تنہائی والے سال – چوبیسواں حصّہ

دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

کاوش: رضا بندہ خدا
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-11-15


ایک دو دن بعد، ہم نے تمام انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ چچا (ریڈیو) بالکل صحیح اور ٹھیک تھے اور داستان (خبریں) مستقل طور پر ہر رات سنی جاتیں۔ معلومات حاصل کرنے اور خبریں جمع کرنے کیلئے  نگہبانی دینا شروع ہوگئی۔ دوسرے طبقہ اور زندان کی بیچوں بیچ سے فرار کرنا جس کی حفاظت کیلئے نگہبانی کرنے والے دو گروپس – پولیس اور سیکیورٹی ادارہ – موجود تھے، صرف اور صرف مسلح جھڑپ سے ممکن تھا کہ جس میں بھی کامیابی کا امکان صفر تھا۔ اگر ہم پہلے طبقے پر ہوتے تو شاید سرنگ نکالنے یا مخفی راستوں سے فرار کرنے کا احتمال ہوتا جو شاید بغیر جھڑپ کے ممکن ہوتا۔

بہرحال ہمارے حالات معمول کے مطابق آگئے اور ہوا کھانے کیلئے چہل قدمی   کرنے جانا معمول کے مطابق ہوگیا  اور ہم کچھ دنوں  بعد ایک دفعہ تقریباً دو گھنٹے کیلئے ہوا  خوری  کرنے جاتے تھے۔

جب سے ہم نے بیٹری کا ایک پیکٹ اٹھایا تھا، تب سے ہم خبریں زیادہ سننے لگے تھے ، حتی کبھی کبھار تقریر یا تہران میں ہونے والی نماز جمعہ کا خطبہ بھی سن لیتے۔ سب لوگوں کے امام کی آواز سننے کے اشتیاق کی وجہ سے ہم نے مجبوراً ایک لسٹ بنالی تھی  اور اُن کی گفتگو کے وقت، ہر دفعہ ایک شخص اپنی باری کے مطابق اُن کی آواز سننے کیلئے ریڈیو  کے پاس کان لگالیتا۔

امام باتیں کرتے اور ہم آنسو بہاتے، سب– قید سے رہائی کے بعد –  اُن سے ملاقات کی آروز میں خوش تھے اور اُس دن کا انتظار کر رہے تھے۔

اس مدت میں ہم نے ریڈیو پر جو افسوسناک ترین خبر سنی، وہ جمہوری اسلامی ایران کی پارلیمنٹ میں دھماکہ اور شہید بہشتی اور امام و انقلاب کے ۷۲ بہترین ساتھیوں  کی شہادت  خبر تھی۔ سب کی حالت عجیب ہوگئی تھی اور بری طرح رو رہے تھے۔  ہم نے خداوند متعال کی بارگاہ میں – بندھے ہاتھوں اور ٹوٹے دلوں – سے دعا مانگی کہ امام اور انقلاب کو سازشوں سے محفوظ رکھے۔

سب سے اچھی خبر، خرم شہر کی آزادی کی خبر تھی کہ جس نے واقعاً سب کو خوشحال کردیا تھا اور ہم سب  کے ہمت اور حوصلہ کو بڑھایا۔ مجھے دل کی گہرائیوں سے اقرار کرنا چاہیے کہ خرم شہر کی آزادی، میرے زندگی کے لحظات میں سے سب سے بہترین اور افتخار  کرنے والا لحظہ تھا۔

ماہ مبارک رمضان کی انیسویں شب تھی یا اکیسویں شب تھی  جب ۱۸ مہینوں کے بعد، ہمارے گروپ کو نیچے والے طبقے پر بھیجا گیا، ہم نے بہت ہی جوش و جذبہ اور اشتیاق کے ساتھ ایک دوسرے کو گلے لگایا ، دست بوسی کی اور ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی۔ نچلے طبقے پر رہنے والے ایک فرد نے ہمارے استقبال میں اس طرح کہا:

-   قیدی ہی ، قیدیوں کے دوست ہوتے ہیں۔

ہم سب خوشحال تھے ، ہمیں دلی طور پر حوصلہ ملا  اور ہم زیادہ قدرت کا احساس کر رہے تھے۔ نیچے والے گروپ میں کچھ لوگوں کا اضافہ ہوا تھا۔ اُن میں سے ایک میجر حمیدیان تھے، جو بہت ہی ذہین اور باہوش افسر تھے کہ جنہوں نے اپنے کالج کا زمانہ جرمنی میں گزارا تھا، انہیں  جرمنی کی زبان پر مکمل  عبور حاصل تھا  اور وہ بہت روانی سے بات کرتے تھے ، انھوں نے لوگوں کیلئے جرمن زبان کی کلاس بنائی ہوئی تھی۔ البتہ اس کلاس کے علاوہ، ترکی اور انگریزی زبان کی کلاسیں بھی منعقد ہوتی تھیں۔

