صدام کے طرفدار شدت پسند تکفیری گروپس نے افواہ پھیلا دی کہ سپاہ قدس کے سپاہی آگئے ہیں  اور عراقیوں کو مجبور کر رہے ہیں کہ صدام کی پھانسی کے حکم پر جلد سے جلد عمل کیا جائے۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ امریکیوں نے سزا پر عمل کیا اور اُسے عراقیوں کی تحویل میں دیدیا  اور عراقیوں نے بھی بتا دیا کہ حکم پر عمل ہوگیا ہے۔ صدام کی پھانسی کے ۲۴ گھنٹے بعد، بعثی فورسز کے تقریباً دو ہزار  افراد جو صدام کے حامی تھے انھوں نے بغداد کی حیفا سڑک سے مظاہرے کرنا شروع کئے اور انھوں نے کہا ہم جاکر قونصل خانے  کو نابود کردیں گے۔ اگر اُس وقت وہ لوگ آجاتے، ہمارے جس کا سب سے بڑا ٹکڑا جو بچتا وہ ہمارا کان ہوتا۔ ہم نے عراقی فورسز سے کہا کہ ہماری حفاظت کی ذمہ داری آپ لوگوں پر ہے۔ عراقی فورسز نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے انہیں منتشر کیا۔ اُس زمانے میں کربلا، بصرہ، عراقی کردستان اور نجف میں ہمارے قونصل خانوں نے کام کرنا  شروع نہیں کیا تھا۔ ہم تمام ویزے بغداد میں ہی لگاتے تھے۔ ہم ان دنوں میں تین ہزار عراقی زائرین کا ویزا لگاتے تھے۔ ہمیشہ شام سات بجے تک قونصل خانہ کھلا رہتا تھا۔ اُس دن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ساڑھے چار بجے ہمارا کام ختم ہوگیا۔ پانچ بجے کاتوشا میزائل آیا اور قونصل خانے کے چار سو میٹر والے ہال کو نابود کردیا۔ خدا کا شکر کسی کی ناک سے بھی خون نہیں نکلا  چونکہ سب لوگ اُس جگہ کو چھوڑ چکے تھے۔ ڈپلومیٹس حضرات کو ہمیشہ سے وہاں ان خطرات کا سامنا رہا ہے اور ابھی بھی انھیں دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔"

میزبان نے کہا: "ایک ساٹھ روزہ دورے میں جناب شرفی نہیں ہیں۔ آپ سب پریشان تھے  اور احتمالاً وزارت امور خارجہ  کی طرف سے ہمارے اپنے ملک اور عراق میں کچھ اقدامات انجام دیئے جا رہے تھے۔ احتمالاً اُن کی زوجہ مسلسل فون کرتی ہیں۔ شاید اُسی پہلے دن آپ نے انھیں بتانے میں کچھ تعطل سے کام لیا۔ یہ بھی دلچسپ ہے کہ آپ نے پہلے دن کہا کہ وہ میٹنگ میں ہیں اور کال اٹینڈ نہیں کرسکتے۔ اگر ان ساٹھ دنوں کے بارے میں کوئی نکتہ ہے تو ہمیں بتائیں۔" جناب مسافری نے کہا: "دس دن گزرنے کے بعد ہم جناب شرفی کے گھر والے سے جھوٹ بولتے ہیں کہ خبر ملی ہے   اور اُن کی حالت ٹھیک ہے۔ وہ لوگ صرف کوئی معاملہ کرنا چاہتے ہیں یا پیسے لینا چاہتے ہیں۔ مجھے خود کچھ پتہ نہیں تھا لیکن میں نے اُن کے گھر والوں کو یہ بتایا۔ ہم مسلسل عراقی عہدیداروں سے کہہ رہے تھے کہ ہمارے لئے اُن کا زندہ ہونا ثابت ہے اور ہمیں عراقی شیعہ گروپس سے بھی خبریں ملی ہیں کہ انھوں نے اُن کو زندہ دیکھا ہے۔ ہم یہ باتیں کرتے تھے تاکہ وہ اور سنجیدگی کے ساتھ اُن کو تلاش کریں۔ انصاف کی بات ہے کہ وہ لوگ بھی مسلسل لگے ہوئے تھے لیکن ہمیں قطعی طور پر یقین تھا کہ امریکی ایجنٹ ملوث ہیں۔ ہم ہر ۴۵ دن بعد ایک دن کی چھٹی پر جاتے تھے۔ ان ساٹھ دنوں میں کوئی بھی جناب شرفی کی وجہ سے چھٹی پر نہیں گیا۔ سب یہ چاہتے تھے کہ کوئی خبر ملے۔ عید سے ایک دن پہلے ہم نے سب کو چھٹی پر جانے کیلئے مجبور کیا اور اُن سے کہا کہ آپ کے گھر والوں نے کیا گناہ کیا ہے؟ ہم تین چار لوگ نے باقی تمام افراد کو زبردستی چھٹی پر بھیج دیاکہ الحمد للہ اُن سب نے عید کی تیرہ تاریخ کو اچھی خبر سنی اور جناب شرفی آگئے۔"

