یادوں بھری رات کا ۲۹۴ واں پروگرام

مدافعین حرم اور رہائی پانے والوں کی یادیں

مریم رجبی

مترجم: کنیز طیبہ

2018-12-06


ایرانی زبانی تاریخ کی سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۴ واں پروگرام، جمعرات کی شام، ۲۳ اگست ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اس تقریب میں حجت الاسلام و المسلمین علی شیرازی، مجتبیٰ جعفری اور محسن فلاح نے اپنے مدافعین حرم ہونے اور اپنی اسیری کے دوران  کے واقعات کو بیان کیا۔

 

۴۵ دن اور ٹھہر جائیں

۲۹۴ ویں یادوں بھری رات کے سب سے پہلےراوی سپاہ پاسدران کی افواج قدس  میں ولی فقیہ کے نمائندے حجت الاسلام و المسلمین علی شیرازی تھے  جو شہید کے بھائی بھی ہیں اور مدافعین حرم  بھی ہیں۔ یادوں بھری رات کے کچھ پروگرام ملک کے جنوب میں واقع جزیروں پر بھی ہوئے جو اُن کی کوششوں سے منعقد ہوئے ہیں۔ حجت الاسلام شیرازی کے ڈائس پر آنے کے وقت  مقام معظم رہبری کے بارے میں ایک فلم دکھائی گئی، جس میں انھوں نے شہداء کیلئے ایک شعر پڑھا، اسی وجہ سے حجت الاسلام شیرازی نے اپنی گفتگو کا اس طرح سے آغاز کیا: "وہ دو بیت جن کی طرف مقام معظم رہبری نے اشارہ کیا ہے (ہم سینہ پیٹتے رہے، وہ خاموشی سے برستے رہے، ہمارا دعویٰ تھا کہ ہم صف اول کےلوگ ہیں، مجلس کے آخر سے شہداء کو چن لیا گیا) ان کا تعلق، مقام معظم رہبری کی مدافعین حرم کے شہداء کے کچھ گھر والوں سے  ہونے والی ملاقات سے ہے کہ یہ دو بیت ایک شہید کی تصویر پر لکھے ہوئے تھے، مقام معظم رہبری نے تصویر اٹھائی، یہ شعر پڑھا اور رونے لگے۔ ملاقات ختم ہوگئی اور اس حصے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر منتشر ہوئی۔ حوزہ علمیہ قم کے ایک مولانا صاحب محمد مہدی مالا میری، شام میں تھے۔ اُن کی زوجہ نے اس ویڈیو کو دیکھا۔ میں اس حصے کو شہید کی زوجہ کی زبانی نقل کررہا ہوں کہ جنہوں نے یہ باتیں بعد میں ہونے والی نشستوں میں  مقام معظم رہبری کے سامنے کہیں: "میں نے آپ کے اشکوں کو دیکھا، جناب مالا میری شام میں تھے، میں نے اپنے شوہر کو فون کرکے کہا: جناب محمد مہدی آپ وہاں ۴۵ دن  اور ٹھہر جائیں۔ (کیونکہ اُن کو گئے ہوئے ۴۵ دن ہوگئے تھے اور وہ آنے والے تھے۔) آپ کا وہاں ٹھہر جانا مقام معظم رہبری کی طول عمر  کی نذر ہوجائے۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ جناب مالا میری شہید ہوگئے، میں نے کہا الحمد للہ کہ اُن کی جان رہبر معظم انقلاب، حضرت امام خامنہ ای پر فدا  ہوئی۔"

 

شہید کی نذر

حجت الاسلام شیرازی نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا: شام میں ایک جوان زخمی ہوگیا، وہ تبریز کا رہنے والا تھا اور اُس کی شہادت سے پہلے تبریز میں اُس کی شادی ہونا طے تھا۔ اُس نے اپنے والد کو فون کرکے کہا کہ شادی کی تقریب نہیں رکھیں، معلوم نہیں ہے کہ میں اس دنیا میں زیادہ عرصہ تک رہوں، میں نہیں چاہتا کہ کوئی میری خاطر انتظار  میں مبتلا رہے۔ وہ شام چلا گیا اور اطلاع آئی کہ جناب حامد نامی جوان زخمی ہوگئے، اُن کے دونوں ہاتھ کٹ گئے تھے، دونوں آنکھیں نابینا ہوچکی تھیں اور وہ کوما میں چلے گئے تھے۔ وہ دمشق میں کچھ دنوں تک ہسپتال میں ایڈمٹ رہے پھر ایران منتقل ہوگئے۔ اُن کے والدین سے فون پر رابطہ کرکے کہا گیا کہ آپ لوگ اپنے فرزند کو دیکھنے کیلئے ہسپتال تشریف لے آئیں۔ وہ لوگ آئے اور حامد کو دیکھا۔ والد صاحب کمرے سے باہر آئے اور کہا کہ میں شکریہ ادا کرنے آیا ہوں، میں نے پوچھا: آپ کس کا  شکریہ ادا کریں گے؟ انھوں نے کہا: ان لوگوں کا جنہوں نے حامد کو شام بھیجا، اُس نے نذر مانی تھی کہ وہ حضرت عباس بن علی بن ابی طالب (ع) کی طرح  شہید ہو، جب میں نے دیکھا کہ اُس  کے ہاتھ اور آنکھیں  نہیں ہے،  میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ میرے بیٹے کی نذر قبول ہوگئی اور اُس کی آرزو پوری ہوگئی۔ میری درخواست یہ ہے کہ مجھے مقام معظم رہبری کا ایک بسیجی رومال  دیا جائے تاکہ میں اُسے حامد کے بدن پر ڈالوں تاکہ وہ جلدی پرسکون ہوجائے۔  میں نے ایک بسیجی رومال لیکر شہید کے والد کو دیا۔ ایک دو روز بعد، رمضان کے دن تھے اور افطار  کا وقت قریب تھا کہ مجھے فون کرکے بتایا گیا کہ حامد شہید ہوچکا ہے۔ میں ہسپتال پہنچا اور اُن کے والدین کے ساتھ سردخانہ گیا، میں نے اُنہیں اُن کے فرزند کا جنازہ دکھایا۔ انھوں نے اپنے فرزند کا جنازہ دکھانے پر ہمارا شکریہ ادا کیا۔ میں شہید کے چہلم کی مجلس  پڑھنے کیلئے تبریز گیا ۔ میرا خطاب ختم ہونے کے بعد شہید کی والدہ نے میری طرف رُخ کرکے  کہا  ہمارے حامد اور امیر نامی دو بیٹے تھے، دونوں پاسدار تھے، حامد شہید ہوگیا، ہمارا تقاضا یہ ہے کہ امیر بھی شام چلا جائے، وہ شہادت کیلئے تیار ہے۔ شہید کے والد ٹھیلے پر چیزیں بیجتے ہیں، انھوں نے مجھ سے کہا کہ امیر سے پہلے مجھے جانا چاہئیے۔ میں نے اُس ملاقات میں اُس گھرانے تک مقام معظم رہبری کا سلام پہنچایا، شہید کے والد نے مجھ سے کہا: آپ جاکر مقام معظم رہبری کی خدمت میں عرض کردیں کہ ہم نے آپ کی مسکراہٹ دیکھنے کیلئے حامد کو دیدیا ہے،  میں تیار ہوں کہ میں خود اور میرا بیٹا امیر بھی اپنی جانیں نچھار کردیں تاکہ وہ زندہ سلامت رہیں۔"

 

ھذا من فضل ربی

حجت الاسلام شیرازی نے مزید کہا: شہید امیدواری شام جانا چاہتے تھے، انھوں نے خواب میں حضرت سکینہ (س) کو دیکھا، انھوں نے کہا  میں فلاں دن ٹھیک دس بجے تمہارے پاس آؤں گی، قسمت سے اُسی دن، آپریشن بھی تھا۔ آپریشن صبح ۸ بجے شروع ہوا، جنگ نے شدت اختیار کرلی، کمانڈر نے حکم دیا کہ سب زمین پر لیٹ جائیں، جناب امید واری نے کمانڈر  کی طرف رُخ کرکے کہا  مجھے دس بجے تک کوئی ضرر نہیں پہنچ سکتا، آپ مجھے اجازت دیں کہ میں کچھ دہشت گردوں کو نابود کردوں۔ وہ صبح ٹھیک دس بجے شہید ہوگئے۔ میں بعد میں شہید کے گھر گیا۔ یہ سارے واقعات شہید کے دوستوں کی زبانی لکھے گئے  ہیں اور اُن کے گھر میں موجود ہیں۔ شام میں ہونے والی جنگ  میں اس طرح کے حادثات بھرے پڑے ہیں۔

