بیرونی ممالک اور ایران کے قدرتی ذخائر کی لوٹ مار

الہام صالح

مترجم: سید نعیم حسین شاہ

2019-06-13


انقلاب اسلامی کے رونما ہونے سے پہلے امام خمینی ؒ کو جن مسائل کے متعلق پریشانی لاحق رہتی تھی ان میں سے ایک اہم مسئلہ یہ تھا کہ بیرونی ممالک (امریکہ اور اس کے حواریوں) نے ایران کے قدرتی ذخائر کو لوٹنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا۔ حضرت امام خمینی ؒ نے ۱۵ اکتوبر ۱۹۷۸ کو پیرس میں مقیم ایرانیوں اور وہاں پڑھنے والے اسٹوڈنٹس سے اس موضوع پر باقاعدہ خطاب بھی کیا تھا۔ اس تقریر کا موضوع تھا: "ایران کے قدرتی ذخائر کے متعلق استعماری طاقتوں کی آگاہی اور لوگوں کی سوچ"۔

امام خمینی ؒ کی تقریر کا پہلا حصہ، ایران میں سیاحت کی غرض سے آنے والے مغربی سیاحوں کے اہداف سے متعلق تھا: "بہرحال اسلامی ممالک کے حوالے سے، خصوصاً وہ ممالک جو قدرتی ذخائر سے مالا مال ہیں اور ایران ان میں سرفہرست ہے، ان تمام ممالک کے بارے میں استعماری طاقتیں اور سپر پاور ممالک کی حکومتیں آگاہ رہی ہیں۔ اگر آپ نے مشرقی ممالک کے حالات و واقعات کو پڑھا ہو تو آپ کو بخوبی معلوم ہوگا کہ ان مغربی سیاحوں میں کہ جنھوں نے تقریباً تین سو سال پہلے سے ان مشرقی ممالک میں آنا جانا شروع کر دیا تھا، کچھ افراد ایسے بھی ہوتے تھے جو سیاحوں کے بھیس میں اپنے سیاسی مقاصد لے کر آتے تھے اور ان مشرقی ممالک کا جائز لیتے، مطالعہ کرتے اور معلومات اکٹھی کرتے تھے۔ یہاں تک کہ یہ ان بیابانوں اور صحراؤں میں بھی جاتے جہاں ہریالی اور پانی نام کی کوئی چیز نہ ہوتی۔ یہ اُس دَور میں سفر کی تکالیف برداشت کرکے اونٹوں پر سفر کرکے آتے، قافلوں کے ساتھ سفر کرتے اور ان ممالک کا جغرافیائی مطالعہ کرتے اور سب سے اہم بات یہ کہ قدرتی ذخائر والے مقامات کا باریک بینی سے مطالعہ کرتے اور ایک نقشہ تشکیل دے کر ساتھ لے جاتے۔ ان قدرتی ذخائر میں سونے، تانبے، تیل، گیس اور دیگر معدنیات کے ذخائر موجود تھے ۔۔۔"

امام خمینی ؒ نے اپنی اسی تقریر میں ایک واقعہ سنایا جو ان سیاحوں کے نقشے تیار کرکے ساتھ لے جانے  سے متعلق تھا۔ آئیے وہ واقعہ امام ؒ کی زبانی سنئیے "میں کچھ عرصہ ہمدان میں رہا ہوں۔ میرے ساتھیوں میں سے ایک  ساتھی، ایک دن ایک نقشہ لے کر میرے پاس آیا، وہ نقشہ کافی بڑا تھا۔ تقریباً ایک مربع میٹر کا ہوگا اور تھا بھی ہمدان کا یعنی ہمدان کے ایک دیہات کا نقشہ تھا۔ اس ساتھی کے بقول کہ اس نقشے میں ہمدان کے دیہات کے تمام تر زمینی قدرتی ذخائر کی اطلاعات درج تھیں۔ اس میں بڑی تعداد میں نقطے لگے ہوئے تھے جو رنگین تھے اس دوست نے بتایا کہ یہ رنگین نقطے اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ ان کے نیچے یعنی اس دیہات میں کس قسم کے ذخائر ہیں، چاہے تانبا ہو، تیل ہو یا کچھ اور لیکن کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ اب جو کچھ ہے زمین کے اندر ہے، باہر نہیں نکلا،  لیکن اُن لوگوں کو پتہ  ہے کہ کیا ہے اور کہاں ہے۔ بہرحال وہ لوگ نقشہ لے کر ایران میں داخل ہوئے ہیں اور اسی طرح سے انھوں نے مشرقی ممالک اور ملک ایران کہ جو آج کل اس مشکل سے دوچار ہے میں ان نقشوں کی مدد سے اپنی تمام تر منصوبہ بندیاں تیار کر رکھی ہیں"۔