محکمہ خارجہ میں تقریبات کے ڈائریکٹر جواد معبودی فر نے بھی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: "جس رات جناب شرفی نے مجھے فون کیا ، ہم نے ایک دوسرے سے ملاقات کی اور انھوں نے مجھے یہ کتاب دی، مجھے اُن کی اسیری کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات تھیں، لیکن اس حد تک نہیں۔ جب میں نے کتاب کے ٹائٹل پر نگاہ ڈالی تو میں نے دیکھا کہ ٹائٹل پر اُن کا اپنا نام لکھا ہوا ہے۔ میں اور جناب شرفی نے تقریباً پانچ سال ایک جگہ ایک ساتھ کام کیا تھا۔ یہ انسان اس قدر خاضع اور متین ہے کہ ان تمام سالوں میں کہ جب ہمارا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا، مجھے اس ماجرے کے بارے میں بہت کم معلوم تھا اور انھوں نے خود کچھ نہیں بتایا تھا۔ یہ کتاب میرے لئے اتنی دلچسپ تھی کہ میں نے اُسے رات ساڑھے دس بجے پڑھنا شروع کیا اور صبح ساڑھے تین بجے  تک پوری پڑھ لی۔ میں نے کتاب سے ایک لمحہ کیلئے بھی آنکھ نہیں ہٹائی، میرے لئے بہت دلچسپ تھی۔ میری بھی ایک بیٹی ہے جو اُن کی بیٹی کی ہم عمر ہے۔ ہم – میں اور جناب شرفی – ایک دوسرے کو پہچانتےہیں اور ایک دوسرے کے دوست ہیں، اسی وجہ سے میں کتاب کے اندر موجود حس کو مکمل طور سے درک کرتا ہوں۔ کتاب کے کچھ صفحوں پر میں اُن کے ساتھ گریہ کرتا ہوں اور میں خود کو اُس سیاہ چال میں دیکھتا ہوں۔ صبح میں نے اُن کو فون کیا اور کہا کہ میں نے یہ کتاب پوری پڑھ لی ہے ، اُن کے لئے بھی عجیب تھا۔ اُس دن صبح مجھے ایک پروگرام میں جانا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ مجھے تھکن کی حالت میں جانا پڑے گا لیکن میں بالکل با نشاط تھا۔ صبح پہلی فرصت میں، میں نے یہ بات جناب وزیر (ڈاکٹر محمد جواد ظریف) کو بتائی کہ اس طرح کی کتاب لکھی گئی ہے ، اُن کیلئے بھی دلچسپ تھی۔ میں نے بتایا کہ اُس کے راوی اور اسیر میرے دوست ہیں اور آپ کوآج اُن سے ملنا چاہئیے۔ میرے خیال سے اُسی دن یا ایک دن بعد میں نے درخواست کی اور جناب شرفی آئے۔ جناب وزیر اُن کے ساتھ بہت دلجوئی اور مہربانی سے پیش آئے، ہم جو کہ اُنھیں جانتے تھے ہمیں داستان کا پتہ نہیں تھا، ہمارے لئے بہت دلچسپ تھا۔ جناب شرفی اور اُن کے گھر والوں کیلئے  اس حادثہ کو برداشت کرنا واقعاً بہت سخت تھا۔ میں نے جب سے کتاب پڑھی ہے، اُن سے میرا لگاؤ اور زیادہ بڑھ گیا ہے۔ میں اُن کے اور اُن کے گھر والوں کی سلامتی کیلئے دعاگو ہوں۔"

 

جیسے سیکنڈوں کی سوئی ٹھہر گئی تھی

سید جلال شرفی پروگرام کے تیسرے راوی تھے۔ انھوں نے کہا: "مجھے نہیں معلوم کہ مجھے کہاں شروع کرنا چاہئیے۔ اُن دہشت گرد گروپ اور امریکائیوں کے مقابلے میں  اس حادثہ سے جو مجھے حاصل ہوا، وہ معنویت کے سوا کچھ نہیں۔"

