علی قمری کی یادوں کے ساتھ

جنگ کا پہلا دن

افسانہ صادقی
ترجمہ:سید مبارک حسنین زیدی

2019-02-20


فداکار کرنل "علی قمری"خرم شہر کے قلعہ میں موجود  ۱۹ افسروں کی بٹالین میں سے باقی رہنے والے وہ واحد شخص ہیں،  جو ہمارے ملک پر صدام کے حملے کے خلاف خرم شہر کے قلعہ کے کمانڈر کے عنوان سے دوسرے  جنگی ساتھیوں کے ساتھ اپنے ملک کے دفاع میں مشغول تھے؛ ایسی بٹالین جسے فوجی قوانین کے مطابق ۴۸ گھنٹے بعد ایک تازہ دم بٹالین سے تبدیل ہونا تھا، عوامی فورسز (بسیجی اور پاسدار) کی مدد اور وہاں موجود محدود وسائل کے ساتھ، شجاعت اور غیرت کے ساتھ ۳۴ دنوں تک صدامی فوج کی تجاوز گری   کا مقابلہ کیا۔

 

برائے مہربانی اپنا تعارف کروائیں۔

میں کرنل علی قمری ، سن ۱۹۴۴ء میں پیدا ہوا اور اسد آباد کا رہنے والا ہوں۔ اصل میں میرے والد کرمانشاہ کے رہنے والے ہیں لیکن وہ ہمدان میں واقع اسد آباد آگئے تھے۔ میں نے ۲۴ سالوں تک  جنگی علوم کی ابحاث پر کام کیا۔ میں انقلاب سے پہلے کمانڈوز کا استاد تھا اور میں نے اس سلسلے میں ۵۶۰۰ لوگوں کو ٹریننگ دی ہے۔ انقلاب کے بعد میں نے فوج میں ڈیوٹی کو جاری رکھا  اور سن ۱۹۷۹ء میں  کردستان چلا گیا۔ کردستان کی آزادی کے بعد ذاتی تقاضے پر خوزستان گیا اور وہاں پر خرم شہر کے پہلے قلعے کے گروپس کمانڈر کی حیثیت سے متعارف ہوا۔

 