جس بات پر امام خمینی ؒ نے زور دیا وہ یہ تھی کہ امریکہ، برطانیہ اور روسی مالک کی معلومات ایران کے قدتی ذخائر حتی ایران کے لوگوں کے بارے میں بھی اچھی خاصی ہیں۔ معلومات بھی ایسی حساس کہ جو ان ذخائر کی لوٹ مار پر ختم ہوں:"اُن (امریکیوں) کی معلومات خود اِن ممالک کے باشندوں سے بھی زیادہ ہیں۔ ایران کے صوبوں کی معلومات مثلاً ایران کے کچھ قبائل، جیسے قبیلہ بختیاری، قبیلہ قشقائی اور ان جیسے دیگر قبائل، شاھسونوں وغیرہ کے قبائل، ان کا بہت مطالعہ  تھا، معلومات زیادہ تھیں صرف اس مقصد کے لیے کہ لوگوں کی نفسیات جان سکیں اور پھر کسی بھی طریقے سے ان ممالک کے ذخائر کو لوٹ لیں۔ ان کے مطالعے میں گاؤں قصبے اور وہ تمام دیہات جو ایران کے دور افتادہ پہاڑی علاقوں میں ہیں، سب کے سب شامل تھے اور یہ مطالعہ کرنے کے لئے ان ظالم ممالک نے جن افراد کو بھیجا ہے وہ کوئی عام لوگ نہیں تھے بلکہ اس کام میں ماہر تھے اور انھیں بخوبی علم تھا کہ کیسے نقشہ برداری کی جائے اور زمین میں دفن شدہ خزانوں تک رسائی کیسے حاصل کی جائے پھر انہی نقشوں سے انھوں نے رہنمائی لی اور پھر کمر کس لی لوٹنے کے لئے۔۔۔"

امام خمینی ؒ نے "اسلام" اور "علماء و روحانیت" کو ایسی "رکاوٹ" کے نام سے یاد کیا جسے پہلوی حکومت نے لوٹ مار مچانے کی غرض سے اپنے راستے سے ہٹانا چاہا۔ امام نے فرمایا: " یہ دو رکاوٹیں (اسلام ، علما) ایسی ہیں جن کو دشمن نے پروپیگنڈے کے ذریعے توڑا ہے اور لوگوں کو اسلامی حقائق سے جدا کر دیا اور عوام الناس اور ترقی پذیر علماء کے مابین فاصلے پیدا کر دیئے ہیں اور صرف اور صرف ذاتی مفادات کی خاطر ایسا کیا۔ خود انھوں نے غلط پروپیگنڈے کیئے اور پھر جب یہ رکاوٹیں ٹوٹ گئیں تو اُن کا راستہ کھل گیا اور پھر وہ آزادانہ طور پر آنے جانے لگے، خالی ہاتھ آتے اور یہاں سے قدرتی ذخائر اور خزانے لے کر جاتے، مسلمانوں کے اموال کو لوٹ کر لے جاتے۔ اور آپ کو اُن کے ایران  کا علم ہے: ایران کے تیل جیسے ذخیروں کو ہڑپ کرنے لگے اور آج بھی کر رہے ہیں ۔۔۔ رضا شاہ کے زمانے سے لیکر آج تک کر رہے ہیں۔ تب سے لیکر آج تک ایران پر ایسی حکومت قابض ہے جس نے ایران کی تمام تر حیثیت اپنے دونوں ہاتھوں سے ظالموں کے آگے نیلام کردی۔"

پیرس میں مقیم ایرانیوں اور اسٹوڈنٹس سے خطاب کرتے ہوئے امام خمینی ؒ نے مزید یہ موضوع بھی اٹھایا کہ ایران کی ثقافت کو بھی برباد کیا جا رہا ہے۔ ہماری ثقافت کو وہ اپنے لئے خطرہ سمجھتے تھے۔ اس لئے اس پر بھی قابض ہوگئے اور اس کی جگہ پر ایک "استعماری ثقافت" بنائی جس کا "مستقل ثقافت" سے کوئی تعلق نہیں۔ اور آج بھی ایسی ثقافت کا فقدان ہے جس کی بنیاد قوم کے اہل عقل و دانش افراد نے رکھی ہو۔ وہ لوگ آج بھی یہاں مداخلت کر رہے ہیں۔ نہ وہ یہاں اچھا ڈاکٹر بننے دیتے ہیں ۔ نہ اچھا سیاستدان بننے دیتے ہیں بلکہ وہ ایسے سیاستدان تیار کرتے ہیں جو خود ان کے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں ۔۔۔"

