انصار الرسول (ص) بٹالین کے شہداء کی یاد میں منعقد ۱۸ واں پروگرام

دو آپریشنوں کے واقعات

مریم رجبی

مترجم: سید مبارک حسنین زیدی

2019-04-14


ایران کی سائٹ، زبانی تاریخ کی رپورٹ کے مطابق، انصار الرسول (ص) بٹالین کے شہداء کی یاد میں منایا جانے والا ۱۸ واں پروگرام اور  دفاع مقدس میں شامل اس بٹالین کے سپاہیوں اور اُن کے اہل خانہ کی سالانہ نشست،۶ دسمبر ۲۰۱۸ء کو  جمعرات کی شام، آرٹ شعبے کے اندیشہ ہال میں منعقد ہوئی۔

اس پروگرام میں کہ جس کے مختلف حصے تھے، دفاع مقدس کے سالوں میں انصار الرسول (ص) بٹالین کے کمانڈر جناب حاج قاسم قربانی اور کاشان کے قائم مقام امام جمعہ حجت الاسلام و المسلمین علی احتشام نے تقریر کی اور سید احمد نبوی نے کربلائے یک (۱) اور ابتدائی و الفجر آپریشن کے واقعات سنائے۔

جناب نبوی جو دفاع مقدس کے سالوں میں انصار الرسول (ص) بٹالین کے ڈپٹی کمانڈر بھی رہ چکے ہیں، انھوں نے کربلائے یک آپریشن کے بارے میں کہا: " طے پایا تھا کہ ہمارے گروپس بھین بہروزان دیہات میں داخل ہوکر، دیہات کو ہر خطرے سے نجات دلا کر وہاں سے گزریں گے۔ ہمیں دیہات سے باہر رہ کر انتظار کرنا تھا  کہ بٹالین کے کمانڈر جعفر عقیل محتشم کس چیز کا دستور صادر کرتے ہیں۔

رات کے ایک بجے تمام گروپس کو فرنٹ لائن کی طرف لے جانے کیلئے ایک جگہ جمع کرلیا گیا۔ میں اپنے گروپ کو ایک مدرسہ میں  لے گیا۔ بہت ہی اندھیرا چھایا ہوا تھا اور کچھ بھی سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ میں نے کہا: "نہیں معلوم ہم میں سے کل کون بچے گا۔ کسی کا چہرہ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اگر کوئی ایسا ویسا کام کیا ہے  اور اُس کی معذرت کرنا چاہتے ہیں تو اس کام کیلئے یہ وقت بہت مناسب ہے، آگے آئیں اور بتادیں۔" ایک ایک کرکے افراد کھڑے ہونے لگے ، معذرت خواہی کرنے لگے اور وہ رو رہے تھے۔ کچھ آوازیں پہچانی جا رہی تھی  اور کچھ پہچان میں نہیں آرہی تھیں۔ بہت ہی معنوی ماحول تھا۔

ہم فرنٹ لائن کی طرف گئے اور ہمارے چار سے زیادہ افراد شہید نہیں ہوئے۔ ہم نے بھین بہروزان کا چکر کاٹا، اُس علاقے سے مائنز کی صفائی کی اور دیہات کے باہر ایک ٹیلے کے پیچھے انتظار کرنے لگے تاکہ ہمیں ہمارا بعد والا مشن سونپا جائے۔ صبح ہونے والی تھی۔ عراقی بانس کے کھیتوں میں چھپے ہوئے تھے اور ہم نے انھیں نہیں دیکھا۔ اُسی وقت میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوئے ہیں  اور ایک فرد چلّا رہا ہے۔  میرے ذہن میں خیال  آیا کہ ہمارا کوئی آدمی زخمی ہوگیا ہے۔ میں نے قریب جاکر دیکھا تو ایک آدمی کو اسٹریچر پر رکھا ہوا تھا۔ میں اُس کے پاس گیا اور میں نے یہ دیکھنے کیلئے  کہ اُسے کہاں گولی لگی ہے اُس کے جسم پر ہاتھ پھیرا، لیکن مجھے تو کچھ محسوس نہیں ہوا۔ اُس نے مجھ سے کہا: "تم میرا خونی اسلحہ لے لو اور دیکھو میرے مشن کو جاری رکھنا!"میں نے اُس سے پوچھا کہ تمہیں کہاں پر گولی لگی ہے؟ اُس نے کہا: "میرے خیال سے میرے چہرے پر لگی ہے۔" میں اُس کے قریب گیا، میں نے دیکھا کہ اُس کی ناک کے پاس ایک چھوٹا سا زخم ہے اور وہاں پر ایک قطرہ خون لگا ہوا ہے!مجھے غصہ آگیا اور میں نےاسٹریچر پر ایک لات ماری۔ وہ سمجھ گیا کہ اُس نے کیا کیا ہے ، وہ فرار کر گیا۔ الحمد للہ وہ اس وقت صحیح و سالم ہے۔