یادوں بھری رات کے میزبان نے جناب شرفی کی درخواست پر سوال پیش کیا اور پوچھا: "ہم چاہتے ہیں آپ کے اغوا ہونے کی داستان خود آپ سے سنیں۔ اُس دن جب آپ بینک گئے، کیا ہوا؟" جناب شرف نے کہا: "اغوا کرنے والی کاروائی تقریباً دس سے گیارہ بجے ہوئی تھی اور یہ کام ایک سے دو منٹ میں ہوگیا۔ کچھ لوگ بہت تیزی  کے ساتھ گاڑی سے اترے اور بات کرنے کی مہلت تک نہیں دی۔ انھوں نے اس بات کی پروا ہی نہیں کی کہ میں ڈپلومیٹ ہوں اور مجھ پر ڈپلومیٹک ذمہ داری ہے۔ میرے آنکھیں اور ہاتھ باندھ کر مجھے گاڑی کے پیچھے ڈال دیا۔ تقریباً ۴۵ منٹ بعد، تھوڑا کم یا زیادہ، گاڑی ایک جگہ روکی۔ میں اُسی لیٹی حالت میں گاڑی کے پیچھے تھا۔ ظہر کی اذان ہوئی۔ وقت گزرتا گیا اور میں اُسی طرح گاڑی کی ڈگی میں ہی تھا۔ مغرب کی اذان ہوئی اور میں اُسی طرح گاڑی کی ڈگی میں تھا۔ عشاء کی اذان ہوئی، میں اُسی طرح گاڑی کی ڈگی میں تھا۔ مجھے گاڑی سے نیچے اُتارا اور تقریباً ایک یا دو گھنٹے بعد صبح کی اذان ہوئی۔ میں جتنا وقت گاڑی کی ڈگی میں  تھا، اُن سے جہاں تک ہوسکتا تھا مجھے مارتے تھے، مار مار کر اُن کی سانس پھول جاتی تھی۔ رات کو جب مجھے اُتارا ، مجھے ایک جگہ لے گئے۔ میری آنکھیں بند تھیں۔ اُن میں سے ایک نے کہا: ہم آٹھ لوگوں کی شفٹ ہے۔ آٹھ لوگ حملہ کرتے تھے، مارتے تھے، تھک جاتے تھے، چلے جاتے اور پھر دوبارہ آجاتے۔ اُن میں سے ایک نے اپنے انچارج سے کہا اُس کا جسم بہت ہٹا کٹا ہے، لوہے کی طرح ہے۔ اُن کے انچارج نے بھی کہا: تمہیں جو چیز بھی میسر ہو اُس سے اس لوہے کو توڑ دو!  مثلاً میں بند ہاتھوں اور بند آنکھوں کے ساتھ بیٹھا ہوا ہوں، اچانک میرے سر پر لوہے کے پائپ سے مارتے۔ ڈنڈے اور لاتوں سے مارتے، میں کرسی سے نیچے گر جاتا، مجھے دوبارہ اُس پر بٹھا دیتے۔ یہی صورت حال چلتی رہتی۔ میں تقریباً دو سے تین دن تک ایک عمارت میں تھا۔ انھوں نے سیٹلائٹ چینل دیکھنے کیلئے دو تین ٹیلی ویژن رکھے ہوئے تھے۔ یہ جو حادثہ پیش آیا تھا اس کی بھی کچھ خبریں آرہی تھیں۔ تمام مسئولین جن میں سے وزیر امور خارجہ، پارلیمنٹ کے اسپیکر اور پارلیمنٹ میں قومی سلامتی کمیشن کے سربراہ تھے انھوں نے کہا کہ ہم اس حادثے کا اصلی ذمہ داری امریکی حکومت کو  سمجھتے ہیں، چونکہ امریکی افواج عراق میں موجود تھیں اور تمام چیزیں اُن کے کنٹرول میں تھیں۔ انھوں نے کہا: اس ایرانی ڈپلومیٹ کی سلامتی کی ذمہ داری امریکائیوں پر ہے۔ جب اس خبر کا اعلان ہوا، دہشت گردوں کو بہت خوشی ہوئی۔ وہ ہنسے اور میرے پاس آئے۔ انھوں نے کہا کہ کام تمام ہے۔ ایرانیوں نے  تمام چیز امریکیوں کی گردن پر ڈال دی ہے اور اب ہم مطمئن ہوکر تمہیں لےجائیں گے اور تمہارے سر کو جدا کردیں گے۔ تمہیں کاٹیں گے اور ذبح کریں گے!

میں تین دن تک ایک عمارت میں رہا، اُس کے بعد مجھے دوسری عمارت میں لے گئے۔ ٹارچر دینا وہاں پر شروع ہوا۔ اُس سے پہلے مجھ پر پل پڑتے، مکوں لاتوں ، ڈنڈوں یا پائپ یا کسی بھی چیز سے مجھے مارتے تھے، لیکن بعد میں میرے پاؤں باندھ دیتے تھے اور مجھے لٹکا دیتے  اور مجھے تار سے مارتے تھے۔ مجھے نیچے لاتے  تھے کہا کرتے: وہیں لٹکا دو، دوبارہ باندھ دیتے اور ٹارچر کرتے اور کہا کرتے: تم لوگ عراق میں کیا کر رہے ہو؟ تمہیں عراق چھوڑنا پڑے گا۔ شروع کے دس دن بہت مشکل سے گزرے اور شکنجے، بہت ہی جان لیوا شکنجے تھے۔ شاید چھٹا دن تھا کہ مجھے ایک گاڑی کے اندر چھپا دیا گیا تھا۔ وہ جگہ اتنی گرم تھی کہ مجھے لگتا تھا جیسے کوئی تندور ہے۔ وہاں پر آکسیجن بہت کم تھی اور میرا دم گھنٹے لگا تھا۔ مجھے زبردستی اُس جگہ گھسایا گیا تھا اور شاید کاروان کے انچارج نے حرکت کرنے کو کہا، ایک ساتھ کئی گاڑیاں اسٹارٹ ہوئیں۔ انھوں نے مجھ سے کہا: ہمارے راستے میں  جو چیک پوسٹیں آئیں گی وہاں پر دھیان رکھنا تمہاری کوئی آواز نہیں نکلنی چاہئیے۔ اگر تم نے کوئی حرکت چاہی، کسی سے مدد مانگنا چاہی تو گاڑی میں بمب لگا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ کوئی تمہاری مدد کرنا چاہے، گاڑی دھماکے سے اڑ جائے گی۔ گاڑی کبھی کئی گھنٹوں تک چلتی رہتی۔ دن کے وقت گرمی اور رات کو سردی ہوتی تھی۔ میں پیاس، تھکن اور درد کی وجہ سے کبھی اپنے سر کو بہت زور سے گاڑی سے ٹکراتا۔ میرے پاس جو شخص بیٹھا ہوا تھا، وہ گن کے بٹ سے میری ران اور سینہ پر مارتا کہ میں آرام سے رہوں لیکن مجھے اتنا درد ہوتا تھا کہ میں اصلاً توجہ نہیں دیتا تھا۔ میں اپنے سر کو زور سے گاڑی پر مارتا کہ میرے کندھے، گردن ، ناک اور منہ میں ہونے والا درد کچھ کم ہو۔ صبح ہونے والی تھی کہ میں نے اُن سے پانی لانے کی درخواست کی ۔ جو شخص میرے پاس بیٹھا تھا، اُس نے کہا: دروازہ باہر سے بند ہے۔

