خط اور ملاقات

راوی: احمد ناطق نوری

مترجم: سید نعیم حسین شاہ

2019-05-15


یہ اس وقت کی بات ہے جب سن ۱۹۶۳ میں امام خمینی ؒ کو قیطریہ روڈ پر واقع جناب روغنی کے گھر سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔ کچھ لوگ امام سے چند ایک شرعی سوالات پوچھنے آئے ہوئے تھے۔ اب مشکل یہ تھی کہ وہ سوالات لے کر کس طرح امام کی خدمت میں پہنچا جائے تاکہ وہ جوابات مرحمت فرمائیں۔ اس کام کے لیے میرا (احمد ناطق نوری) انتخاب کیا گیا تاکہ ان تحریری سوالات کو لیکر امام کی خدمت میں جاؤں  اور تحریری یا زبانی طور پر ان کے جوابات لے سکوں۔ مجھے جس طرح اب یاد آرہا ہے کہ مجھے بتایا گیا کہ یہ کاغذ (جس پر سوالات لکھے ہوئے تھے) شہید مطہری یا شہید بہشتی نے دیئے ہیں۔ میرے بھائی مرحوم عباس کی خواہش تھی کہ یہ کام وہ انجام دیں لیکن میں چونکہ میں جوان تھا اور میں نہیں چاہتا تھا کہ ان کے ساتھ کوئی مشکل پیش آئے، میں خود اس کام کے لئے نکل پڑا حتی میں نے کپڑے بھی نہیں بدلے اور کام والے کپڑوں اور اُسی حلیے میں روانہ ہوگیا۔ میں بھائی کی  جیپ کے ذریعے (تہران میں) دولت روڈ پر پہنچا۔ وہیں پر ایک مناسب جگہ پر گاڑی پارک کی۔ سیکیورٹی اہل کاروں نے مجھے  اُن کے پاس جانے کی اجازت نہیں دی۔ میں نے کہا کہ: مجھے امام سے کچھ شرعی سوالات پوچھنے ہیں۔ یہ لکھے ہوئے ہیں، آپ خود دیکھ سکتے ہیں انھوں نے پھر سے پوچھا: کیوں آئے ہو؟ ہمیں بتاؤ۔ میں نے کہا کہ میں شرعی سوال لیکر آیا ہوں۔  یہ سوال ایک مسجد کے بارے میں ہیں جو کسی گاؤں میں بنانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا: لاؤ ہمیں دو ہم خود ہی لے جاتے ہیں۔  میں نے کہا: نہیں، میں خود لیکر جاؤں گا اور خود امام سے بالمشافہ جواب لینا چاہتا ہوں۔ ورنہ جو شخص یہ مسجد بنانا چاہتا ہے وہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔

میں ان لوگوں سے گاڑھے تہرانی لہجے میں بات کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ عام فرد کی طرح بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ ان کا دھیان اس بات کی طرف نہ جائے کہ ہم ان کو کوئی چکر دینا چاہ رہے ہیں۔ خیر، میں ان سے یہ بات کر ہی رہا تھا کہ اتنے میں صحن کا دروازہ کھلا اور میں نے دیکھا کہ امام رضوان اللہ علیہ اسی گھر میں چہل قدمی میں مصروف ہیں۔ ۹:۳۰ سے لیکر ۱۰:۰۰ بجے تک کا وقت امام نے چہل قدمی کیلئے مختص کیا ہوا تھا۔ اور یہ امام ؒ کی عادت تھی۔ جس شخص نے دروازہ کھولا، جب اس نے دیکھا کہ میں  اس کی طرف آ رہا ہوں، وہ جوں ہی پیچھے مڑا تو میں جھٹ سے صحن کے اندر چلا گیا۔ سیکیورٹی والے سب افراد مجھے باہر نکالنے کیلئے خود اندر آگئے۔ امام نے فوراً فرمایا: اسے آنے دو، دیکھو اس کے ہاتھ میں کس قسم کا خط ہے۔ انھوں نے بھی امام کے احترام میں مجھے کچھ نہیں کہا اور پھر امام نے وہ خط لیکر دیکھا اور اُس کے اوپر لکھ دیا "اوکے" پھر امام سے میرے ملنے کے بعد دوبارہ انھوں نے خط چیک کیا اور پھر میں اپنے بھائی عباس مرحوم کے کارخانے پہنچا جو تجریش سے پہلے شمیران میں واقع تھا اور یہ کارخانہ وہاں پر "ورکشاپ ۱۱۰ " کے نام سے مشہور تھا۔ خیر، جب میں وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ بھائی بہت غصہ میں ہے۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے: میری گاڑی کیوں لیکر گئے تھے؟ تمہیں پتہ ہے اس کی سیٹ کے نیچے اچھے خاصے پوسٹر اور اعلامیے رکھے ہوئے ہیں اور تم ان کے اوپر بیٹھ کر آرام سے نکل گئے! اگر تمہیں پکڑ لیا ہوتا تو ہم سب کی خیر نہ ہوتی۔


سائیٹ 15khordad42.ir
 
صارفین کی تعداد: 2861



http://oral-history.ir/?page=post&id=8549