یادوں بھری رات کا ۲۹۹ واں پروگرام (۳)

پہلوی اور بعثی سپاہیوں سے آمنا سامنا

مریم رجبی

مترجم: کنیز طیبہ

2019-03-18


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۹ واں پروگرام، جمعرات کی شام، ۲۴ جنوری ۲۰۱۹ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اس پروگرام میں علی دانش منفرد، ابراہیم اعتصام اور حجت الاسلام و المسلمین محمد جمشیدی نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کیلئے جدوجہد کرنے والے سالوں اور عراقی حکومت میں اسیری کے دوران اپنے واقعات کو بیان کیا۔آپ نے اس رپورٹ کے پہلے حصے میں سن ۱۹۷۹ء  میں ۲۱ جنوری سے  ۱۱ فروری تک جناب علی دانش منفرد کے واقعات کو پڑھا ۔ دوسرے حصے میں جناب ابراہیم اعتصام نے انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے اپنی سرنوشت اور انقلاب کی اپنے اوپر تاثیر سے لیکر دفاع مقدس کے محاذوں پر حاضر ہونے اور صدامی فورسز کے کیمپوں میں اسیری کے ایام کاٹنے تک کے بارے میں بتایا۔

یادوں بھری رات کے ۲۹۹ ویں پروگرام کے تیسرے راوی، حجت الاسلام و المسلمین محمد جمشیدی تھے۔ وہ صوبہ مازندران کے " نکا" نامی شہر میں واقع کوہسار کَندہ نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ وہ سن ۱۹۵۹ میں "نکا" سے قم گئے اور سن ۱۹۶۱ میں قم کے مدرسہ فیضیہ میں ۶۲ ویں حجرہ میں سکونت اختیار کی۔ وہ وہیں پر ایسے حالات میں کہ جب کتاب کشف الأسرار کے چاپ ہونے کا امکان نہیں تھا اور مدرسہ میں اُس کی صرف ایک ہی جلد تھی ، اس کتاب کو پڑھ کر امام خمینی سے آشنائی حاصل کرتے ہیں  اور اُن کے اندر انقلابی چنگاری کا  شعلہ زور پکڑتا ہے۔ اُن کی موجودگی میں مدرسہ فیضیہ قم میں ہونے والا واقعہ، خاص طور سے ۲۲ مارچ ۱۹۶۳ کو پہلوی حکومت کے سپاہیوں نے جو حملہ کیا تھا، سننے کے قابل ہے۔ وہ ۹ سال تک موصل اور تکریت شہروں میں اسیر بھی رہے اور اسلامی مشاورتی کونسل کے تین دورون میں اپنی جذباتی اور شعلہ بیان تقریروں  سے پہچانے گئے ہیں۔