ابھی شہید کجباف کا جنازہ نہیں آیا تھا، اہواز میں اس شہید کی شان میں  ایک پروگرام رکھا گیا ، میں بھی اُس پروگرام میں  موجود تھا۔ شہید کی زوجہ ڈائس کے پیچھے کھڑی ہوئیں، اُنھوں نے  لوگوں کی طرف رُخ کرکے کہا میرے شوہر کا جنازہ نہیں لایا گیا ہے، اُن کے جنازے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں اور وہ دہشت گردوں کے پاس ہے، میں اپنی طرف سے اور تمام ساتھیوں کی طرف سے اعلان کرتی ہوں، کسی کو حق نہیں ہے کہ میرے شوہر کا جنازہ دریافت کرنے کیلئے دہشت گردوں کو ایک بھی ایرانی ریال  دے، کسی کو میرے شوہر کا جنازہ واپس لینے کیلئے کوئی آپریشن کرنے کا حق نہیں ہے، اگر وظیفہ ہے تو انجام دیں لیکن اگر میرے شوہر کے جنازے کو دریافت کرنے کیلئے ہے تو میں اس کام کی اجازت نہیں دیتی۔ ان باتوں کی ویڈیو سوشل میڈیا پر منتشر ہوئی۔ شہید کجباف کے گھر والے مقام معظم رہبری  کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مقام معظم رہبری نے فرمایا: میں نے شہید کجباف کی شان اور قدر دانی  کیلئے ہونے والے پروگرام میں آپ کی باتوں کو سنا ہے، شہید کی زوجہ نے کہا: "ہذا من فضل ربی ۔۔۔" ایک نشست میں جب میں اُن کے گھر  میں تھا، شہید کی زوجہ نے کہا کہ ہم خوزستان کی خواتین کو جمع کرنے کیلئے تیار ہیں اور اگر ضرورت ہو تو ہم سب شام جاکر اسلام کا دفاع کریں۔"

 

مادر شہید کی آرزو

حجت الاسلام شیرازی نے کہا: "جہاد مغنیہ، شام میں اسرائیل کی سرحد  کے قریب شہید ہوئے۔ ابھی شہادت کی خبر شائع نہیں ہوئی تھی۔ عماد مغنیہ، جہاد شہید کے والد ہیں، عماد کے دو بھائی بھی شہید ہوچکے ہیں۔ جہاد اس گھرانے کا چوتھا فرزند  ہے، وہ بھی شہید ہوگیا اور چاہتے ہیں کہ عماد کی زوجہ اور جہاد کی والدہ کو شہادت کی خبر دی جائے۔ جہاد کے بھائی حزب اللہ کے کچھ فوجیوں کے ساتھ شہادت کی خبر دینے آتے ہیں، وہ اپنی والدہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ جہاد شہید ہوگیا ہے، عماد مغنیہ کی زوجہ  اپنے پرس میں ہاتھ ڈال کر ایک کفن نکالتی ہیں اور کہتی ہیں: میں نے جہاد کو صحیح و سالم واپس آنے کیلئے نہیں بھیجا تھا، میں نے جہاد کو بھیجا تھا کہ وہ بھی اپنے والد عماد کی طرح شہادت پر فائز ہو، اُن کی آرزو پوری ہوگئی۔  میں جہاد کی شہادت کی خبر سننے کیلئے آمادہ تھی۔  میں عماد مغنیہ کے والد کے گھر گیا، میں وہاں عماد کی زوجہ سے ملا اور اُن سے کہا کہ یہ باتیں جو بیان کی جاتی ہیں کیا یہ صحیح ہیں؟ انھوں نے کہا: ہاں، میں نے اپنے بیٹے کا کفن تیار کیا ہوا تھا اور مجھے پتہ تھا کہ جہاد شہید ہوجائے گا۔

ایک غیر شادی شدہ لبنانی جوان تھا، وہ کئی مرتبہ شام گیا، آخری مرتبہ جب وہ شام سے لبنان جانا چاہتا تھا، اُس نے اپنی والدہ سے کہا میں نے  خواب دیکھا ہے اور میں آپ کو اس خواب کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ ماں نے زیادہ اہمیت نہیں دی اور انھوں نے نہیں چاہا کہ میرے بیٹے کو پتہ چلے کہ اُس کی ماں پریشان ہے۔ جب وہ شام گیا، اُس نے  اپنے دوستوں کو اس خواب کے بارے میں بتایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں شام میں داخل ہوا ہوں اور اسیر ہوگیا ہوں، جب میں اسیر ہوگیا تو ایک داعشی فوجی جس کی لمبی داڑھی تھی وہ میرے سینے پر بیٹھ گیااور ایک چھری سے میرے سر کو  جدا کردیا، میں مضطرب تھا  اور میں سراسیمگی  کی حالت میں خواب سے بیدار ہوگیا۔ دوسری رات دوبارہ وہی داعشی فوجی میرے سینے پر بیٹھا  اور میں نے یہاں تک خواب دیکھا  کہ اُس نے میرے سر کو جدا کرنا چاہا لیکن میں ڈر گیا، میں نے دیکھا کہ سید الشہدا (ع) تشریف لائے ہیں اور کہہ رہے ہیں  کیوں ڈر رہے ہو؟ عاشورا والے دن جب میرے سر کو جدا کیا گیا، درد نہیں ہوا تھا، تمہارے سر کو بھی جدا کریں  اور کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ سردار سلیمانی نے مجھے یہ واقعہ سنایا تھا اور میں جب لبنان گیا تو میں نے سید حسن نصر اللہ سے اس  حادثے کے بارے میں پوچھا، میں نے اس شہید کے نام کو لکھ لیا تھا، لیکن متاسفانہ مجھے یاد نہیں آرہا۔ سید حسن نے پورے خواب کی تائید کی اور اس کی تعبیر بھی یہی نکلی۔ وہ جب شام آئے، اسیر ہوگئے، اُن کے سر کو جدا کیا اور اُن کے سر جدا کرنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شائع ہوئی۔ جنازہ تحویل لینے کیلئے کوششیں کی گئیں، جنازہ سپرد کردیا گیا، لیکن سر نہیں دیا گیا۔ جنازے کو شام سے لبنان لایا گیا۔ شہید کی والدہ جنازے کے سرہانے آئیں، انھوں نے بے سر بدن کو دیکھا  تو  والدہ کے نالہ و فریاد کی آواز بلند ہوئی۔ لوگوں نے والدہ سے پوچھا آپ کس بات پر  رو رہی ہیں؟ چونکہ آپ کے بیٹے کا سر نہیں ہے؟ والدہ نے کہا: جب میں نے نگاہ ڈالی اور دیکھا کہ میرے بیٹے کا سر نہیں ہے، میں نے کہا الحمد للہ، حسین ابن علی (ع)  کا سر نہیں تھا، میرے بیٹے کا بھی سر نہیں ہے، میں نے اپنے بیٹے کے بدن پر نگاہ ڈالی تو دیکھا اُس کا بدن سالم ہے، میں اس بات پر رو رہی ہوں کہ میں نے خود سے کہا تھا خدایا! کاش میرے بیٹے کا جسم بھی حسین ابن علی (ع) کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا۔ دہشت گردوں سے ہونے والی جنگ  کے سکے کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ اس میں حقیقی مردوں کی شناخت ہوئی۔

مشہد کے رہنے والے دو بھائی تھے، جن کا نام مجتبیٰ اورمصطفی بختی تھا۔ وہ شام جانا چاہتے تھے۔ اُن دنوں کسی کو بھی شام نہیں بھیجا جا رہا تھا، اُن میں سے ایک پاسدار تھا، ان دونوں بھائیوں نے آکر اپنے والدین سے اجازت لی، افغانستان کا پاسپورٹ بنوایا اور افغانی نام کے ساتھ شام چلے گئے۔ شام میں کافی عرصے تک کسی کو پتہ نہیں تھا کہ وہ ایرانی ہیں۔ ایک دن دونوں بھائی ایک دوسرے کے برابر میں شہید ہوگئے۔ میں اُن کی شہادت کے ایک دو دن بعد مشہد میں ان دو شہیدوں کے گھر  گیا۔ شہیدوں کی والدہ نے مجھ سے کہا  کہ جنگ کے زمانے سے ہر شہید کے جنازے کو شہر میں لاتے تھے، مجھے حسرت ہوتی تھی کہ کچھ خواتین شہید کی ماں بنیں اور میں نہیں بنی پھر شام کا مسئلہ سامنے آیا اور میرے بچے شام چلے گئے۔ مجھے خبر دی گئی کہ مصطفی شہید ہوا ہے اور مجتبیٰ زخمی ہوا ہے، مجھے یقین نہیں آیا، ماں کے دل نے مجھ سے کہا کہ دونوں شہید ہوگئے ہیں، اس خبر کی تائید ہوگئی،  جب میں نے سنا کہ میرے دونوں بیٹے شہید ہوگئے ہیں، میں نے اپنی جبیں کو زمین پر رکھا اور کہا  بالآخر  میری بھی آرزو پوری ہوگئی گئی اور میں شہید کی والدہ بن گئی۔"

 

مزیدار گولی!

