"پی ڈبلیو "نامی کتاب میں لکھے جانے والے حساس لمحات

شیما دنیادار رستمی

مترجم: سید نعیم حسین شاہ

2019-01-05


شہاب احمد پور کی تحریر کردہ کتاب "پی ڈبلیو" جناب شمس اللہ شمسینی غیاث وند کے کچھ یادگار جنگی واقعات پر مشتمل ہے۔ شمسینی صاحب دفاع مقدس کے دوران  قید ہوئے اور اُس وقت وہ  ایک بٹالین کے آفیسر تھے۔ لیکن کربلائے ۲ آپریشن کے دوران  جب ایک اور بٹالین کے افسر شہید ہوگئے تو اُس بٹالین کی کمانڈ بھی انہی کو سنبھالنا پڑی۔ البتہ اس اضطراری امر کے باعث اُس وقت موجودہ بسیجیوں نے ان کو غلطی سے بٹالین کا کمانڈر سمجھ اور لیا پھر کربلائے ۲ آپریشن کے دوران جب ان کو گرفتار کیا گیا تو گویا اس وقت کا سب سے بڑا قیدی آفیسر انہی کو سمجھا جانے لگا اور یوں انہیں عراقی جیلوں میں تلخ اور بعض جگہوں پر شیرین واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔

"پی ڈبلیو" کتاب کی روایت پہلے شخص کے عنوان سے ہے۔ راوی جب اپنے چشم دید واقعات کو بیان کرتا ہے تو قاری اُن حساس لمحوں اور حیران کن لحظات کو لمس کرتے ہوئے کتاب کی ایک ایک فصل پر توجہ رکھنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

اس کتاب کی پہلی فصل کا نام "کچھ دن کے بعد" ہے جو ایک پیراگراف میں لکھی گئی ہے۔ اس مختصر سی فصل کو  سر فہرست قرار دینے کی وجہ  یہ تھی کہ اس کے ذیل کی سطور میں، دفاع مقدس کے رہا شدہ اسیروں کا زیادہ ذکر آیا ہے: "کچھ دن کے بعد میں گھر سے باہر نکلنے کی تیاری میں مشغول تھا۔ آئینے میں جو خود کو دیکھا تو جوانی مجھے قصہ پارینہ لگی۔ میرا مرجھایا ہوا جھریوں بھرا چہرا اور دھنسی ہوئی آنکھیں۔ اب باہر جو نکلا تو کیا دیکھا کہ میرا شہر ۔۔۔ میرا شہر کھنڈر اور خرابہ بن چکا تھا۔ جیسا میں چھوڑ کر گیا تھا ویسا بالکل نہیں تھا۔ "

دوسری فصل کو راوی نے "کچھ دن بعد" کا عنوان دیا ہے اور اس میں شمسینی غیاث وند کے گھرانے کے اسٹیٹس کو بیان کرتے ہوئے دیہات "چہار طاقی" جو شہر لوشان، گیلان کے ساتھ واقع ہے ۔ میں ان کے تعلقات کو ذکر کیا ہے۔ ان کے گھرانے کی اصلی زبان "کُردی" ہے اور کھیتی باڑی اور مال مویشی پالنا ان کا مشغلہ ہے۔ گھرمیں کُردی بولی جاتی تھی اور ان کے لڑکے بالے اُس دور کے کام کاج و ہنر سیکھنے کے لیے مکتب جایا کرتے تھے۔

"پی ڈبلیو" نامی کتاب کی اس فصل میں جن خاص نکات کا ذکر کیا گیا ہے وہ: غیاث وند فیملی کی لوشان آمد، زابل کے رہنے والے "محمد بذری" سے ملاقات جو تہران یونیورسٹی میں سیاسات کے طالب علم تھے اور جن کی مدد سے راوی کو تہران سمیت دیگر بڑے شہروں میں انقلاب کے ابھرنے کے خدو خال سے آشنائی حاصل ہوئی۔  اس طرح گھر کے سربراہ اور باپ کی اچانک وفات اور پھر نوجوانی سے ہی گھر بار کی ذمہ داری جناب شمسینی صاحب کے کندھوں پر آنے سے عبارت ہیں۔

کتاب کے صفحہ نمبر ۱۸ پر درج ہے: "اسکول کے زمانے سے ہی جامع مسجد لوشان میں بھی میری آمد و رفت اچھی خاصی ہوگئی۔ میں نماز اور قرآن پاک اسی مسجد میں جاکر پڑھا کرتا تھا اور پھر جلد ہی مسجد کے  امام جماعت الحاج سلیمانی آشتیانی صاحب سے اچھی علیک سلیک ہوگئی۔ ان کے بارے میں سنا تھا کہ ان کو جلا وطن کرکے لوشان بھیجا گیا ہے۔ خیر، میں نے ان کی توضیح المسائل اور قرآن کریم کی کلاسوں میں باقاعدہ شرکت شروع کردی۔ کلاس میں ہم چار پانچ لوگ ہی تھے لیکن چونکہ میں سے کسی حد تک فقہی مسائل سے آشنا تھا اس لیے ان کی خاص عنایت مجھ پر ہوتی تھی۔ اُنہی دنوں میں ہم نے ان سے سنا تھا کہ چند دیگر علماء کو بھی "رودبار" کی طرف جلا وطن کیا ہے اور ان کا "جرم" بھی سیاست ہے۔ ایک جناب صادق خلخالی تھے اور دوسرے محمد یزدی صاحب۔ البتہ میں کسی ایک کو بھی نہیں جانتا۔"

