"جیو شیخ حسن!" واقعات کی دوسری کتابوں سے مختلف

محمد علی فاطمی

مترجم: سید نعیم حسین شاہ

2019-06-13


"جیو شیخ حسن" نامی کتاب جو صوبہ قم کے ایک پائیدار ثقافتی و مطالعاتی آرٹ سنٹر میں لکھی گئی اور سورہ مہر پبلیکیشنز نے اسے سن ۲۰۱۸ میں بازار کی زینت بنایا۔

کتاب کی فہرست پر اگر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اس کی درج ذیل ۱۲ فصلیں ہیں: ولادت سے لیکر محاذ جنگ کے لئے روانگی تک، جنگی مشن و الفجر ۳، جنگی مشن کی حسرت، جنگی مشن و الفجر ۸، مہران حملے میں دشمن کے ساتھ آمنا سامنا، جنگی مشن کربلا۴، جنگی مشن کربلا ۵، جنگی مشن نصر ۸، جنگی مشن بیت المقدس ۲، جنگی مشن بیت المقدس ۳، جنگی مشن بیت المقدس ۶ اور جنگی مشن مرصاد۔ کتاب کا مقدمہ آغاز میں درج ہے جبکہ تصاویر، حوالہ جات اور مفصل فہرست آخر میں مذکور ہے۔

اس کتاب کو جس انداز میں تحریر کیا گیا ہے اس کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ اگر آغاز سے مطالعہ کرنے سے پہلے، آخر میں جائیں تو کتاب پڑھنے کا انداز ہی بدل جائے گا اور وہ یوں کہ آخر میں دی گئی تصاویر میں راوی کی تصویر بھی شامل ہے اور کتاب کے متن میں ذکر شدہ مختلف نام بھی مفصل فہرست میں آئے ہیں۔ اب اگر کوئی نام جس سے آپ کا ذہن مانوس ہوگیا ہے یا آپ کسی نام کو سرچ کرنا چاہتے ہیں تو یہ بات پہلے سے آپ کے ذہن میں محفوظ ہوگی کہ کتاب کے متن کے مطالعے کے دوران آپ خصوصیت سے اس نام کو دلچسپی کے ساتھ اہمیت دیں؛ اور مفصل فہرست بھی درحقیقت کتاب کی بالکل مکمل فہرست ہے جس میں تمام ابواب اور فصلوں کے اصلی عناوین کے ساتھ ساتھ فرعی عناوین بھی ذکر ہیں اور یہ مثبت نکتہ بذاتِ  خود پڑھنے والے کی مزید دلچسپی کا باعث ہے، نہ صرف یہی بلکہ ایک طرح سے کتاب کے لیے ایک حوالہ ہے یعنی پڑھنے والا خود بخود اپنی پسند کے پیراگراف اور حصوں کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اور کتاب کے اس حصہ کی خصوصیت پوری کتاب پڑھنے کے بعد بھی باقی ہے۔ یعنی فرض کریں آپ نے کوئی نکتہ پڑھا اور آپ کو اچھا لگا جبکہ آپ کو بعد میں یاد نہیں رہا کہ کہاں پڑھا تھا تو آپ کی یہ مشکل اس فہرست کی مدد سے حل ہوگی جو تفصیلات اور جزئیات کے ساتھ درج ہے۔

ہاں شاید پڑھنے والے کے ذہن میں سوال پیدا ہو کہ ابھی تک کتاب کا متن کیوں واضح نہیں ہوا؟ کتاب کے حاشیوں پر کیوں اتنا زور دیا گیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے  ۴۶۶ صفحات پر مشتمل کتاب کا ٹائٹل والا صفحہ جس پر عنوان "جیو شیخ حسن" درج ہے اور اس کی تفصیلی فہرست پڑھنے والوں کے اذہان میں تحقیق و جستجو کو جنم دیتی ہے اور قارئین زیادہ سے زیادہ اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

کتاب کے مقدمے سے آپ پر یہ بات عیاں ہوگی کہ یہ کتاب دراصل حسن یوسفیان کی ہی تحریر کردہ ہے۔ اس کی تحریر مختصر ، مفید اور اہم نکات سے لبریز ہے: "اس  کتاب کا لکھنے والا کئی سالوں سے دینی ابحاث اور پھر اس سے بڑھ کر عقائد کے مسائل میں کام کر رہا ہے اور وہ اس بات کو مثبت نگاہ سے دیکھتا ہے کہ ان واقعات کے لکھنے میں اپنے قلم کے انداز کو بدلے اور یہ کام اگرچہ سخت ہے لیکن ناممکن نہیں۔ بہرحال میں قارئین محترم کی توجہ آغاز میں ہی اس طرف دلانا چاہتا ہوں کہ:

