میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔۔۔

راوی: احمد ناطق نوری

2018-12-20


میں جمعہ ۸ ستمبر ۱۹۷۸ء کو [تہران میں] ژالہ چوک [شہدا چوک] پر تھا۔ ہمارا گھر فضائی آرمی کے علاقے میں تھا۔ میں ژالہ چوک ۔۔۔ پر آیا اور میں اُس سڑک کے سرے پر کھڑا ہوا تھا جو [شاہراہ] ہدایت  کی طرف سے آرہی تھی۔ پہلے میں نے دیکھا کہ کچھ خواتین کالی چادریں پہنے ایک ساتھ چوک کے بیچ میں آئیں اور نعرے لگانے لگیں۔ اُسی وقت پولیس والے اپنی گاڑیوں پر بیٹھ کر فوزیہ چوک پر آگئے اور پہلے تو انھوں نے ہوا میں گولیاں برسائیں۔ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ خواتین زمین پر بیٹھ گئیں اور ایسے میں اُن لوگوں نے خواتین کی طرف فائرنگ کردی۔ اُن میں سے ایک دو خواتین خون میں لت پت ہوگئیں۔ وہ مرد حضرات جو جنوب کی طرف [جس سڑک کا نام اب ۱۷ شہریور (۸ ستمبر) ہے] فرار کر رہے تھے، انھوں نے پولیس والوں پر حملہ کردیا۔ ایک بچے کے ہاتھ میں ایران کا پرچم تھا۔  اس بچے کو وہیں چوک شروع ہونے کی جگہ پر گولی سے مار دیا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ جب وہ زمین پر گر گیا تو اُس کے دوست نے پرچم اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ یہ منظر بہت دلچسپ اور موثر کرنے والا تھا۔ پھر انھوں نے اُسے نہیں مارا۔

لوگ بہت زیادہ تھے۔ ہر جگہ دھواں پھیلا ہوا تھا۔ ٹینک تھے اور لڑکے نعرے لگا رہے تھے۔ میں مغربی شمال کے حصے میں کھڑا ہوا تھا؛ ہیلی کاپٹر ہمارے سروں پر تھا۔ بعض افراد کہہ رہے تھے: شاہ اس وقت اوپر ہے اور وہاں سے حکم دے رہا ہے  اور بعض لوگ کچھ اور کہہ رہے تھے۔ مردوں نے جب خواتین کو قتل ہوتے دیکھا تو اُن کے اندر غیرت نے جوش مارا۔ وہ اپنی جان کی قید سے آزاد ہوچکے تھے۔ اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ انقلاب خون سے آیا ہے۔

ہم ایک دو گھنٹے تک وہاں رہے جب تک جنازوں کو جمع کرلیا گیا۔ ہمارے محلے کے افراد بہت زیادہ تھے۔ فضائی آرمی کے علاقے کے افراد، وہی محلے کے افراد و ۔۔۔ ورزش کرنے والے افراد، فوٹبال کھیلنے والے افراد، سب رو رہے تھے اور یہ خون تھا جو اب جاری ہوچکا تھا اور یہ خون انقلاب کی کامیابی پر جاکر رکا۔


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 3446



http://oral-history.ir/?page=post&id=8250