ہم ایک گاؤں میں پہنچے۔ کچھ لوگ اُن کا استقبال کرنے آئے اور انھیں اپنے ساتھ لے گئےتاکہ وہ لوگ سو جائیں۔ نگہبان گاڑی میں میرے ساتھ رہے۔ نگہبان کہتے: دروازہ باہر سے بند ہے، وہ لوگ کل صبح آئیں گے اور چابی سے دروازہ کھولیں گے۔ میں نے پوچھا: اچھا وہ لوگ کب آئیں گے؟ کہا: صبح سویرے۔ اُن کی صبح سویرے دس بجے صبح ہوئی۔ نگہبان مجھ سے پوچھتا: تمہیں کہاں درد ہو رہا ہے؟ میں کہتا: میرے کندھے پر، وہ میرے کندھے کی مالش کرتا۔ میں کہتا: میری گردن پر، وہ میری گردن کی مالش کرتا۔ میں کہتا: میرے گھٹنوں، میرے پیروں ۔۔۔ وہ دیکھتا کہ کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔ اُس نے پوچھا: تم شیعہ ہو؟ میں نے کہا: ہاں۔ اُس نے کہا: میں بھی شیعہ ہوں۔ میں شروع میں بالکل بھی ائمہ (ع) سے توسل نہیں کرسکتا تھا۔ میں جہاں بھی کہتا: یا امام حسین (ع)، یا فاطمہ زہرا (س) ۔۔۔ مجھے مارنے لگتے۔ ایک شفٹ کا مسئول تھا جو بہت ہی شدت  پسند تھا۔ اُس نے کہا: چودہ معصومین اور بارہ امام کے نام لو۔ میں نے بتانا شروع کیا اور نام لئے۔ جب میں امام حسین (ع) پر پہنچا، اُس نے کہا: آھا! سید شباب اھل جنت آئیں گے اور حتماً تمہاری مدد کریں گے؟! اُس نے مجھے مارنا شروع کردیا۔ اُس نگہبان نے جب کہا: میں بھی شیعہ ہوں، میں نے توسل اور تسکین حاصل کرنا شروع کردیا۔ ایک دن پہلے ڈھائی بجے سے لیکر اگلے دن گیارہ بجے تک میں گاڑی میں ہی چھپا رہا اور گاڑی مسلس چل رہی تھی۔ تقریباً رات کے آخری پہر میں گاڑی رکی اور اگلے دن گیارہ بجے دوبارہ چل پڑی۔ جب انھوں نے مجھے گاڑی سے نکالا، میں واقعاً ایک خشک جسم کی طرح تھا، چونکہ میرے اندر کوئی حرکت نہیں تھی۔ جب انھوں نے میری ہتھکڑیوں کو کھولا، میرے ہاتھ لٹکے رہ گئے تھے۔ ان دس دنوں میں شدید ترین شکنجے دیئے تھے؛ مثلاً مجھے لے جاتے اور ہڈیوں میں گھس جانے والی  سردی میں مجھے عراق کے بیابان میں چھوڑ دیتے۔ میں جلنے کی آواز سن رہا تھا یا آگ سے اٹھنے والے دھویں کی خوشبو مجھ تک آرہی تھی۔ جو نگہبان مجھے لیکر آئے تھے، وہ آگ کے گرد بیٹھے ہوئے تھے اور آگ کے گرد بیٹھے جن کپوں  اور پیالوں میں چائے پی رہے تھے مجھے اُن کی آواز آرہی تھی، لیکن میں دوسری طرف، سردی سے مر رہا تھا۔ عراق کی سردی واقعاً ہڈیوں میں گھس جانے والی سردی ہے۔ میں نے اُن سے التماس کیا کہ مجھے بھی آگ کے قریب لے جائیں تاکہ میں بھی کچھ گرم ہوجاؤں۔ اُن میں سے ایک نے مجھے بہت گالیاں بکیں کہ ہم جتنی بھی بدبختی اور دربدری اٹھا رہے ہیں، تمہاری وجہ سے ہے، اب ہم تمہیں آگ کے قریب لے جائیں؟! میں نے صرف ایک بنیان پہنی ہوئی تھی۔ اُس نے ایک بوتل اٹھائی اور قطرہ قطرہ کرکے اُس کا پانی میری گردن کے مہروں پر  ٹپکانے لگا اور کہتا جاتا: تم ابھی گرم ہوجاؤ گے! شاید یہ وہ شدید ترین شکنجہ تھا جسے میں نے برداشت کیا۔

