زبانی تاریخ میں اسناد و مدارک کی اہم ترین کارگردگی

اکرم دشتبان
ترجمہ: سید نعیم شاہ نقوی

2018-07-27


ایران کی زبانی تاریخ کی سائٹ کی رپورٹ کے مطابق " زبانی تاریخ کے میدان میں اسناد اور حوالہ جات نے کس حد تک عقدہ کشائی کی ہے؟" کا موضوع ایک ایسا موضوع ہے جس کے متعلق محقق  و مورخ رحیم نیک بخت کا کہنا ہے کہ: "آج عصر تاریخ کی جدید تحقیقات و مطالعات کے حوالے سے کتابی منابع کے علاوہ دو دیگر منابع بھی ہمارے سامنے موجود ہیں جو اسنادی آرکائیو اور زبانی منابع پر مشتمل ہیں۔ زبانی منابع سے مراد انٹرویو، تقریر، ریڈیو اور ٹیلی ویژن پروگرام ہیں۔ آرکائیو منابع بھی شروع سے آخر تک تحقیقی مراحل میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ مطالعاتی مرحلے میں، انٹرویو کے لئے تحقیقی مواد کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ تدوین کے مرحلے میں انٹرویو، اسناد ومدارک کا محتاج ہوتا ہے۔ یعنی حقیقت میں اسناد اور زبانی تاریخ دو پَر ہیں جن کے سہارے ایک تحقیقی کام ہمعصر تاریخ میں پرواز کرتا ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ تحریری اسناد اور منابع کے ساتھ جب زبانی تاریخ تکامل کے درجے کو پہنچتی ہے تو وہ خود ایک تحقیقی اور مستند منبع میں بدل چکی ہوتی ہے۔ انھوں نے گفتگو  جاری رکھتے ہوئے کہا کہ چونکہ ہمارا کام زبانی تاریخ کے حوالے سے ایک تحقیقی کام ہوتا ہے اس لئے ہماری نظر میں سند جیسے سینئر ذرائع کی رپورٹ یا ذمہ دار افراد کی اطلاعات  جن کی باقاعدہ  فائل بنی ہوتی ہے، ایسی سند کی ہماری نظر میں کچھ خصوصیات ہیں مثلاً تاریخی اہمیت کی حامل ہو یا اس کی تاریخ درج ہو۔ کوئی موضوع ہو اور  متن ہو۔ اسناد جمع کرنے والا شخص معلوم ہو یا جہاد سے سند کو پیش کیا جا رہا  ہے  وہ ایک تاریخی واقعہ کی اثبات یا نفی میں کارآمد ہو۔

جناب نیک بخت نے زبانی تاریخ کے انجام پانے کے مختلف مراحل میں اسناد کی اہمیت کو  ناقابل انکار جانتے ہوئے کہا کہ: "گزرتے ہوئے تاریخی واقعات کی کوئی نہ کوئی مستند رپورٹ ضرور بنتی ہے۔ اس طرح کی رپورٹیں ، وقت، جگہ اور حادثہ کے رونما ہونے کی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے "زبانی تاریخ " کی مدد  کرتی ہیں کیونکہ "زبانی تاریخ" کے لئے ہی اطلاعات و معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں۔ تمام تر توجہ اس بات پر مرکوز رہنی چاہیے کہ  زبانی تاریخ کی گزارشات میں د قت جیسے  حوادت کے وقت اور جگہ کو معین کرنے اور  حوادث رونما ہونے کی کیفیت اور طریقہ  دقیق طور پر پائی جانے والی اسناد میں نہیں ہے  اور راوی کے مقام و منزلت کو نظر میں رکھتے ہوئے،  گزارشوں کی کیفیت اور کمیت متغیر ہوتی ہے۔ اور دوسری طرف سے یہ بات بھی اہم ہے کہ زبانی تاریخ میں کسی واقعہ کے وقوع ہونے سے پہلے کے مقدمات اور وقوع کے بعد  کے حاصل ہونے والے نتائج کو مختلف زاویوں سے بیان کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زبانی تاریخ کی نگارش میں اسناد و مدارک کی انتہائی زیادہ اہمیت ہے کیونکہ درحقیقت  یہ اسناد و مدارک  اور حوالہ جات ہی زبانی تاریخ کے ثمرے کو پایہ تکمیل تک پہنچا رہی ہوتی ہیں وہ زبانی تاریخ کہ جس کے مختلف مراحل میں زبانی معلومات جمع کرنے، مذکورہ حادثے میں موقع پر موجود اور مربوط افراد سے انٹرویو لینا پھر ان انٹرویو کو تدوین و تحریر کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

انھوں نے زبانی تاریخ میں اسناد کی اہمیت کو مزید بیان کرتے ہوئے کہا: وہ اسناد جو انتظامی اداروں، حفاظتی یا سیاسی اور اداری شعبوں میں تیار ہوتی ہیں  وہ اداروں اور تنظیموں کی نوعیت کی ہوتی ہیں کہ یہ اسناد بنانے والا ادارہ کون سا ہے، نیز رپورٹ دینے والا خود جائے وقوعہ سے دور تھا یا نزدیک تھا۔ واقعہ کے اندر کی صورت حال، رپورٹ میں پیش کئے گئے موضوع پر گرفت، رپورٹ تیار کرنے والے افراد کی تربیتی حوالے سے مثبت یا منفی نکات وغیرہ، یہ تمام کی تمام چیزیں رپورٹ میں پیش کی گئی معلومات کی کمیت اور کیفیت پر اثر انداز ہوتی ہیں اور  انہی کی کسوٹی پر تیار شدہ سند وثوق اور مقبولیت کے اعتبار سے مختلف مراتب کی حامل ہوگی۔ ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے تاریخ کے محقق کو مکمل گرفت حاصل ہونا ایک لازمی  امر ہے تاکہ (اس) محقق کی پیش کردہ تحقیقات زیادہ سے زیادہ اعتبار کی حامل  ہوں اور زیادہ سے زیادہ قابل استفادہ ہوں۔