ابتدائی طبی امداد کی کلاس بھی ڈاکٹر کاکروی کے توسط سے منعقد ہوتی تھی۔ ان کا تعلق بحری افواج کے افسروں میں سے تھا اور یہ ہمیشہ دوسرے بھائیوں کی بہت خدمت کرتے تھے ، حتی ایک لمحہ بھی فدا کاری کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے، وہ ہمیشہ ایک با اعتماد اور با تعہد ڈاکٹر کی طرح عمل کرتے تھے نہ کہ ایک اسیر کے طور پر۔ ہمارے درمیان اُن کا وجود ایک قیمتی گوہر شمار ہوتا تھا۔

بہرحال ہم نے وہ رات جاگ کر اعمال کرتے ہوئے گزار دی، جیسا کہ ہمارے پاس قرآن اور دعا کی کتابیں کافی مقدار میں موجود نہیں تھیں۔ متاسفانہ دشمن جو خود کو مسلمان کہتا اور سمجھتا تھا،  اُس نے اس بارے میں کوئی اقدام نہیں کرتا تھا۔

اگلے دن، وہاں کے حالات سے اور زیادہ آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کے ضمن میں، میں محمودی کو – جو سینئر افسر تھے – ایک کونے  میں لے گیا اور اُنہیں چچا والا مسئلہ بتایا۔ میں جتنا زیادہ وضاحت کرتا اُن کے اضطراب میں اتنا ہی اضافہ ہوتا۔ حالانکہ وہ میری باتیں سن رہے تھے پھر بھی اُن کا میری باتوں پر یقین کرنا سخت  تھا۔ میں نے اُن سےکہا:

-  ہم چچا (ریڈیو) کو اپنے ساتھ لائے ہیں  اور اگر ہم نے اب تک اس بات سے آپ کا آگاہ نہیں کیا ہے تو یہ سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے تھا۔

خلاصہ یہ کہ کچھ دنوں بعد لوگوں کو چچا کی موجودگی  کے بارے میں پتہ چل گیا۔ ہم نے قسم نامہ کا ایک متن تحریر کیا اور طے کیا کہ سب قسم کھائیں کہ چچا اور اُن سے مربوط مسائل  کے بارے میں اُن لوگوں کو کچھ نہ بتائیں جنہیں وہ جانتے تھے لیکن تھوڑے سے عرصے کیلئے اُن سے دور ہوگئے تھے، جب تک اُن کی وضعیت کے بارے میں مکمل اطمینان حاصل نہ ہوجائے۔

چچا، کاغذ اور قلم کی جگہ کی تحقیق کرنے کے بعد، ہم نے چچا سے خبریں سننے کا کام بسم سے شروع کیا۔

برادر باباجانی جو چچا کے مسئول تھے، وہ مختلف دلائل کی وجہ سے چاہتے تھے کہ خبروں کو خود لکھیں؛ کیونکہ اکیلے میں اُنہیں آسانی بھی تھی اور وہ جن مطالب کو سنتے تھے، اُنہیں "الف" سے لیکر "ے"  تک لکھ لیتے  تھے۔ انھوں نے ہمیشہ اس ذمہ داری کو اپنے کندھوں پر رکھا اور اچھے طریقے سے عمل کرتے تھے۔ بہت دفعہ ایسا ہوا کہ اس کام کی انجام دہی کیلئے وہ اپنے چہل قدمی، سونے اور ورزش  کے وقت سے بھی درگزر کرجاتے۔ بہت ہی فعال اور عجیب انسان تھے کہ میں نے پوری زندگی میں اُن کی طرح کے لوگ  بہت کم دیکھے ہیں۔ گروپ کے ایک جوان ترین فرد شمار ہونے کے باوجود وہ بہت صبر و حوصلے  کے ساتھ پیش آتے تھے۔ اُن کا دل چاہتا تھا کہ وہ ہر کام میں  ہاتھ ڈالیں اور حق تو یہ ہے کہ شاید وہ گروپ  میں سب سے زیادہ محنت کرنے والے شخص تھے۔

جب سے میں نچلے طبقے پر آیا تھا، برادر محمودی کے وجود کی وجہ سے مجھے زیادہ سکون کا احساس ہوتا تھا اور میں اُن کے وجود کو اپنے لئے ایک نعمت سمجھتا تھا  کہ جن کی وجہ سے مسئولیت کے سنگین عہدے کا بوجھ  میرے کندھوں سے  ہٹ گیا تھا۔ وہ کسی ذمہ داری کو قبول کرنے کی دلچسپی ظاہر کرنے علاوہ ، در حقیقت ایک بہت ہی فعال ، پرجوش اور منظم افیسر تھے۔ ایران میں اُن کے پیشے کی وجہ سے ، جو مختلف طبقوں اور گروہوں سے ملنا اور اُن سے رابطہ برقرار کرنا تھا  اور یہ چیز اس بات کا سبب بنی کہ وہ ایک تجربہ کار اور ماہر انچارج تھے  کہ اسیری کے دوران بہت ہی کم گروپ ایسے ہوں گے جن  کے درمیان محمودی جیسے لوگ  ہوں۔