آپ کی فوج میں آنے کی وجہ کیا تھی؟

میں بچپن میں بہت ہی سے جوش و جذبات سے بھرپور اور فعال شخصیت کا حامل تھا،  حتی اُس وقت جب میری عمر ۱۳ یا ۱۴ سال کی تھی، میں شکار کرنے جاتا تھا، کئی دفعہ ایسا ہوا کہ بھیڑئیے نے مجھ پر حملہ کیا۔ حقیقت میں فوج ایک ایسی جگہ جہاں آپ کو زیادہ سرگرم رہنا چاہیے؛ اصلاً ایسا لگتا تھا کہ میں فوج میں جانے کیلئے ہی پیدا ہوا ہوں۔ جب میں کیڈٹ ٹریننگ کے سن تک پہنچا  تو داخلہ کیلئے قانونی عمر سے ابھی چھ مہینے چھوٹا تھا۔ کیڈٹ ٹریننگ کیلئے اجازت نامہ دینے والے افسر نے مجھ سے کہا: "میرے پاس والد کا رضایت نامہ ہونا چاہیے"۔ جیسا کہ میرے والد پڑھے لکھے نہیں تھے؛ میں نے خود اپنے والد کی طرف سے ایک لیٹر تیار کیا اور جہاں جہاں انگوٹھے کا نشان لگانا تھا وہاں میں نے اپنی مختلف انگلیوں کے نشان لگا کر لیٹر جمع کرادیا۔ بغیر انکوائری کے میرا لیٹر قبول کرلیا گیا۔ ٹریننگ کورس کیلئے ہم اپنے شہر کے ۲۷ لوگوں کے ساتھ، ایک امریکی ٹرک ریو پر بیٹھ کر خرم آباد کی چھاؤنی کی طرف گئے جو فلک الافلاک قلعہ کے پیچھے تھی۔ وہاں پر طے پایا کہ شاہی گارڈ کیلئے فوجیوں کا انتخاب کیا جائے اور انہیں تہران بھیجا جائے۔ جن کا قد ۱۸۰ سینٹی میٹر تھا اُنہیں گارڈ کیلئے انتخاب کر رہے تھے۔ میرا قد ۱۷۰ سینٹی میٹر تھا؛ میرے شہر کے ۲۷ دوستوں میں سے ۸ لوگوں کا انتخاب ہوا۔ میں اس بات سے بہت افسردہ ہوا۔ کچھ گھنٹوں بعد میں نے بالکل اتفاقی طور پر افسر وزین اور افسر حق گو جو فوجیوں کو تہران بھیجنے کے انچارج تھے کی باتیں  سن لیں۔ اُس کے اگلے دن، میں افسر حق گو کے پاس گیا اور اُن سے کہا مجھے افسر وزین نے حکم دیا ہے کہ  انتخاب ہونے والوں میں میرا نام بھی لکھ لیںتاکہ  کل میں بھی آپ لوگوں کےساتھ جاسکوں۔ انھوں نے میری بات مان لی۔ ہم تہران کی طرف چل پڑے۔ جب ہم تہران کی باغِ شاہ چھاؤنی پہنچے، چھاؤنی کے مسئول نے تمام فوجیوں کو لائن سے کھڑا کردیا۔ میں بہت پریشان تھا کہ کہیں میرا قد چھوٹا ہونے والی بات فاش نہ ہوجائے۔ لائن سے گزرتے وقت جب میری باری آئی، مسئول نے جب میری طرف دیکھا تو میرا کان پکڑ کر کہا: تمہیں کس نے آنے کی اجازت دی ہے؟ اُس کے بعد وہ اپنے سیٹ پر چلا گیا اور سب سے کہا کے میدان کے گرد بھاگتے ہوئے ۲۰ چکر لگائیں۔ میں ہر چکر  میں تمام فوجیوں سے پہلے نمبر پر رہا۔ مسئول نے یہ دیکھتے ہوئے مجھے تمام فوجیوں کا انچارج بنادیا۔ ٹریننگ کا دورہ مکمل ہونے کے بعد مجھے فوج میں جانے کا مشورہ دیا گیا۔ جیسا کہ مجھے بھی بہت زیادہ دلچسپی تھی اس لیے میں نے مشورہ قبول کرلیا۔ انقلاب سے پہلے میں نے کمانڈو ٹریننگ کے مختلف دوروں میں شرکت کی اور  بہت سے لوگوں کو ٹریننگ دی۔ انقلاب کے بعد بھی میں اُسی طرح فوج میں اپنا وظیفہ انجام دیتا رہا۔

 

انقلاب کے بعد آپ کب کردستان گئے؟

جب امام خمینی ؒ نے فرمایا کہ کردستان کو آزاد کرائیں۔ ۱۶ ستمبر ۱۹۷۹ء کو کردستان بھیجے جانے والے سب سے پہلے یونٹوں میں، میں بھی شامل تھا۔ اہم ترین حادثہ جو میری کردستان میں ڈیوٹی کے اختتام پر  رونما  ہوا، تہران واپس آتے وقت کوملہ پارٹی کے فوجیوں کا ہم پر حملہ کرنا تھا۔ ہماری ڈیوٹی عید الاضحی والے دن، یکم نومبر ۱۹۷۰ء کو کرنل شریف اشرف کی کمانڈ میں اختتام کو پہنچی۔ تہران واپس آنے کے سفر میں،ہم سردشت والے راستے سے آرہے تھے۔ ہم اذان ظہر کے وقت بانہ کے قریب ایک قبرستان کے پاس پہنچے۔ ماحول تقریباً ابر آلود ہو رہا تھا۔ جیسا کہ عید کا دن تھا، اکثر لوگ قبرستان بھی آئے ہوئے تھے۔ کوملہ پارٹی نے سڑک کے دائیں طرف چھپ کر گھات لگائی ہوئی تھی۔ انھوں نے زنانہ اور ڈھیلے ڈھالے لباس  پہنے ہوئے تھے اور لوگوں کے درمیان چھپ گئے تھے۔ اس چال کے ساتھ انھوں نے اپنی بندوقیں اور آر پی جی اپنے لباسوں کے نیچے چھپائی ہوئی تھی۔ جیسے ہی ہمارا یونٹ قبرستان کے پاس پہنچا جھڑپ شروع ہوگئی۔ اس طرح سے کہ ہمارے پاس جو ۸۶ گاڑیاں تھیں انھوں نے سب کو تباہ کردیا۔ تقریباً تیس فیصد لوگ شہید ہوگئے۔ جن میں ہمارے کمانڈر کرنل اشرف بھی تھے، وہ بہت ہی دردناک طریقے سے شہید ہوئے تھے۔ اس حادثہ کے بعد میں چھ مہینے تک تہران میں ڈیوٹی انجام دیتا رہا۔ چھ مہینے بعد میں ذاتی درخواست پر جنوب کے محاذ پر چلا گیا۔