جناب نیک بخت نے ان پانچ موارد کی جانب بھی اشارہ کیا جو زبانی تاریخ کے انجام پانے کے مختلف مراحل میں اسناد کی کارکردگی سے متعلق ہیں اور پھر ان کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا: سب سے پہلے اسناد کی بنا پر مطلوبہ واقعہ کے رونما ہونے کا صحیح وقت اور صحیح جگہ کا تعین ہے کیونکہ زبانی تاریخ  میں بہت سے اقوال میں سے درست تاریخِ وقوعہ تک رسائی پانا غالبا ناممکن ہی ہوتا ہے کیونکہ متضاد آراء کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہاں جب حادثے کے وقوع کی جگہ اور وقت کا تعین حاصل ہوجائے تو پھر موقع پر موجود افراد کی اہمیت بھی دو چند ہوجاتی ہے اور اس کے ساتھ اس بات کی طرف توجہ رہنی چاہیے کہ [زبانی یا تحریری] انٹرویو کے وقت بھی اسناد کو بروئے کار لایا جائے تاکہ افراد کی بہتر سے بہتر انداز میں شناخت ہوسکے۔"

انھوں نے دیگر موارد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ: واقعہ کے عینی گواہوں سے سوال جواب اور انٹرویو کے حوالے سے وہ سوالات  بھی شامل کرنے چاہئیں جو محقق نے اپنے موضوع کی تحقیق میں دیگر منابع سے حاصل کیے ہیں۔ گو، یہ مرحلہ تکراری ہوجائے گا لیکن پختہ تر نتائج سامنے آئیں گے۔ محقق خود مبہم زاویوں کو مدنظر رکھ کر سوالات اٹھائے گا جبکہ انٹرویو کے اپنے نتائج برآمد ہوں گے۔ انٹرویو کے بعد اب زبانی تاریخ کی تدوین کے  لئے زبانی واقعات کی تیاری کے مراحل میں بھی یہ اسناد ہی ہوں گی جو تحریری مواد کی فصل بندی کے سلسلے میں  محقق کی مدد کریں گی کیونکہ صرف اور صرف بیان شدہ واقعات کی بنا پر واقعات کے رونما ہونے میں مطلوبہ دقت حاصل نہیں کی جاسکتی کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ روایات نقل کرنے میں یہ تسلسل ٹوٹتا دکھائی دیا ہے جبکہ اسناد میں واقعہ کی درست تاریخ مل جاتی ہے اور اسی کو مدنظر رکھ کر زبانی مطالب اور واقعات کو مرتب کیا جاسکتا ہے۔

جناب نیک بخت نے مزید بتایا کہ : زبانی تاریخ کی تدوین میں اسناد کی سب سے اہم کارکردگی بلاشبہ ان اسناد سے استفادہ کرنا ہے جن کے صحیح ہونے کا یقین محقق کو ہے اور اسی طرح وہ زبانی واقعات بھی ہیں جو مختلف زاویوں سے کسی ایک خاص موضوع  کے متعلق حاصل ہوئے ہیں۔ ان اسناد کی ترتیب وار لسٹ بنائی جاتی ہے جو واقعہ کو دور سے یا نزدیک سے نقل کرنے کی اساس پر تیار کی  جائیں اور ان کی تصحیح یا عدم تصحیح کو مختلف طریقوں سے پرکھا جاتا ہے اور یہ سب زبانی تاریخ کے محقق کو کرنا ہوتا ہے۔

آخر میں انھوں نے کہا: زبانی تاریخ میں واقعہ کے رونما ہونے سے پہلے کے واقعات، اور ان کی کیفیت، زمینہ سازی، موضوع کی ماہیت، موضوع میں موثر عوامل، جو واقعہ کے رونما ہونے (وقت، جگہ اور تاریخی تسلسل کو نظر انداز کرتے ہوئے) فوری نتائج، اور دور رس نتائج پر بحث کی جاتی ہے۔ ان تمام تر امور کے ساتھ ساتھ و اقعہ کے وقت، کمیت اور کیفیت موقع پر موجود افراد، انجام دی گئی تحقیقات اور اقدامات اور ان کے رد عمل میں اسناد،  مربوط اداروں میں بہت  سی گتھیوں کو تاریخ کی ترتیب سے سلجھا دیتی ہیں اور کچھ موارد میں کچھ واقعات جو عینی شاہدین کے اذہان سے اڑ چکے ہوتے ہیں یا پھر ماند پڑ چکے ہوتے ہیں یہ اسناد ہی ان "بھولے بسرے واقعات" کو پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہیں۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3678



http://oral-history.ir/?page=post&id=7948