یادوں بھری رات کا ۲۹۲ واں پروگرام

ڈاکٹر چمران اور لال رومالوں کے واقعات کا بیان

مریم رجبی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-08-07


ایران کی زبانی تاریخ کی سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۲ واں پروگرام، جمعرات کی شام، ۲۸ جون ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اس تقریب میں عبد اللہ نوری پور، مریم کاظم زادہ اور مہدی زمردیان نے  عراق کی ایران پر مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ کے دوران اپنے  اپنے واقعات کو بیان کیا۔

 

لال رنگ کے رومال

پروگرام کے سب سے پہلے راوی عبد اللہ نوری پور تھے۔ انھوں نے کہا: "سپاہ کی تشکیل کے اُنہی ابتدائی دنوں میں ، ولی عصر چھاؤنی میں کچھ ایسے افراد تھے جو نئے آنے والے سپاہیوں کی  چھانٹی کرکے اُنہیں ایک سے سات نمبر تک کی بٹالین میں تقسیم کرتے تھے۔ تیسری بٹالین میں ایسے لوگوں کو انتخاب کیا گیا تھا جو فوجی سابقہ رکھتے تھے۔ جاویدان گارڈ کے دستے سے فرار کرنے والے  لوگ تھے، جیسے شہید رضا مرادی، اسماعیل لسانی اور ایسے کچھ اور لوگ جو ورزش کار بھی تھے۔ انھوں نے مختلف ٹیمیں بنائی ہوئی تھیں اور اُن ٹیموں پر شہری ذمہ داری عائد کر دی جاتیں۔ انقلاب کے شروع کا زمانہ تھا اور فرقان گروپ، انقلاب کے رہبروں  کو قتل کر رہا تھا۔ گارڈ  اور ساواک کے افراد ابھی تک اُسی  طرح سڑکوں پر تھے  اور پاسداروں کو خاص طور سے رات کو قتل کرتے تھے۔ تیسرے کیمپ کے افراد کو ذمہ داری دی جاتی ہے کہ وہ اُن کی معلومات حاصل کرے، ان کا تعاقب کریں اور موقع ملتے ہی اُنہیں گرفتار کرلے۔ یہ بٹالین  اپنے کام کو جاری رکھتی ہے یہاں تک کہ اُنہیں خلیج کمپلیکس کی حفاظت کی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے جو پہلے امریکی افسروں کا کلب تھا۔ یہ لوگ وہاں پر شب خون مارنے کی پریکٹس اور خاص مشقیں انجام  دیتے تھے کہ یہاں پر اصغر وصالی مل جاتا ہے۔ اُس نے اپنا تعارف کروایا اور ہم سمجھ گئے کہ وہ طاغوت کے خلاف جہاد کرنے والوں میں سے تھا جو جیل  میں تھا اور اُسے پھانسی کی سزا سنا دی گئی تھی۔ ہم سمجھ گئے کہ اُس کی  معلومات کا سابقہ بہت زبردست ہے  اور اُسے شہر کے اندر ہونے والی جنگوں میں مہارت حاصل ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ نہج البلاغہ کا مفسر  ہے، لوگوں کے کام کیلئے قرآن سے مصداق لاتا تھا اور ہم سمجھ گئے کہ ہمارا کمانڈر، کوئی معمولی شخص نہیں ہے۔