امام ؒ نے مزید "زمینی اصلاحات" اور اُس نقصان پر بات کی جو ملک کی زراعت کو پہنچایا گیا۔ امام نے فرمایا:"جب آپ قوم کی اقتصادیات کا جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ "زمینی اصلاحات" کے نام پر ہماری زراعت تباہ ہوچکی ہے اور یہ بھی امریکہ کی سازش تھی۔ اس "زمینی اصلاحات" نے ہمارے لئے بہت ساری مشکلات ایجاد کی ہیں جس کے نتیجے میں ایران کی تمام تر زرعی زمین برباد ہوچکی ہیں ۔۔۔ جب زمین ویران ہوئی تو کسان کہاں ٹھہرے گا! سب کسان ہجرت کر گئے، شہروں کی طرف چلے گئے کہ جن میں سر فہرست تہران ہے۔ وہ تہران کے اطراف میں آئے اور اپنی جھونپڑیاں لگا کر آباد ہوگئے  یا مٹی کے گھر بنالئے۔ اپنے بھرے کنبوں کے ساتھ گھر لئے اور سختیوں اور مصیبتوں میں گزارا کرنے لگے۔ نہ بجلی نہ پانی اور نہ پکی گلیاں ۔۔۔ یہ حالت بنائی ہے انھوں نے کسانوں کی اور یہ ہے اُن کے "تمدن کا دروازہ"! یہ تحفہ دیا ہے انھوں نے ہمیں! یہ صرف زراعت کے متعلق ہے کہ جو بالکل مفلوج ہوکر رہ گئی ہے اور اس کا انجام کیا ہوگا کچھ علم نہیں۔"

ایران سے تیل لوٹ کر لے جانا اور پھر ایران میں اسلحہ داخل کرنا ان موضوعات میں سے تھے جن پر امام خمینیؒ نے روشنی ڈالی اور کہا: "ایران سے تیل باہر لے جایا جا رہا ہے اور اس کے بدلے میں اسلحہ لایا جا رہا ہے تاکہ وہ لوگ ایران کو اپنی چھاؤنی بنا سکیں۔ اگر یہ لوگ تیل کا صحیح استعمال کریں اور صحیح طور پر فروخت کریں یعنی ایران کی ضرورت کے مطابق اور مملکت کی ضرورت کو سامنے  رکھ کر اگر تیل بیچا جائے اور کسی چور ڈاکو اور کرپٹ شخص یا خاندان کو مداخلت نہ کرنے دی جائے تو شاید ہمارے یہ تیل کے ذخائر آئندہ دو سال سال تک کافی ہوں۔ اب جب اس ملت کے تیل کے اثاثے بھی غیروں کے آگے رکھ دیئے جائیں۔ کھیتی باڑی بھی تباہ کردی جائے تو اب ہم کیا کریں؟ یہ بیچاری ملت ، یہ قوم کیا کرے؟"

ایران میں اُس وقت موجود امریکی کونسلیٹ پر بھی امام نے تحفظات کا احساس کرتے ہوئے کہا: "ہماری فریاد  یہ ہے  کہ اس قوم کا جو کچھ بھی سرمایہ ہے اسی کے پاس رہنے دیا جائے۔ اس قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے دیا جائے۔ ہمیں امریکی کونسلیٹ نہیں چاہیے۔ اس کونسلیٹ میں بیٹھے ساتھ ہزار لوگ اور پھر ان کے اخراجات اس قدر ہیں کہ میں اور آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ قوم کا بجٹ ان غیروں پر قربان مت کرو۔ ان کا خرچہ بھی ہم اٹھائیں، تیل سے بھی ہم محروم ہوں ، صرف اس لئے کہ ان کی چھاؤنیاں یہاں بنیں؟! آپ اس کا حساب لگائیں پھر سوچیں کہ وہ اسلحہ ایران میں کیوں آئے جو کبھی بھی ایرانی قوم کے مفاد میں نہیں ہوسکتا۔"

امام ؒ نے مزید گفتگو میں ایران کی مشکلات اور پہلوی حکومت کی طرف سے ایرانی قوم پر مظالم کی طرف اشارہ کیا اور اُس مجمع کے ذریعے سے ساری دنیا میں پیغام پہنچانے کی غرض سے فرمایا: "آپ لوگ ایرانی ہیں۔ آپ ان مسائل کو اِن یورپیوں کے سامنے بیان کریں۔ وضاحت دیں۔ لکھیں، اخبارات اور مجلوں میں چھپوا سکتے ہیں تو چھپوائیں۔ ہم ان مسائل سے لا تعلق نہیں رہ سکتے جبکہ یہ مسائل اس قوم سے متعلق ہیں جو آپ لوگوں کی خاطر قربانیاں دے رہی ہے۔ ان کی عمریں ڈھل رہی ہیں، جوانیاں گزر رہی ہیں۔ اب کل جو یوم سیاہ ہے، چہلم  کا دن ہے، مجھے نہیں اندازہ کہ پھر اس قوم پر کیا مصیبت آئے گی۔ قوم کھڑی ہے قربانیاں دے رہی ہے۔ سات آٹھ سال کا بچہ سینہ تان کر مردہ باد سلطنت پہلوی کا نعرہ لگاتا ہے۔ ان کی مدد کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم لا تعلق نہیں رہ سکتے۔ اپنے اجتماعات میں ان موضوعات پر بات کریں، لکھیں، پھیلائیں۔ دنیا کو آگاہ کریں اس مصیبت سے جو ہم پر آئی ہے۔


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 2725



http://oral-history.ir/?page=post&id=8598