زندان میں بھی جدوجہد جاری رہی

مترجم: ابو میرآب زیدی

2019-07-22


ماہ مبارک رمضان کی اکیس تاریخ کو میں نے منبر پر بہت بھرپور تقریر کی اور قرآن کریم کا حوالہ دیتے ہوئے شعائر اسلامی کے دس موارد کو بیان کیا اور کہا: "جو بھی ان میں سے ایک پر حملہ کرے، وہ کافر اور واجب القتل ہے۔ اے لوگو! جان لو کہ ان امور پر شاہ اور اُس کی حکومت سے زیادہ کسی اور نے حملہ نہیں کیا ہے، لہذا یہ لوگ واجب القتل ہیں اور جس کسی میں بھی اتنی توان ہے وہ ان میں سے ایک کو قتل کردے، یہ کام کرنا واجب ہے۔" اس طرح میں نے ماہ مبارک رمضان کی اکیس تاریخ کو منبر پر علی الاعلان شاہ کے قتل کا فتوی دیدیا۔

اگلے دن صبح سحری کھانے کے بعد ابھی میں سویا ہی تھا کہ مجھے دروازے پر دستک دیئے جانے کا احساس ہوا۔ پتہ چل رہا تھا کہ اتنی صبح سویرے مجھے گرفتار کرنے آئے ہیں۔ میں نے جاکر دروازہ کھولا، انھوں نے پھر مجھے واپس جانے نہیں دیا۔ میں نے کہا: صرف اتنی اجازت دیں کہ میں اپنے کپڑے اٹھالوں۔ میرے گھر والے بھی جاگ رہے تھے اور دیکھ رہے تھے کہ مجھے لے جا  رہے ہیں۔ میری آنکھوں پر پٹی باندھی اور مجھے گاڑی کے اندر بٹھا کر مجھے مشترکہ کمیٹی کے دفتر لے گئے۔

دو – تین دن بعد، جناب انجینئر بازرگان کو بھی لے آئے۔ میں نے صحن میں دیکھا کہ اُنھیں تفتیش کیلئے لے جا رہے ہیں۔ میں  نے اندازہ لگالیا، مسجد قبا میں تقریریں کرنے کی وجہ سے انھیں گرفتار کیا گیا ہے۔

مجھے کال کوٹھڑی میں ڈال دیا۔ اب مجھے باہر کے حالات کے بارے میں کچھ نہیں پتہ تھا۔ وہاں ایک سپاہی نگہبان کا کمرہ تھا، میں جتنی بھی اُس سے باتیں کرتا وہ جواب دینے کی جرات نہیں کرتا۔ بہت ہی بری کوٹھڑی تھی؛ روشنی یا ہوا آنے کیلئے کوئی بھی پنجرہ موجود نہیں تھا۔ بالکل بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ دن یا رات کا کونسا پہر ہے۔ میرا دل خوش کرنے کیلئے صرف اذان کی آواز تھی جو مسجد سے میرے کانوں تک آتی تھی اور وہ سجدہ گاہ بھی جو میں ہوشیاری سے اپنے ساتھ لے آیا تھا۔

خوش قسمتی سے مسجد میں صبح اور رات کو اذان ہوتی تھی اور اُس کی آواز  واضح طور سے سنائی دی جاتی تھی۔ اُس گھپ اندھیرے اور تنہائی میں "اللہ اکبر" اور لا الہ الا اللہ" کا نغمہ  میرے لیے امید بخش اور  دل کو سکون پہنچانے والا تھا۔ اذان کی آواز سنتے ہی میں نماز اور عبادت میں مشغول ہوجاتا  اور اپنی روح اور جان کو پاکیزہ بناتا۔

مین جن دس دنوں میں  کال کوٹھڑی میں رہا تھا، میں دو کام انجام دیتا: سورہ حمد کی تلاوت اور تمام جاننے والوں اور رشتہ داروں کی طرف سے قضا نمازیں پڑھنا  کہ میں اُن میں سے ہر ایک کو یاد کرتا تھا  اور قرآن کی مختلف سورتوں کی تلاوت کرتا اور اُس کا ثواب انبیاء اور اولیاء الٰہی کی پاکیزہ روحوں کو ایصال کرتا۔

چند دنوں بعد مجھ سے بہت سخت لہجے میں تفتیش کی اور کہا: "تم اس حد تک آگے بڑھ گئے ہو کہ منبر سے اعلیٰ حضرت کے قتل کا فتویٰ صادر کر رہے ہو؟" میں نے انکار کردیا۔ انھوں نے فوراً میری کیسٹ لگا دی۔ میں  نے خاموشی اختیار کی۔ کہنے لگے: "اسی کیسٹ کی وجہ سے، ۱۵ سال تک جیل میں رہو گے۔ اس کے علاوہ بھی دوسری چیزیں ہیں جو بعد میں سامنے آئیں گی" اور میرے لئے بہت زیادہ لائنیں  کھینچی گئیں، یہ اس حالت میں تھا کہ میں نصرت الٰہی اور انقلاب کی کامیابی کے علاوہ کسی چیز کی فکر نہیں کر رہا تھا۔