حجت الاسلام جمشیدی نے کہا: "امام خمینی کی حمایت کرنے والے لاکھوں لوگ تھے اور ہیں۔ جنوری ۱۹۶۳ میں شاہ قم گیا، امام نے حکم دیا کہ قم کے رہنے والوں کو گھر سے باہر نکلنے کا حق نہیں ہے۔ طلباء کو شاہ کی تقریر والے جلسے میں شرکت کرنے کا حق نہیں ہے۔ جلسہ میں بہت ہی کم لوگوں نے شرکت کی اور شاہ کی حیثیت گر گئی۔ شاہ  کو اُس جلسے میں بہت غصہ آیا اور اُس نے کہا ہمیں ملک میں ایک رکاوٹ کا سامنا ہے جو ہمیں ملک کو آگے چلانے نہیں دے رہا ۔ اُس نے بہت زیادہ جسارت کی اور قم سے چلا گیا۔ سب لوگوں کو پتہ چل گیا کہ اُس نے مدارس اور مولویت کے لئے کوئی اور فیصلہ کرلیا ہے۔ امام نے شاہ کی تقریر کے تین دن بعد مسجد اعظم میں تقریر کی اور کہا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں رکاوٹ ہیں؛ ملک کیلئے رکاوٹ کون لوگ ہیں؟ ہم لوگ ہیں؟ ہم جو کہتے ہیں کہ جنوب تہران کے لوگوں کے پاس پینے کا پانی نہیں ہے، ان لوگوں کیلئے کوئی چارہ جوئی کرو، ہم لوگ رکاوٹ ہیں؟ ہم جو بات بھی کہتے ہیں، وہ قول صادق (ع)، قول باقر (ع) ، قول رسول اللہ (ص)  ہوتی ہے۔ امام نے اُس جلسے میں جس اہم نکتہ کی طرف اشارہ کیا وہ یہ تھا: ان لوگوں سے پوچھا جائے کہ یہ لوگ جو ملک میں ہیں (ان کا امریکی مشیروں کی طرف اشارہ تھا) کون لوگ ہیں؟ اگر یہ لوگ نوکر اور خدمت کرنے والے لوگ ہیں تو آپ نے ان لوگوں کو کیوں اپنے آقاؤں سے اوپر بٹھایا ہوا ہے؟ اگر واقعاً اس ملک پر اجنبیوں کا قبضہ ہوگیا ہے، تم (شاہ) کس نشے میں اپنا حکم چلا رہے ہو؟

اُن دنوں میں پیش آنے والے واقعات اتنے اہم تھے کہ امام نے علماء کو سات محرم سے فیضیہ میں ہونے والی مجالس میں مجلس پڑھنے کا  حکم دیا۔ فیضیہ میں کیا ہوا؟ ہم نے دیکھا کہ ایسے لوگ قم آئے ہیں جو کہیں سے بھی قمی نہیں لگ رہے تھے۔ مسجد امام حسن عسکری (ع) میں ایک جلسہ تھا۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں گیا ہوا تھا تاکہ منبر پر آنے والے افراد کی نصیحتوں سے استفادہ کروں۔ ہم نے دیکھا کہ منبر کے چاروں طرف بہت ہی تنومند جوان بیٹھے ہوئے ہیں۔ مجھ جیسے سادہ سے انسان نے اپنے دوست سے کہا: "الحمد للہ جوان اسلام کی طرف مائل ہو گئے ہیں۔"اُس نے ڈرتے ہوئے کہا یہ فوج کے کمانڈوز ہیں اور نہیں پتہ کس کام کیلئے آئے ہیں۔ وہاں پر اعلان ہوا کہ امام صادق (ع) کی شہادت کی مناسبت سے مدرسہ فیضہ میں شام چار بجے مجلس منعقد ہوگی آپ سب لوگ اس میں شرکت کریں۔ جیسے اس بات کا اعلان ہوا، وہ تمام لوگ جو منبر کے اطراف میں بیٹھے ہوئے تھے وہ لوگ چلے گئے۔ دوسرا دستور آگیا تھا کہ کاروائی کو فیضیہ میں انجام دیں۔ ہم اپنے حجرے میں چلے گئے جو مدرسہ کے اوپر والے طبقے پر تھا۔ ہمارا حجرہ فیضیہ کے صحن کی طرف تھا۔ علماء اور طلباء کی بڑی تعداد آئی ہوئی تھی۔ جناب آل طہ منبر پر تشریف لے گئے  اور منبر سے نیچے آئے۔ جناب انصاری منبر پر گئے اور اسی لمحہ آیت اللہ گلپایگانی بھی تشریف لے آئے۔ منبر بھی اُن سیڑھیوں کے برابر میں تھا جہاں سے مسجد اعظم کا راستہ تھا۔ آیت اللہ گلپایگانی بھی اُس کے پاس بیٹھ گئے۔ جیسے ہی جناب انصاری نے اپنی گفتگو کا آغاز کیا، منبر کے سامنے بیٹھے ہوئے دو لوگ آپس میں لڑنے لگے، آہستہ آہستہ یہ لوگ زیادہ ہوگئے۔ جناب انصاری نے کہا: "حضرات توجہ کریں، کچھ نہیں ہوا ہے، صرف سگریٹ کے دھویں نے لوگوں کو پریشان کردیا ہے۔ آپ لوگ مہربانی کرکے بیٹھ جائیں۔" اُن افراد میں سے اچانک ایک نے چلاتے ہوئے توہین آمیز لہجے میں کہا: "تم خود بیٹھ جاؤ!" جناب انصاری منبر سے نیچے آگئے اور اُنہیں آیت اللہ گلپایگانی کے ساتھ مسجد اعظم کی طرف جانے والی سیڑھیوں سے باہر لے گئے۔ اُس کے بعد، وہی لوگ جو آپس میں لڑ رہے تھے "زندہ باد شاہ" کے نعرے لگانے لگے۔ ایک آدمی منبر پر چڑھا اور اُس نے کہا: "مرحوم رضا شاہ کی  اعلیٰ روح پر صلوات بھیجیں!" ہم نے دیکھا کہ حالات اچانک خراب ہوگئے ہیں۔ ایک آدمی نے چلاتے ہوئے کہا: "مسجد گوہر شاد کی داستان دہرائی جا رہی ہے۔" سب لوگ اچانک مسجد سے باہر چلے گئے اور ہم تنہا رہ گئے۔