۱۔ اس کتاب کے حوالہ جات ایسے وقت میں فراہم ہوئے ہیں کہ جب متن میں درج شدہ جنگی واقعات اور تحریر کے زمانے میں زیادہ وقت کا فاصلہ نہیں تھا۔ یہاں تک اس کتاب کے کچھ حصے خصوصاً آخری  دو باب روزانہ کی بنیاد پر  پر لکھے گئے ہیں۔ یعنی اُدھر واقعات رونما ہوتے گئے اور اِدھر حسن یوسفیان صاحب ان کو فوراً ہی قلم و قرطاس کی زینت بناتے رہے۔ آج تقریباً تیس سال گزر چکے ہیں تو ان واقعات کو منظر عام پر کتابی شکل میں لانے کا وقت بھی آپہنچا ہے جبکہ واقعات کی بہت ساری جزئیات خود لکھنے والے کے لئے بھی نئی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تیس سال کا عرصہ گزرنے کے باعث یا تو وہ واقعات ہی محو ہوگئے یا پھر ان کی دھندلی دھندلاتی تصویر باقی ہے۔

۲۔ عام طور پر لکھے جانے والے واقعات کی روش کے برخلاف، میں نے اس کتاب کی فصلوں کو بہت جزئی عناوین میں تقسیم کیا ہے تاکہ ان تک رسائی آسان سے آسان تر رہے۔ ہر فصل کا اصلی محور و مرکز، دفاع مقدس کی جنگ کے کسی نہ کسی جنگی مشن اور واقعہ کو قرار دیا ہے۔ ہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کسی بھی فصل (یا باب) کے چھوٹے یا بڑے ہونے کا تعلق، اس مذکورہ جنگی مشن کے چھوٹے یا بڑے ہونے پر دلالت نہیں کرتا بلکہ اس کا تعلق بندہ حقیر لکھاری کے اس واقعہ میں کم فعال یا زیادہ فعال رہنے سے مربوط ہے۔

۳۔ اس کتاب میں جن افراد کے میں نے نام ذکر کئے یا ان کی خدمات کا تذکرہ کیا ان میں سے کچھ افراد نے آج انقلاب اور دفاع مقدس کی آرزوؤں اور توقعات سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔ خیر یہ تو ان کے حال سے مربوط ہے وگرنہ میں نے بھرپور کی کوشش کی ہے کہ ان کا ذکر ان کے آب و تاب والے ماضی کے ساتھ کروں نہ کہ ان کے حال کے مطابق۔

۴۔ کچھ فصلوں میں ، میں نے اُس دَور میں لکھے گئے خطوط کے اقتباسات ذکر کئے ہیں بغیر کسی کمی بیشی کے۔ اور اس کا مقصد یہ تھا کہ قارئین حضرات کسی حد تک اُس دور کی فکری فضا کا تصور کرسکیں اور ساتھ ساتھ بندہ حقیر اور میرے ہم مورچہ احباب اور میرے عزیز و اقارب کے افکار کی دنیا میں قدم رکھ سکیں۔

۵۔ جس سپاہی نے جو واقعہ بھی سنایا ہے وہ اس نے اپنے نکتہ نظر اور اپنے حساب سے سنایا ہے تو اس بنا پر ہوسکتا ہے کہ کوئی واقعہ مثلاً ظاہراً شکست یا عقب نشینی کو بیان کر رہا ہو جو ایسے مشن سے مربوط ہو جو ایک  کلی نگاہ میں بہت کامیاب مشن رہا ہو۔ اسی طرح خصوصی افواج کے دستے عام طور پر بریگیڈ یا دیگر فوجی دستوں کو کم ہی دکھتے ہیں اور بغیر قصد و ارادے کے لاشعوری طور پر ان کی کارکردگی کو نظر انداز کرتے ہیں۔ اور یہ مسئلہ بعض اوقات کچھ تناقضات کو جنم دیتا ہے جو بذات خود تعجب آور بات ہے۔ یہاں تک میں خود بھی کچھ اس طرح کی کیفیت سے گزرا ہوں۔ جبکہ آپ کی توجہ اس بات کی طرف رہے کہ میں آپریشن اینڈ انفارمیشن سیکشن میں رہا ہوں اور اپنی ورکنگ اور دوسرے یونٹوں کے بارے میں اچھی خاصی معلومات رکھتا تھا۔ اس کے باوجود مجھے بعض اوقات بہت تعجب ہوتا ہے کہ کس طرح فلاں شہر کے  فوجیوں نے فلاں چوٹی کی فتح کا سہرا اپنے سر کرلیا! جبکہ اس سے پہلے میں یہ سمجھتا تھا کہ اس علاقہ کی فتح میں دیگر یونٹوں کا حصہ اور کارکردگی بہت ہی مختصر رہی ہے۔ بہرحال یہاں توجہ دلانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ بیان کیا جائے کہ ایسا شہرت طلبی یا نام کمانے کی بنیاد پر نہیں اور نہ کسی سے کسی کو کوئی شکوہ یا غرض ہے، بلکہ یہ سب افراد کی محدودیت کی بنا پر ہے۔ اگر ہم اس میدان میں خدانخواستہ شہرت کے پیاسے ہوں تو پھر ہمارا نہ ہونا بہتر ہے اور پھر ہم تو خود کو ان شہداء  کا وارث بھی سمجھتے ہیں جو گمنامی کی شکل میں شہرت اور نیک نامی کے طالب تھے۔