دس دن بعد مجھے  عمومی کمرے میں ڈال دیا۔ وہاں پر چار لوگ تھے: ۱۔ جناب انجینئر ہاشم صباغیان، تحریک آزادی کے سربراہوں میں سے ایک، ۲۔ جناب شیخ جلال آل طاہر، جو خمین کے رہنے والے تھے، لیکن کرمانشاہ میں امام جماعت تھے۔ وہ بہت ہی بہادر اور شجاع انسان تھے۔ میں نے اُن سے پوچھا: "آپ جیل میں کیوں آئے ہیں؟" انھوں نے کہا: "میں ایک مہینے پہلے بھی جیل میں تھا اور چھٹ گیا تھا ، میں نے دوبارہ کرمانشاہ میں منبر  پر جاکر کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ ایجنٹ آکر مجھے پکڑ لیں گے، لیکن میں پھر بھی کہوں گا اور  میں نے گذشتہ کی طرح حکومت پر حملہ کیا" ۳۔ جناب بطحائی گلپائیگانی، جو پیش نماز تھے اور اپنی مسجد میں سخت تقریر کرنے کی وجہ سے گرفتار ہوئے تھے ۴۔ جناب چاووشی ، جو واعظ تھے۔

جب میں ان دوستوں  میں شامل ہوا، میں نے مشورہ دیا کہ آئیں صحیح منصوبہ بندی کرکے اپنے وقت کو ضائع ہونے سے بچائیں اور مختلف طرح کے کام انجام دیں۔ سب نے میرے مشورے کو قبو ل کیا اور طے یہ پایا کہ کچھ گھنٹے عقائد  اور دینی احکام کے بارے میں بحث اور کچھ گھنٹے سیاسی گفتگو اور بحث کرنے سے مخصوص کردیئے جائیں۔ نیز اس بارے میں بھی بات ہوئی کہ ہم لوگ تفتیش کے وقت کس طرح بات کریں کہ ہمارا جرم کم ہوجائے اور اپنے وقت کے کچھ حصے کو عبادت اور راز و نیاز کیلئے گزاریں۔ یہ پروگرام آزاد ہونے تک جاری رہے۔

ایک دن ایک افسر نے مجھ سے پوچھا: "کیا اب تک آپ  اپنے گھر والوں سے ملے ہیں؟"

میں نے کہا: "نہیں" اُس نے کہا: "کیا تم اُن سے ملنا چاہتے ہو؟" میں نے کہا: "نہیں"۔ حالانکہ میرے تین چھوٹے بچے تھے اور میرا دل اُن کیلئے بہت تڑپ رہا تھا، میں نے صرف وجہ سے اُسے منفی جواب دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی تقاضا کر بیٹھے۔ خدا کے لطف و کرم سے بہت جلد ہی ہماری ملاقات کا وقت مقرر ہوگیا اور میں اپنے گھر والوں سے ملا۔ شاید میرے زوجہ کے والد  نے، جن کا آیت اللہ سید احمد خوانساری کے پاس آنا جانا رہتا تھا، اُن کی سفارش کے ذریعے  ملاقات کا وقت لیا تھا۔  ۷ ستمبر (۱۷ شہریور) والے واقعہ کے بعد بھی  اُن لوگوں سے ایک ملاقات ہوئی کہ میری زوجہ نے اشارے میں مجھ سے کہا کہ جمعہ والے دن ژالہ (شہداء) چوک پر بہت رش تھا۔ چوکیداری کرنے والے افسر نے فوراًٍ اُس کی بات کاٹ دی اور کہا کہ کچھ نہیں ہوا تھا ، صرف چہار – پانچ لوگ مارے گئے تھے۔

کچھ دنوں بعد ہم میں سے دو لوگ آزاد ہوگئے۔ ایک دن بتایا گیا کہ جناب ازغندی – جو لوگوں کے درمیان جلاد سے مشہور تھا – کمروں کا دورہ کرنے آ رہا ہے۔ میں نے جناب صباغیان سے، جو پہلے بھی ایک دو مرتبہ جیل میں ڈالے جا چکے تھے اور انھیں تجربہ تھا، سوال کیا: "ہمیں کس طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟" انھوں نے کہا: "معمول کے حساب سے بہترین راستہ یہ ہے کہ سیدھے کھڑے ہوکر احترام کریں اور اُس سے نرم لہجے میں بات کریں۔" میں نے کہا: "ہم اُن پر حملہ کرنے کی وجہ سے جیل میں ڈالے گئے ہیں۔ ہم ان لوگوں کو طاغوت اور ستمکار سمجھتے ہیں، اب کس طرح ان سے نرم لہجے میں بات کریں اور عزت و احترام کریں؟ میں تو کوئی توجہ نہیں دوں گا اور بالکل بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلوں گا۔" البتہ وہ خود بھی نڈر آدمی تھے۔ جتنی مدت ہم ساتھ رہے تھے اُن کی نماز شب ترک نہیں ہوئی، وہ تہجد گزار، گریہ اور مناجات کرنے والے تھے۔