وصفی کی باتوں کے بقول جو سیاہ چال کا ایک نگہبان اور آخر تک وہاں تھا، میں گویا چھٹے دن کے اختتام سے  چار دن تک بیہوش تھا۔ اُس نے بتایا: ہم سوچ رہے تھے کہ تمہارا کام تمام ہوگیا ہے اور تم مرگئے ہو، لیکن اچانک خدا نے تمہاری مدد کی۔ تمہارے والدین نے کون سا اچھا کام کیا ہے کہ تم واپس آگئے؟ جب مجھے ہوش آیا تو میں سیاہ چال میں تھا۔ یہاں بھی ایک نیا مرحلہ شروع ہوا۔ جو شخص میرے پاس آیا، اُس نے کہا کہ میں امریکی قونصل خانے میں تمہارے کیس کی فائل کا انچارج میں ہوں۔ وہ انگلش میں بات کر رہا تھا اور ایک عرب میرے لئے عربی میں ترجمہ کر رہا تھا۔ وہ وہی مسٹر تھا۔ میں نے کئی بار درخواست کی کہ مجھے کتاب، قرآن، کوئی تحریر یا حتی بچوں کے قاعدے کی کوئی کتاب دیدی جائے۔ وہ شخص جو ہر روز مطالعہ کرتا ہے، ٹیلی ویژن دیکھتا ہے، خبریں سنتا ہے، باتیں کرتا ہے، توانائی سے بھرپور ہے اور جوش وولولہ رکھتا ہے و اچانک ایک سیاہ کوٹھڑی میں چلا جاتا ہے جو قبر سے تھوڑی بڑی ہے۔ نہ کچھ دیکھتا ہے، نہ کچھ سنتا ہے، نہ کچھ پڑھتا ہے، نہ کچھ لکھتا ہے۔ ہاں یہ بہت سخت ہے۔ جب میں نے قرآن مانگنے کیلئے درخواست کی، انھوں نے کہا: تم نجس ہو! پھر کہنے لگے تم تو کسی اور قرآن کو مانتے ہو اور یہ قرآن جسے مسلمان مانتے ہیں، یہ  تمہارا قرآن نہیں ہے! یہاں تک کہ ایک دن میرے پاس ایک شخص میرے بال کاٹنے آیا جسے استاد کہہ کر بلاتے تھے۔  اُس نے آکر مجھ سے کہا: یہ تمہاری زندگی کے آخری ایام ہے پتہ نہیں تمہیں دوبارہ زندگی ملے یا نہیں، اسلام کی طرف لوٹ آؤ! آجاؤ اور توبہ کرلو! وہ اپنے ساتھ ایک کتاب لایا تھا کہ جس کا مؤلف ایک شدت پسند مولوی تھا جس نے اُس کتاب میں شیعہ کے مشرک ہونے پر زور دیا تھا! یہاں پر جو ہوا اور میں نے جو فائدہ اٹھایا، وہ یہ تھا کہ اُس کتاب میں یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ قرآن کہتا ہے خدا سے توسل اختیار کرو اور خدا پر توکل کرو۔ امید بخشنے والی اور توکل و توسل سے متعلق تقریباً ساٹھ آیتیں تھیں۔ یعنی یہ استاد کا سب سے بڑا تحفہ جو مسٹر کا مترجم تھا اور آخر تک اُس کا چہرہ پوشیدہ تھا، یہ کتاب تھی۔ میں آیتوں کو کئی بار شروع سے لیکر آخر تک پڑھتا اور وہ احادیث و روایات جو شیعوں کے مشرک ہونے کے بارے میں تھیں، مجھے اُن سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ کتاب میں جو آیتیں تھیں، وہ معنوی اور نفسیاتی لحاظ سے میرے حال کو بہتر بنا رہی تھیں۔ کبھی میں ترتیل کے ساتھ اور کبھی آواز کے ساتھ پڑھا کرتا۔ کہا جاسکتا ہے کہ مجھے بہترین مونس اور دوست مل گیا تھا؛ اُس چیز کے برخلاف جس کا وہ لوگ تصور کر رہے تھے کہ میں آکر توبہ کرلوں اور اُس  طرف پلٹ جاؤں جس طرف وہ لوگ چاہتے ہیں۔

جناب صالِحی (پروگرام کے میزبان) کے سوال کے جواب میں کہ ایک ڈپلومیٹ کی کیا اہمیت ہوتی کہ آکر اُسے اغوا کرلیتے ہیں، میں یہ کہوں گا کہ امریکی عراق میں آئے ہوے تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ دوسرے ممالک، حتی وہ ممالک جو عراق پر حملہ کرنے میں اُن کے اتحادی اور اُن کے ساتھ تھے، عراق کی نئی حکومت سازی کے عمل میں حصہ دار بنیں۔ وہ اس چیز کے درپے تھے کہ جو وہ چاہتے ہیں اُس کی بنیاد پر، نیا ڈھانچہ، بنیادی قوانین، پارلیمنٹ اور حکومت تشکیل دیں۔ ٹھیک، دوسرے ممالک جیسے اردن، افریقی ممالک اور حتی روس کے ڈپلومیٹس پر حملہ کیا۔ انھیں مارا اور اغوا کیا۔ ہمارے ڈپلومیٹس کی طرف بھی اشارہ کیا کہ جناب نعیمی قونصل خانے سے سو میٹر کے فاصلے پر شہید ہوئے۔ ہمارے قونصلر جناب فریدون جہانی کربلا کے راستے میں اغوا ہوئےاور تین سے چار مہینوں تک دہشت گردوں کے اختیار میں رہے۔ جسمانی مشکلات اور گردے کے درد کی وجہ سے موت کے قریب پہنچ گئے تھے کہ اُن کے دل میں رحم آیا اور انھیں چھوڑ دیا۔ یہ ماجرا ہونے سے پہلے ہم زیارت پر جا رہے تھے کہ اسلحہ کے ساتھ ہمارے راستے میں حائل ہوگئے اور کہنے لگے: تم لوگوں کو عراق سے کیا لینا ہے؟ اگر نہیں گئے، تو جناب نعیمی والا حال ہوگا۔ حتی اقوام متحدہ کے نمائندے پر بھی رحم نہیں کھایا۔ یعنی امریکی اس بات پر راضی نہیں تھے کہ اقوام متحدہ آکر جمہوریت اور آزادی کے عمل کے اندر کہ جس کی خود بات کرتے ہیں، حکومت سازی اور نئے ڈھانچے میں تبدیلی کریں۔ انہی گروپس نے ایک دہشت گردانہ حادثہ میں، اقوام متحدہ کے نمائندے کو بغداد میں مار کر قتل کردیا۔ امریکیوں کیلئے ڈپلومیٹس کی اہمیت اور قدر و قیمت کہ جو چاہتے تھے یہاں کوئی بھی نہ رہے، یہاں سے پتہ چلتی ہے۔