۶۔ اگلا نکتہ اس کتاب کی وجہ تسمیہ کے حوالے سے ہے جو آپریشن و الفجر کے ایک واقعہ سے مربوط ہے اور اس کی تفصیل کتاب کی چوتھی فصل میں ذکر کی ہے۔ ممکن ہے کچھ افراد میرے اس عنوان کی بنا پر مجھ پر اعتراض کریں اور کہیں کہ لکھنے والے نے (بھلے دوسروں کی زبان سے ہی سہی) خود کو شاباش دی ہے یعنی اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی کوشش کی ہے!خیر، اس آفرین اور تحسین کا مخاطب تیس سال پہلے والا شیخ حسن ہے جو آج ڈاکٹر ہے اور اپنے حال پر رشک کر رہا ہے۔ البتہ وہ واقعہ وہاں پر پڑھنے سے معلوم ہو ہی جائے  کہ حتی اُس وقت بھی "جیو شیخ حسن" کہنے والا حسن نسبتاً بذات خود شیخ حسن سے زیادہ خراج تحسین کا حقدار رہا ہے۔

حوالہ جات  اور تفصیلی فہرست کہ جس کی وجہ سے اس کتاب "جیو شیخ حسن" کو دیگر کتب پر امتیازی حیثیت حاصل ہے، کے علاوہ ایک اور برتری کو بھی ملاحظہ فرمائیے کہ: "واقعات کا دامن اس قدر وسیع ہے کہ کتاب کے نیچے دیئے گئے حاشیہ خانوں میں بھی ان کی باقیات درج ہیں۔ یعنی عام طور پر واقعات کو متن تک ہی محدود رکھا جاتا ہے لیکن بندہ حقیر نے متن میں جگہ کی کمی کے باعث، متن سے بچتے ہوئے واقعات کو جدا کرکے حاشیہ میں ذکر کیا تاکہ واقعات کا تسلسل ٹوٹنے نہ پائے۔ بالکل  اسی وضاحت کی طرح۔ ہاں البتہ ان سے زیادہ لمبے چوڑے اور تفصیلی واقعات کو "بقیہ" میں تبدیل کرکے ہر فصل کے آخر میں متعلقہ جگہ پر ذکر کیا اور اختتام تک پہنچایا۔ حاشیوں اور ان واقعات میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ یہ کہ ان کے بیان کی نوعیت ایک جیسی ہے یعنی دونوں روایت اور نثر کے انداز میں بیان شدہ ہیں۔ "بقیہ" جات میں راوی کے خطوط بھی دیکھنے کو ملیں گے جو قاری کے ذہن میں وہ ربط ایجاد کرتے ہیں جو متعلقہ اِن واقعات کے اُس دور میں اور آج کی اِ س تحریر کے مابین ہونا چاہیے۔ اور یوں یہ خطوط کتاب کے مطالعہ کی فضا بڑھانے میں عمل دخل رکھتے ہیں۔

میں نے اس کتاب کا بہت لمبا چوڑا تعارف نہیں کروانا۔ اگرچہ کتاب کے متن اور واقعات کے حوالے سے  بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن میں آپ کو ایک واضح دلیل کی بنا پر صرف اور صرف کتاب کا مطالعہ کرنے کی دعوت دینا چاہوں گا اور وہ یہ ہے کہ: راوی نے تمام واقعات کو درج کرنے میں کماحقہ دقت کی ہے۔ ان واقعات کی تحریر میں راوی جتنی توانائیاں اور ہمدردی کے جذبات بروئے کار لاسکتا تھا، اُس نے وہ لانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ قلم چلانے کے ساتھ ساتھ یاداشت کی کائنات سے ہر چیز بروقت اٹھانے اور ذکر کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ کتاب چھپنے کے بعد کسی قسم کی کوئی رہی سہی بات کرب و تکلیف کا باعث نہ بنے۔ اور بعد میں یوں افسوس کے ساتھ  کہنا نہ پڑے کہ "اگر وقت ہوتا تو ۔۔۔ اگر ممکن ہوتا ، تو ۔۔۔ ایسے کردیتا، ویسے کردیتا۔"

میں نے اس کتاب کی کچھ خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان کے علاوہ کتاب کا متن بھی کچھ امتیازات کا حامل ہے جو مصنف کی امتیاز پسندانہ طبیعت کا پتہ دیتا ہے۔ بس جیسے کہ کتاب کا نام ہے: "جیو شیخ حسن"


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3067



http://oral-history.ir/?page=post&id=8597