حجت الاسلام شیرازی نے کہا: "میں [عراق کی ایران پر مسلط کردہ ] جنگ کے  دوران لشکر ثار اللہ میں تھا، آٹھویں والفجر آپریشن میں ایک حادثہ پیش آیا۔ میں اس واقعہ کو بیان کرنے کیلئے مجبور ہوں کہ خیبر آپریشن کی طرف رجوع کروں۔ لشکر ثار اللہ میں انٹیلی جنس  کے ایک مسئول تھے جن کا نام محمد حسین یوسف اللہی تھا جو آٹھویں و الفجر  آپریشن میں شہید ہوئے۔ خیبر آپریشن سے پہلے لشکر کی انٹیلی جنس نے دو لوگوں کو علاقے کی معلومات حاصل کرنے کیلئے بھیجا، وہ علاقے کے بارے میں جاننے کیلئے گئے، وہ دونوں آدمی پانی میں گر کر شہید ہوگئے۔ لشکر کے کمانڈر سردار قاسم سلیمانی  پریشان تھے کہ اگر ان دو افراد کے جنازے عراقیوں  کی طرف چلے گئے  تو وہ لوگ سمجھ جائیں گے کہ ہم علاقے کی چھان بین کر رہے ہیں اور آپریشن کا راز فاش ہوجائے گا۔ جناب یوسف اللہی ایک ۱۹ سے ۲۰ سالہ کرمانی جوان تھے، انھوں نے سردار سلیمانی سے کہا: یہ دو ساتھی جو شہید ہوئے ہیں، ان کے جنازے عراقیوں کی طرف نہیں جائیں گے، ایک جنازہ ٹھیک صبح آٹھ بجے فلاں جگہ پر اور دوسرا جنازہ ٹھیک شام  چار بجے دوسری جگہ واپس آجائے گا۔  سردار سلیمانی نے اُس کی باتوں کا یقین نہیں کیا، لیکن بعد میں اپنے آپ سے کہا  کہ شاید صحیح کہہ رہا ہو۔ صبح آٹھ بجے کے قریب  ایک گروپ کو پہلے والی جگہ  پر بھیجا اور ٹھیک آٹھ بجے جنازہ آیا۔ سردار سلیمانی مطمئن ہوگئے کہ بعد والا جنازہ بھی چار بجے آئے گا اور ٹھیک چار بجے دوسرا جنازہ بھی آگیا۔ سردار سلیمانی نے جناب یوسف اللہی سے پوچھا: ایک جنازہ صبح آٹھ بجے اور دوسرا شام چار بجے کیوں آیا؟  انھوں نے کہا: پہلا جنازہ صبح آٹھ  بجے اس لیے آیا کہ اُس شہید کی اول وقت پر نماز ترک نہیں ہوتی تھی۔ وہ شخص (یوسف اللہی) لشکر ثار اللہ میں عارف کے نام سے مشہور تھا۔

آٹھویں و الفجر آپریشن کا انجام پانا طے تھا۔ آپریشن سے پہلے شناسائی کرنے والے افراد نہر اروند کے کنارے آتے اور پانی کا اندازہ لگاتے تاکہ پتہ چلے پانی کی رفتار کتنی ہے اور آپریشن کو ایسی  رات میں رکھیں جب پانی کی رفتار کم ہو۔ ایک رات لشکر ثار اللہ کے شناسائی کرنے والے فوجیوں میں سے جناب حسین بادپا کی ڈیوٹی لگی کہ وہ پانی کا اندازہ لگائیں۔ اُنہیں نیند آگئی اور اُن کی آنکھ اُس وقت کھلی جب پانی کا اندازہ لگانے والا وقت گزر چکا تھا۔ انھوں نے اپنے آپ سے کہا ہم ہر روز اس پانی کا اندازہ لگا رہے ہیں، ایک یا دو سینٹی میٹر اس طرف یا اُس طرف ہوجائے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ انھوں نے رپورٹ لکھنے والے کاغذ پر، پچھلے روز والی رپورٹ کو تھوڑا اوپر نیچے کر کے لکھ دیا۔ جناب بادپا اروند کے کنارے ہیں اور جناب یوسف اللہی اہواز میں لشکر ثار اللہ کے ہیڈ کوارٹر میں ہیں۔ انھوں نے وہاں فوجیوں اور کمانڈر سے کہا کہ حسین بادپا آٹھ سالہ جنگ میں شہید  نہیں ہوگا، کیونکہ اُس نے جھوٹ لکھا ہے۔ جناب محمد جمالی جو کرمان کے فوجیوں میں سے تھے، وہ بہت اصرار و التماس کرکے شام گئے اور شہید ہوگئے۔ جناب جمالی کے ایصال ثواب کی مجلس میں مجھے خطاب کرنا تھا، میں کرمان گیا۔ جناب بادپا ایئرپورٹ آئے۔ میرے کرمان میں آنے سے لیکر رات تک  انھوں نے مجھے چھوڑا نہیں۔ وہ شام جانے کیلئے التماس کر رہے تھے۔ بالآخر وہ شام چلے گئے۔ اُسی سفر میں شہید جمالی کی زوجہ اور شہید بادپا کی زوجہ کہ اُس زمانے تک وہ شہید نہیں ہوئے تھے، یہ دونوں خواتین آئیں  اور سفارش کی، انھوں نے کہا کہ حسین اب بہت بے حال ہے، وہ گلزار شہداء جاتے ہیں جناب یوسف اللہی کے مزار کے پاس صبح سے شام تک آنسو بہاتے ہیں  اور اپنے شہید ہونے کی دعا  کرتے ہیں۔حسین بادپا شام گئے اور پہلے زخمی ہوئے۔ عید کے دن تھے۔ وہ چند دن کرمان میں رہے اور ابھی ٹھیک نہیں ہوئے تھے کہ دوبارہ شام چلے گئے۔ میں اُن سے شام میں ملا، انھوں نے کہا فلانی تمہیں نہیں معلوم کہ گولی کتنی مزیدار ہے! وہ زخمی ہونے کے کچھ عرصے بعد شہید ہوگئے، ابھی تک اُن کا جنازہ نہیں آیا ہے، لیکن جانے سے پہلے، انھوں نے شہید یوسف اللہی کے قبر کے برابر میں ایک قبر خرید لی تھی۔ اس وقت کرمان میں شہید یوسف اللہی کی قبر کے برابر میں اُن کیلئے ایک یادگار قبر بنائی گئی ہے۔ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ لوگ ہمارے شہروں اور ملک میں ہیں، لیکن انھوں نے ایک بڑے امتحان میں خدا سے لو لگالی ہے، خدا سے  عہد کرلیا ہے  کہ آخری لحظہ تک اسلام، انقلاب اور ولایت کے دفاع میں ڈٹے رہیں گے۔ اور یہ ڈٹے رہے اور بعض لوگوں نے شہادت کا شیریں شربت نوش کرنے کیلئے اصرار کیا۔"

 

سمجھنے میں ۲۵ مہینے لگ گئے!

جناب مجتبیٰ جعفری پروگرام کے دوسرے راوی تھے۔ انھوں نے کہا: "وہ خوشی جو لوگ  ۱۶ جنوری ۱۹۷۹ء کو شاہ کے جانے، خرم شہر کی آزادی وغیرہ  کی وجہ سے مناتے ہیں اور وہ خوشی جس دن رہائی پانے والے ایران واپس آتے ہیں ، ان دونوں خوشیوں میں ایک فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ رہائی پانے والوں کی اپنے ملک واپسی کے وقت  لوگ خوشی میں آنسو بہاتے ہیں۔ جس زمانے میں آزاد ہونے والوں کا ایران آنا شروع ہوا، میری باری آنے میں ایک مہینہ لگا۔ میں ۱۲ ستمبر ۱۹۹۰ء میں  ایران میں داخل ہوا۔ ہمارا ایک دوست جو ہم رہائی پانے والوں کو لے جاکر ہمارا میڈیکل  چیک اپ کرتا اور وہاں ہماری حالت صحیح کرکے گھر والوں کے سپرد کرتا، وہ آیا اور اُس نے میرے کندھوں پر سر رکھ کر مجھے خوش آمدید کہنا چاہا۔ اُس نے کہا مجتبیٰ معاف کرنا، میں ان دنوں میں اتنا رویا ہوں کہ اب مجھے رونا بھی نہیں آرہا۔ جب ہماری باری آئی تو آنسو بھی ختم ہوچکے تھے۔