کردستان کا قضیہ پیش آیا۔ ہم تقریباً ۱۰۰ سے ۱۵۰ لوگ ہوگئے۔ ہمیں سب سے پہلے جہاں بھیجا گیا وہ مریوان تھا۔ جہاز کے ذریعے کرمانشاہ گئے۔ اُس کے بعد زمینی راستہ طے کیا اور ایسی جگہ پہنچے جو چھاؤنی کی طرح کی تھی جو ساحلی پولیس والوں کے اختیار میں تھی۔ کھانا، لباس اور دوسرے تمام لحاظ سے ہماری وضعیت اچھی نہیں تھی۔ رمضان کا مہینہ  بھی شروع ہوگیا تھا۔ خلاصہ یہ کہ وہاں کے کمانڈر نے ہمیں جگہ  دیدی۔ افطار کرنے کے بعد، ہم کچھ دوستوں کے ساتھ  افراد کیلئے کچھ ضروری چیزیں، جیسے میگزین، میگزین رکھنے کی جگہ اور گلے میں لٹکانے والی ڈوری لینے گئے۔ وہاں کے کمانڈر نے ہمیں ایک گودام دکھایا اور کہا وہاں پر سب چیزیں ہیں۔ شہید مجید جہان بین، شہید رضا مرادی، شہید جہانگیر جعفر زادہ اور شہید انصاری کے ساتھ ہم اُس گودام کے اندر گئے۔ گودام کے اندر اندھیرے میں ڈھونڈنے لگے۔ شہید مرادی  کو وہاں رکھی ہوئی چیزوں میں سے ٹارچ مل گئی۔ میں نے کچھ لکڑی کی پیٹیاں دیکھیں۔ بڑی کوشش کے بعد ہم نے اُنہیں کھولا ، ہم نے دیکھا اُن میں سجاوٹ کے کاغذ رکھے ہوئے  ہیں۔ اُنہیں ایک طرف ہٹایا تو دیکھا اُس میں تین کونے والے لال رنگ کے رومال رکھے ہوئے ہیں۔ اُنہیں ترتیب سے ایک ساتھ رکھا گیا تھا۔ ان رومالوں کو دیکھنے سے مجھے امام علی (ع)  کی ایک روایت یاد آگئی۔ حضرت بہت مشکل سے جنگی آپریشن میں وارد ہوتے تھے اور جب وہ جنگ کرنا چاہتے  تو اپنے پیشانی  پر زرد یا لال رنگ کا رومال باندھ لیتے  کہ بقیہ افراد اس  رومال سے سمجھ جاتے کہ حضرت کا جنگ کرنے کا ارادہ ہے۔ میں نے اس بات کا ذکر مدرسہ میں پڑھنے والے ایک طالب علم شہید علی رضا شجاع داوودی سے کیا، میں نے اُس سے پوچھا وہ رومال جو حضرت اپنی پیشانی پر باندھتے تھے وہ زرد رنگ کا تھا یا لال رنگ کا؟ ایک نے مذاق میں کہا زرد  رنگ کا، دوسرے نے کہا لال رنگ کا تھا۔ اُن لوگوں نے وہاں پر بہت مذاق اڑایا اور کہنے لگے  کہ میں حدیث گڑھ رہا ہوں، لیکن باتیں کرنے کے تھوڑی دیر بعد، ہم سب نے وہاں عہد کیا اور دوسروں کو بھی یہ رومال دیا، انھوں نے اپنے گلے میں باندھ لیا۔ اس طرح لال رومالوں والے مشہور ہوگئے۔ بعد والے آپریشنوں میں ہم نے ان رومالوں کو اپنی پیشانیوں پر باندھا۔ جس زمانے میں ہر طرف  گرد و خاک ہوتی تھی، ہم اُسے اپنے منہ پر  باندھ لیتے۔ کبھی اُس کے ذریعے اپنے چہرے سے پسینہ اور مٹی صاف کرتے۔ پاوہ والے مسئلے میں ہم نے اُسے گردن اور پیشانی پر اور مسلط کردہ جنگ پیشانی پر باندھا۔

بانہ کو آزاد کرانے کیلئے، ہم چاہتے تھے ایک عظیم فوجی ستون – جس میں تقریباً ۷ سے ۱۰ ٹریلر  اور ہر کسی میں دو سے تین زرہ پوش، غذا اور گولہ بارود سے بھرے چند ٹرک، کچھ زرھی اور غیر زرھی جیپیں اور گاڑیاں تھیں – کو بانہ لے جائیں۔ مریوان سے بانہ کے راستے میں چند کمین گاہیں تھیں  یہاں تک ہم لوگ وادی  شیلر تک پہنچ گئے۔ ہم نے اُن سب سے عبور کرلیا تھا۔ اس ستون کی حفاظت کی ذمہ داری لال رومال والوں کے کاندھوں پر تھی۔ ہم علاقے سے اچھی طرح واقف ہوچکے تھے۔ البتہ ہمارے ساتھ کچھ کرد جوانمرد اور راستہ جاننے والے بھی تھے ، ہم لوگ خان کے پہاڑی سلسلے تک پہنچ گئے کہ جس میں مخفی اور پیچیدہ موڑ تھے۔ وہاں پر ہرطرف سے ہم پر فائرنگ ہو رہی تھی۔ہم نے خان کے پہاڑی سلسلے میں مکمل طور سے پھنس گئے تھے۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں معمول کے مطابق ڈاکٹر مصطفی چمران ہیلی کاپٹر کے ذریعے حاضر ہوجاتے ہیں اور ہم لوگوں نے سڑک کے کنارے کھڑے کھڑے ایک میٹنگ رکھی۔ ہمارے ساتھ خیانت ہوئی تھی اور ہمارے اس کام کا راز  فاش ہو گیا تھا۔ شہید چمران نے کہا کہ ایک چھوٹا سا گروپ شیلر کی بلندیوں پر جائے   تاکہ وہاں فائرنگ کا سلسلہ شروع کرے تاکہ اُس فائرنگ کے نیچے سے، ستون سلامتی کے ساتھ وہاں سے گزر سکے اور نکل جائے۔ اصغر وصالی نے مجھے اور جہانگیر جعفر زادہ کو بلایا اور ہم لوگ ہیلی کاپٹر میں سوار ہوگئے۔ ہم ٹیلے کے اوپر سے گزر کر گئے۔ ہیلی کاپٹر بالکل  خط کے اوپر جاکر ٹھہر گیا اور ہم تینوں نے چھلانگ لگادی۔ تین طرف سے ہماری طرف فائرنگ ہو رہی تھی اور ہم بھی اُس کا جواب دے رہے تھے۔ ستون حرکت  کرنے میں کامیاب ہوگیا اور آگے نکل گیا اور ہم ایسے دشمن کے ساتھ باقی رہے جو ہم پر تین اطراف سے فائرنگ کر رہا تھا۔ اس طرح سے کہ گولیاں میرے سر کے بالوں  کو چھوتی ہوئی گزر رہی تھیں  اور مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میرے اطراف میں  شہد کی مکھی گھوم رہی ہے۔