شروع کے دس دنوں میں جو ٹارچر دیا گیا تھا۔ شاید اُس کا کوئی خاص مقصد نہیں تھا۔ مثلاً وہ کہا کرتے کہ تم لوگ کیا کر رہے ہو؟ شاید اُسی قبائلی جنگ کے درپے  تھے، لیکن امریکی ایک خاص منظر اور خطرناک سازش کے تحت معاملہ  کی تہہ تک گئے۔ پہلے دن آئے اور عراق میں موجود شیعہ گروپس سے رابطے میں رہنے کی وجہ سے شکنجے، اذیتیں اور تکالیف دیں۔ میں نے کہا: میں کسی کو نہیں پہچانتا۔ چونکہ اگر میں کہتا فلاں شخص، اس کام سے مسئلہ کھڑا ہوجاتا۔ یہ لوگ آئے اور انھوں نے کہا ضروری نہیں ہے کہ آپ کو کچھ پتہ ہو! امریکیوں اور ہر وہ گروپ جو اغوا کی کاروائی کرتا ہے اُن کیلئے ڈپلومیٹ کی اہمیت کا پتہ یہاں سے چلتا ہے کہ ایک ڈپلومیٹ  باقاعدہ ایک ملک کے نمائندہ  کے طور پر آتا ہے  اور اپنے ملک کے خلاف انٹرویو دیتا ہے۔ یہ کام اُن کیلئے ایک امتیاز ہے اور اُس ملک کے خلاف ایک خیانت اور دھمکی بھی جس ملک سے وہ ڈپلومیٹ تعلق رکھتا ہے۔ یہ لوگ آئے اور کہنے لگے: اصلاً اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ تمہارے پاس کوئی معلومات ہوں اور تمہیں کسی چیز کے بارے میں کچھ پتہ ہو۔ ہم سب کچھ لکھ کر دیں گے اور آپ صرف اسلامی جمہوریہ ایران کے ڈپلومیٹ اور بغداد میں ایرانی قونصل خانہ میں سیکنڈ سیکریٹری کی حیثیت سے آئیں اور جو کچھ ہم نے لکھا ہے اسے پڑھ دیں؛ ہمارا ملک ایسا ہے، ہم نے یہ کام کئے ہیں، ایٹمی توانائی کی بحث میں ہم نے یہاں تک ترقی کرلی ہے، دو طرفہ روابط کے معاملہ میں اور ۔۔۔ اس حادثہ سے چند مہینے پہلے، یورپ کے ساتھ ہونے والے ہمارے ایٹمی مذاکرات امریکی دباؤ کی وجہ سے منقطع ہوگئے تھے۔ ہم اس کی نظارت کر رہے تھے۔ ہمارا کیس سلامتی کونسل میں گیا ہوا تھا اور ہم پر پابندیوں کی پہلی قرار داد کا حکم صادر ہوچکا تھا۔ امریکیوں کو اپنے یورپی متحدین کو راضی کرنے کیلئے سند کی ضرورت تھی۔ مثلاً ایک شخص سفارت کار کی حیثیت سے آئے اور کہے ہم نے ایک ایسا ایٹمی بمب بنا لیا ہے جو دنیا میں متعارف دوسرے ایٹمی بمبوں سے مختلف ہے؛ ایک بات جو انھوں نے لکھی ہوئی تھی اور مجھ سے چاہا کہ میں جاکر اسے پڑھوں، یہ تھی۔ بارہ سال ہوگئے ہیں کہ ابھی تک تفتیش ہو رہی ہے۔ ایٹمی توانائی ایجنسی بارہ دفعہ اعلان کرچکی ہے کہ ایران نے ایجنسی کے ساتھ ہونے والی کسی قرار داد اور قانون کو نہیں توڑا ہے۔ اُس زمانے میں وہ لوگ اس چیز کی تلاش میں تھے کہ جمہوری اسلامی کے ڈپلومیٹ کے عنوان سے وہ میری زبان سے اس طرح کی باتیں نکلوائیں اور میرا تجزیہ اور تصور یہ تھا کہ یہ لوگ یورییوں سے کہنا چاہتے ہیں ایران نے مذاکرات کے ان سالوں میں آپ کو چکر دیا ہے۔