یہ واقعہ، یعنی اسیروں کی آزادی، ۱۷ اگست ۱۹۹۰ والے دن ہوا۔ ہم ۱۵ اگست کو تکریت میں عراقی کیمپ میں تھے اور روزمرہ کے کاموں میں مشغول تھے۔ عراقی آئے اور کہنے لگے کہ ہال کے اندر چلے جاؤ۔ ہم ہال کے اندر چلے گئے۔ عراقی ٹی وی کو آن کیا گیا تاکہ ہم لوگ ٹی وی دیکھیں۔ ٹی وی پر مسلسل یہ اعلان کیا جا رہا تھا کہ  آپ لوگوں تک بہت جلد ایک اہم خبر  پہنچنے والی ہے۔ ہم لوگ تقریباً آدھا گھنٹہ یا پونا گھنٹہ بیٹھے رہے  اور پھر صدام حسین کے اُس آخری خط کو پڑھا گیا  جو مرحوم ہاشمی رفسنجانی کو لکھا گیا تھا۔ اُس میں اس جملہ کو لکھا تھا  کہ ہمارے درمیان تمام چیزیں ختم ہوچکی ہیں، صرف اسیروں کا ردّ و بدل باقی رہ گیا ہے کہ ہم جمعہ والی دن ایرانی قیدیوں کا پہلا گروپ آزاد کریں گے۔ ہم ٹی وی کے سامنے پندرہ بیس منٹ تک مبہوت بیٹھے رہے۔ ہمیں نہیں پتہ تھا کہ ہم نے جو چیز سنی ہے وہ سچ ہے یا جھوٹ۔ ہم لوگ بہت زیادہ خواب دیکھتے تھے اور صبح اٹھ کر اُس خواب کو بیان کرتے تھے اور ہر کوئی اُس کی ایک تعبیر بتاتا تھا۔  ہمارے تمام خوابوں کی تعبیر ہماری آزادی پر ختم ہوتی ، لیکن وہ بات جو ہم نے ٹی وی سے سنی تھی، حقیقت تھی اور ہمارا خوشی کے مارے برا حال تھا۔

۲۰ اگست ۱۹۸۸ء کو ایران اور عراق کے درمیان جنگ ختم ہوگئی۔ آٹھ محرم ہے اور ہم جنگی علاقے میں ہیں۔۲۳ اگست ۱۹۸۸ء والے دن ہم اسیر ہوئے۔ یعنی ایران اور عراق کے درمیان جنگ ختم ہونے کا حکم صادر ہونے کے تین دن بعد۔ ہماری ڈیوٹی لگائی گئی تھی کہ ایک جگہ عراقیوں کے روبرو مستقر ہوجائیں  کہ جب جنگ ختم ہونے کا حکم اجراء ہو تو پتہ چلے کہ عراقی کہاں ہیں اور ہم کہاں ہیں۔ جس وقت ہم وہاں مستقر ہونے کیلئے گئے، ہمارا کام ۲۰ اگست کی صبح تک طولانی ہوگیا اور تقریباً صبح آٹھ بجے  ۲۰ اگست والے دن ہم نے عراقیوں کے سامنے صف بنالی۔ جنگ ختم ہونے کا حکم صبح چھ بجے  اجراء ہوچکا تھا جبکہ ہم صبح آٹھ بجے عراقیوں کے سامنے کھڑے ہوئے۔ میں بٹالین کا معاون کمانڈر تھا اور میں اپنی صف میں جانا چاہتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ عراقیوں نے ہمارے سامنے ایک چوکی  بنادی ہے۔ ہم نے عراقیوں سے بات کی اور ہم نے کہا  یہ کیا صورت حال ہے؟ ہم اپنی صف میں جانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا: ہم رسی لگادیں گے ، آپ لوگ چلے جائیں۔ اُس طرف بھی ایک سڑک تھی جسے ہمارے فوجیوں نے اپنے اختیار میں لیا ہوا تھا اور عراقی جب اپنی صفوں میں جانا چاہتے تھے، ہماری چوکی کے نگہبان کو رسی نیچے کرنی پڑتی۔  میں نے عراقی کمانڈر سے کہا کہ ہم آٹھ سالوں تک ایک ساتھ جنگ لڑتے رہے ہیں، اس وقت جنگ ختم ہوچکی ہے ، اس وقت اگر اقوام متحدہ والے آجائیں اور اس صورت حال کو دیکھ لیں تو  اچھا نہیں ہے، انھوں نے کہا: ہم کیا کریں؟ میں نے کہا: آپ لوگ سو میٹر پیچھے چلے جائیں،  ہم بھی سو میٹر پیچھے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ جنگ رکنے والے بات واضح ہوجائے۔ اُن لوگوں نے قبول کرلیا۔ سو میٹر پیچھے چلے گئے اور ہم بھی سو میٹر پیچھے چلے گئے، اس بات سے غافل کہ دن کے وقت ہمارے فوجی عراقی مورچوں میں جاکر  اُن سے سگریٹ لیتے تھے  اور رات کو عراقی آکر ہم سے تربوز اور برف لیتے تھے۔ ہمارے درمیان تین دن تک جنگ  نہ ہونے کی حالت برقرار رہی  تھی۔

۲۳ اگست ۱۹۸۸ء والے دن کہ جس دن عاشورا تھا، صبح ۵ بجے مجھے وائر لیس پر بتایا گیا کہ عراقیوں  کے تین سو ٹینک اور افراد سوار کرنے والی گاڑیاں آپ کے سامنے لائن سے کھڑی ہیں۔ جس وقت دن کا اُجالا نکلا، ہم نے دیکھا پورا دشت ٹینک اور افراد سوار کرنے والی گاڑیوں سے بھرا ہوا ہے۔ میں نے جاکر عراقی گروپوں کے کمانڈر سے کہا  کہ کیا خبر ہے؟  اُس نے کہا کہ ہمیں کہا گیا ہے آپ لوگ  جنگ ختم ہونے کے بعد یہاں پر مستقر ہوئے ہیں، آپ کو نہر کے پیچھے جانا ہوگا اور ہمیں آپ سے کوئی سروکار نہیں۔ میں نے اپنے کمانڈر کو ضروری وضاحت دی، انھوں نے کہا وہیں ٹھہرے رہو۔ عراقی کمانڈرز آئے، ایرانی کمانڈرز آئے، نقشہ کو پھیلایا گیا اور انھوں نے آپس میں گفتگو کی، لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ظہر کے وقت تک حالات ایسے ہی رہے۔ ظہر کے قریب ٹینکوں نے ایک ساتھ ہماری لائن کی طرف بڑھنا شروع کردیا اور پچاس میٹر آگے آگئے  اور پھر روک گئے۔ میں نے  وائر لیس اٹھایا اور کمانڈر کو بتایا کہ عراقی ٹینک حرکت کر رہے ہیں، یا ہمیں اُن پر حملہ کرنے کا حکم دیں،  یا ہمیں حکم دیں کہ ہم نہر کے اُس پار چلے جائیں، یہ صورت حال صحیح نہیں ہے۔ لشکر کے کمانڈر نے کہا کہ آپ لوگوں کھڑے رہیں۔ میں آیا اور میں نے آکر سپاہیوں کو مسلح کیا تاکہ جب عراقی ٹینک حرکت کریں تو ہم اُن پر حملہ کرسکیں۔ ہمیں وائرلیس پر حکم دیا گیا کہ کسی بھی صورت میں حملہ نہیں کرنا ہے کیونکہ جنگ بند ہونے کے قانون کی خلاف ورزی ہوجائے گی اور مسئلہ کھڑا ہوجائے گا۔ ہمیں معلوم تھا کہ عراقی بھی حملہ نہیں کریں گے۔ ایسے میں عراقی ٹینکوں نے حرکت کی اور ایک زاویہ سے ہماری پچھلی طرف آگئے۔ میں نے دوبارہ لشکر کے کمانڈر سے وائرلیس پر رابطہ کیا اور کہا: ٹینک حرکت کرچکے ہیں اور ہماری پچھلی طرف آگئے ہیں، ہمیں کچھ کرنے کا حکم دیں۔ انھوں نے کہا: جاؤ جاکر عراقیوں سے کہو کہ پیچھے چلے جائیں، ہم بھی پیچھے جا رہے ہیں اور یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ میں وائرلیس آپریٹر اور جو ساز سامان میرے پاس تھا میں اُن سب کے ساتھ اُس گروہ کے کمانڈر کے پاس گیا جو تین دن سے ہمارے سامنے تھا اور ہم ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ میں نے کہا کہ ہمارے کمانڈر نے کہا کہ اگر آپ پیچھے چلے جائیں گے تو ہم بھی پیچھے چلے جائیں گے اور اس طرح مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اُس نے کہا کہ میں صرف سات آٹھ ٹینکوں کا کمانڈر ہوں ، اگر صرف میں پیچھے چلا جاؤں تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ میں نے کہا: تمہاری بٹالین کا کمانڈر کہا ں ہیں؟ اُس نے عراقی سرزمین کی طرف تین سو میٹر دور، دو لوگوں کی طرف اشارہ کیا۔

