تنہائی والے سال – بیسواں حصّہ

دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

کاوش: رضا بندہ خدا
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-07-31


مئی ۱۹۸۲ کے آخری دنوں میں، ایک رات جب ہم داستان سننے میں مصروف تھے، داستان لکھنے والے نے  اچانک  ،گھٹی ہوئی آواز میں  زور لگاتے ہوئے کہا:

- دوستوں، خرم شہر آزاد ہوگیا!

خدایا! ہم یہ کیا سن رہے ہیں؟ لوگ خوشی کے مارے نہ چاہتے ہوئے بھی خود کو کچھ کاموں سے نہیں روک پا رہے تھے؛  کوئی بغیر آواز کے اپنی انگلیوں کو چٹخا رہا تھا، ایک نے خاموشی سے اپنی مٹھیوں کا دبایا ہوا تھا اور ہونٹوں کو بھینچ رہا تھا،  کوئی قلابازیاں کھا رہا تھا اور اوپر نیچے اچھل رہا تھا، اور  کوئی ۔۔۔

ہم نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دی۔ سپاہیوں کیلئے دعا مانگی اور خیال ہی خیال میں امام کی خوشحال صورت کو  اپنے ذہن میں لائے   اور خوشی سے جھوم اٹھے۔ شاید ہم سب سے زیادہ ہمارے خوزستان کے ساتھی خوش تھے اور سجدہ شکر میں مصروف تھے ۔۔۔

اتنی خوشحال کر دینے والی خبر تھی کہ گویا  ہم لوگ آزاد ہو گئے ہوں۔ اس اہمیت کی حائل خبر کی وجہ سے ہم نے دوستوں کے ساتھ ایک مشورتی نشست منعقد کی  تاکہ کوڈ ورڈز کے ذریعے نیچے والے افراد کو اطلاع دیں۔ ہم نے یہ کام انجام بھی دیا اور  خرم شہر کے آزادی اور فتح کی خبر  کے علاوہ "فتح المبین" آپریشن میں ایران کی کامیابی کی بھی اطلاع دی۔ اور اُن کے اس بات سے آگاہ نہ ہونے کیلئے کہ ہمیں یہ بات کہاں سے پتہ چلی، ہم نے اُن سے کہا کہ ہمیں ہیڈکوارٹرلے گئے تھے ، وہاں پر ایک نئے قیدی کے ساتھ ایک ہی کمرےمیں رہنے کی وجہ سے مجھے یہ باتیں اُس سے پتہ چلیں۔

ان دنوں میں، ہمیں ایک عربی اخبار دیا جاتا تھا۔ خرم شہر کی فتح کے بعد اس کے باوجود کہ شکست نے عراقیوں کو عقب نشینی پر مجبور کردیا تھا، لیکن صدام نے بہت ہی زور و شور سے پروپگنڈہ مچا رکھا تھا کہ ہم صلح پسند لوگ ہیں اور ہم نے اسی وجہ سے ایران کی سرزمین کو ترک کر دیا ہے۔ ہمارے پاس تو عربی اخبار بھی آتا تھا اور ہم ریڈیو کے ذریعے حقیقت پر مبنی خبروں سے بھی آگاہ ہوجاتے تھے،  ہم واضح طور پر دیکھ رہے ہوتے تھے کہ وہ کس طرح مطالب کو تحریف کرکے  بیان کر رہا ہے۔ حتی اپنی شکست میں صلح پسندی کے نام سے تبلیغ  کر رہا تھا۔ حقیقت میں وہ نشرو اشاعت کے ذریعے سوء استفادہ کر رہا تھا؛ ایسا سوء استفادہ کہ درحقیقت اس کا شمار اُن شیطان صفت استکباروں میں ہوتا جسے صدام نے اُن سے سیکھا تھا۔