آئے اور میرے سامنے مختلف دلچسپ تجاویز رکھیں۔ جن میں سے شاید ایک وہی برقی ہیٹر تھا؛ انھوں نے کہا ہم آپ کو کچھ سروسز مہیا کریں گے۔ دوسری بات یہ تھی کہ اگر آپ نے ہمارے ساتھ تعاون کرنے کو قبول کرلیا تو آپ جس ملک میں بھی جانا چاہیں، جاسکتے ہیں؛ ہم جاکر آپ کے بیوی بچوں کو لیکر آئیں گے تاکہ آپ اُن کے ساتھ آسائش سے بھرپور بہترین زندگی گزار سکیں۔ آپ صرف آکر اُن باتوں کو بیان کریں جن کا آپ سے کہا جائے اور ہم اُسے اپنی مرضی کے سیٹلائٹ چینل پر منتشر کریں گے۔ اس اغوا کی اہم ترین اہمیت اس کام کا ہونا تھا۔ میرے پاس دو راستوں کے علاوہ تیسرا کوئی راستہ نہیں تھا، یا میں ہر روز اسٹیج پر جاتا اور ایرانی قوم اور اس ملک کے خلاف وہ باتیں کرتا جو وہ لوگ دیتے یا یہ کہ میں خود کو مارتا؛ میں اٹھ جاتا اور آجاتا۔ اس اٹھ کر آنے میں یا میں مارا جاتا یا اُن کے چنگل سے فرار کر جاتا کہ خدا نے مدد کی اور ایسا ہوا۔ بہت سخت کام تھا۔ میری بیوی، میری بیٹی، میرے بھائی، دوست، سرمایہ، جائیداد وغیرہ، ان سب نے مجھے جکڑ کر رکھا ہوا تھا۔ میں نے کہا: خدایا اب میری کوئی بیوی اور بیٹی نہیں ہے۔ میرا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ اب تک میرے پاس امانت تھے اور آج سے میرے کچھ نہیں لگتے۔ میں نے سوچا: قتل ہوجانا اس بات سے بہتر ہے کہ میں ہر روز اسٹیج پر جاکر انٹرویو دوں اور اپنی بیوی، بچوں اور گھر والوں کی عزت و آبرو کو برباد کردوں۔ میں نے واقعاًٍ خود کو مار دیا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ خدا نے مدد کی اور ایرانی عوام اور میرے گھر والوں کی دعاؤں کی وجہ سے یہ معجزہ پیش آیا۔"

پروگرام کے میزبان نے پوچھا: "شروع کے اُن دس دنوں میں جب آپ سیاہ چال میں منتقل نہیں ہوئے تھے، آپ کو پکڑا ہوا ہے اور گاڑی کے اندر آپ کی جیبیں خالی کر رہے ہیں۔ اُن لوگوں کو آپ کی مختلف چیزیں ملتی ہیں۔ وہاں پر کچھ بات چیت ہوتی ہے، کیا آپ کو وہ باتیں یاد ہیں کہ ہمیں اُس کے بارے میں بتائیں؟ شرفی نے کہا: "جس وقت انھوں نے مجھے گاڑی کے اندر ڈالا ہوا تھا ، ابھی تک مجھے مضبوطی سے نہیں باندھا تھا۔ آنکھوں پر بندھی پٹی باریک تھی اور میں ایک کونے سے دیکھ سکتا تھا۔ ایک آدمی آگے بیٹھا ہوا تھا۔ ایک آدمی میرے پاس بھی بیٹھا ہوا تھا۔ اُس نے میری جیبوں کو خالی کیا تو میں دیکھ رہا تھا۔ اُس نے میرے پرس کو نکالا، مجھے یاد نہیں ہے کہ اُس میں کتنے دینار اور درہم تھے کہ اُس  نے نکال کر اپنی جیب میں رکھ لئے۔ اُس نے میری گھڑی کھولی اور اس وقت مجھے بری بری باتیں  سنائیں۔ اُس نے کہا: مفلس ہے ، اس کی جیب میں زیادہ پیسے نہیں ہیں۔ گھڑی بھی کوئی زیادہ مہنگی نہیں ہے۔ اُس نے پیسے نکال لئے، خالی پرس اور میرا وزارت خارجہ کا کارڈ اپنے انچارج کو دیا اور کہا: سرکار! اس کی جیب میں کچھ نہیں تھا۔ مفلس آدمی ہے۔"

میزبان نے کہا: "سیاہ چال میں آپ کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ انسان کے ذہن میں اس فلم کو بنانا ایک عجیب و غریب چیز ہے کہ ایک آدمی جس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور وہ کھجور کے ڈبے پر لگی اسٹپلر پن کی مدد سے دیواروں پر علامتیں لگاتا ہے کہ اُس کو اسیر ہوئے چند دن گزر چکے ہیں۔ یہ جو سارے واقعات پیش آتے ہیں، آپ ان سے خود کو سرگرم رکھتے ہیں۔ قرآن اور اُن خاص آیات کو پڑھتے ہیں، ہنسنے والی چیزوں کے بارے میں سوچتے ہیں، خوش ہونے والی چیزوں کو یاد  کرتے ہیں۔ خود کو اُمید  دلاتے ہیں۔ میں نے آپ کے واقعات میں پڑھا ہے کہ آپ سراج کی تصنیفات کو زور زور سے پڑھتے تھے تاکہ آپ کو دلی سکون میسر آئے اور آپ روازنہ مشق بھی کرتے تھے تاکہ آپ کی آواز اچھی ہوجائے۔ کیا ایسا ہی تھا؟"