جس وقت اندھیرا چھا گیا، مجھے پتہ چلا کہ جہانگیر جعفر زادہ نے وہیں پر جام شہادت نوش کرلیا ہے اور اصغر کا بھی کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ میں اکیلا رہ گیا تھا۔ میں ٹیلے کے نیچے چشمہ کے پاس گیا۔ وضو کرکے نماز پڑھی۔ میں نے دیکھا کہ اُس طرف سے ایک ستون آرہا ہے۔ میں نے گمان کیا کہ اسماعیل لسانی ہے۔ میں نے زوردار آواز لگائی تو کسی نے درخت کے پیچھے سے کہا: وہ اپنے لوگ نہیں ہیں، اُنہیں آواز نہیں دو۔ دیکھا تو اصغر نے کسی ایک درخت کے پیچھے پناہ لی ہوئی ہے۔ اُس کے پیر میں گولی لگی ہوئی تھی۔ اُس نے اپنی قمیض اُتار کر اپنے پیر پر باندھ لی تھی۔ کوہستان کی رات ٹھنڈی تھی۔ ہم گھسٹتے گھسٹتے آگے بڑھے۔ آدھی رات کے وقت ہمیں اپنے پیروں کے نیچے گھاس اور پانی کا احساس ہوا۔ ہم نے اُس پانی سے استفادہ کیا۔ اُس کے بعد ہمیں ایک چھوٹی سی موٹر سائیکل مل گئی  ہم دونوں اُس پر بیٹھ کر گئے۔ ہم بھوکے اور تھکے ہوئے تھے۔ ہم لوگ تھوڑا سا سوئے تھے کہ میری اصغر کے نماز شب پڑھنے کی آواز سے آنکھ کھل گئی۔ صبح ہوگئی اور ہمارے اوپر ہیلی کاپٹر آیا، اُس نے وہاں ایک چکر لگایا لیکن ہمیں دیکھا نہیں۔ اُس کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ ہم ستون سے آگے ہیں۔ پھر ہم ٹھہر گئے یہاں تک پیچھے سے ستون آگیا۔ اُن لوگوں نے ہمیں دیکھ لیا  اور ہمیں درّے کی تہہ سے اوپر لے آئے۔ ہم تھوڑا سا چلے ہوں گے کہ تیسری کمین گاہ سے سامنا ہوا۔ خلاصہ یہ کہ بانہ اور شہید چمران تک پہنچنے میں ہمیں چند جگہ کمین گاہ کا سامنا ہوا۔ جہاں بھی سپاہیوں کو  مشکل کا سامنا ہوا  اور وہ لوگ پھنسئے، وہاں شہید چمران پہنچ جاتے۔"

 