میں نے اپنی اسیری کے آغاز سے ہی، عراق کے عربی زبان اخباروں کے اندر، بہت زیادہ متضاد چیزوں کو مشاہدہ کیا تھا؛ مثلاً سن ۱۹۸۰ میں، "الرفیق" لفظ کو احترام کے طور پر تمام حکومتی عہدیداروں کے ناموں سے پہلے  - خاص طور سے صدام  کے نام سے پہلے– لکھتے تھے۔ پہلے صفحے پر ہمیشہ صدام کی تصویر چھپتی تھی  اور اس کے حالات صدر سے زیادہ کسی اداکار  سے ملتے تھے۔

یا، شروع میں بعثی پارٹی  کے اہداف و مقاصد کے بارے میں کوئی بات لکھتے تھے، باقاعدہ طور پر اعلان کرتے تھے کہ عراق کی بعثی پارٹی میں دین نام کی کسی چیز کا وجود نہیں ہے۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، حالات تبدیل ہوتے گئے؛ یہاں تک کہ عراقیوں فوجیوں کی مورچے میں – جو کل تک بیہودہ میگزین دکھاتے تھے – نماز پڑھتے ہوئے تصاویر کو چھاپنے لگے۔

یا، صدام کا ایک ایسا شجرہ بناتے جس میں  اُسے امام حسین  علیہ السلام سے نسبت  دیتے تھے۔ ایک دوست کے بقول، اگر ان کے فائدے میں اور اگر ان کو ضرورت پڑے تو یہ امام حسین کو اپنا خالہ زاد بھائی بنالیں۔

یا اُن کے فوجی بیانات بسم اللہ سے شروع ہوتے اور اپنے ڈویژنوں اور بریگیڈز  کے ناموں کو دینی عناوین اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے نام  سے بدل لیتے تھے۔

یا روزانہ یہ خبر لگائی جاتی کہ صدام نے فلاں  جگہ کی زیارت کی ہے۔

تقریباً انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک دن نگہبان آیا اور مجھے اور ایوی ایشن کے دو پائلٹوں کو آواز لگاکر بلایا اور کہا:

- تم لوگ تیار رہو، ہمیں کہیں چلنا ہے!

ہمارے ہاتھوں اور آنکھوں کو باندھ کر ہمیں گاڑی میں بٹھایا گیا۔ کوئی بات اور کسی سوال کرنے کی گنجائش نہیں تھی۔ گاڑی سے اترتے وقت ہم سمجھ گئے کہ یہ ہیڈ کوارٹر  کی جگہ ہے۔ لفٹ کے ذریعے اوپر جانے کے بعد، ہم اُسی راہداری میں داخل ہوئے جس کے دونوں اطراف میں لائن سے جیل کی کوٹھڑیاں بنی ہوئی تھیں۔ چیک پوسٹ پر، ہمارے پاس جو کچھ تھا ہم سے لے لیا گیا، رجسٹر میں ہمارا نام لکھا اور ہمیں ایک کمرے میں لے جایا گیا۔ ہمارے ساتھ جو نگہبان تھا میں نے اُس سے پوچھا:

- ہمیں یہاں پر کیوں لائے ہو؟

- نہیں معلوم

میرا روزہ تھا۔ دوپہر کے چار بج رہے تھے، لیکن کھانے کی کوئی خبر نہیں تھی۔

ایک بالکل خالی کوٹھڑی کے اندر  ہر کوئی ایک کونے میں بیٹھا ہوا تھا؛ ہمارے لئے صرف چچا نوروز کا مسئلہ پریشانی کا سبب تھا اور ہمیں  اس بات کا خوف تھا کہیں ایسا نہ ہو کہ اُس کی اطلاع عراقی بعثیوں تک پہنچ گئی ہو اور انھوں نے چھان بین کرنے کیلئے ہمیں یہاں بلایا ہو۔

کچھ منٹوں بعد، دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنائی دی، جو کہ مشخص تھا رات کا کھانا تقسیم کرنے کا وقت ہے۔ جب ہماری کوٹھڑی کے پاس پہنچے تو لاپرواہی سے آگے بڑھ گئے۔

تقریباً وہ وقت تھا جب دن کا اُجالا رات کی تاریکی میں ڈھل رہا تھا، ایسے میں بہت خوبصورت آواز میں اذان – کسی ایک کوٹھڑی سے-  کی آواز بلند ہوئی۔ مغرب ہوچکی تھی اور افطار کا وقت تھا؛ میں نے پانی سے روزہ کھولا۔

ہم نے دروازہ بجایا تو نگہبان آیا، ہم نے اُس سے کہا:

- کھانا اور کمبل کیوں نہیں دے رہے ہو؟

- مجھے نہیں معلوم، پوچھنا پڑے گا!

