میں فارسی سیکھنا چاہتا ہوں!

محمد مہدی عبد اللہ زادہ

2019-05-22


۶ نومبر ۲۰۱۷ ، پیر کے دن مغرب کے وقت نجف سے کربلا کے راستے میں ۳۵ ویں پول پر ، ابو احمد نے ہمارا راستہ روک لیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اُس سے پہلے تین دوسرے افراد نے بھی ہمیں اپنا مہمان بنانے کی درخواست کی تھی۔ وہ سب یہ باتیں کر رہے تھے : "غسل خانہ، وای فائی، سونے کی جگہ، استراحت۔" کہ ہم نے قبول نہیں کیا تھا، لیکن اس آخری والے نے ہمارے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا کہ اب ہم اس کی درخواست کو ٹھکرا نہیں سکتے تھے۔

میں نے کہا: "گھر قریب ہے یا دور؟" اُس نے کہا: "قریب ہے  لیکن گاڑی موجود ہے۔" میں اور میرے ساتھ  جو دو خواتین تھیں، ہم اُس کے ساتھ ہولئے۔ ہم ابھی چند قدم نہیں چلیں ہوں گے کہ اُس نے ہمارا سامان اٹھانے کیلئے پیروں  کے بل جھک کر ہمارے ہمراہ موجود ایک ساتھی کا بیگ  اپنے کاندھوں پر رکھ لیا۔ پچاس میٹر چلنے کے بعد ہم اُس کی گاڑی تک پہنچ گئے۔ گاڑی نئی اور صاف ستھری تھی۔ ابھی صرف ۳۰۰ کلومیٹر تک چلی تھی۔ میں نے کہا: "انشاء اللہ تمہیں گاڑی مبارک ہو، تم نے کتنے کی خریدی؟" جواب دیا: "دو ہزار ڈالر۔" میں نے کہا: "تم کیا کرتے ہو؟"  اُس نے کہ چیزیں بناکر بیچتا ہوں۔ اُس نے مجھ سے میرے کام کے بارے میں پوچھا تو میں نے اُسے جواب دیا: میں ریٹائر ہوچکا ہوں۔ وہ سمجھ گیا کہ میں کچھ کام نہیں کرتا اور اُس نے جواب میں سر ہلا دیا۔ ظاہراً اُسے مجھ پر ترس آیا۔ (میں اس بات کی طرف آخری رات کو متوجہ ہوا، کیونکہ ہمیں یہ پتہ چلا کہ عراق میں ہر ریٹائر ہونے والے شخص کو چھ مہینے بعد تھوڑی سی رقم دی جاتی  ہے اور اسی وجہ سے یہ لوگ مجبور ہیں کہ ساٹھ ، ستر سال تک کام کریں۔

اُس کے گھر کی زمین کی چوڑائی تقریباً پانچ میٹر تھی، لیکن ہر چیز سیٹنگ اور دقت سے تھی۔ اُس کا صحن تقریباً ڈیڑھ میٹر کا تھا کہ جس کے ایک کونے میں واش روم اور کپڑے دھونے کی جگہ تھی۔ پانچ میٹر لمبا اور ساڑے تین میٹر چوڑا ایک کمرا مردوں کیلئے اور ابتدا میں ایک راہرو تھی جہاں سے گھر کے دوسرے حصوں کا راستہ تھا۔  میرے ساتھ جو دو خواتین تھیں اُنھیں گھر کے اندر کی طرف بھیج دیا گیا اور مجھے باہر بیٹھک میں رکھا گیا۔

میں جیسے ہی بیٹھا، گھر کے مالک نے کہا کہ میں چاہوں تو غسل خانے چلا جاؤں اور اگر چاہوں تو آرام کرلوں جب تک وہ  کسی اور "زائر" کے پیچھے جاتا ہے۔ گھر کے مالک کے دو بیٹے میرے پاس ہی تھے۔ اُن میں سے ایک میرے لیے ایک جگ میں بہت ہی مزیدار پانی  لیکر آیا کہ میں ایک کے بعد ایک چار گلاس چڑھا گیا۔ میں نے جیسے ہی اپنے پاؤں سے موزے اُتارے، بارہ تیرہ سال احمد ایک حملے میں اُسے میرے ہاتھوں سے چھین کر دھونے کیلئے لے گیا۔ روک ٹوک کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا ، وہ اپنے کام میں اچھی طرح ماہر تھا۔