بے پروا نہیں تھے

شہید اصغر وصالی کی زوجہ، مریم کاظم زادہ پروگرام کی دوسری راوی تھیں۔ انھوں نے کہا: "میری شہید چمران سے مریوان میں ملاقات ہوئی۔ میں اس شہر میں اُن کے آنے سے ۴۸ گھنٹے پہلے  آچکی تھی۔ ڈاکٹر چمران جرنل فلاحی کے ساتھ ہیلی کاپٹر کے ذریعے آئے تھے، ماحول سازگار نہیں تھا۔ اصغر وصالی کے علاقے میں آنے سے پہلے،  جناب مصطفوری سپاہ پاسدارن کے کمانڈر تھے۔ میجر  شیبانی اور جناب مصطفوی مریوان  کی چھاؤنی میں موجود تھے۔ بہت اضطراب والے دن تھے۔ جب جرنل  فلاحی آئے، میجر  شیبانی کو چھاؤنی کے کمانڈر کے عنوان سے  اپنے سے اوپر والے افسر کو حالات  کے بارے میں رپورٹ دینی چاہیئے تھی اور انھوں  نے یہ کام کیا بھی۔ انھوں نے سپاہ پاسداران کی شکایت کی۔ جناب مصطفوی سپاہ کے با وقار قَدَر کمانڈروں میں سے تھے۔ جس جرنل فلاحی نے میجر  شیبانی کی شکایتیں سنیں، ماحول خراب ہوگیا اور جناب مصطفوی  غصے کا اظہار کرتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے اور انھوں نے چاہا کہ سپاہ کے کمانڈر کی رپورٹ بھی سنی جائے۔ ایسے زمانے میں سپاہ کے کمانڈر اور فوج کے کمانڈر  میں تو تو ، میں میں ہونا کوئی اچھی بات نہیں تھی۔ شہید چمران نے مجھے دیکھا اور دوسروں سے پوچھا: وہ کون ہے؟ انھوں نے کہا: صحافی ہے۔ انھوں نے کہا: اُسے یہاں سے دور کردو۔ اُن کا گمان تھا کہ میں فوج اور سپاہ کے برتاؤ کی خبر کو فوراً  پھیلادوں گی۔ کچھ پاسدار میرے قریب آئے اور کہنے لگے کہ آپ یہاں سے چلی جائیں۔ مجھے بہت غصہ آیا اور میں نے شہید چمران سے کہا  کہ اگر آپ اس وقت  آئے ہیں تو میں آپ سے پہلے آچکی تھی اور  آپ مجھے یہاں سے جانے کا نہیں کہہ سکتے!

جب جناب مصطفوی کمرے سے باہر آئے، ڈاکٹر نے اُن کی گلے میں ہاتھ ڈالتے ہوئے  کہا مجھے اس عرصے میں ہونے والے مسائل کے بارے میں بتاؤ۔ جرنل فلاحی مغرب سے پہلے  اُسی ہیلی کاپٹر پر واپس  چلے گئے، لیکن ڈاکٹر چمران جو وزیر اعظم کے معاون کے عنوان سے آئے تھے، وہ وہیں رہ گئے تا کہ مریوان کے حالات کی تحقیق کریں۔ نماز مغرب کیلئے، میں بھی  جماعت کی صف میں  کھڑی ہوئی اور نماز ادا کی۔ نماز کے بعد جب ڈاکٹر چمران نے مجھے بھی صف میں دیکھا تو تعجب کیا۔ ڈاکٹر چمران کی ایک آشکار صفت یہ تھی کہ وہ کسی کے بارے میں بھی بےپروا نہیں تھے۔ وہ آئے اور میرا کیمرہ اٹھا کر کہا Canon  کا کیمرہ؟  میرا کیمرہ بھی Canon کا تھا۔ اُس رات انھوں نے لبنان میں  گزرے دنوں کے بارے میں بتایا،  اسرائیل کے ساتھ ہونے والی جنگوں کے بارے میں اور وہ اُن لمحات کو اپنے کیمرے  میں محفوظ کرلیتے۔ وہ باتیں کر رہے تھے اور اُس لمحے میرے تمام احساسات اور کوشش  یہ تھی کہ وہ اور زیادہ بیان کریں۔ انھوں نے امل تنظیم کے بارے میں بتایا، امام موسی صدر کے بارے میں، ڈاکٹر شریعتی کے بارے میں، لبنان میں اپنی پینٹنگ کے بارے میں۔ دستر خوان لگا اور اٹھ بھی گیا، ڈاکٹر باتیں کر رہے تھے اور میری پیاس بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ اپنے بارے میں کم بات کر رہے تھے اور میرا دل خود اُن کے بارے میں سنے کو چاہ رہا تھا۔ اگلے دن صبح ڈاکٹر نے کہا ہوا تھا کہ جس نے بھی جو بات کرنی ہے  اُن سب  کو مریوان کے گورنر ہاؤس میں جمع کرلو۔ اُس دن ڈاکٹر چمران نے اُسی نشست کیلئے کہ جس میں اعتراض کرنے والے گروہ  جمع ہوئے تھے، اپنے لباس کو  تبدیل کیا۔ مجھے تعجب ہوا اور میں نے اُن سے کہا کہ ڈاکٹر! آپ نے کل رات شمع کے بارے میں، عشق کے بارے میں، خاموشی اور خدا کے بارے میں بات کی! یہ کیسا لباس ہے جو آپ نے پہنا ہوا ہے؟! ڈاکٹر نے کہا آج رات تمہیں جواب دوں گا۔

