تنہائی والے سال – اٹھائیسواں حصّہ

دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

کاوش: رضا بندہ خدا
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-12-20


کبھی کبھار اوپر والے طبقے سے لڑائی جھگڑے اور بحث کرنے کی آواز آتی۔ ہمارے لیے تعجب کا باعث تھا کہ اس عظیم اور عالم انسان کی موجودگی میں اوپر والے افراد  کس طرح ایک دوسرے ہم آہنگی نہیں رکھتے۔ ایک دن ہم سے برداشت نہیں ہوا اور ہم نے اُن سے اس موضوع کے بارے میں پوچھ لیا۔ ڈاکٹر نے دو بھائیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا:

- چونکہ وہ لوگ خود کو فوجی سمجھتے ہیں اس لیے ہماری باتوں  پر کان نہیں دھرتے۔ اُن میں سے ایک، چھوٹا سا مسئلہ پیش آنے کی صورت میں خودکشی کا اقدام کرلیتا ہے اور اس وقت بھی اس کا ارادہ ہے کہ وہ اکیلے ہڑتال کرے تاکہ اُسے کیمپ  لے جایا جائے۔

- خوش قسمتی سے محمودی کی رہنمائی اور اُس شخص کے ساتھ خط و کتابت سے مسئلہ ختم ہوگیا۔

ہمارا بہت دل چاہتا تھا کہ ہم ڈاکٹر کو دیکھیں؛ لیکن  متاسفانہ ہم جو ایک سال کی مدت وہاں رہے، ہمیں زیارت کی توفیق حاصل نہیں ہوئی۔

نئے پڑوسیوں کے آنے کے تقریباً ایک سال بعد ، ایک دن نگہبان نے کہا:

- تم لوگوں کو بہت جلد یہاں سے لے جائیں گے؛چونکہ فضائی آرمی کی کوشش ہے کہ آپ لوگوں کو اپنے ہی کسی کیمپ میں رکھے؛ لیکن جہاں تک مجھے پتہ ہے ابھی تک کوئی مناسب جگہ کا بندوبست نہیں ہوسکا ہے ۔۔۔

اُس دن  ہمیں لے جانے کیلئے کوئی نہیں آیا۔ لیکن ایک ہفتہ بعد، ہمارا انچارج افسر جو  میجر بن گیا تھا، چند میجروں اور نگہبان کیپٹن  کے ساتھ زندان میں آیا اور فضائیہ کے میجر نے کہا:

- آج آپ لوگوں کو یہاں سے ملٹری پولیس  کی عمارت میں لے جائیں گے۔ وہ جگہ بہتر ہے اور یہ کہ آپ وہاں ملٹری پولیس کی عمارت میں ہوں گے لیکن پھر بھی فضائی افواج کے زیر نظر ہوں گے  اور میں آپ لوگوں کے پاس چکر لگاتا رہوں گا۔

سامان جمع کرنے کے بعد سب کو ایک منی بس کی طرح کی گاڑی میں بٹھا دیا جس کی چھت اونچی اور اُس کی کھڑکیاں مکمل طور پر بند تھیں  اور بغداد کی طرف  چل پڑے۔

بغداد کی چند سڑکیں عبور کرنے کے بعد، ہم اوپر والی کھڑکی سے دیکھ سکتے تھے کہ ہم ایک چھاؤنی میں داخل ہوئے ہیں۔ گاڑی کی تفتیش ہوجانے کے بعد ، ہم ایک ایسے بڑے احاطے میں گئے جس کی چھت ڈھکی ہوئی تھی اور جس کا رقبہ تقریباً ۵۰۰ سے ۷۰۰ میٹر تک ہوگا۔ اس احاطے میں پرانی طرز کی بہت سی عمارتیں تھیں جو ایک دوسرے سے ملی ہوئی تھیں۔ اس کی ایک طرف  لکڑیوں اور ٹین سے بنی چھت تھی، پارکینگ کی چھت کی طرح دکھائی دے رہی تھی اور اس احاطے سے باہر جانے کیلئے ایک چار میٹر چوڑا اور چھ میٹر لمبا دروازہ لگا ہوا تھا۔

صحن کی حالت خراب تھی اور ٹین اور لکڑیوں سے بنی چھت  کے لکڑی والے ستونوں میں دیمک لگی ہوئی تھی۔ عمارت کی دیواروں پر بہت پرانی اور گندی اینٹیں لگی ہوئی تھیں۔ دوسرے حصے کا دروازہ جو ہمارے سامنے تھا، وہ تقریباً صحن سے ایک میٹر نیچے لگا ہوا تھا اور احاطے کی تصویر کو غمزدہ اور ناپسندیدہ بنا رہا تھا۔