میں وائر لیس آپریٹر کے ساتھ گیا۔ اُس بٹالین کمانڈر کو تعجب ہوا اور اُس نے کہا کہ تمہاری کیا حیثیت ہے اور تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ میں نے اپنا تعارف کروایا اور کہا کہ ہمارے کمانڈر نے کہا  ہے  اگر آپ پیچھے چلے جائیں تو ہم بھی پیچھے چلے جائیں گے اور یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اُس نے کہا: میں کچھ بھی نہیں کرسکتا، تم ہمارے بریگیڈ کمانڈر کے پاس جاؤ۔ میں نے کہا: مجھے بریگیڈ کمانڈر سے ملنے کیلئے کہاں جانا چاہیے؟ تقریباً تین کلومیٹر اُس طرف ایک ٹیلہ تھا اُس نے اس طرف ا شارہ کیا۔ میں نے کہا: دوپہر کے وقت اتنی گرمی میں، میں کیسے تین کلومیٹر تک پیدل جاؤں؟ ہم فوجیوں کو لے جانے والی عراقی گاڑی پر سوار ہوئے اور ٹیلے کے پاس اتر گئے۔ میں ٹیلے کے اوپر گیا۔ میں نے ایک جرنل کو دیکھا جس نے استری شدہ کپڑے پہنے  ہوئے تھے، اُس کو اپنا تعارف کروایا اور کہا کہ ہمارے کمانڈر نے کہا ہے کہ اگر آپ پیچھے چلے جائیں تو ہم بھی پیچھے چلے جائیں گے اور یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اُس نے کہا: میں تو کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا، تم یہاں بیٹھو، میں ابھی بغداد میں رابطہ کرکے بات کرتا ہوں۔ اُس نے بات کی اور مجھے احساس ہوا کہ وہ فون پر اپنے فوجیوں کو  سرگرمی کی ہدایات دے رہا ہے ۔ دس منٹ گزر گئے اور میں نے غصے کی حالت میں کہا کہ جناب جنگ بند ہوچکی ہے، آپ میرا مسئلہ حل کریں کہ میں جاؤں۔ اُسے میری یہ حرکت اچھی نہیں لگی اور اُس نے عراقی سپاہی سے کہا کہ مجھے فعلاً ایک مورچے میں ڈال دے۔ میں وائرلیس آپریٹر کے ساتھ مورچے میں بیٹھ گیا اور وائرلیس کے ذریعے گروپس کمانڈر سے کہا  کہ میں عراقی بریگیڈ کمانڈر کے پاس ہوں ، آپ نہر کے اُس طرف جانا شروع کریں تاکہ میں بھی اُس سے کہوں کہ ہماری فوجیں نہر کے اُس طرف جا رہی ہیں تاکہ اس معاملہ کا کوئی فیصلہ ہو۔ ہمارے گروپس کمانڈرز عراقی گروپس کمانڈرز کے پاس گئے اور کہا کہ ہمارا کمانڈر آپ کے بریگیڈ کمانڈر کے پاس ہے اور اُس نے ہم سے کہا ہے کہ ہم نہر کے اُس پار چلے جائیں، عراقیوں نے کہا کہ جنگ ختم ہوچکی ہے، ہمیں تم سے کوئی سروکار نہیں، نہر کے اُس پار چلے جائیں۔ ہمارے گروپس کمانڈروں نے کہا کہ ہمارے پاس  نہر کے اُس طرف جانے کیلئے کوئی سواری نہیں ہے، وہ عراقی ٹرکوں کو لیتے ہیں اور اس پر ایرانی فوجیوں کو سوار کرتے ہیں اور نہر کے اُس طرف لے جاتے ہیں۔ ہم تقریباً ۲۱۰۰ افراد تھے اور ۱۴۰۰ افراد اس طرح چلے گئے۔ ایک اورٹرک جو ہمارے فوجیوں کے لیکر جا رہا تھا، ایک عراقی ٹینک نے اس کا راستہ روکا اور کہا کہ انہیں عراقی سرزمین پر اس جگہ لے جائے جہاں ہم  لوگ تھے۔ جب میں اُس ٹیلے کے اوپر تھا، مجھے فارسی زبان میں بات کرنے کی آواز آئی۔ میں نیچے آیا اور میں نے دیکھا کہ ہمارے ۳۰ سے چالیس کے قریب افراد جس میں میرا بھائی بھی تھا، وہ لوگ شور مچا رہے ہیں کہ یہ کیا بات ہے، یہ کیسے حالات ہیں؟ جنگ ختم ہوچکی ہے۔ ہمیں واقعاً یہاں پر دھوکہ ہوا ہے۔ بریگیڈ کمانڈر نے کہا کہ آپ لوگ عراقی لشکر کے ہیڈ کوارٹر جائیں، ہمیں آپ سے کوئی سروکار نہیں ہم ٹرک پر سوار ہوئے اور لشکر کے ہیڈ کوارٹر گئے۔ لشکر کے کمانڈر نے مجھ سے کہا کہ کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا: کچھ نہیں ہوا، ہمارے کمانڈر نے کہا ہے اگر آپ لوگ پیچھے چلے جائیں تو ہم بھی پیچھے چلے جائیں گے اوریہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اُس نے مجھ سے کہا کہ آ پ لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے کہا: نہیں، اُس نے کہا آپ اپنا سامان یہاں رکھیں، حمام اور باتھ روم جائیں، وضو کریں اور اپنی نمازوں کو ادا کریں، ہمیں آپ سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم نے بھی اچھے بچوں کی طرح اپنا سامان رکھ دیا اور باتھ روم جانے اور وضو کرنے کیلئے ٹرک پر سوار ہوگئے اور حتی ہمارے ایک آدمی نے بھی سوال نہیں کیا کہ حمام اور باتھ روم جانے کیلئے کیا ٹرک پر جانا ہوگا؟!ہم دوپہر کو تین بجے ٹرک پر سوار ہوئے اور آدھی رات کو دو بجے عراق کے شہر العمارہ میں اترے! ۴۸ گھنٹے تک ہماری تفتیش ہوئی اور پوچھا گیا: کیا ہوا ہے؟ ہم نے کہا: خدا کی قسم کچھ نہیں ہوا، ہمارے کمانڈر نے کہا ہے کہ اگر آپ لوگ پیچھے چلے جائیں تو ہم بھی پیچھے چلے جائیں گے اور یہ مسئلہ حل ہوجائے گا! اُنہیں یقین نہیں آیا اور وہ لوگ ہمیں بغداد کے الرشید جیل لے گئے اور ۴۰ دنوں تک دن رات تفتیش کرتے رہے اور پوچھتے رہے: کیا ہوا ہے؟ ہم نے کہا: کچھ نہیں ہوا، ہمارے کمانڈرے نے کہا ہے کہ اگر آپ لوگ پیچھے چلے جائیں تو ہم بھی  پیچھے چلے جائیں گے اور یہ مسئلہ  حل ہوجائے گا۔ وہ لوگ نہیں مانے اور ہمیں تکریت شہر میں تکریت کے ۱۹ ویں  کیمپ میں لے گئے اور عراقیوں کو سمجھنے میں ۲۵ مہینے لگ گئے کہ ہمارے کمانڈر نے کہا ہے کہ اگر آپ لوگ پیچھے چلے جائیں تو ہم بھی پیچھے چلے جائیں گے اور یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ہم ۲۳ اگست ۱۹۸۸ء کو گئے اور ۱۲ ستمبر ۱۹۹۰ء کو اُن کی سمجھ میں آیا کہ ہمارے کمانڈر نے کہا ہے کہ اگر وہ لوگ پیچھے چلے گئے تو ہم لوگ بھی پیچھے چلے جائیں گے اور یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔"

امیر"حسین یاسینی" نام کے ہمارے ایک  سرپرست ہیں جو اس وقت بوڑھے ہیں۔ ۱۵ اگست کو جب صدام کا بیان پڑھا گیا، انھوں نے کیمپ کے صحن میں  ایک چھوٹا سا ٹیلا بنایا۔ ہمارے یہاں ایک کرنل تھے جن کی لکھائی بہت اچھی تھی، انھوں نے اُن سے کہا کہ اس ٹیلے پر جمہوری اسلامی کا نشان بنادیں۔ انھوں نے نشان بنادیا اور اُس امیر نے  وہاں پر کھیتی باڑی کرتے وقت جن گھاس پھونس کے بیج جمع کئے تھے اُنہیں جمہوری اسلامی کے اُس نشان پر بو دیااور اُسے پانی دینا شروع کردیا۔  عراقی کہتے تھے کہ اگر تم نے سبزی لگائی ہے تو چار سے پانچ دن میں اُگ جائے گی، یہ کیا چیز ہے جو اُگ کر نہیں دے رہی؟ اس امیر نے کہا کہ اگر صبر کرو تو ایک اچھی چیز نکلے گی، خاص طور سے آپ کیلئے ایک یادگار ہوگی۔ تقریباً گیارہ  ستمبر کو جب ہم جناب یاسینی کے ساتھ کیمپ سے باہر نکلنا چاہ رہے تھے، بوئی گئی گھاس پھونس  کے بیچوں کی کونپلیں پھوٹ چکی تھیں اور اُس ٹیلے پر جمہوری اسلامی کا نشان ایک علامت کے طور پر ابھر گیا تھا۔ ہم نے بس کے اندر سے عراقیوں سے کہا اُس پودے کو پانی دیتے رہنا تاکہ آپ لوگ ضرور اس خوبصورت چیز کو دیکھ سکیں۔"