اذان سے پہلے، ایک شخص کسی کوٹھڑی کے دروازے کو بہت زور زور سے پیٹ رہا تھا۔ نگہبان بہت ہی غصے کی حالت میں ہمارے سامنے سے گزرا۔ ہم نے ایک قیدی کی آواز سنی جو عربی میں پوچھ رہا تھا:

- کیا ٹائم ہو رہا ہے؟

نگہبان نے دریچہ کھولا اور کہا:

- نہیں معلوم!

اور پھر دریچہ بند کرکے چلا گیا۔

دوبارہ ہاتھوں اور پیروں سے دروازہ پیٹنے کی آواز سنائی دی۔ اس کام کو چند دفعہ کیا گیا یہاں تک کہ شاید قیدی کو پتہ چل گیا کہ کیا ٹائم ہو رہا ہے، کیونکہ اُسی کے ساتھ ساتھ اذان کی خوبصورت آواز نے پورے ماحول  کو معطر کردیا تھا۔

اذان کے دو تین گھنٹے بعد، ایک دفعہ پھر اُس کی آواز فضا میں گونجنے لگی۔ اس دفعہ وہ بلند آواز میں دعا پڑھ رہا تھا، خداوند متعال کی بارگاہ میں مناجات کر رہا تھا، ائمہ معصومین (ع) کو پکار رہا تھا ۔۔۔ اور صبح تک یہ راز و نیاز کا سلسلہ جاری رہا۔ اُس نے صبح بھی اذان دی اور پھر خاموش ہوگیا۔

اس کے علاوہ، کسی بچے کے رونے کی آواز بھی  سنائی دے رہی تھی۔ ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ ہمارے سامنے والی تمام کوٹھڑیوں میں خواتین ہیں  کہ جن میں سے بعض کے ساتھ دودھ پینے والے بچے بھی ہیں۔

کبھی دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنائی دیتی اور اُس کے فوراً بعد کسی شکنجے میں پھنسی اور مار کھانے والی عورت کی چیخ و پکار کی آواز بھی  سنائی دیتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اس بات کا پتہ چلا کہ یہ عراقی خواتین، یا تو  رضاکارانہ مجاہد ہیں،  یا انقلابی اور مسلمان مجاہدوں سے منسوب ہیں، اُنہیں یہاں پر معلومات حاصل کرنے یا اقرار کرنے کیلئے لایا گیا ہے۔ شاید یہ بیس سے زیادہ کوٹھڑیاں خواتین کیلئے مخصوص تھیں۔

لیکن ہم لوگ خود، اُس رات ہمیں اپنی وضعیت کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلا اور پھر ہم تھکاوٹ کی وجہ سے لیٹے اور سو گئے۔ اگرچہ زمین کی سختی کو کم کرنے کیلئے کمبل اتنا موثر ثابت نہیں ہوتا تھا لیکن سردی سے بچنے کیلئے کافی مؤثر تھا۔ کیونکہ روشندان کی وجہ سے کوٹھڑی  کے اندر کی ہوا ٹھنڈی ہو جاتی اور بغیر کمبل کے سردی برداشت کرنا دشوار تھا۔ اور دو وقت کا کھانا نہ کھانے کی وجہ سے بھی مزید معاملہ خراب ہوگیا تھا اور ہم تینوں کی حالت اور وضعیت زیادہ اچھی نہیں تھی۔

اگلے دن بھی تقریباً ظہر تک معاملہ اسی طرح رہا، ہم نے دروازہ پیٹنا شروع کردیا۔ نگہبان آیا اور پہلے کی طرح کہا:

- بعد میں!

