آج جب میں ان دنوں کے بارے میں سوچتا ہوں…

راوی: حجت الاسلام و المسلمین غلام حسین جمی
مترجم: سید نعیم حسین شاہ

2018-08-19


حضرت امام خمینی کی طرف سے صادر شدہ اعلانات کی فوٹو کاپی کروانا اور پھر آبادان شہر میں ان کی تقسیم بذات خود ایک معجزے سے کم نہ تھا (یعنی ایک غیر معمولی اور عجیب و غریب فعالیت تھی) تمام وہ اعلانات جو نجف اشرف یا قم المقدس میں تیار کرکے پھیلائے جاتے تھے آبادان میں بھی اسی طرح تقسیم کئے جاتے تھے۔ یہ کام خود ہم اپنے ہاتھوں سے کرتے تھے اس کے باجود کبھی  کبھی یہ بات سمجھنا اور ماننا ہمارے لیے مشکل ہوجاتی تھی کہ بعض اعلانات کیسے تیار ہوئے اور کب اور کیسے لوگوں کے ہاتھوں تک پہنچ گئے۔

اور کبھی کبھی  تو امام کی طرف سے جاری شدہ اعلامیے خود ہم تک پہنچائے جاتے تھے اور پہنچانے والے بھی وہ گمنام طالب علم تھے جو خفیہ طور پر قم سے  اعلامیے اٹھاتے اور وہاں لاکر تقسیم کر دیتے تھے۔ حتی میں خود بھی اس طالب علم کو نہیں جانتا تھا۔

یہ اعلامیے زیادہ تر مساجد میں تقسیم کیئے جاتے تھے۔ نماز جماعت  ختم ہونے کے بعد سجدہ گاہ رکھنے والی شیلف کے پاس ان اعلامیوں کا بنڈل دکھائی دیتا تھا اب یہ بنڈل کون رکھ کر چلا گیا کسی کو پتہ نہیں چلتا تھا۔ آج جب ہم ان دنوں کے بارے میں سوچتے ہیں تو بخوبی یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ وہ تحریک ایک بابرکت تحریک تھی۔

حضرت امام خمینی ؒ کی  طرف سے ایک اعلامیہ جو انھوں نے مدرسہ فیضہ کے بارے میں صادر کیا تھا، تقسیم کیا گیا لیکن مجھ تک نہیں پہنچا، صبح جوں ہی میں گھر سے نکلا تو یا دیکھا کہ در و دیوار پر امام کا وہ اعلامیہ لگا ہوا ہے جس میں امام خمینی ؒ نے فرمایا تھا کہ: "شاہ کے ساتھ دوستی یعنی یہ …۔ شاہ کے ساتھ یعنی وہ …۔ "اور ان اعلامیوں کی تیاری اور تقیسم کے لیے کوئی باقاعدہ ادارہ یا نیٹ ورک نہیں تھا بلکہ  یہ عام لوگ خود اپنی مرضی اور جوش و خروش سے کام کرتے تھے اور ان لوگوں میں زیادہ تر جوان اور نوجوان طبقہ اور مذہبی افراد جنہیں آپ  "مسجد والے "بھی کہہ سکتے ہیں پیش پیش تھے۔


15khordad42.ir
 
صارفین کی تعداد: 2892



http://oral-history.ir/?page=post&id=8002