 

اُس نے تین بار ہمیں مارنا چاہا، لیکن ۔۔۔

یادوں بھری رات کے پروگرام میں، محسن فلاح نے کہا: "فتح المبین آپریشن وہ آخری آپریشن تھا جس میں، میں نے شرکت کی۔ دوسری رات میں، ۱۹۸۲ء کا سال تھا، رات کے تقریباً ۱۱ بجے ہم اُن خطوط سے جہاں کی پہلے چھان بین کرچکے تھے، نفوذی کی صورت میں عراقی محاذ کے اندر داخل ہوئے۔ ہم آپریشن کے پہلے مرحلے میں کامیاب ہوگئے۔ ہماری بٹالین، ۲۷ ویں محمد رسول اللہ (ص) بریگیڈ  کی حمزہ سید الشہداء بٹالین تھی، ہماری بریگیڈ کے کمانڈر حاج احمد متوسلیان، ہماری بریگیڈ اسٹاف کے انچارج شہید ہمت، ہماری بٹالین کے کمانڈر رضا چراغی اور ہمارا ہدف بھی وہ توپخانہ تھا  جو اندیمشک اور دزفول پر گولے برسا رہا تھا۔ ہم اپنے ہدف تک پہنچ گئے  اور اپنے ہدف سے بھی آگے بڑھ گئے۔ ہم سے کہا گیا کہ دوسرا حکم آنے تک پیچھے واپس آجائیں ۔ ہم پیچھے کی طرف واپس آگئے۔ وائرلیس کے ذریعے ہم سے کہا گیا کہ جو برادران تھکے ہوئے نہیں ہے، وہ دوسرے سپاہیوں کی مدد کیلئے شوش کے ٹیلوں پر آجائیں۔

ہم کسی نہ کسی طرح شوش کی طرف چلے گئے۔ جب ہم پہنچے تو رات کے تقریباً ڈیڑھ یا دو بج رہے تھے، ہم نے دیکھا کہ ہمارے بہت سے بھائی شہید ہوگئے ہیں۔ دوپہر ۱۲ بجے سے لیکر رات ۱۲ بجے تک تقریباً ۱۳۰۰ لوگ شہید ہوچکے تھے، ہم ہر درّے سے ۱۲۰ سے ۱۵۰ زخمی لوگوں کو باہر نکال رہے تھے  اور بعد میں وہ شہید ہوجاتے۔ وہ درّے کے اندر ایک دوسرے سے چپکے ہوئے تھے اور ان کا خون باہر نہیں نکل رہا تھا، وہ جیسے ہی باہر نکلتے، اُن کا خون بہہ جاتا اور وہ اسی وجہ سے شہید ہو رہے تھے۔ وہاں پر ایک ماں تھی جو سپاہیوں کو تازہ روٹی دے رہی تھی۔ جب روٹیاں ختم ہوگئیں، وہ ڈاکٹر کے پاس مدد کرنے کیلئے آگئیں۔ انھوں نے خوزستانی لہجے میں پوچھا کہ کیا میں مدد کرسکتی ہوں؟ ڈاکٹر نے کہا: ہاں کرسکتی ہیں، اس بھائی نے زخمی کا سر پکڑا ہوا ہے، آپ بھی اس کا کندھا پکڑ لیں۔ اُس زخمی کے پیر بھی میرے ہاتھوں میں تھے۔ اُس ماں نے پوچھا کہ میں اپنی چادر کہاں رکھوں؟ ڈاکٹر نے کہا: اسے اپنے سامان کے پاس رکھ دیں، جب آپ کا کام ختم ہوجائے، اُسے اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لیجئے گا۔ جب اُس ماں نے اپنی چادر اتارنا چاہی، اُس زخمی نے اُس ماں کی چادر کا ایک کونا پکڑلیا اور کہا: "ماں! میری یہ حالت اس وجہ سے ایسی ہوئی تاکہ آپ کے سر سے چادر نہ اُترے، آپ مجھے مرنے دیں لیکن اپنی چادر نہ اُتاریں!" اُس نے یہ کہا اور شہید ہوگیا۔

آپریشن کے چوتھے دن طے پایا کہ ہم دشت عباس پر حملہ کریں۔ دشت عباس کا علاقہ عراقیوں کا آرمی ایریا تھا۔ جہاں تک آنکھیں دیکھ سکتی تھیں انھوں نے وہاں تک گولہ بارود کا انبار لگایا ہوا تھا۔ گویا وہاں سے دوسرے علاقوں میں اسلحہ بھیجا جاتا تھا۔ ہم سے کہا گیا: اگر یہ بٹالین اس جگہ کے دائیں دستے کو مسدود کرلے توہماری فوجیں آگے بڑھ سکتی ہیں۔ ہماری بٹالین نے اپنی آمادگی کا اعلان کیا  تو حاج احمد متوسلیان نے آکر کہا آمادگی کا اعلان کرنے کا مطلب یعنی ٹکڑے ٹکڑے ہونا، لیکن ہم نے کہا کہ ہم تیار ہیں۔ ۲۴ مارچ ۱۹۸۲ء کی صبح چھ بجے حمزہ بٹالین نے دشمن  پر حملہ کیا۔ جس طرح کہا گیا تھا، ہم دشمن کی دائیں دستے کی طرف گئے۔ ہم صبح ۶ بجے سے ۹:۳۰ بجے تک اُن سے جنگ لڑتے رہے اور ہم تقریباً ۹۰ افراد سالم اورزخمی جس میں رضا چراغی بھی تھا جس کا بازو اور چہرہ زخمی ہوا تھا، پیچھے کی طرف واپس آنے میں کامیاب ہوئے۔ عراقیوں نے جب دیکھا کہ ہمارے پیچھے سے فوجی نہیں آرہے، انھوں نے ہمارا محاصرہ کرلیا۔ ۹:۳۵ بجے ایک گولی میرے الٹے پیر پر لگی اور گھٹنے سے میرا پیر لنگڑا ہوگیا۔ میرا اپنا ذاتی بیگ میرے پیٹ پر تھا اور مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میرے پیر میں کرنٹ لگ گیا ہے۔ میں بھاگ رہا تھا کہ میں نے دیکھا میرا پیر  زمین پر گھسٹ رہا ہے اور میں گر گیا۔ عراقیوں کے ہاتھ اتنے کھلے ہوئے تھے کہ وہ ہمارے لوگ پر آر پی جی سے فائر کر رہے تھے۔ جب میرے گھٹنے پر گولی لگی اور میں گرا  تو  میں نے دیکھا دور سے مجھ پر صرف آر پی جی کی گولیاں برس رہی ہیں۔ میں نے واپس پلٹ کر نگاہ دوڑائی،  میں نے دیکھا کوئی نہیں ہے اور ہمارے تمام افراد شہید ہوچکے ہیں۔ میں خود کو گھسیٹ کر پل کے نیچے لے گیا۔ مجھے لگا کوئی آواز دے رہا ہے۔ دیکھا تو ہماری بٹالین کا ایک فرد جس کا نام نعمت ہوشیار تھا  وہ آواز دے رہا تھا: فلاح بھائی، آجائیں ایک ساتھ سینے کے بل چلتے ہیں۔ میں نے آپریشن پر جانے سے پہلے، دشت عباس میں  جو امام زادہ عباس ہیں، اُن کے سامنے کھڑے ہوکر کہا تھا: آپ خدا سے کہیں کہ اگر میرا یہاں خاتمہ طے ہے تو ہمیں زیادہ تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔ میں نعمت ہوشیار کے پاس گیا اور سینے کے بل چلنے کیلئے لیٹ گیا۔ ہم سینے کے بل تھوڑا سا چلے ہوں گے کہ میری ناک پر دوسری گولی لگی۔ میری ناک صرف کھال سے جڑی ہوئی تھی۔ لٹک رہی تھی اور بہت خون بہہ رہا تھا۔ میں نے اپنا بسیجی رومال کھولا اور اپنے چہرے کے گرد لپیٹ لیا، لیکن اُس سے خون آنا بند نہیں ہوا۔ ہم تھوڑا سا آگے بڑھے تو ہم نے دیکھا کہ ہماری بائیں طرف سے عراقی  آرہے ہیں اور ہر زخمی ، ہر شہید کو آخری گولی مار رہے ہیں۔ وہ زخمیوں کو گولی ما رہے تھے اور لوڈر بھی اُن پر مٹی ڈالتا جا رہا تھا۔ جب وہ ہمارے پاس پہنچے، ایک گولی ماری اور نعمت ہوشیار وہیں ختم ہوگیا؛ نعمت ہوشیاری جو کہہ رہا تھا: خدایا تیرے جلال کا واسطہ، خدایا تیری عظمت کا واسطہ، خدایا تیری ہر چیز کا واسطہ، مجھے فلاں فلاں ، ایسے ویسوں کے ہاتھوں قیدی نہ بنانا! میں چلایا اور عربی میں کہا: کافر! نہیں مارو، ہم مسلح تھوڑی ہیں۔ عراقی واپس پلٹا اور اسلحہ کی نالی میری طرف کی اور کہا: گستاخی کر رہے ہو، ہم تجھے ماریں گے اور میرے سینے پر برسٹ مارا، اُس نے میرے سینے پر ۱۰ سے ۱۲ گولیاں برسائی جو میری ریڑھ کی ہڈیوں کو توڑتی ہوئی پیچھے سے نکل گئیں۔ میں گرگیا اور میں نے دیکھا لوڈر مجھ پر مٹی ڈال رہا ہے۔ میں نے ہاتھ سے نعمت کو ہلایا اور اُسے آواز دی لیکن وہ ختم ہوچکا تھا۔ اسی وقت لوڈر سے ایک بال ٹکرائی اور اس نے اسے منہدم کردیا۔ لوڈر کی مٹی گر گئی اور میں گردن تک مٹی میں دبا، صرف میری گردن اور ایک ہاتھ  باہر تھا۔

