سب اس بات کا انتظار کررہے تھے کہ دیکھتے ہیں آج کون منبر پر جاتا ہے

سخت ترین منبر ۔۔۔۔۔۔


2019-02-17


جس زمانے میں امام خمینی رح کو جلا وطن کردیا گیا تھا لوگوں میں ایک اضطراب اور پریشانی کی سی کیفیت تھی، عجیب حالات ہوچکے تھے۔ لوگوں کے دل غم و اندوہ سے بھرے ہوئے تھے۔ جمعے کا دن تھا طے پایا تھا کہ آبادان کے علمائے کرام کے ہفتہ وار اجلاس میں مجھے منبر پر جانا تھا۔ امام خمینی رح کی جلاوطنی کا زمانہ تھا اور ساواک نے تمام ائمہ مساجد کو کہہ رکھا تھا کوئی اجلاس یا میٹینگ وغیرہ نہیں ہونی چاہئے۔ مجھے بھی ذاتی طور پر اطلاع دی گئی تھی منبر پر جا کر گفتگو نہیں کرنی ہے۔ تمام دوستوں کا خیال تھا کہ ان میٹینگوں کو بھی ملتوی کردینا چاہئے۔ دوسری طرف کوئی منبر پر جانے کے لئے تیار بھی نہیں تھا۔ ایسے خراب حالات میں منبر پر جانا بہت سخت تھا۔

میں نے ساواک کو پیغام بھجوایا کہ میں منبر پر جانے سے نہیں رک سکتا۔ میں مبر پر جائوں گا۔ ساواک کی جانب سے پیغام آیا کہ بہت احتیاط کرنا اگر زرا سی بھی غلطی کی یا امام خمینی رح کا نام بھی لیا تو مسجد اور اس میں موجود لوگوں کا برا حال کردیں گے۔

جمعے کو عصر کے وقت مسجد کی جانب جانے کے لئے نکلا۔ دیکھا مسجد کا محاصرہ کرلیا گیا ہے۔ مسجد کے چاروں طرف واٹر کینن اور سپاہی تعینات کردیئے گئے تھے۔ مسجد لوگوں سے بھری ہوئی تھی اور سب اس بات کا انتظار کررہے تھے کہ دیکھتے ہیں آج کون منبر پر جاتا ہے۔

میں نے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے سوچا کہ ایسی صورتحال میں مجھے کیا کرنا چاہئے؟۔ جتنا بھی سوچا کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پایا۔ میرا ایک دوست تھا جو بہت متدین اور نیک آدمی تھا۔ اچانک میں نے اسے دیکھا پوچھا کیا تہارے ذہن میں کوئی بات آرہی ہے کیونکہ آج سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا مجلس پڑھوں۔ اس نے کہا کہ آج پیغمبر اکرم ص کی ہجرت کا دن ہے۔ جیسے ہی اس نے یہ بتایا میں بہت خوش ہوا ۔ پیغمبر اکرم ص کی ہجرت ایسی صورتحال میں بہترین موضوع تھا جسے بیان کیا جانا چاہئے تھا۔ میں نے اس موضوع کو اس انداز سے بیان کیا کہ جو خود بخود پیغمبر اکرم ص کی ہجرت کو امام خمینی رح کے ملک بدر ہونے سے ملا رہا تھا ۔۔۔پیغمبر اکرم ص مکہ سے باہر نکلے، اپنا وطن چھوڑا، ایسی جگہ جہاں ان کے خاندان والے تھے، انکی زندگی تھی، انہیں وہاں سے نکال دیا گیا۔ کیا کیا گیا پیغمبر اکرم ص کے ساتھ ۔۔۔۔اور میں نے دیکھا کہ لوگ گریہ کررہے ہیں انہوں نے عجیب انداز سے گریہ و زاری کی چونکہ انکے دل بھرے ہوئے تھے۔ میرے ایک اشارے سے وہ میری بات سمجھ چکے تھے۔

اس مجلس میں ایک انقلاب برپا ہوگیا۔ سب میری باتوں کا مفہوم سمجھ چکے تھے کہ میں کس کے بارے میں بات کررہا ہوں۔ اس مجلس میں موجود ایک شخص نے مجھے بعد میں بتایا کہ جب ہم مسجد سے نکل رہے تھے تو وہاں کھڑے پولیس والے آپس میں کہہ رہے تھے اس نے ایسا کیا کہا کہ سب رونے لگ گئے؟۔۔۔۔ مجلس کا رنگ ہی بدل گیا۔۔۔۔۔ تو پھر ہم کیا کیا کرنے آئے تھے؟ اس نے ساری بات کہہ بھی دی اور ہم کچھ کر بھی نہیں سکے۔

 

 

 

منبع: خاطرات حجت‌الاسلام و المسلمین غلامحسین جمی، تدوین: مرکز اسناد انقلاب اسلامی، انتشارات مرکز اسناد انقلاب اسلامی، تهران، 1384، صص 107 ـ 108.


سائیٹ 15khordad42.ir
 
صارفین کی تعداد: 2851



http://oral-history.ir/?page=post&id=8391