خدا جناب [آیت اللہ] مشکینی پر رحمت نازل کرے۔ میں جب سے قم گیا تھا میں اُس وقت سے اُن کے درس اخلاق کی نشست میں شرکت کرتا تھا۔ انھوں نے مسجد حجتیہ میں کہا: "مولوی کو کم کھانا چاہیے اور آہستہ آہستہ چلنا چاہیے۔" میں نے اُن  کی خدمت میں عرض کیا: "میں اس چیز پر عمل نہیں کروں گا۔ میں کھاؤں گا بھی ڈٹ کر اور ورزش بھی اچھی طرح کروں گا!" مدرسہ فیضیہ میں میرے پاس سوئمنگ بورڈ بھی تھا اور ویٹ لفٹنگ کا  سامان بھی تھا۔ میں تین سومیٹر تک تیراکی کرتا تھا اور میرا جسم تنومند اور قوی تھا۔ اب اعلیٰ حضرت کے چاہنے والے مدرسے میں تھے۔ اُن کمانڈوز نے مار کٹائی کرنا شروع کردی۔ انھوں نے پورے فیضیہ کا چکر لگایا یہاں تک کہ میرے حجرے تک پہنچ گئے۔ میرے حجرے کے سامنے اینٹیں رکھی ہوئی تھیں۔ ہم نے اُن اینٹوں سے اُنہیں مارا، لیکن وہ لوگ چھت کے ذریعے آگئے اور ہم پر چھا گئے۔ میں حجرے کے اندر گیا ۔ میں نے دیکھا کہ حجرے کے اندر تقریباً ۲۰ سے ۲۵ افراد بیٹھے ہیں۔ میرے پاس ایک پرانا کمبل تھا۔ میں نے اُسے اپنے بائیں ہاتھ پر لپیٹ لیا، سوئمنگ بوڑد کو اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑلیا اور ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ انھوں نے دروازے پر لات ماری، پرانا دروازہ  کمرے کے بیچ میں گر پڑا۔ افسر نے کچھ دیر انتظار کیا پھر اندر آیا وہ جناب سید ابطحی کے پاس گیا جو اصفہان کے رہنے والے تھے۔ اُن کا گریبان پکڑ کر بولا: "کہو زندہ باد شاہ! دل سے کہو زندہ باد شاہ!" پھر اُس نے ان سید کے سر پر لکڑی سے مارا۔ اُن کا عمامہ کھل کر زمین پر گرگیا۔ جب اُس نے ایسا کیا تو میں نے کھڑے ہوکر سوئمنگ بورڈ سے اُس کی ریڑھ کی ہڈی پر مارا۔ وہ بیٹھ گیا اور میں باہر نکل گیا۔ میں نے دیکھا کہ اُس کی طرح کے اور لوگ بھی وہاں پر ہیں۔ میں نے اُسی سوئمنگ بورڈ سے اُن لوگوں کو مارا اور سیڑھیوں تک پہنچ گیا۔ جو لوگ اوپر آرہے تھے میں نے اُنہیں دھکا دیا اور ہم ایک ساتھ نیچے آگئے۔ میں اُن پر سوار تھا۔ میں صحن میں پہنچ گیا۔ چونکہ صحن کھلی جگہ تھی ، ایک دوسرے سے ہاتھ پائی شروع ہوگئی۔ ہم نے تقریباً آدھے گھنٹے تک مقابلہ کیا کہ اچانک ایک آدمی نے میرے دائیں ہاتھ پر مارا۔ وہی ہاتھ جس سے میں نے سوئمنگ بورڈ کو پکڑا ہوا تھا، وہ ہاتھ ناکارہ ہوگیا۔ میں سمجھ گیا کہ اب میں مقابلہ نہیں کرسکتا۔ میں نے کمبل اور سوئمنگ بورڈ کو چھوڑا اور بھاگا۔ مجھے پیچھے سے مار رہے تھے۔ میں فیضیہ کے گیٹ پر پہنچا۔ پہلوی کو برا سمجھنا ہماری فطرت میں تھا؛ میرے والد صاحب مولانا تھے اور وہ جب بھی رضا شاہ کا نام لیتے، اُس کے ساتھ لعنت اللہ بھی کہتے۔ ہم اس طرح بڑے ہوئے تھے۔ میں نے جاکر ایک فوجی کی قمیض پکڑی، میں سوچ رہا تھا وہ فیلڈ مارشل نصیری ہے، لیکن قم کے ایک آیت اللہ کہ جن کا نام مجھے یاد نہیں، انھوں نے کہا وہ فیلڈ مارشل نصیری نہیں ہے، کرنل مولوی ہے۔ خلاصہ یہ کہ میں نے اُس کی قمیض پکڑ کر کہا: "بکرے کو ڈنڈے مار مار  کر قتل نہیں کرتے، اگر تم ہمیں لے جانا چاہتے ہو تو ہم تیار ہیں، اگر تم ہماری جان لینا چاہتے ہو، لے لو! یہ کیا کہانی لگا رکھی ہے؟!" اُس نے کہا: "چپ ہوجاؤ!" اور مجھے کچھ بری باتیں بھی سنائیں۔ بعد میں کہا: "کہو شاہ زندہ باد!" میں نے کہا: "شیطان کو سجدہ؟!" میں نے جیسے ہی یہ بات کی، جیسے مجھ پر آسمان گر پڑا ہو۔ اُس نے مجھے اتنی زور کا کوڑا مارا کہ میں دیوار سے ٹکرایا۔ دوسرا کوڑا اُس نے میرے منہ پر مارا کہ میں پلٹ کر دیوار سے ٹکڑایا۔ اُس نے کہا: "اسے لے جاؤ ۔۔۔" خلاصہ یہ کہ مجھے گاڑی کے اندر لے گئے  اور اس کے بعد سے داستان بہت طولانی ہے۔"