وہ رات گزر گئی اور آپریشن کا دوسرا حصہ شروع ہوا۔ ہم چاہتے تھے کہ جلدی سے دوسری لائن تک پہنچ جائیں۔ کوئی سواری نہیں تھی اور دشمن کی طرف سے بہت تیز فائرنگ ہو رہی تھی۔ ہم نے پی ام پی گاڑی کو جنگی سامان سے بھرا  اور لوگ پی ام پی کے اوپر بیٹھ گئے  اور ہم جنگی خط کی طرف بڑھے۔ میں گاڑی پر ڈرائیور کے اوپر والی جگہ بیٹھا ہوا تھا۔ ہر طرف گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ آگے والی پی ام پی میں ایک لیزر لائٹ لگی ہوئی تھی جو پیچھے آنے والی پی ام پی کو راستہ بتا رہی تھی۔ اچانک سے پیچھے والی پی ام پی نے آگے والی پی ام پی کو گم کردیا اور بریک لگا دیئے۔ میں نیچے اُترا اور ہاتھ سے زمین پر بنے پی ام پی کے نشان کو ڈھونڈنے لگا۔ میں ڈرائیور کو اشارہ کرتا تو وہ حرکت کرنے لگتا کہ اچانک اُن دونوں پی ام پی کے اطراف میں مارٹر لگے۔ افراد (سپاہی) خزاں کے پتوں کی مانند زمین پر گرے۔ جو لوگ صحیح و سالم تھے ہم اُن کے ساتھ بہت تیزی سے آگے کی طرف بڑھے۔

ہمارے گروپس اُسی رات ناکارہ ہوگئے، کربلائے یک آپریشن کے راستے میں جو حادثات پیش آ رہے تھے، وہ ایک بہت بڑے آپریشن کو خلق کر رہے تھے۔ ہم لوگ جو آپریشن والے علاقے کی بائیں طرف سے بلندیوں کی طرف بڑھ رہے تھے، پیچھے کی طرف واپس آگئے اور استراحت کرنے لگے۔ بعد والے مرحلے میں ہم لوگ قلاویزان کی پہاڑی پر گئے۔  جس دن ہم لوگ قلاویزان پہنچے، صبح کے تقریباً ۹ بج رہے تھے۔ بتایا گیا کہ دشمن کی فوج کا ڈھانچہ کمزورپڑ گیا ہے۔ ہم کچھ افراد کے ساتھ ایک ٹیلے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمارے گروپس سے کہا گیا الگ الگ ہو جاؤ اور آگے کی طرف بڑھو۔ انھوں نے دور سے ماھورا ٹیلے پر  ایک مورچہ بنا ہوا دکھایا اور کہا کہ آپ لوگوں نے وہاں پر ملنا ہے۔ میرے پاس فوجیوں کے تین دستے تھے۔ ایک دستہ کے انچارج شہید حسن بختو تھے۔ میں نے اُن سے کہا کہ آپ سرنگ سے چلے جائیں اور خیال رکھیے گا وہ مورچہ نہ گزر جائے۔ دوسرے دستے کے انچارج بھی شہید محمود واحدی تھے۔ میں نے اُن سے کہا کہ آپ سڑک سے جائیں۔ میں نے بھی ایک اور دستے کے ساتھ اُن کے جانے کے دو منٹ بعد آگے بڑھنا شروع کردیا۔

ابھی ہم بیس قدم بھی نہیں چلے ہوں گے کہ عراق کی سرحد میں داخل ہوگئے۔ سن ۱۹۸۶ء تک ایسا بہت کم ہوا تھا کہ ہم دن کے وقت عراقیوں کی سرحد میں داخل ہوجائیں۔ طے پایا تھا کہ حسن بختو اپنے دستے کے ساتھ راستے کو صاف کرتے ہوئے اپنی حرکت کو جاری رکھے۔ ہم ایک مورچے میں داخل ہوئے ، ہم نے دو عراقیوں کو نیچے پڑے ہوئے دیکھا۔ ہم نے خیال کیا کہ یہ لوگ مرگئے ہیں۔ باہر نکلتے وقت کسی اسلحہ کی نالی مورچے کی دیوار سے ٹکرا گئی۔ اُن لوگوں نے جب یہ آواز سنی تو وہ سوچنے لگے ہم نے اسلحہ کو لوڈ کرلیا ہے۔ انھوں نے اپنے ہاتھوں کو سر پر رکھا اور کھڑے ہوگئے اور اس طرح ہمیں پتہ چلا کہ وہ زندہ ہیں۔ اس شور شرابے کی وجہ سے ۱۰ سے ۱۲ عراقی مورچوں سے باہر آگئے۔ بختو نے میری باتوں میں سے صرف یہ سنا تھا کہ میں نے کہا کہ جلدی سے ٹیلے تک پہنچو اور اُس نے راستے کو صاف کرنے والی بات نہیں سنی تھی۔ ایک ساتھی نے بہت تیزی سے اسیروں کو جمع کیا تاکہ کہیں ایسا نہ ہوں وہ پیچھے سے آجائیں اور افراد کو قتل کردیں۔