جنوبی محاذ کے انتخاب کی کیا وجہ تھی؟

انقلاب سے پہلے مجھے جنوبی محاذ پر خدمت کرنے اور  سن ۱۹۶۸، ۱۹۶۹ اور ۱۹۷۴ میں عراق سے ہونے والی جھڑپوں کا تجربہ تھا۔ ہم نے سن ۱۹۷۴ء میں ایک ہفتہ کیلئے عراقی سرزمین پر خیمہ لگائے تھے۔

 

آپ کس تاریخ کو اہواز گئے؟

میں نے ۲۲ مارچ ۱۹۸۰ء کو دستور لیا اور اُسی سال ۲۵ مارچ کو اپنے تین دوستوں کے ساتھ اہواز کی طرف  روانہ ہوگئے۔ اہواز پہنچنے کے بعد ہم نے پہلی رات ہوٹل میں گزاری۔ اُس کے بعد اہواز کے ۹۲ ویں زرھی ڈویژن میں شامل ہوگئے۔  ہم سے کہا گیا: "چونکہ خرم شہر میں کوئی افسر یا درجہ والاآدمی نہیں ہے اس لیے ہم چار لوگوں کو خرم شہر جانا چاہیے"۔ اُن دنوں میں ڈویژن کا اسٹاف ہمیں خرم شہر بھیجنے کیلئے ایک گاڑی اور ڈرائیور فراہم کرنے کی قدرت نہیں رکھتا تھا۔ ہم نے خود ہی دو بیوک گاڑیاں لے لیں اور ذاتی خرچے پر خرم شہر کی طرف روانہ ہوگئے۔

 

خرم شہر میں آپ کا عہدہ کیا تھا؟

میں خرم شہر قلعے کی پہلی بٹالین کے کمانڈر کے عنوان سے، شلمچے کی حدود میں ۱۴ ویں قلعہ تک اور عراق کی سرحدی پٹی پر تقریباً ۳۵ کلومیٹر تک اپنا وظیفہ انجام دے رہا تھا۔ جب میں خرم شہر کی چھاؤنی میں مستقر ہوا، وہاں نظم و ضبط کے حوالے سے صورت حال بڑی خراب تھی، یہاں تک کہ ہمیں فوجی کو حکم دینے کی اجازت نہیں تھی؛ حتی مجھے دھمکی تک دی گئی۔ میں یہ حالات دیکھ کر بنیادی وسائل خریدنے کیلئے  شہر کے اندر گیا۔ شہید  جہان آرا کے والد کی مدد سے جو شہر کے بازاریوں میں سے ایک تھے اور اسی طرح خرم شہر کے میئر بھی تھے، میں کچھ بنیادی سامان (دالیں، چنے، چائے، شکر، تھرماس ۔۔۔) خرید کر چھاؤنی میں لے گیا۔ فوجی میرے اس کام سے خوش ہوئے۔ اُس کے بعد میں نے کوشش کی کہ وہاں نظم قائم کروں۔

 

جنگ شروع ہونے سے پہلے سرحدی پٹی کے حالات کس طرح کے تھے؟

چھ مہینے کی مدت میں جب میں اُن گروپس کا کمانڈر تھا، میں نے عراقیوں کی حرکات پر نظر رکھی ہوئی تھی۔ وہ لوگ مسلسل سرحدی علاقوں کی تصویریں کھینچ رہے تھے، کبھی مارٹر بھی برساتے تھے۔ میں اس عرصے میں مسئولین کو خط لکھ کر وسائل کی کمی اور عراقیوں کی حرکات کے بارے میں بتاتا۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے میں عراقیوں کی سرحدی چھاؤنیوں پر رفت و آمد کرتا تھا، اُن کے ساتھ ناشتہ کرتا، اُن میں سے بعض ایرانی تھے ، وہ صدام کی جنگ کی تیاریوں اور حملے کے ارادے کے بارے میں مجھے بتاتے تھے۔ وہ لوگ سرحدی پٹی پر دن ہو یا رات مسلسل بلڈوزر کے ذریعے کام کر رہے تھے۔ جب میں نے اس مورد میں مسئولین کو خط لکھا تھا، انھوں نے جواب میں کہا: "وہ لوگ اپنے ملک میں سڑکوں کا جال بچھا رہے ہیں"۔