ہم ڈاکٹر چمران اور چھاؤنی کے افراد کے ساتھ گورنر ہاؤس کی طرف گئے۔ وہاں پر ایک بہت بڑی میز تھی اور تمام پارٹیاں جیسے تنظیم مجاہدین خلق،  گوریلا کاروائی کرنے والے، ڈیموکریٹس اور "یہ کیہ تی جوتیاران" نامی پارٹی، جو کسانوں کی پارٹی تھی، وہاں پر جمع ہوئی  تھیں۔ جب تمام پارٹیوں نے اپنا تعارف کروایا، جب پیکار گروپ  کے تعارف کی باری آئی، ڈاکٹر چمران کو غصہ آگیا اور انھوں نے میز پر اپنا ہاتھ مارتے ہوئے جہاں تم ہوگی، میں نہیں ہوں گا! ڈاکٹر نے کہا مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی، تم یہاں سے جانا ہوگا  تاکہ میں دوسرے افراد سے بات کروں۔ وہ نمائندہ نشست سے اٹھ گیا اور ہر پارٹی نے اپنی باتوں اور مطالبات کو پیش کیا۔ پیکار گروپ کبھی بھی انقلاب کے ساتھ نہیں رہا اور ہمیشہ انقلابیوں کو قتل کرتا تھا، یہ کام ان کے عقائد کا حصہ تھا۔ کچھ لوگ ڈیموکریت پارٹی کے اُکسانے پر ، شہر سے باہر چلے گئے تھے اور مسلح تھے اور ڈاکٹر چمران کا اصلی وظیفہ یہ تھا  کہ وہ لوگ اپنے اسلحہ کو نیچے رکھ دیں۔ دو گھنٹے سنجیدہ گفتگو کرنے کے بعد، ڈاکٹر نے کہا اُنہیں اپنے اسلحے کو زمین پر رکھنا ہوگا تاکہ ہم بعد والا قدم اٹھا سکیں اور آپ کے مطالبات کا تہران میں جائزہ لے سکیں اور کام کو آگے بڑھائیں۔ نشست ختم ہوگئی ، اچھے خاصے لوگ چلے گئے اور کچھ خصوصی لوگ رہ گئے۔ ڈاکٹر مسئول ہونے کے عنوان سے چاہتے تھے  کہ بغیر کسی واسطے کے لوگوں سے ارتباط پیدا کریں۔ وہ شہر میں گئے ، وہاں پر تمام لوگوں کو مسلح دیکھا۔ وہ اُن میں سے ایک جوان کے پاس گئے اور اُس سے پوچھا  تم نے کس وجہ سے اپنے ہاتھوں میں اسلحہ اٹھایا ہوا ہے؟ اُس نے کہا میں نے سنا ہے چمران شہر میں آیا ہوا ہے، میں اُسے قتل کرنا چاہتا ہوں، ڈاکٹر نے پوچھا کیا تم چمران کو پہچانتے ہو؟ اُس نے کہا: نہیں، لیکن میں نے سنا ہے کہ وہ گنجے ہیں، ڈاکٹر نے کہا گنجا تو میں بھی ہوں، اُس جوان نے کہا نہیں، چمران  کی آنکھوں سے خون ٹپکتا ہے! ڈاکٹر نے دوبارہ پوچھا کس وجہ سے تم نے اسلحہ اٹھایا ہوا ہے؟ اُس نے کہا اسلحہ میری زندگی ہے۔ کردوں کیلئے اسلحہ بہت اہم تھا۔ رات ہوگئی اور ڈاکٹر نے جو وعدہ کیا تھا اُس کے مطابق مجھے بتانا تھا کہ انھوں نے کیوں سرکاری لباس پہنا تھا؟ انھوں نے اُس رات گھنٹوں حضرت علی (ع) کے بارے میں بات کی اور یہ کہ انسان کو مختلف شرائط میں ایک طرح کا نہیں ہونا چاہیے؛ حضرت علی (ع) دن کے وقت جنگ کرتے اور راتوں کو خدا سے راز و نیاز کرتے،  راز و نیاز کے ذریعے اپنی روح  کو پاکیزہ بنائیں۔ جناب چمران نے مجھے اپنے رویے سے یہ بات سکھائی کہ انسان  جس سطح پر بھی ہو اُسے صبر و تحمل کے ساتھ اخلاق سے پیش آنا چاہیے۔"