میں اپنے قمیض بدل رہا تھا کہ ابو احمد کے بڑے  اور نابینا بھائی کمرے میں داخل ہوئے۔ ابواحمد کے بچوں نے اپنے چچا کے ہاتھوں کا بوسہ لیا۔ اُن کی خیر خیریت معلوم کی اُن کے پیچھے تکیہ لگایا اور انھیں بٹھایا۔ میں احمد کی رہنمائی اور یا اللہ کہتے ہوئے غسل خانے چلا گیا۔ کس قدر گرم اور صاف ستھرا غسل خانہ تھا کہ میری ساری تھکاوت اُتر گئی۔ جب میں کمرے میں واپس آیا، ابو احمد تین لوگوں کا ایک اور گروپ لیکر کمرے میں داخل ہوا اور معذرت خواہی کرتے ہوئے چلا گیا تاکہ اور مہمانوں کو لیکر آئے۔ یہ مشہد کے احباب تھے اور مشہد کے کسی بازار میں کام کرتے تھے جس کے نتیجے میں علاقائی عربی زبان سے واقف تھے۔ میں نے اُن سے کہا آپ لوگوں کو خدا نے بھیجا ہے تاکہ میں ابو احمد سے زیادہ اچھے انداز میں انٹرویو کرسکوں۔

ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ابو احمد تین اور زائروں کو لیکر واپس آگیا۔وہ  لوگ تہران میں رہتے تھے۔ ایک انجینئر تھا اور اُس کے ماموں دوکاندار اور ماموں کا بیٹا بھی بجلی کا کام کرتا تھا۔ چائے لائی گئی اور میں نے تمام مردوں سے کہا: "کسی کو ایرانی چائے کے بارے میں بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ سب کہیں: عراقی چائے بہترین ہے!" ہم سب نے عراقی چائے پی۔ عراقی چائے گاڑھے رنگ کی ہوتی ہے اور باریک کمر والے چھوٹے کپوں میں لائی جاتی ہے کہ تقریباً ہر چائے کا کپ آدھا شکر سے بھرا ہوتا ہے۔

ابو احمد نے سب لوگوں کی طرف رُخ کرکے کہا: آپ لوگ پہلے رات کا کھانا کھائیں گے یا غسل خانے جائیں گے۔ دوستوں نے پہلے غسل جانے کو ترجیح دی۔ ہر شخص جیسے ہی غسل خانے سے واپس آتا، احمد واشنگ مشین کے ذریعے دھونے کیلئے اُس کے کپڑوں کو لے لیتا۔ میں نے ابو احمد سے گفتگو کرنا شروع کی۔ مشہد کے ایک دوست نے سب لوگوں کی پذیرائی کیلئے ڈرائی فروٹ کا ایک پیکٹ باہر نکالا ۔ چند پلیٹیں لائی گئیں اور ہر کسی کو پیش کیا گیا۔

ابو احمد نے ایک سوال کے جواب میں کہا: ہم گذشتہ زمانوں سے ایک دوسرے کے بھائی ہیں، صدام نے جنگ شروع کرکے برادر کشی شروع کردی۔  اگر کوئی جوان فوجی بننے یا جنگ کیلئے نہیں جاتا، پہلے تو اُس کے آنکھوں کے سامنے اُس کے گھر والوں کو ذبح کیا جاتا  اور پھر اُسے بھی گولیوں سے چھلنی کردیا جاتا۔ صدام کے زمانے میں سفر کرنا ممنوع تھا۔ سب لوگ جمع ہوجاتے سگریٹ پیتے تھے اور چائے پیتے تھے۔ آیت اللہ حکیم نے بہت خدمات انجام دی ہیں۔ ہم ہر سال تین صفر سے موکب لگانے اور وسائل مہیا کرنے اور اربعین کے زائرین کی پذیرائی کرنے کیلئے آمادہ ہوجاتے ہیں۔ اربعین والے دن کے بعد چالیس فیصد موکب ہٹا لیے جاتے ہیں اور موکب لگانے والے اور بعض دوسرے لوگ نجف سے کربلا کی طرف پیدل سفر کرتے ہیں۔ ہم ہر سال میں پورے دو مہینے اربعین کے پروگرام میں مشغول رہتے ہیں اور ہم اس پر فخر کرتے ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہماری تمام سڑکیں اور گلیاں مٹی میں اٹی ہوئی ہیں، گیس کی پائپ لائنیں نہیں ہیں اور حتی ہم پینے کا پانی تک خریدتے ہیں، لیکن پھر بھی ہمارے لیے سب سے بڑھ کر امام حسین (ع) ہیں۔ اس سفر کے بعد ہم ہر روز اپنے کمائی میں سے کچھ پیسے آئندہ سال کے اربعین کیلئے جمع کرتے ہیں تا کہ اربعین کے موقع پر شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