جب نگہبان نے دوسرے حصے کے دروازے کو کھولا، ہم ایک ایسی راہداری میں داخل ہوئے جس کی ایک طرف، چھ چھوٹے چھوٹے کمرے نظر آرہے تھے۔ ہم ۲۴ افراد تھے کہ ہر چار لوگ ایک کمرے میں چلے گئے۔ ہر کمرے میں ایک دھات کا دروازہ لگا ہوا تھا جس کے اوپر سریوں سے بنی  ایک کھڑکی تھی کہ ہم کھڑے ہوکر اُس سے باہر راہداری کو دیکھ سکتے تھے۔

کمرہ اتنا چھوٹا تھا کہ ہر آدمی کا صرف گدا – وہ بھی زبردستی – بچھ سکا اور دوسرے سامان کیلئے جگہ نہیں تھی۔ راہداری میں بنی کھڑکیوں کو سیمنٹ سے بند کردیا گیا تھا اور ایک کمرے میں  شاور لگا کر اُسے حمام بنادیا تھا۔ ایک دوسرے کمرے میں  دو عدد ڈبلیو سی لگادی تھیں۔

ہوا کی کمی اور کراسنگ نہ ہونے کی وجہ سے، تھوڑے سے ہی عرصہ میں سب جگہ بدبو پھیل گئی۔ البتہ اُس دن تمام کمروں کے دروازے کھلے ہوئے تھے۔ رات کا کھانا تقسیم کرنے کے بعد نگہبان نے کہا:

آپ لوگ اپنے کاموں سے فارغ ہوجائیں، ہم رات کو ۹ بجے دروازہ بند کرنے کیلئے آئیں گے  اور صبح ۷ بجے دوبارہ دروازوں کو کھول دیں گے۔ اور ہاں میں ہر دروازے کے پیچھے کچھ خالی ڈبے رکھ دوں گا تاکہ اگر رات کو ضرورت پڑ جائے تو  رفع حاجت کرلینا۔

خراب ماحول، چھوٹی جگہ اور گندے مکان کی وجہ سے وہاں کی وضعیت بہت تکلیف دہ تھی لیکن اس کے باوجود  خدا بخش (ریڈیو) کا اطمینان اور یہ کہ خدا کی مدد  سے وہ سلامتی کے ساتھ خطرے سے گزر گیا تھا، ہمارے لیے بہت خوشی کی بات تھی؛ چونکہ ہمارا کچھ سامان اور لکھی ہوئی چیزیں، جیسے ڈاکٹر پاک نژاد کی کچھ تفسیریں ، زندگی امام حسین (ع) کی ایک جلد اور کچھ دعا کی کتابوں کو جسمانی  اور سامان کی چیکنگ کے دوران  لے لیا گیا تھا؛ لیکن الحمد اللہ، خدا بخش ہمارے پاس تھا۔

شروع کی راتوں میں دو لوگوں کی ڈیوٹی لگی کہ وہ کمرے کی دیوار پر ضربیں مار کراستعمال ہونے والی زبان سے اطراف کے ماحول سے باخبر ہوں۔ ابھی ہم ابتدائی ضربیں لگا رہے تھے کہ جواب ملا۔ جو ہماری باتوں کا جواب دے رہا تھا، وہ اُن ساتھیوں میں سے تھا جو چند سال پہلے ابو غریب کے نچلے طبقے میں ہمارے ساتھ رہ رہا تھا اور اُس کے بعد اُنہیں پائلٹوں  سے جدا کرلیا گیا تھا۔ تھوڑی سی بات چیت میں اُس نے اپنا تعارف کروا کر کہا:

- ہم تحت نظر ہیں۔ کل بات کریں گے!

یہ خبر بہت تیزی سے کیمپ میں پھیل گئی اور ہم سب کو پتہ چل گیا کہ وہ قیدی بھائی جو ابو غریب میں ہمارے ساتھ تھے، وہ یہاں ہیں۔ 

رات کو نو بجے نگہبا ن آیا اور اپنے ہاتھوں میں موجود چابیوں  سے دروازوں پر لگے تالے کو  مضبوطی سے بند کردیا۔ ہم نے اُس سے کہا:

- صبح جلدی دروازہ کھول دینا تاکہ ہم نماز کیلئے وضو کرسکیں۔

- نہیں ہوسکتا؛ کمرے میں پانی لے جاؤ اُس سے وضو کرلینا۔

ہم نے مجبوراً یہی کام کیا اور صبح سات بجے تک دروازے بند  تھے۔ اگلے دن، ناشتہ میں سوپ دینے کے بعد، زندان کا ایک انچارج ہم سے ملنے کیلئے آیا اور ہم نے جگہ ، پانی اور گندے ماحول کی وضعیت کے بارے میں شکایت کی۔ اُس نے صحیح سے سنا اور آخر میں کہا:

جگہ کے معاملے میں مجھ سے کچھ نہیں ہوسکتا، لیکن ہوا کیلئے میں کہہ دوں گا کہ راہداری میں لگیں بند کھڑکیاں  جو صحن میں کھلتی ہیں اُن میں ایک اینٹ کے برابر سوراخ کر دیا جائے، لیکن آپ کو قول دینا ہوگا کہ صحن میں نہیں دیکھیں گے اور وہاں  پر جو لوگ موجود ہیں اُن سے رابطہ نہیں کریں گے اور اس کے ساتھ میں ایگزاسٹ فین لگانے کا بھی کہہ دوں تا کہ ٹوائلٹ کی بدبو براہ راست باہر نکل جائے۔

ہمیں تھوڑا تعجب ہوا!