خداوند متعال کے لطف و کرم کی وجہ سے زندان کی چار دیواری میں ، اسیری اپنی تمام سختیوں کے باوجود ہمارے لیے قابل برداشت تھی۔ دوسری طرف سے اسیری ہمارے لیے پروردگار عالم کی طرف  حقیقی ہدایت کا سبب بنی تھی  اور ہم ہر لمحہ گزرنے کے ساتھ ساتھ خود کو اُس کے نزدیک پاتے تھے اور زیادہ لطف اندوز ہوتے تھے۔ یہی بات، ہر طرح کے حالات میں  خوش بختی اور سکون کا احساس کرنے کیلئے کافی تھی۔ مجھے خدا سے رابطے اور قربت کا احساس ہوتا تھا  اور اس اعتقاد نے کہ ہر واقعہ خدا کی مشیت  اور چاہت کی بنیاد پر ہوتا ہے،  میرے خیال کو آسودہ خاطر کردیا تھا اور اسیری کے دوران – اگر سو سال بھی لگ جاتے –  میں کمزوری اور سستی کا احساس نہیں کرتا۔ میں نے ابتدا میں، دوستوں سے ہونے والی گفتگو میں کہا:" میں اپنے قیدی بننے پر راضی ہوں اور شکر ادا کرتا ہوں!" اگرچہ شاید وہ لوگ تعجب کا شکار ہوتے ہوں یا اندر ہی اندر مجھ پر ہنستے  ہوں لیکن اسیری  کی مدت جتنی زیادہ بڑھتی گئی ، یہ قیمتی احساس اور حالت  بہت سے دوسرے ساتھیوں میں ظاہر ہوا۔

زندان کی تنہائی میں مجھ پر یہ بہترین اور خوبصورت حقیقت آشکار ہوئی کہ حقیقی خوش بختی اور سکون صرف اور صرف معنویات پر توجہ دینے سے حاصل ہوتا ہے اور کسی دوسری چیز میں وہ قدرت نہیں کہ انسان کو سعادت تک پہنچا سکے اور جو بھی جتنا زیادہ معنویات سے مانوس ہوگا، اُسے اتنا ہی زیادہ  سکون اور سعادت کا احساس ہوگا۔ افسوس کہ ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے درمیان کچھ ایسے ساتھی بھی  موجود تھے  جو روحانی طور پر متوازن نہیں تھے اور اُن کے اندر صبر و استقامت کی کمی تھی اور آخرکار وہ لوگ بیمار اور شکستہ ارادوں کے ساتھ وطن واپس   لوٹے۔  میرے عقیدے کے مطابق، اُن کی شکست میں سب سے بڑا پہلو، معنویات کو توجہ نہ دینا ہوسکتا ہے۔

قسمت سے دوسری چیز کہ جس نے میری توجہ خداوند  کی قدرت کی طرف مزید بڑھائی تھی وہ دشمن کی اینٹی ایئر کرافٹس گنوں سے فائر ہونے والے گولے کا میرے جہاز کو لگنے کے باوجود  جہاز کا نہ پھٹنا تھا۔ اسی طرح چچا کا رکھنا اور اُن کی حفاظت کہ ثابت ہوگیا یہ صرف ہم نہیں  ہیں جو چچا کی  حفاظت کر رہے ہیں،  چونکہ ہم نے کئی بار اُس کی حفاظت کے معاملے میں خدا کے توانا ہاتھ کو  واضح طور پر دیکھا تھا۔ بتانے کی دلچسپ بات یہ ہے، جب بھی ہمارے درمیان کوئی اختلاف ہوتا تھا اور ہماری وحدت  لڑکھڑانے لگتی تھی، ہم بہت ہی تعجب سے دیکھتے کہ یا چچا خراب ہوجاتے اور کام  کرنا چھوڑ دیتے، یا ہمیں "ب" (بیٹری)  نہیں ملتی تھی اور ہم کچھ مدت تک خبریں سننے سے محروم ہوجاتے تھے۔

دوسری مثال جو اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ خداوند متعال نے چچا اور اُس کے سامان کو ہمارے لیے مہیا کیا ہوا تھا؛ ماجرا اس طرح سے تھا کہ ہمارے پاس کچھ عرصے کیلئے "ب" نہیں تھی۔ ہم نے اپنے آپ سے کہا: مفت کا پتھر،  مفت کی چڑیا!  ہم نے دشمن سے دیوار والی گھڑی کا تقاضا کیا۔ اُس وقت، وہ دشمن جو حتی چھوٹی چھوٹی چیزیں دینے سے بھی پرہیز کرتا تھا، اُس نے ہمیں دیوار پر لگانے والی ایک گھڑی دی جو بیٹری سے چلتی تھی! ہم تعجب کے وادی میں غوطہ ور تھے کہ دشمن کس طرح ایک دم سے ہم پر مہربان ہوگیا ہے؟ حقیقت میں، کوئی بھی تبدیلی نہیں ہوئی تھی؛ سوائے اس کہ  خداوند متعال کا لطف و  کرم ہم پر ہوا تھا۔

جاری ہے ۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 2939



http://oral-history.ir/?page=post&id=8179