ہم لوگ آگے کی طرف بڑھے اور تقریباً ٹیلے کے سامنے پہنچ گئے۔  ہم نے وائرلیس کے ذریعے دوسرے دستوں کے افراد کو بتایا کہ ہم سرنگ کے پاس ہیں، کیا تم لوگ ہمیں دیکھ رہے ہو؟   ہم اپنے ہاتھ ہلا رہے تھے تاکہ وہ لوگ دیکھ لیں، لیکن وہ نہیں دیکھ رہے تھے۔ میں نے ایک فرد کو اوپر کی طرف بھیجا تاکہ  ہم لوگ نظر آجائیں اور ہمیں پتہ چل جائے کہ ہم اُن کے نزدیک ہیں یا نہیں؟ پھر ہم آگے کی طرف بڑھیں یا پیچھے کی طرف جائیں؟ وہ جیسے ہی اوپر  پہنچا، عراقیوں نے فائرنگ کردی ، اُس نے اوپر سے نیچے چھلانگ لگادی، لیکن لوگوں نے ہمارے دستے کو نہیں دیکھا۔ میں نے اُسے دوبارہ اوپر بھیجا، لیکن ہم ایک دوسرے کو ڈھونڈ نہیں پا رہے تھے۔ ایک شخص نے میری طرف اشارہ کیا کہ اُس طرف، ایک چھوٹے سے ٹیلے کے کنارے ۱۵ سے ۲۰ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ مجھے غصہ آیا کہ وہ لوگ اس فاصلہ سے ہمیں دیکھ رہے ہیں لیکن کچھ کہہ کیوں نہیں رہے۔ وہ ہم سے تقریباً ۴۰ میٹر کے فاصلے پر تھے۔  ہم آگے بڑھے اور اُن سے ۱۵ میٹر کے فاصلے پر پہنچ گئے  کہ ایک شخص نے کہا انھوں نے تو چیتے والا لباس پہنا ہوا ہے اور سر پر لوہے کی ٹوپیاں پہنی ہوئی ہیں۔ وہ لوگ دور سے ہمیں اشارہ کر رہے تھے کہ آجاؤاور چونکہ ہم دو تین لوگ تھے اور ہمارے ہاتھ میں وائرلیس تھا، وہ لوگ سوچ رہے تھے کہ کمانڈر کو پکڑ لیا ہے۔ ہمیں جیسے ہی پتہ چلا کہ وہ عراقی ہیں، ہم وہاں سے بھاگے اور ایک ٹیلے کے پیچھے جاکر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد واحدی نے اُن لوگوں کو قیدی بنالیا۔ قلاویزان کی پہاڑی پر ہمارے گروپس کے تقریباً آٹھ لوگ شہید ہوئے تھے۔"

جناب نبوی نے اسی طرح بات جاری رکھتے ہوئے کہا: "ہم ابتدائی و الفجر آپریشن سے واپس آرہے تھے۔ میرے پہلو میں ایک گولی لگی تھی اور میں سینے کے بل کرولنگ کرتے ہوئے جا رہا تھا  کہ میں نے ایک ٹیلے کے پیچھے تقریباً ۱۵ شہیدوں اور زخمیوں کو دیکھا۔ شہید محبی کا سن کم تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ میں اس لیے سینے کے بل آرہا ہوں تاکہ مجھے گولی نہ لگے۔ اُس کی ران پر دوشکا گن کی گولی لگی تھی اور ران کے دوسری طرف سے نکل گئی تھی۔ اُس کے پاؤں کو جوتے کے فیتوں سے باندھا ہوا تھا۔ اُس کا پورا پیر کالا پڑ چکا تھا۔ اُس کا بہت زیادہ خون بہہ چکا تھا۔ اُس نے آکر میرے کان میں کہا: "جناب سید! جس طرح بھی ہوسکے مجھے واپس لے جائیں۔" میں نے کہا: "ہم سب واپس لوٹیں گے۔" ہم بہت زیادہ آگے آچکے تھے، ہمارا پیچھے واپس جانا بہت مشکل تھا۔ اُس نے کہا: "میری والدہ کو پندرہ سال تک کوئی اولاد نصیب نہیں ہوئی اور خدا نے اُنھیں صرف مجھے دیا  ہے۔ اگر آپ مجھے واپس نہیں لے جائیں گے، میرے ماں باپ غم سے مر جائیں گے۔" اُس کا سر میرے پاؤں پر تھا اور وہ شہید ہوگیا۔"


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3013



http://oral-history.ir/?page=post&id=8485