کچھ گھنٹے گزرنے کے بعد تیسرا دروازہ کھلا اور ہمارے دوست بوڑھی اور  تھکی ہوئی شکلوں کے ساتھ ہوا کھانے والے احاطے میں آئے اور ایک ایک کرکے یا دو لوگ – دو لوگ کرکے، ٹہلنے میں مصروف ہوگئے۔

میرا دل بیٹھ گیا، ہر چیز غیر معمولی سے لگ رہی تھی اور بہت بری طرح  الجھا دینے والی؛ جیسا کہ قطب شمال کی سردی میں، انسان کو جہنم کے بیچ پھینک دیا جائے، میں جل اٹھا! جل گیا اور میری آنکھیں ایسی لگ رہی تھیں کہ ہر چیز  چندھیا گئی ہو۔ کیا ہوا ہے؟ خدایا! میں تمام چیزیں تیرے سپرد کرتا ہوں؛ اپنی خاطر نہیں، سب کی خاطر۔ حق اور سچائی کی خاطر۔ تیرے اور تیرے دین  اور تیری مملکت اور امام کی خاطر ۔ انقلاب کی خاطر۔ اُس کی خاطر ۔۔۔

اُن میں کا سینئر دروازے کے قریب آیا اور دروازے کے پیچھے سے محمودی سے گفتگو کی۔ اُس نے احتیاط کی رعایت اور اطراف کا خیال رکھتے ہوئے کہا:

- اُسی وقت سے جب سے ہمیں آپ لوگوں سے جدا کیا تھا، ہمیں سیدھا یہاں لے آئے۔ ہم پر بہت مسائل اور مشکلات گزریں جو میں فی الحال نہیں بتا سکتا، کیونکہ چھت کے اوپر نگہبان گشت کرنے میں مصروف ہے۔ انشاء اللہ میں اس بارے میں تفصیل سے آپ کیلئے خط میں لکھوں گا۔ اور ہاں ہمارا ایک دوسرے سے رابطہ کرنا ممنوع ہے ، حتی ایک دفعہ نگہبان نے ہمیں کسی سے رابطہ کرتے ہوئے دیکھ لیا تو فوراً فائرنگ شروع کردی۔

محمودی نے حیرانی، پریشانی اور تعجب سے پوچھا:

- باقی افراد کہاں ہیں؟

- ہمیں دو گروپ میں تقسیم کردیا ہے؛ ہمارا گروپ تیسری عمارت میں ہے اور دوسرا گروپ پہلی عمارت میں ہے۔ بہتر ہوگا کہ آپ لوگوں کی اطلاع کیلئے بتادوں کہ ہم اس وقت ملٹری پولیس کے زندان میں ہیں جو بغداد کے فوجی علاقے" الرشید" میں واقع ہے اور اس جگہ کو "زندان سعد ابن ابی وقاص" کہاجاتا ہے ۔۔۔ اچھا  ہاں مجھے یہ بتاؤ! تم لوگ چچا (ریڈیو) کو اپنے ساتھ  لائے ہو؟

- نہیں!

ہم نے کلامی  اعتبار سے صحیح کہا تھا، چونکہ ٹوٹی ہوئی تاروں والا چچا اب استعمال کے قابل نہیں تھا اور ہم خدا بخش (دوسرے ریڈیو)  کو اپنے ساتھ لائے تھے، نہ کہ چچا کو! لیکن اصلی وجہ یہ تھی کہ قوانین  کے مطابق جب تک دوسروں کی وضعیت کے بارے میں مکمل آگاہی  نہ ہوجائے، ہمیں خدا  بخش اور داستان (خبروں) کے بارے میں کسی سے بات نہیں کرنی چاہیے۔

تیسرا گروپ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک ہوا کھانے والے احاطے میں رہا پھر نگہبان آیا اور انہیں اندر لے گیا اور دروازے کو بہت زودار آواز  اور غصے کے ساتھ بند کیا اور اس کے بعد اُ ن کے دروازے پر مضبوطی سے تالا لگا دیا۔ پھر وہ پہلی والی عمارت کی طرف گیا، وہاں کے دروازے کو کھولا اور خود احاطے میں لگے بڑے دروازے سے باہر نکل گیا۔

جاری ہے۔ ۔۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2734



http://oral-history.ir/?page=post&id=8245