 

اس عرصے میں براہ راست جھڑپ بھی ہوئی؟

۲۲ مارچ ۱۹۸۰ء کو سنجیدہ طور پر جھڑپوں کا آغاز ہوا۔ ۵ جون ۱۹۸۰ء کو خیّن چیک پوسٹ پر ہمارے دو فوجی، موسوی بختور اور عباس فرمان سرحدی پٹی پر گشت کر رہے تھے کہ عراقیوں نے اُنہیں گولی سے مارا اور وہ شہادت پر فائز ہوگئے۔ باقاعدہ طور پر جنگ شروع ہونے سے پہلے میرے گروپس کے لوگوں میں سے، ۱۷ لوگ شہید اور ۲۸ لوگ زخمی ہوچکے تھے۔ حالات کا اور زیادہ دقت سے جائزہ لینے کیلئے، ۶ جون ۱۹۸۰ء کی رات افسر زارعیان کے ساتھ چیک پوسٹ سے  ۵ کلومیٹر کے فاصلے پر جہاں عراقیوں کی چھاؤنی نہیں تھی، میں عراقی سرزمین میں داخل ہوا۔ ہم نے خاردار تاروں کے اوپر ایک گدھا ڈالا اور تقریباً ۵۰۰ میٹر تک آگے بڑھے۔ ہمارے سامنے ایک ٹینک موجود تھا۔ ہم آہستہ آہستہ آگے گئے۔ دوسرے ٹینک اور گاڑیاں بھی  موجود تھیں۔ میں نے اُسی رات تقریباً ۱۶ بٹالین اور توپخانہ کی معلومات  کو  لکھ لیا۔ اسی طرح میں نے مسئولین کو دکھانے کیلئے ۹۱ ویں بٹالین اور ۱۳۰ ویں بریگیڈ کا لیبل اٹھالیا۔

جنگ شروع ہونے کے وقت آپ کہاں تھے؟

میرے گروپس میں سے ۴۵ افراد کا ایک دستہ جزیرہ مینو کی حفاظت کیلئے وہاں پر مستقر تھا۔ لہذا اس سے پہلے کہ وہاں جھڑپوں کا آغاز ہو، میں ۴ ستمبر کو صبح دس بجے جزیرہ مینو گیا۔ جزیرہ پر ہماری چھاؤنی کے سامنے جو عراقی موجود تھے وہ ایرانی لوگوں کو جلانے کیلئے سرحدی پٹی سے ایرانی پرچم نکال لیتے اور انہیں آگ لگادیتے۔ یا اُس سے اپنی ناک صاف کرتے تھے۔ یہی باتیں لوگوں کو اشتعال دلانے کا باعث بنیں۔ میں جھڑپوں کی روک تھام اور گروپس کے افراد سے بات کرنے کیلئے وہاں گیا۔ میں دوپہر کے بارہ بجے شلمچہ  سے ۸ کلومیٹر کے فاصلے پر موجود کمانڈروں کے ہیڈکوارٹر واپس آیا۔ میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے ایک سپاہی سے کہا کہ میرے لئے کھانا لے آئے۔ وہ جیسے ہی کھانا لایا، میں نے ابھی ایک چمچ کھایا تھا  اور تقریباً دوپہر کے ۱۲  بج کر ۲۰ منٹ ہو رہے تھے کہ افسر رستمی نے مجھے چیک پوسٹ سے  فون کیا۔ اُس کی آواز کپکپا رہی تھی۔ جب میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ اُس نے جواب دیا: "کرنل صاحب وہ ٹینک جن سے ہم پہلے بات چیت کر چکے تھے، وہ ہماری طرف بڑھ رہے ہیں"۔ میں نے کہا: "بالکل نہیں ڈرو  اور فوراً تمام ۱۰۶ اسلحوں کو باہر  کھینچو اور تیار رہنے کا دستور صادر کردو"۔ میں نے فوراً تمام قلعوں اور مورچوں سے رابطہ کیا اور اُنہیں تیار رہنے کا کہا۔  البتہ اُن لوگوں کو بھی حملہ ہونے کا پتہ چل چکا تھا۔ فقط توپخانہ کو پتہ نہیں چلا تھا، چونکہ گرمی زیادہ تھی اور وہ لوگ آرام کرنے کیلئے پیچھے آگئے تھے۔ میں نے ٹیلی فون پر سب سے کہا: ۱۰۶ اسلحے کو آمادہ کرلیں اور اگر عراقی حتی سرحدی خاردار تاروں کو بھی ہاتھ لگائیں تو آپ کو فائر کرنے کی اجازت ہے۔ میں خود بھی فوراً جیپ میں بیٹھ کر چیک پوسٹ  چلا گیا۔ دشمن کے ٹینک سرحدی پٹی سے ۸۰ سے ۱۰۰ میٹر کے فاصلے پر کھڑے ہوئے تھے۔ ہر ۵۰ سے ۶۰ میٹر کے فاصلے پر لوڈر اور بلڈورز بھی مائنز کو نکالنے کیلئے  کھڑے کئے ہوئے تھے۔ میں نے پہلے لوڈر کو دیکھتے ہی جس نے خار دار تاروں کے پیچھے کھودنا شروع کردیا تھا، میں فوراً ۱۰۶ اسلحہ کی طرف گیا  اور ایک ٹینک کی طرف فائر کردیا۔ وہ پہلا ٹینک تھا جو جنگ شروع ہونے کے بعد منہدم ہوا تھا۔ اُس کے بعد میں جیب میں بیٹھ کر مرکزی قلعہ میں واپس آگیا تاکہ ٹیلی فون کے ذریعے یونٹوں کو ہدایت دے سکوں۔ تمام مورچوں سے دفاع ہو رہا تھا۔ میں نے اُسی حالت میں  کچھ سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ جس مورچے میں بھی ہوں، جو حادثہ بھی پیش آرہا ہے وہ اُسے لکھ لیں اور رات کو مرکزی قلعے میں میرے منشی  کی تحویل میں دیں۔