محترمہ کاظم زادہ نے یادوں بھری رات کے میزبان کے سوال کے جواب میں  کہ آپ  کس طرح اصغر وصالی سے آشنا ہوئیں، کہا:"میں لال رومال والے گروپ سے پہلے مریوان میں تھی۔ میری ڈیوٹی تھی کہ پاوہ میں ہونے والے واقع کے بارے میں ڈاکٹر چمران سے پوچھوں۔ میں پاوہ میں نہیں تھی  اور میں ۴۸ گھنٹے بعد پہنچی تھی۔ ڈاکٹر نے مجھ سے کہا تم اس معاملے کے بارے میں اصغر وصالی سے پوچھ لو جو سپاہ کے کمانڈر اور اُس رات اُن کے ساتھ تھے ۔ جب میں اصغر وصالی کے پاس گئی، انھوں نے میرے ساتھ بہت برا رویہ اختیار کیا اور کہا کیا تم صحافی نہیں ہو؟ میں نے کہا: ہاں۔ انھوں نے پوچھا: تو پھر کیوں اُس رات پاوہ میں نہیں تھیں؟! میں نے کہا آپ کو مجھ سے کیا توقع ہے؟! انھوں نے کہا: جب صحافی کی ذمہ داری حاضر ہونا ہے، جب تم خود کو لوگوں کے آنکھ اور کان سمجھتی ہو تو تمہیں حتماً وہاں ہونا چاہیے تھا۔ میں واپس آگئی اور ڈاکٹر چمران کے جواب میں کہا کہ اصغر وصالی نہیں تھا  اور ڈاکٹر نے مجھے پاوہ کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ اگلے دن طے پایا کہ اصغر وصالی، لال رومال والا گروپ اور ایسے کرد جو علاقے کے بارے میں جانتے تھے، وہ مریوان کے سرحدی علاقے کی اطلاعات جمع کرنے جائیں۔ ڈاکٹر چمران نے مجھ پوچھا کہ کیا تم ان لوگوں کے ساتھ جانا چاہتی ہو؟ میرا بہت دل چاہ رہا تھا، میں جانے کیلئے راضی ہوگئی۔ جاتے وقت، ڈاکٹر چمران نے اصغر وصالی سے کہا زندہ سلامت تمہارے حوالے کر رہا ہوں، تم بھی مجھے زندہ واپس کرو گے۔"

 