اس کتاب کی تیسری فصل کا عنوان "کچھ تازہ واقعات" ہے۔ دراصل یہ وہ واقعات ہیں جو "محمد بذری" سے ملاقات اور آشنائی کے نتیجے میں راوی کی سیاسی بصیرت میں اضافے سے مربوط ہیں اور اسی آشنائی کے بعد راوی کو "ساواک" سے پہلی مرتبہ گہری آشنائی حاصل کرنے کا موقع ملا۔  "ساواک" سے آشنائی اور وہاں آنا جانا انہیں کچھ مہنگا پڑا تھا یعنی اسکول میں ان کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک کیا جاتا اور ساتھ ساتھ اسکول اور کلاس کے لڑکے ان سے ملنے جلنے سے کترانے لگے۔

اس کتاب کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ بیان شدہ مختصر روایات میں ایک خاص تسلسل نمایاں ہے جو قاری کی توجہ کو اپنی جانب مبذول رکھتا ہے۔  گھریلو مسائل کو لوشان شہر کی سیاسی و معاشرتی مشکلات کے ساتھ کچھ اس انداز میں ملا کر ذکر کیا گیا ہے کہ قاری دلچسپی کے ساتھ پڑھنا چاہتاہے۔

اس فصل "کچھ تازہ واقعات" میں راوی سے اپنی دادی کی وفات کے ذکر کے بعد لوشانی شہر کی سیاسی فضا کی قابل توجہ تصویر کشی کی ہے۔  صفحہ ۳۷ پر لکھتے ہیں: "دسمبر ۱۹۷۸ کے قریب لوشان کے لوگ دو دھڑوں میں بٹ گئے تھے۔ ایک گروہ  شاہ کا حامی تھا اور دوسرا گروہ انقلاب کا حامی، جس میں ہم لوگ تھے۔ اُنہی دنوں ہم نے مظاہرے شروع کیئے اور ریلی کے ساتھ شہر کی طرف آئے۔ ہمارے افراد کی تعداد سو کے  قریب تھی۔ الحاج آقائے سلیمانی سب سے آگے تھے۔ اس مظاہرے میں کچھ ایسے مقامی جوان بھی تھے جنہیں میں جانتا تھا مثال کے طور پر اردشیر زیباپور، محمد صادق کلایی، محمود پیروی، مرزا پور،رسولی،  صادقی، نعیمی،  دلیری  اور دیگر جوان۔ ہم سب ایک  آواز ہوکر مردہ باد شاہ اور درود بر خمینی (رہ) کے نعرے لگا تے ہوئے چلے جا رہے تھے۔  شاہ کے حامی افراد تو جیسے ہمارے انتظار میں ہی تھے لیکن ہماری تعداد زیادہ ہونے کے باعث ان کی طرف سے کوئی ردّعمل سامنے نہیں آیا وگرنہ معلوم ہو رہا تھا کہ انہیں بلوے فساد کے لیے بہانہ چاہیے اور بس۔"

اس کتاب میں آگے چل کر کاتب نے، انقلاب کے ابھرنے میں موثر ثابت ہونے والے کچھ واقعات اور منصوبوں کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ بھی بیان کیا ہے کہ لوشان شہر میں کس طرح انقلاب ظاہر ہوا۔

کتاب کی چوتھی فصل کا نام "ماجرے" ہے۔ اس فصل میں عراق  کی طرف سے ایران پر مسلط کردہ جنگ اور پھر دفاع کی خاطر جنگی محاذوں کی طرف فوجیوں کی روانگی کا ذکر ہے۔ جناب شمس اللہ جو اُس وقت ایک انقلابی جوان تھے، جنگ شروع ہوچکی تھی اور اب وقت آگیا تھا کہ یہ بھی جنگی محاذ کی طرف اپنا رختِ سفر باندھیں سو انھوں نے لوشان میں موجود سپاہیوں کی چھاؤنی کے دفتر میں رجوع کیا۔ رکنیت حاصل کی اور رکنیت کا کارڈ بنواکر کرمانشاہ روانہ ہوگئے۔ صفحہ نمبر ۵۰ پر آپ کو پڑھنے کے لئے یہ تحریر ملے گی: "جب میں کرمانشاہ پہنچا تو میرا پہلا ہدف "ابوذر بیرک" تھا وہاں پہنچ کر میں نے اپنا تعارف کروایا اور اگلے ہی دن سے فوجی ٹریننگ شروع ہوگئی، بیرک تو ظاہر سی بات ہے فوجیوں کی ہی تھی لیکن بہت سے افراد باہر کے بھی تھے جو جنگی تربیت حاصل کر رہے تھے ۔۔۔"