 

جب جنگ شروع ہوئی اُس وقت آپ کے پاس جنگی سامان کی تعداد  کتنی تھی؟

جنگ شروع ہونے کے وقت، پہلے سے ہونے والی بات چیت اور خط و کتابت کی وجہ سے، بریگیڈ قاسم علی ظہیر نژاد کی مہربانی سے ہمارے اختیار میں ۸ ٹینک دیئے گئے۔ اُسی ۲۲ ستمبر  ۱۹۸۰ء والے دن اُنہی ۸ ٹینکوں کے ساتھ ہم نے عراقیوں کے ۱۷ ٹینک منہدم کردیئے۔ یہ ۸ ٹینک بھی ہماری بٹالین کے اختیار میں تھے۔ میں نے جب حکم دیا تھا  تو فوراً ٹینکوں کو باہر نکال کر فائر کرنا شروع کردیئے تھے۔ ہمارا سب سے پہلا ٹینک دوپہر کو تقریباً ۲  بج کر ۱۰ منٹ پر عراقی  ٹینکوں کے ذریعے  منہدم ہوا۔ ہمارے ایک ٹینک کی طرف عراق کے تقریباً ۶۰ سے ۵۴ ٹینک ایک ساتھ فائرنگ  کر رہے تھے۔ اُس دن جھڑپ ختم ہونے تک ہمارے تمام ۸ ٹینک تباہ ہوچکے تھے اور ٹینک چلانے والے تمام افراد بھی شہادت پر فائز ہوچکے تھے۔ اُس کے بعد ہم نے کچھ شہیدوں اور زخمیوں کو  جمع کیا اور فوراً پیچھے کی طرف واپس آگئے۔

 

جھڑپ کس وقت تک جاری رہی؟

رات ٹھیک ۸ بجے عراقیوں کی طرف سے حملہ روک گیا۔ صرف اُن کی افراد کو حمل کرنے والی  گاڑیاں کام کر رہی تھیں۔ جھڑپ ختم ہوجانے کے بعد، عراقیوں نے سرحدی پٹی کے اُس طرف عربی گانے لگائے اور شراب پینا، رقص کرنا اور پیر پٹخنا شروع کردیا۔