کام کی سختی کو ہنس کر سہہ لیتے تھے

پروگرام کے تیسرے راوی مہدی زمردیان تھے۔ "ہم چالیس لوگوں پر مشتمل ایک ٹیم تھے۔ جب ہم پاوہ پہنچے جہاں ہسپتال کے مریضوں کا قتل عام کیا گیا تھا  اور اُن کے جنازے ہسپتال میں تھے۔ ہمارے گروپ کا نام فدائیان اسلام تھا اور ہم نے ایک ٹریلر کے چاروں طرف مورچہ بنایا ہوا تھا۔ ہم جنگ کے دوسرے دن پاوہ پہنچے  اور  ہماری پاوہ ہسپتال میں ڈیوٹی لگائی گئی جہاں  بہت زیادہ لوگ قتل اور زخمی ہوئے تھے۔ وہاں سے رضاکارانہ طور پر میری ڈیوٹی  شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے۔ ہم ہمیشہ کام کی سختی کو ہنس کر گزار دیتےتھے۔ میں نے اسلحہ ، گولہ بارود کی پہچان اور لوگوں کی مدد کرنے کی ٹریننگ کی ہوئی تھی، لیکن وہ تجربی دورے تھے۔ میں ان کاموں کے ساتھ خاتم الانبیاء (ص) چھاؤنی میں دعائے توسل اور دعائے  کمیل  پڑھتا  اور اس ہال میں موجود لوگوں سے زیادہ لوگ  بیٹھ کر دعا سنتے تھے۔ مجھے جنگ میں کسی چیز سے ڈر نہیں لگتا تھا۔ میں صرف چوہے سے ڈرتا تھا! میں ایک دفعہ اسی طرح افراد کے مجمع میں دعا پڑھ رہا تھا، میں نے دیکھا کہ ایک چوہا میری طرف آرہا ہے!میں نے اپنا رومال اٹھا کر اُس کے اوپر ڈال دیا۔ میں نے اپنے برابر میں بیٹھے ہوئے شخص کو مائک پکڑا کر کہا تم دعا کو جاری رکھو، میں اسے باہر پھینک کر آتا ہوں۔ باہر آکر جب میں نے رومال کو جھاڑا  تو دیکھا اُس میں چوہا نہیں ہے! جب میں واپس آیا، میں نے دیکھا جو شخص دعا پڑھ رہا ہے، وہ دعا کو بڑے خلوص کے ساتھ پڑھ رہا ہے! میں نے مائک کسی اور کے ہاتھ میں دیا اور پوچھا: کیا ہوا ہے؟ اُس نے کہا: کوئی چیز میرے پیروں میں ہے۔ خلاصہ یہ کہ وہ چوہا  اُس کی پینٹ میں گھس گیا تھا!

مجاہدین محاذ پر اصغر وصالی کو "اصغر چریک" کے نام سے جانتے تھے۔ شہر ری کے افراد کا ایک گروپ تھا جیسے محمود عطائی  جیسے لوگ، جو کبھی بھی اسلحہ نہیں لیتے ، وہ کہتے کہ ہم اسلحے کا بندوبست خود کرلیں گے۔ وہ رات کے وقت دشمن پر حملہ کرتے، اُن کا اسلحہ اٹھاکر لاتے اور کچھ اسلحے سپورٹ اور سپلائی کرنے والے افراد کو دیتے اور کہا کرتے جن افراد کو ہم نے کہا ہے اُنہیں اسلحہ دیدو۔"

جناب زمردیان نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: "ایک دفعہ ہم نے کہا کہ ہمیں صرف خاتم ہیڈکوارٹر میں ڈیوٹی نہیں کرنی چاہیے، حبیب ابن مظاہر بٹالین میں جاکر وہاں بھی کام کرنا چاہیے اور بسیجی افراد کے ساتھ رہنا چاہیے۔ حاج حسن محقق، حبیب بٹالین کے کمانڈر تھے ، میں نے اُن سے اصرار کیا کہ وہ لوگوں کو نہ بتائیں کہ میں پڑھ رہا ہوں، اُن دلاوروں کے ساتھ زندگی گزارنے کا مزہ ہی عجیب تھا۔ بعض بسیجی افراد جس وقت چاہتے تھے کہ کوئی مجلس کریں،وہ گزشتہ آپریشنوں میں شہید ہونے والے اپنے شہداء کی تصاویر لے آتے۔ وہ اپنے پیسوں سے اہواز سے روٹی، پنیر اور سبزی خرید لیتے اور دستر خوان بچھا دیتے اور اُس غذا کو لوگوں کے درمیان تقسیم کر دیتے۔ ہمارے یہاں سپلائی کرنے والا ایک انچارج تھا کہ ہم اُس سے ہر دفعہ کہتے  کہ ہمیں لیموں کے رس کی ایک بوتل اور کچھ شکر دیدو تاکہ اس گرمی میں  شربت بنالیں، یا کہتے ہمیں مچھلی کا ٹن پیک دیدو، یا لوبیا کا ٹن پیک دیدو، وہ کہتا ہمارے پاس نہیں ہے۔ اُس رات دلاوروں کی تقریب میں حاج حسن نے مجھ سے کہا کہ اگر یہ افراد کل شہید ہوجائیں، تم نے اُن لوگوں کیلئے حتی ایک دفعہ بھی نہیں پڑھا، جب تم کرسکتے ہو تو اُن کیلئے پڑھ دو۔ میں تاریکی میں بیٹھ گیا اور اپنے اوپر رومال ڈال لیا تاکہ پہچانا نہ جاؤں اور پڑھا۔ آخر میں، میں نے مائک کو ایک کونے میں رکھا اور اندھیرے میں ایک جگہ جاکر بیٹھ گیا۔ اگلے دن میں دوبارہ سپلائی انچارج کے پاس گیا اور اُس سے شکر اور لیموں  کے رس کی بوتل مانگی۔ میں نے دیکھا کہ اُس نے بہت ساری چیزیں جمع کرکے میرے ساتھ رکھ دیں! اُس نے کہا تم نے کل رات دعا پڑھی مجھے بہت مزہ آیا! آپ یقین کریں اُس کے بعد، بٹالین میں، تمام خیموں سے زیادہ ہمارے خیموں چیزیں زیادہ ہوتی تھیں اور جسے کچھ چاہیے ہوتا وہ ہمارے پاس آکر ہم سے لے لیتا۔"