میں مسلسل بیہوش ہو رہا تھا اور ہوش میں آرہا تھا۔ میں نے اُس حالت میں کہا کہ خدایا تو نے نعمت ہوشیاری کو اُن گالیوں کے ساتھ بھی خرید لیا، مجھے بھی خرید لے۔ نعمت ہوشیار کہا کرتا تھا کہ اُسے جوادیہ سے باہر نکال دیا گیا تھا، لیکن ایک مہینہ نہیں گزرا تھا کہ اُسے جوادیہ میں شہید کا لقب دیکر ہاتھوں پر اٹھایا گیا۔ میں مغرب تک  مٹی کے نیچے دبا رہا اور جس وقت عراقیوں نے علاقے کی صفائی کرنا چاہی، جس بدن کے پاس پہنچتے، اُسے ایک لات مارتے، یا تو وہ شہید ہوچکا ہوتا تھا اور یا اگر وہ زندہ ہوتا تھا تو وہ لات پڑتے ہی چیختا تھا  تو وہ سمجھ جاتے کہ زندہ ہے۔ انھوں نے مجھے بھی ایک لات ماری اور میں چلایا۔ وہ مجھے اٹھاکر اپنی طرف لے گئے۔ جو کوئی بھی ہمارے پاس سے گزرتا، جیسے بھی ہوتا کسی نہ کسی چیز سے ہمیں مارتا۔ صدام کا جانشین آیا اور اُس نے کہا کہ انہیں پیچھے نہ لے جاؤ، ان لوگوں کو یہی پر مار دو۔ ہمیں فوجی ٹرک پر سوار کیا گیا۔ وہ فوجی ٹرک تھوڑا سا آگے گیا اور اپنے ہی کسی ایک ٹینک کے ساتھ ٹکرا گیا۔ ٹینک کی نالی نے ٹرک کے اگلے حصے کو اوپر اٹھا دیا اور ہم لٹک گئے۔ ہم وہاں پر تقریباً دو گھنٹے تک چیختے چلاتے رہے یہاں تک کہ ایک اور فوجی ٹرک نے ہماری آواز سن لی اور ہمیں بٹھا لیا۔ ایسے میں جب وہ ہمیں لے جارہے تھے، میں نے دیکھا  وہ دو افراد جو ہمیں مارنے کیلئے لے جا رہے تھے، وہ خود مر چکے تھے۔ ہمیں فکہ کے بارڈر کے قریب لے گئے۔ ہم نے وہاں صدام کو دیکھا  جو خود کاروائی کو کنٹرول کر رہا تھا۔ ایک کیمرے سے ویڈیو بنائی جا رہی تھی۔ صدام نے ایک افسر کو دھکا دیا تاکہ ہمیں ایمبولنس کے اندر رکھا جائے۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ شور مچاتے ہیں تاکہ کیمرے والے ویڈیو نہ بنائیں۔ خلاصہ یہ کہ ہمیں کیمروں کے سامنے ایمبولنس پر بٹھا یا گیا اور دو قدم اُس طرف اُتار کر ہمیں مارا گیا۔ اُس زمانے میں ہم لوگ ۱۷۰ سے ۱۸۰ افراد تک تھے۔ ہمیں جلے ہوئے ٹینکوں سے باندھ دیا۔ میری بائیں طرف سے تقریباً دس لوگوں کو شہید کردیا۔ جب وہ مجھ تک پہنچے، میں نے بلند آواز کے ساتھ کہا: قال الله تعالی فی ‌کتابه الکریم "و اِذَا المَوؤُدَةُ سُئِلَت، بِاَیِّ ذَنبٍ قُتِلَت"۔بھیاری وہاں تھا جو شاید افسر تھا۔ وہ میرے سامنے ہاتھ کھول کر کھڑا ہوگیا اور اُن سے کہا: اسے نہیں مارو، وہ قرآن کی تلاوت کر رہا ہے۔ اُس نے پوچھا ان لوگوں کو بھی قرآن پڑھنا آتا ہے؟ میں نے کہا: ہم سب مسلمان ہیں، قرآن ہمارے سینے کے اندر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اُن لوگوں نے ہمیں مارنے کا خیال ذہن سے نکال دیا۔ ہمیں فوجی ٹرک پر بٹھایا گیا اور العمارہ لے گئے۔ فکہ سے العمارہ تک ۶۰ کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ العمارہ میں ہمیں کسی مدرسے میں لے گئے۔ تفتیش کے دوران میرا نام کسی ایرانی فوج کے افسر کے طور پر سامنے آیا تھا چونکہ اُس افسر کا نام بھی یہی تھا۔ سپاہیوں نے تفتیش میں کہا ہوا تھا کہ کیپٹن فلاح ہمارے کمانڈر رہے ہیں اور وہ سوچ رہے تھے کہ میں ہی وہ ہوں۔ تفتیش کے دوران مجھے دو ستارے دکھائے گئے اور پوچھا: یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: یہ افسروں کا نشان ہے۔ اُس نے کہا: پس تم افسر ہو۔ میں نے کہا: چونکہ میں ان ستاروں کو پہچانتا ہوں اس لیے میں افسر ہوگیا  ہوں؟ انھوں نے وہ ستارے زبردستی میرے کندھوں پر لگا دئیے اور میں افسر بن گیا۔ انہیں مجھ سے فوجی معلومات درکار تھیں اور مجھے معلوم نہیں تھیں۔ مجھے گولیوں سے چھلنی کرنے کی سزا سنائی گئی۔ ہم میں سے ۱۲ لوگوں کو الگ کیا اور العمارہ چھاؤنی کے احاطے میں لے گئے تاکہ وہاں گولیاں برسائیں۔ ہمیں ایک مورچے کے سامنے لے گئے۔ مورچے کے پیچھے کچھ لوگ لائن سے کھڑے ہوگئے۔ ہماری آنکھوں، ہاتھوں اور پیروں کو باندھ دیا گیا اور وہ پیچھے سے گولی مارنا چاہتے تھے۔ جب فائرنگ ختم ہوئی تو میں نے دیکھا کہ مجھے تو کوئی گولی نہیں لگی ہے۔ میں نے اپنے پاس کھڑے شخص سے پوچھا تمہیں کوئی گولی لگی ہے؟ اُس نے کہا: نہیں۔ ہم نے ایک دوسرے سے پوچھا تو ہمیں پتہ چلا کہ کسی کو بھی گولی نہیں لگی ہے۔ اُسی وقت دو ایرانی طیارے آئے اور چھاؤنی پر حملہ کردیا۔ ہم نے اپنے ساتھ کھڑے شخص کی مدد سے اپنے ہاتھوں اور پیروں کو کھولا۔ ہم نے اپنے چاروں طرف نگاہ دوڑائی تو پتہ چلا کوئی نہیں ہے۔ ہم نے اپنے پیچھے کی طرف دیکھا تو پتہ چلا کچھ لوگ ہم سے ۵۰۰ میٹر کے فاصلے پر  کھڑے ہیں اور وہ ہمیں اپنے پیروں کی طرف دیکھنے کا اشارہ کر رہے ہیں۔ ہم نے دیکھا تو پتہ چلا وہ عراقی فوجی تھے جو ہمیں مارنا چاہ رہے تھے، وہ سب کے سب مرچکے تھے۔ ہمیں بغداد کے انٹیلی جنس آفس میں لے گئے۔ وہ کرنل جس نے العمارہ میں ہماری موت کی فائل پر دستخط کئے تھے، وہاں تھا۔ وہاں پر ہم لوگ تقریباً ۱۲۰۰ سے ۱۳۰۰ افراد اسیر تھے۔ وہ آیا اور اُس نے افراد کی تعداد پوچھی، ناموں کا پوچھا اور اس نے دیکھا کہ  میرا نام تو مارے جانے والوں کی لسٹ میں ہے۔ اُس نے حکم دیا کہ ہمیں فوراً لے جاکر مار دیا جائے۔ کچھ لوگوں کو الگ کیا اور ایک احاطہ میں لے گئے جو شاید گھوڑے کی دیکھ بھال کا احاطہ تھا۔ ہمیں لے گئے اور اصطبل میں بنے  ستونوں اور  کھمبوں سے باندھ دیا اور ہمارے چہروں پر بھی ایک بوری ڈال دی۔ اُس زمانے میں میرا بہت دل چاہ رہا تھا کہ مر جاؤں، چونکہ میری جان میری لبوں تک تک آچکی تھی۔ جیسا کہ ہم مرنے کیلئے تیار تھے، ہم نے ایک آخ کی آواز سنی۔ پھر مجھے کسی کے گرنے کی آواز آئی۔ میں نے اپنے ساتھ والے شخص سے پوچھا کہ تم ٹھیک ہو؟ اس نے کہا: ہاں ۔۔۔ ہماری باتیں ابھی ختم نہیں ہوئی تھیں کہ ہم نے ایک اور آواز سنی۔ میں نے دوبارہ اپنے ساتھ والے شخص سے پوچھا اور وہ ٹھیک ٹھاک تھا۔ اسی طرح میں اُس سے باتیں کر رہا تھا، کسی نے آکر میرے سر سے بوری ہٹالی، ستون سے میرا ہاتھ کھول دیا اور میں گر گیا۔ عراقی فوجی نے ہاتھ پاؤں مار کر مجھے سمجھایا کہ میں دوسرے افراد کے پاس جاؤں۔ ہم نے چلتے چلتے ایسے ہی نگاہ دوڑائی تو دیکھا دیوار کے پیچھے، گھٹنے کے نیچے سے لیکر جوتوں تک، دو لوگوں کے پیر نظر آرہے ہیں۔ میں نے پوچھا وہ لوگ مر گئے، انھوں نے کہا: نہیں؛ زندہ ہیں اور ہمیں  کھینچتے ہوئے دوسرے افراد کے پاس لے گئے۔ اُس کرنل نے ہمیں اُسی حالت میں تین دفعہ قتل کرنے کیلئے بھیجا، آخری دفعہ جب ہمیں قتل کرنے کیلئے لے گئے اور ہمارے سر پر بوری ڈالنا چاہی تو  ہم نے کہا تم جس طرح بھی مارنا چاہو مار لو لیکن ہمارے سر پر بوری ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ ایک عراقی افسر نے میرا سر اوپر اٹھایا اور اپنے اسلحہ کو میری کنپٹی پر رکھا اور پوچھا کہ تمہیں مار دوں؟ اُس نے جیسے ہی یہ بات کی، میں نے دیکھا کہ وہ سر کے بل زمین پر گرا، میں نے اپنے ساتھ والے شخص سے پوچھا کہ میں صحیح سے دیکھ پا رہا ہوں، کیا ہوا ہے؟ اُس نے کہا: اُس کی گردن میں ایک بڑا سا خنجر گھس گیا ہے۔ میں نے پوچھا: کس نے مارا ہے؟ اُس نے کہا: مجھے نہیں معلوم۔ ایک بار پھر سپاہی آیا اور ہمیں کھینچتا ہوا ہال کی طرف لے گیا، اُس کرنل نے آکر دیکھا کہ ہم ابھی تک زندہ ہیں۔ اُس  نے مترجم سے کہا کہ وہ انہیں مارنے سے ڈرتے ہیں یا ان پر رحم کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ نہ ڈرتے ہیں اور نہ رحم کرتے ہیں، اب تک جس نے بھی ہمیں مارنا چاہا ہے، خود مرگیا ہے اور مجھے یقین تھا کہ اگر اُس وقت وہ بھی ہمارے اوپر اسلحہ تان لیتا تو  وہ خود بھی مر جاتا۔ میں نے کہا: اگر تمہیں یقین نہیں تو تم خود آزما کر دیکھ لو اور میں نے اُس کیلئے سورہ یسین کی آخری آیات میں سے ایک آیت پڑھی: قال الله تعالی فی کتابه الکریم"اِنَّما اَمرُهُ اِذَا اَرادَ شَیئًا اَن یَقُولَ کُن فَیَکونُ"۔ اچانک اُس کے ہاتھ پیر کانپنے لگے اور اُس کی آنکھیں پھٹ گئیں اور زمین پر گھٹنوں کے بل گر پڑا اور وہ چاروں ہاتھ پیر سے فرار کر گیا۔ ساتھیوں نے مجھ سے پوچھا بھائی آپ نے اُس سے کیا کہا کہ وہ اس طرح  ڈر گیا؟ میں نے کہا: مجھے صحیح سے پتہ نہیں چلا کہ میں نے اُس سے کیا کہا ہے، لیکن وہ مکمل طور پر سمجھ گیا کہ میں نے کیا کہا ہے۔ اگلے دن ہمیں ایک کمرے میں ڈال دیا گیا اور دو دن بعد ہمیں  لے گئے اور ہمیں اسیر کے عنوان سے بغداد میں گھماتے رہے۔ ہم زیادہ تر لوگ زخمی تھے۔ ہر فوجی گاڑی میں چھ لوگوں کو بٹھایا اور ہماری گاڑی میں دو لوگ شہید ہوگئے۔ فتح المبین اور بیت المقدس آپریشن میں عراقی کم سے کم تین ہزار قیدی پکڑ سکتے تھے، لیکن انھوں نے زیادہ تر لوگوں کو شہید کردیا۔ خلاصہ یہ کہ اُس طرح ہمیں گولی ماری ، ہم گرے اور ان لوگوں نے ہمیں قیدی بنالیا۔ عراقیوں نے کپڑوں کو اتار لیا تھا۔ میں نے ایک حرکت کی اور اپنے لباس کے بٹن کو کھول لیا۔ چونکہ میرا لباس نیا تھا، میں نے اُسے ایک طرف پھینک دیا۔ ہم دن کے وقت اسیر ہوئے اور ایرانی رات  میں، وہ جگہ واپس لے لی گئی تھی جہاں ہم اسیر ہوئے تھے۔ کسی خدا کے بندے کو ٹھند لگی تھی اور اُس نے میرا لباس پہن لیا تھا۔  وہ اپنی پیشانی کے بائیں طرف گولی لگنے کی وجہ سے شہید ہوگیا تھا اور حسن مداحی جس نے اُس شخص کو ڈھونڈا تھا  اور وہ مجھے پہچانتا تھا، وہ دیکھتا ہے کہ اُس کی جیبوں میں میرا شناختی کارڈ اور اُس کی قمیض پر  میرے نام کا اسٹیکر  ہے۔ میں ۲۴ مارچ کو اسیر ہوا  اور یکم اپریل کو شہریار میں ہمارے محلے  میں  میری تشییع جنازہ ہوتی تھی۔ اُنہیں پورا یقین تھا کہ میں ہوں۔ میرے والد نے کہا کہ میں نے تین مرتبہ تمہارے چہرے کو صاف کیا اور دیکھا  کہ تم ہو۔ میرے چچا کہتے ہیں کہ کئی بار جنازے کو دکھایا گیا اور کسی ایک شخص نے بھی شک نہیں کیا  اور اُنہیں اب بھی یقین نہیں کہ وہ میرا جنازہ نہیں تھا۔ میں ۲۳ اگست کو اپنے محلے میں داخل ہوا اور کسی کو بھی یقین نہیں آرہا تھا۔ جب میں گیا تھا اُس وقت میرا وزن ۷۲ کلو تھا اور جب واپس آیا تو ۴۲ کلو تھا۔ جب میں واپس آیا تو میں نے اپنی ماں کے چہرے پر اپنی اور اپنے چھوٹے بھائی کی  جدائی کا داغ  دیکھا میرا وہ بھائی ہمیشہ کیلئے کھو چکا تھا۔ میں نے اپنی ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اصل ہیرو تو آپ ہیں، ہماری کیا حیثیت ہے۔ میری ماں نے کہا: تم نے میرے سر پر فخر کا تاج سجا دیا ہے۔"

پروگرام   کے آخر میں محبوبہ شمشیر گرھا کی تالیف شدہ کتاب"چہ کسی لباس مرا پوشید(کس نے میرا لباس پہنا)"، جو رہائی پانے والے محسن فلاح کے واقعات پر مشتمل ہے، کی تقریب رونمائی ہوئی۔ کتاب کی تقریب رونمائی میں محبوبہ شمشیر گرھا نے اس کتاب کو لکھنے کا ہدف یہ بتایا کہ شاید اُس شہید کی شناخت کے بارے میں کوئی اُمید نکل آئے جس نے محسن فلاح کا لباس پہنا  اور اس وقت شہید گمنام کے عنوان سے تہران کے اطراف میں شہریار  نامی علاقے میں دفن ہے۔

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۴ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۳ اگست ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۷ ستمبر کو منعقد ہوگا۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3517



http://oral-history.ir/?page=post&id=8213