جناب ازغندی دورے پر آئے، وہ جب ہمارے کمرے میں داخل ہوا،  میں ایک کونے میں بیٹھا ہوا تھا  اور میں نے حتی اپنا سر بھی اوپر نہیں اٹھایا۔ وہ تیز لہجے میں بولا: "کھڑے ہو، ادھر آؤ ، میں دیکھو ذرا۔" مجھے کمرے سے باہر لے گیا  ، میرا نام اور فیملی نام پوچھا۔ اُس نے کہا: "تمہیں کس لئے گرفتار کیا گیا ہے؟" میں نے کہا: قرآن اور نہج البلاغہ کی تفسیر بیان کرنے کے جرم میں۔" اُس نے اپنے ساتھ موجود افسر سے کہا: "اسے میرے کمرے میں لیکر آؤ۔" جناب صباغیان سب  دیکھ رہے تھے، انھوں نے سر ہلایا کہ تمہاری خیر ہو، تم نے خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی ہے۔ وہ اور میرے دوسرے دوست بہت ناراض ہوئے، ہم نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور خدا حافظی کی۔

مجھے جناب ازغندی کے کمرے میں لے گئے۔ وہ کچھ دیر تک مجھے گھورتا رہا – جیسے مجھے ٹٹول رہا ہو – پھر کہا: "گھر والے ملنے  آئے تھے؟" میں نے کہا: "ہاں" اُس نے کہا: "دوبارہ بھی ملنا چاہتے ہو؟" میں نے کہا: "نہیں" اُس نے افسر کی طرف رُخ کرکے کہا: "فون کرکے کہو کہ اس کے کپڑے لے آئیں اور اسے باہر پھینک دو۔" یقین کرنے والی بات نہیں تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ شاید مجھے اوین جیل بھیج دیں، یا جلا وطن کردیں یا ۔۔۔ بہر حال، میرے اُن منبروں پر جانے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور شاہ اور اُس کے بہنوں کے خلاف جو میں نے کھلم کھلا بیانات  دیئے تھے، مجھے اتنی جلدی آزاد کردینا محال لگ رہا تھا۔ میرے کپڑے لیکر آئے، میں نے انھیں پہنا۔ میری آنکھوں پر پٹی باندھی گئی، اس وقت میری پریشانی میں اضافہ ہوگیا کہ  کہیں ایسا نہ ہو جیسا کہ میرے دوست نے کہا  تھا مجھ پر کوئی بلاء ڈھا دیں۔ مجھے گاڑی میں بٹھایا اور جیل کے احاطے میں چند چکر لگائے اور آخر میں جیل کے مین گیٹ پر مجھے اتار دیا اور کہا جاؤ۔

مجھے اچانک پتہ چلا کہ  میں نے نہ چاہتے ہوئے اس آیت کے  معنی پر عمل کیا ہے: "یا اَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دینِهِ فَسَوْفَ یَأْتِی الله بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّونَهُ اَذِلَّهٍ عَلَی الْمُؤْمِنینَ اَعِزَّهٍ عَلَی الْکافِرینَ یُجاهِدونَ فی سَبیِلِ‌الله وَ لایَخافُونَ لَوْمهَ لائمٍ ذلِکَ فَضْلُ‌الله یُؤْتیهِ مَنْ یَشاءُ وَالله واسعٌ عَلیمٌ" [سورہ مائدہ، آیت ۵۴] میں نے احساس کیا کہ خداوند متعال نے انعام کے طور، مجھے اتنی آسانی سے آزاد کردیا ہے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر، کہ ایک کے بعد ایک اس طرح کے واقعات پیش آئے، اور اُس معنوی احساس کی وجہ سے بھی، میں ایک لمحہ کیلئے مات و مبہوت، پریشان اور گنگ ہوگیا تھا کہ یہ تہران کی کون سی جگہ ہے، کیونکہ مجھے پہلے یہاں پر آنکھوں پر پٹی باندھ کر  لایا گیا تھا۔

میں تھوڑا راستہ چلا اور بالآخر سمجھ گیا کہ شاہراہ فردوسی ہے۔ میری جیب میں بالکل بھی پیسے نہیں تھے۔ میں سڑک کے کنارے کھڑا ہوگیا۔ کسی شخص کی کار میرے سامنے آکر رکی اور ڈرائیور نے مجھے گاڑی میں بیٹھنے کا کہا۔ میں نے جتنا بھی سوچا لیکن وہ شخص مجھے یاد نہیں آیا کہ کون ہے، لیکن وہ مجھے پہچان گیا تھا اور سمجھ گیا تھا کہ میں ابھی جیل سے چھٹا ہو، اُس نے مجھے گھر پہنچا دیا۔

میری رہائی کی خبر سب کے کانوں تک پہنچ گئی۔ دوست، جاننے والے، محلے والے، گروپ گروپ کی صورت میں مجھ سے ملنے آ رہے تھے۔ اُس زمانے میں معاشرے پر حاکم فضا پہلے سے آزاد ہوگئی تھی، اسی وجہ سے میں بہت جلد  منبر پر اپنی تقریروں میں انقلابی مطالب بیان کرنے لگا۔


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 2899



http://oral-history.ir/?page=post&id=8684