جناب زمردیان نے آخر میں کہا: "پرانے زمانے میں مائنز ناکارہ کرنے والے افراد، مائنز کو لگانے اور نکالنے کا کام کرتے تھے۔ یہ ایک خاص مہارت ہے۔ ہم نے انقلاب کے بعد ناکارہ بنانے والا جو کام کیا ہے، وہ دھماکہ خیز مائنز پر اور بمب کو ناکارہ  بنانے میں کیا ہے۔ شام میں اگر ہمارے سو افراد شہید ہوتے، اُن میں سے نوے افراد دھماکہ خیز مائنز کے وجہ سے شہید ہوتے۔ جب ہم وہاں پہنچے، جیسا کہ ہمیں اس کام میں مہارت تھی، ہم نے اسے اچھی طرح سے انجام دیا۔ میں ریٹائرمنٹ کے بعد کام کرنا نہیں چاہتا تھا اور میر دل چاہتا تھا کہ میں اپنا وقت اپنے گھر والوں کے ساتھ گزاروں۔ جیسا کہ ہم ہر سالہ حضرت سکینہ (س) کی شہادت کے دنوں میں دس دن کیلئے شام جاتے ہیں اور وہ کھانا تقسیم کرتے ہیں، اس دفعہ جب ہمارا کام ختم ہوا  اور ہم ہوائی جہاز کے ذریعے واپس آنا چاہتے تھے، میں نے دیکھا کہ ہوائی جہاز رکا ہوا ہے۔ میں نے شیشہ میں سے باہر نگاہ ڈالی تو دیکھا ہوائی جہاز کے ساتھ دو بنز کھڑی کی ہوئی ہیں۔ مجھ سے کہا گیا کہ مجھے روکنا چاہیے اور کچھ دنوں بعد حاج قاسم سلیمانی کے ساتھ واپس چلا جاؤں۔ حاج قاسم نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ مجھے یہاں پر تھوڑا سا کام ہے، ان حاج مہدی صاحب کے لے جاؤ اور انہیں خط (لائن) دکھاؤ۔ میں اسی طرح سڑک کے کنارے چل رہا تھا تاکہ خطوط کو دیکھوں، میں نے دیکھا سڑک کے کنارے دھماکہ خیز مائنز لگائی ہوئی ہیں  اور سپاہی اُن کے برابر سے گزر رہے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان دو گھنٹوں میں جب حاجی نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا تھا، میں نے ایک تار سے سڑک کے کنارے ۴۰ سے ۵۰ بمبوں کو ناکارہ بنا دیا۔ اُس کے بعد سے اب تک میں اُن لوگوں کے ساتھ رہا۔ ایک دفعہ سامرا کی طرف جانے والی اسحاقی نامی سڑک پر جھڑپ ہوگئی تھی  اور مجھے بہت تیزی سے جانا تھا۔ ایک سپاہی نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کے ساتھ آنا چاہتا ہوں،  میں نے پہلے اُس سے سوال کیا کہ تم نماز شب پڑھتے ہو یا نہیں؟ اُس نے کہا: ہاں۔ میں نے کہا: تمہاری تار اس وقت جڑی ہوئی ہے، اگر تم میرے ساتھ آؤ گے تو شہید ہوجاؤ گے اور اپنے ساتھ مجھے بھی مرواؤ گے، تم یہیں ٹھہرو، ہمارا مرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے! "

دفاع مقدس کے سلسلے میں یادوں بھری رات کا 2۹۱ واں پروگرام، ثقافتی تحقیق، مطالعات اور پائیدار ادب کے مرکز اور ادبی و مزاحمتی فن کے مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام،۲۸ جون ۲۰۱۸ء کو  آرٹ گیلری کے سورہ آڈیٹوریم  میں منعقد ہوا۔ اگ


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 4159



http://oral-history.ir/?page=post&id=7973