ہم دوبارہ ہاتھوں اور پیروں سے دروازہ پیٹنے پر مجبور ہوگئے۔  دوسرا نگہبان آیا اور غصے  کرتے ہوئے بولا:

- کیا ہوگیا ہے؟

- میں زندان کے کسی ذمہ دار افسر سے بات کرنا  چاہتا ہوں۔

- نہیں ہوسکتا!

- یا تم کسی ایک ذمہ دار افسر کو بلاؤ، یا ہم تمہیں ایک لمحہ کیلئے بھی سکون سے رہنے نہیں دیں گے۔

نفرت اور گھورتی آنکھوں کے ساتھ – جیسے کچھ سمجھ نہ آرہا ہو – جواب دیا:

- ٹھیک ہے۔ لیکن مغرب تک نہیں آئے گا!

عصر کے وقت، دریچہ کھلا اور سادہ لباس پہنے ہوئے ایک شخص نے ہماری کوٹھڑی کے اندر ایک نگاہ دوڑائی  اورپوچھا:

- تم لوگ چیخ و پکار کیوں مچا رہے ہو؟

- تم لوگ ہمیں یہاں کیوں لائے ہو، ہمیں کھانا کیوں نہیں دے رہے، کمبل اور سامان نہیں دے رہے، اس کی کیا وجہ ہے؟

- مجھے نہیں معلوم!

پھر دریچے کے پیچھے دیکھا اور کہا:

- یہاں لکھا ہے: "کل شی ماکو!"(یعنی ہر چیز منع ہے)

- کیوں؟ اگر تمہیں نہیں معلوم، تو پھر کس کو پتہ ہے؟

- میں پوچھ کر تم لوگوں کو بتاؤں گا۔

اور چلا گیا۔ ہماری نگاہیں دریچے  کے پیچھے ٹک گئیں۔

جب رات کا اندھیرا چھا گیا تو وہ واپس آیا اور کہا:

- آج رات سے تم لوگوں کو کھانا دیا جائے گا اور کل تمہارے لئے کمبل اور دوسرا سامان لایا جائے گا۔ اور ہاں، زندان کے ذمہ دار افراد بھی کل تم لوگوں سے ملاقات کریں گے۔

- جب تک تمہارے اس کام کی دلیل پتہ نہیں چلتی، ہم لوگ کھانا نہیں کھائیں گے۔ جتنا جلدی ہوسکے ہمیں ہمارے دوستوں کے پاس پہنچایا جائے۔

اگر ہم سنجیدہ طریقے سے اقدام نہ کرتے تو ہمیں لمبے عرصے کیلئے وہیں پر  رکھا جاتا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اگر ان لوگوں نے ہمیں کھانا دیا، ہم اُن پر اعتراض کرتے ہوئے کھانا نہیں کھائیں گے۔ اُس رات کھانا دیا گیا، لیکن ہم نے نہیں کھایا۔ اگلے دن ناشتہ بھی لائے، ہم نے پھر بھی نہیں کھایا!

دو دن کی بھوک اور شدید ناتوانی  نے ہم تینوں کو  عذاب میں مبتلا کردیا تھا، اس کے باوجود ہمارے لیے جو چیز زیادہ اہمیت  کی حامل تھی، وہ یہ تھی کہ ہمیں اپنی وضعیت کے بارے میں پتہ چلے۔ اسی وجہ سے، ہمیں اپنے مقصد کیلئے اس سے اچھا اور فوری طریقہ سمجھ نہیں آیا۔

نگہبان کو جب قضیہ کا پتہ چلا، اُس نے آکر کہا:

- تم لوگ کھانا کیوں نہیں کھا رہے ہو؟

ہم نے اُسے بھی اس کام کی مکمل وضاحت دیدی؛ اُس نے کہا:

- تم لوگ کھانا کھالو، میں زندان کے مسئولین کو بتادوں گا اور میں تمہاری باتیں اُن تک پہنچادوں گا۔

- نہیں!

ظہر بھی اسی طریقے سے گزر گئی۔ ظہر کے بعد نگہبان آیا اور پوچھا:

- تم میں سے ہوشنگ کون ہے؟

- میں ۔۔۔

جاری ہے ۔۔۔۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3243



http://oral-history.ir/?page=post&id=7959