یادوں بھری رات کے ۲۹۹ ویں پروگرام کے تیسرے راوی نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے صدامی افواج کے کیمپوں میں اپنی اسیری کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا: "اسیری کے دنوں میں ایک دن جناب ہاشمی نے آکر کہا: "ہماری روٹی کے سہمیہ (کوٹے) کو آدھا کردیا  ہے۔یہ جو روٹی لاتے ہیں، ہمیں پوری نہیں پڑتی ہے۔" میں نے اُن سے کہا: "اسیروں سے کہو کہ صبر کریں۔ ہم اسیر ہیں، ہمیں برداشت کرنا پڑیگا۔خدا ہمارے لئے سہولت فراہم کریگا۔" اُنھوں  نے مہربانی کرتے ہوئے اسیروں سے یہ بات کہی۔ اُنھوں  نے کچھ دنوں بعد پھر آکر کہا کہ پانی کو کم کردیا ہے، ہوا کو کم کردیا ہے اور ۔۔۔ ان دنوں میں تمام اسیر بلا و گرفتاری میں مبتلا تھے۔ وہ ایک دن اور آئےاور کہا کہ ایک پوسٹر لائے ہیں جس پر امام کیلئے توہین آمیز باتیں لکھی ہیں۔ میں نے اُن سے کہا اسیر گنتی کی لائن سے اندر نہ جائیں، وہیں پر بیٹھ جائیں، سب کہیں کہ ہمیں عامر (کیمپ میں عراقی انچارج) سے کام ہے۔ اسی طرح ہوا بھی۔ تمام قیدی لائن میں بیٹھ گئے اور عامر آیا، اُس نے جناب ہاشمی سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ جناب ہاشمی نے کہا: "ظاہراً آپ جو پوسٹر لائے ہیں، اُس سے قیدی ناراض ہیں۔" عامر نے کہا: "ان سے کہو اندر جائیں میں آکر مسئلہ کو حل کرتا ہوں۔" میں نے جناب ہاشمی سے کہہ دیا تھا کہ اگر عامر اسیروں کو اندر جانے کا کہے تو یہ لوگ اندر چلےجائیں۔ تمام قیدی اندر چلے گئے، میں نے دیکھا کے دو قیدی مجھے ڈھونڈتے ہوئے آتے ہیں ، وہ مجھے عامر کے پاس لے جاتے ہیں۔ اُس نے پوچھا: "تم نے کیمپ کے ماحول کو کیوں خراب کیا؟" میں نے کہا: "میں بے گناہ ہوں۔ مجھ سے کہیں کھاؤ، کھاؤں گا، کہیں، سو جاؤ، سوجاؤں گا، کہیں، چلو، چلوں گا، کہیں نہ چلو، نہیں چلوں گا، میں ایک قیدی ہوں اور مجھے آپ لوگوں کے ساتھ بنا کے رکھنی ہے!" اُس نے کہا: "ہم تمہیں پہچانتے ہیں!" میں نے کہا: "میں امام خمینی کے ساتھیوں اور نظام اسلامی جمہوریہ ایران  کے اراکین میں سے ہوں۔" اس نے کہا: "تم جو کچھ بھی تھے، اپنے ملک میں تھے، یہاں پر تم ایک قیدی ہو۔" میں نے کہا: "مجھے نہیں پتہ کہ میں تم سے کس طرح بات کروں؟ میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں کہ ایک قیدی پابند ہوتا ہے۔" اُس نے کہا: "بیٹھو، چائے پیئو اور جاکر کسی نہ کسی طرح مسئلہ کو حل کرو اور ان لوگوں کو بغاوت کرنے نہیں دو۔"  میں نے کہا: "تم مجھے تھوڑی سی بات کرنے کی اجازت دو گے؟ تم نے ان لوگوں کی روٹی کے کوٹے کو کم کردیا، کسی نے اعتراض کیا؟ ہوا کو کم کردیا؟ کسی نے کچھ کہا؟ پھر امام خمینی کی توہین کر رہے ہو؟! یہاں پر سب لوگ امام خمینی کی خاطر اپنی جان دینے کو تیار ہیں۔"

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۹ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۴ جنوری ۲۰۱۹ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۱ فروری کو منعقد ہوگا۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2793



http://oral-history.ir/?page=post&id=8455