ابو احمد نے اپنا موبائل باہر نکالا اور اُس کے اندر ایک میسج کو مشہد کے ایک برادر نے پڑھا اور اُسے فارسی میں ترجمہ کیا۔ اُس میں یہ بات لکھی ہوئی تھی: نجف سے کربلا کے راستے میں اور حرم حسینی کے زائرین جو مختلف جھنڈے اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں اُن میں موجود فرانس کے جھنڈے نے سب کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرایا،جب وہ اُس جھنڈے کی تلاش میں گئے تو انھوں نے دیکھا کہ فرانس کی ایک مسیحی عورت نے اُس جھنڈے کو اٹھایا ہوا ہے، جب اُس سے امام حسین (ع) کی زیارت پر جانے کے بارے میں پوچھا، اُس نے کہا: میں عراق پر قبضے کے زمانے میں رضاکارنہ طور پر اتحادی فوجوں سے ملحق ہوگئی  تھی۔ میں نے ایک سال اربعین کے  موقع پر جب زائرین کربلا کی طرف پیدل حرکت کرتے ہیں، ایک زائر سے پوچھا: "یہ جو تم بصرہ سے کربلا کی طرف پیدل سفر کرتے ہو، تم تھکتے نہیں ہو؟" اُس نے کہا: "میری خدا سے ایک حاجت اور دعا ہے اور میں اس لیے جا رہا ہوں تاکہ حرم امام حسین کے گنبد کے نیچےاُس سے اپنی دعا مانگوں  اور میرا ایمان ہے کہ خداوند متعال امام حسین (ع) کے وجود کی برکت سے میری دعا کو پورا کردے گا۔" میں سینے کے کینسر میں مبتلا ہوگئی تھی اور ڈاکٹروں نے مجھ سے کہہ دیا تھا کہ فرانس پہنچتے تمہیں اپنے سینے کا آپریشن کروانا ہوگا، اُس دن میں نے منت مانی کہ اگر مجھے اس بیماری سے شفا مل گئی تو میں نجف سے کربلا پیدل امام حسین (ع) کی زیارت کرنے جاؤں گی۔ جب میں فرانس پہنچی، ڈاکٹروں نے میرا دوبارہ میڈیکل ٹیسٹ اور چیک اپ کروائے، لیکن اُن لوگوں نے بے یقینی کی  کیفیت میں میری اندر بیماری کا شائبہ تک نہیں پایا۔ اس وقت آپ لوگ جو مجھے زائرین کے درمیان دیکھ رہے ہیں، حقیقت میں، میں اپنی منت پوری کرنے آئی ہوں۔

ایک دو گھنٹے تک باتیں کرنے کے بعد رات کے کھانے کا وقت ہوگیا۔ دستر خوان بچھایا گیا۔ سالن، دو طرح کے چاول، سلاد، دہی اور کئی اقسام کے پھل اُس پر رکھے گئے۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد میں نے دوستوں کے سامنے تجویز رکھی کہ ہم لوگ صبح چار بجے روانہ ہوتے ہیں جو قبول نہیں ہوئی اور طے پایا کہ صبح ۵ بجے اول وقت نماز پڑھیں اور اُس کے بعد روانہ ہوں، خاص طور سے یہ کہ ابو احمد نے کہا ہمیں ناشتہ کرانے کی سعادت بھی بخشیں۔

رات کو سونے سے پہلے ابو احمد کاغذ اور قلم لیکر آیا تاکہ ہم اُس کیلئے فارسی میں زیادہ استعمال ہونے والے جملات لکھیں۔ اُس نے کہا وہ فارسی سیکھنا چاہتا ہے تاکہ زائرین کی اور اچھے طریقے سے خدمت کرسکے۔ میں نے اُس سے کہا تمہیں فارسی سیکھنے کیلئے ایران آنا پڑے گا۔

صبح ناشتے میں اُس نے مکھن اور مربا سے ہماری پذیرائی کی۔ اس بات کے پیش نظر کہ میں نے رات کو اُس سے کہا تھا کہ میرا پستوں کا باغ ہے، میں نے اُسے نمکین پستوں کا ایک پیکٹ تحفے میں دیا اور کہا: یہ میرے اپنے باغ کے ہیں۔ میں نے اپنا ٹیلی فون نمبر بھی دیا تاکہ وہ جب بھی ایران آئے تو مجھے فون کرے اور ہم اُس کی خدمت کرسکیں۔ اس کے بعد اُس نے اپنی گاڑی کے ذریعے، سب سے پہلے تہران کے رہنے والوں کو نجف سے کربلا والے راستے تک پہنچایا  اُس کے بعد مجھے اور میرے ساتھیوں کو۔ میں نے اُس کے بچوں اور اُس سے خدا حافظی کی اور ہم نے ایک یادگار تصویر بنائی۔ اُس کی زوجہ بھی میرے ساتھ موجود دو خواتین کو خدا حافظ کہنے کیلئے صحن تک آئی۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2721



http://oral-history.ir/?page=post&id=8563