کتاب "پی ڈبلیو" کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ کاتب نے واقعات کے حوالے سے تمام تر شکوک و شبہات رفع کرنے کو اہمیت  دی ہے اور مسلسل اس کوشش میں رہے ہیں کہ افراد، شخصیات، جگہوں، شہروں اور فوجی چھاؤنیوں یا بیسز کو ان کے ناموں کے ساتھ ذکر کریں تاکہ قاری کو واقعات کی حقیقت اور واقعی تصویر سے قریب تر رکھا جاسکے۔

چوتھی فصل جو کتاب کے نصف سے آگے چل کر شروع ہوتی ہے، شمس اللہ شمسینی کی قید پر مشتمل ہے۔ صفحہ نمبر ۱۱۴ پر درج ہے کہ: "دور سے ہی لگ رہا تھا کہ وہ عراقی فوجی ہیں۔ ان کی گاڑیوں کے ڈسپلن اور ہتھیار دیکھ کر میں نے اندازہ لگالیا تھا کہ عراق کی خصوصی فورسز اور کمانڈوز کا دستہ ہے۔ ان کے چلنے کی آوازیں اب قریب آچکی تھیں۔ اس دستے میں ہیلی کاپٹر تک شامل تھے جو کھبموں کے پیچھے سے ایک دم سامنے آرہے تھے، میں نے چلا کر کہا: ہوشیار ہوجاؤ، وہ آگئے ہیں! عراقی آگئے ہیں، میری طرح دیگر جوان بھی یہ منظر دیکھ کر ہکا بکار ہوکر رہ گئے تھے ۔۔۔"

پانچویں فصل کا نام "سال کا پانچواں موسم" ہے اس فصل میں صدام کی فوج کے ہاتھوں شمس اللہ شمسینی نجات وند کی قید وار پھر قید  کے ایام کا ذکر ہے یہ قید ۱۹۸۱ سے شروع ہوئی۔ ذہنی اور جسمانی شکنجے و تحقیقات اور نیز چھوٹے چھوٹے خوشگوار واقعات جو وہاں پیش آئے اس فصل میں مذکور ہیں۔

صفحہ ۱۸۹ میں درج ہے "ابتدا میں تو چند مہینوں تک نمازتک پڑھنا ممنوع تھا۔ البتہ عراقی خود، اپنے آپ کو دیندار اور نمازی ظاہر کرتے تھے۔ اور جب ہم نماز پڑھنے کا ارادہ ظاہر کرتے تھے تو ہمیں زد و کوب کرتے تھے۔ سو، اسی لئے ہم دروازوں کے پیچھے اور کھڑکیوں کے نیچے اوٹ میں ہوکر نماز ادا کرتے تھے تاکہ وہ ہمیں باہر سے دیکھ  نہ لیں ۔۔۔"

کتاب کی اگلی چار فصلیں بالترتیب  درج ذیل ان عناوین سے مزین ہیں: ۱۹۸۲ کے ایام – ۱۹۸۳ کے ایام – ۱۹۸۴ کے ایام اور ۱۹۸۵ کے ایام اور یہ چار فصلیں قید کے زمانے اور تلخ واقعات پر مشتمل ہیں۔

اس کتاب کی آخری فصل کا نام "نیند سے بیدار ہونا" ہے جس میں قید سے رہائی اور وطن واپسی کا تفصیلی ذکر ہے نیز لوگوں کا استقبال، بیوی بچوں سے ملاقات کا لمحہ اور وہ عہدے جو رہائی کے بعد راوی کو سنبھالنے پڑھے، اسی فصل کی زینت بنے  ہیں۔ کتاب کے آخری بند میں تحریر ہے کہ "آج اتنا عرصہ، اتنے سال گزرنے کے باوجود بھی قید کے زخم اور شکنجے تکلیف دیتے ہیں۔ میں آج بھی ہر سال ہسپتال کے چکر لگاتا ہوں اور ہر دفعہ ہفتہ دو ہفتے ہسپتال میں ایڈمٹ ہوتا ہوں۔"

اگرچہ اس کتاب کی ہر فصل کے آخر میں تصاویر بھی لگائی جاسکتی تھیں تاکہ قارئین کے اذہان میں بنی تصویر پایہ تکمیل کو پہنچے لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور حاصل شدہ تمام تصاویر کو کتاب کے خاتمے پر ہی لگایا گیا۔

ناشرہ سورہ مہر نے کتاب "پی ڈبلیو" کے ۱۲۵۰ نسخے  نکالے، فی نسخہ ۳۲۲ صفحات کے ساتھ "اے -۵" کے چھوٹے سائز میں،مبلغ ۲۴ ہزار تومان مساوی با ۳۵۰ روپے قیمت کے ساتھ سن ۲۰۱۸ء  میں روانہ مارکیٹ کئے۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3137



http://oral-history.ir/?page=post&id=8288