آپ لوگوں نے کیا اقدام کیا؟

رات کے تقریباً ۹ یا ۱۰ بجے میرے ذہن میں ایسا منصوبہ آیا کہ اُس کو بروئے کار لاتے ہوئے ہمیں دفاعی اعتبار سے کم نقصان اٹھانا پڑے گا۔ میں نے فوراً ضروری احکامات جاری کئے۔ میں نے کہا: "دوسرا حکم آنے تک، تمام افراد ،  جتنے افراد بھی قلعے میں موجود ہیں، ہر کوئی ایک ٹیلہ ڈھونڈ لے  اور اُسے ٹیلے کے پیچھے لیٹ جائے۔ ہر آدمی دوسرے آدمی سے تقریباً تیس آدمیوں کے برابر فاصلہ رکھے۔" افسر کریمی بھی میرے ساتھ تھے، جب اُس نے مجھ سے پوچھا کہ میں یہ کام کیوں کر رہا ہوں؟ میں نے جواب میں کہا: "کم سے کم اس منصوبہ سے دس لوگوں کی جگہ ایک فرد شہید ہوگا۔" ہمیں امدادی فورسز کے پہنچنے تک ۲۴ گھنٹوں تک دفاع کرنا تھا۔ میں نے ۱۰۶ اسلحے والے لوگوں کو بھی  کہا کہ صرف ایک آدمی اسلحہ کے پیچھے کھڑا ہو، تاکہ اگر اُس پر حملہ ہو تو  کم سے کم صرف ایک ہی آدمی شہید ہو۔ اس منصوبے کے تحت عراقی جنگ کے تیسرے دن تک اُس خط سے، جو ہمارے اختیار میں تھا، ہمارے سرزمین میں داخل نہیں ہوسکے۔ ہم صبح تک اس منصوبے کو انجام دینے میں مصروف تھے۔

 

دوبارہ حملہ کب شروع ہوا؟

صبح تقریباً ساڑھے چھ بجے،  ۳۰ سے ۴۰ کے قریب عراقی طیاروں نے آبادان کی طرف سے خلیج فارس کے گرد چکر لگایا۔ ہم سوچ رہے تھے  یہ ہمارے اپنے طیارے ہیں۔ ان طیاروں نے مرکزی قلعے کی چھاؤنی میں ہمارے اسلحے کے تمام چھ انباروں پر حملہ کیا تھا۔ انھوں نے جھڑپیں شروع ہونے سے پہلے ان جگہوں کی شناسائی کی ہوئی تھی۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ منہدم ہونے کے ایک ہفتے بعد تک کسی کی ہمت نہیں تھی کہ وہ قلعہ کے نزدیک چلا جائے۔ اُس کے بعد صبح ۷ بجے وہاں پر مستقر شہرضا توپخانہ کو منہدم کردیا۔ تمام جنگی وسائل میں سے ہمارے پاس صرف ایک ۱۰۵ توپ اور ۸۶ گولے باقی بچے تھے۔ اس وجہ سے کہ عراقی یہ سوچیں کہ ابھی بھی ہمارے پاس توپخانہ ہے، میں نے حکم دیا کہ ہر پندرہ منٹ بعد عراق کی طرف گولہ باری کی جائے۔

 

امدادی فورسز کس وقت پہنچی؟

ہمارے پاس سب سے پہلی امداد تو  اُسی دن پہنچ گئی، صبح سات بجے ایک بیوک گاڑی، ایک شخصی گاڑی امریکی شیورلیٹ اور کچھ سوزکیوں کے ذریعے ہمارے لئے سامان آیا تھا۔ جنگ کے تیسرے دن تک ہماری مدد کیلئے تقریباً ۲۸ گاڑیاں ہم تک پہنچیں۔ میں نے حکم دیا کہ اگر عراقی ۱۰۶ اسلحہ سے ۱۰۰ میٹر کے فاصلہ پر پہنچ جائیں تو ایک گولہ اُنہیں  اور ایک گولہ بارود کے انبار پر برساکر اُسے نابود کردیں تاکہ عراقیوں کے ہاتھ نہ لگے۔ ہمارے پاس ۱۰۶ نامی جو ۸۰ اسلحے تھے ہم نے اُس میں سے تقریباً ۶۰ اسلحے خود نابود کردیئے تھے۔ اس طرح سے ہم عراق کی ایران پر مسلط کردہ جنگ  کے پہلے دن اپنی سرزمین کا دفاع کرسکے۔

بندہ کی دعوت قبول کرنے پر میں آپ کا شکر گزار ہوں۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3086



http://oral-history.ir/?page=post&id=8402