شرفی نے جواب میں کہا: "جی، واقعاً حالات بہت سخت تھے۔ میں خود کو ڈگمگانے سے بچانے کی کی خاطر ہر چیز سے متوسل ہوتا تھا۔ یعنی اگر میں ہتھے سے اکھڑ جاتا، شاید کوئی حادثہ ہوجاتا اور یہ نتیجہ جو اس وقت سامنے آیا ہے، کسی دوسری صورت میں ہوتا۔ مجھے ہنسنا چاہیے تھا اور اس طرح یہ غم ختم ہوجاتا۔ مشکل حالات میں نفس لوامہ اور نفس امارہ آدمی کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور یہ میرے ساتھ ہوا۔ میں پوچھتا: میں کیوں؟ میں نے کیوں اس راستے کا انتخاب کیا؟ اتنی زیادہ تکالیف کس لئے؟ تمہارے بیوی بچوں نے اس وقت کیا گناہ کیا ہے؟ اگر یہی صورت حال رہتی تو میں اکھڑ جاتا اور اُس ماحول میں تسلیم ہوجاتا۔ لیکن خدا نے مدد کی۔ لوامہ اور ملامت کرنے والا نفس اور نفس امارہ ایک دوسرے کے سامنے آجاتے۔ میں کہتا ہوں ایسا بھی ممکن تھا کہ تم  اس وقت ایران میں ایک تصادف میں کسی کا قتل کردیتے اور اس وقت تم کسی تھانے میں ہوتے اور یہ وہ لڑائی تھی جو میں اپنے اندر لڑ رہا تھا۔ مجھے اپنے حوصلے کو بڑھانا تھا کہ میں بالکل بھی ایسی فکروں کی طرف نہ جانے پاؤں۔ ایک کام جو میں نے کیا یہ تھا کہ حسام الدین سراج کی کیسٹیں جو میں اوائل جنگ میں سنا کرتا تھا اور سن کر گریہ کرتا تھا میں اُس کو اپنے لئے دہراتا۔ مجھے اُس کی کچھ عبارتیں یاد تھی جو میں خود ہی خود گنگناتا رہتا تھا۔ اور میں نے جو طنزیہ ڈرامے دیکھے ہوئے تھے، جیسے جناب مہران مدیری کا طنزیہ ڈرامہ اور بررہ نامی سریال کو تصور میں لاتا، بعض ڈائیلوگ کو خود ہی بولتا اور واقعاً مجھے ہنستی آجاتی تھی۔ میں ۲۴ گھنٹوں میں سے ہر لمحہ کو اور وہ سخت ترین لمحات جن کا مجھے سامنا تھا میں ان باتوں کے ذریعے  گزارتا تھا۔  جیسے سیکنڈوں کی سوئی ٹھہر گئی تھی۔ یہ جو میں کہہ رہا ہوں کہ میں ہنستا تھا، شاید اس میں سیکنڈ نہیں لگتے تھے۔ میں تھوڑا سا ہنستا اور میری حالت بہتر ہوجاتی۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ میری آنکھوں سے بہنے والی آنسوؤں کی لڑی کبھی نہیں رکی۔ میری زبان سے صلوات کا ذکر کبھی نہیں رکا۔ جیسے میں آٹو میٹک ہوگیا تھا۔ مثلاً میں کچھ اور کہنا چاہتا تھا لیکن میں دیکھتا کہ میرے منہ سے صلوات نکل رہی ہے۔"

میزبان نے پوچھا: "آپ اگر آج اُس بد اخلاق نگہبان وصفی کو دیکھیں تو آپ اس کے ساتھ کیا کریں گے؟" شرفی نے جواب میں کہا: "میری اگر آج اُن سے ملاقات ہو تو میں تہران کے بہترین ریسٹورنت یا حتی انھیں اپنے گھر آنے کی دعوت دوں گا اور اُن کی بہترین پذیرائی کروں گا۔ میں اُن کی چہرے  کو چوم لوں گا۔ چونکہ وہ لوگ بھی انسان ہیں، خاص شرائط اور ماحول میں  اپنے بیوی بچوں کے اخراجات اٹھانے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ میں ہمیشہ یہ دعا کرتا تھا خدایا میری مظلومیت اور سچائی کو ان نگہبانوں کے دل میں ڈھال دے کم سے کم یہ لوگ تو جان لیں کہ میں بے گناہ  ہوں۔ البتہ اُس مسٹر کے بارے میں نہیں! وہ اپنے وظیفے اور اپنے کام کے چکر میں تھا۔ میں اُن سے کہتا : مجھے زمینوں پر لے جاؤ تاکہ میں تم لوگوں کیلئے کام کروں، ہل چلاؤں۔ میں واقعاً یہ کام کردیتا اور کہیں جاتا بھی نہیں۔ میں صرف اُس ماحول سے باہر نکلنا چاہتا تھا۔ جن دنوں میں،  میں نے اذیت جھیلی ہے ، یہ سختی اُس سختی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جن مشکلات کا سامنا شہداء، اسیری کے بعد رہا ہونے والے اور گم ہوجانے والوں کے گھر والوں نے کیا ہے۔ میں اس بات پر شرمندہ ہوں کہ میں اسٹیج پر آکر واقعہ کے بارے میں گفتگو کر رہا ہوں۔"

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۳۰۳ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ جون ۲۰۱۹ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۵ جولائی کو منعقد ہوگا۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2732



http://oral-history.ir/?page=post&id=8751