بہشت زہرا (س) میں موجود ایک یادگار تصویر کی کہانی

دھماکے کے بعد کا لمحہ

گفتگو: مہدی خانبان پور
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-07-14


۲۷ ویں محمد رسول اللہ (ص) ڈویژن کی انصار الرسول (ص) بٹالین کے شہداء کی سترہویں تقریب، جو ۳۰ نومبر ۲۰۱۷ء کو آرٹ شعبے کے اندیشہ ہال میں منعقد ہوئی، اس تقریب میں ایک موقع پر بہشت زہرا (س) کے مشہور شہید کے بھائی اور دوست سے ایران کی زبانی تاریخی سائٹ کے ذریعے مختصر سے گفتگو انجام پائی۔ جسے آپ پڑھنے جا رہے ہیں۔ سن ۱۹۶۱ء میں پیدا ہونے والے ، انصار بٹالین کے وائرلیس آپریٹر امیر حاج امینی، یکم مارچ ۱۹۸۷ء کو کربلائے ۵ آپریشن میں جام شہادت نوش کرلیتے ہیں۔

 

وحید حاج امینی

 

آپ اپنا تعارف کروائیں۔

میں وحید حاج امینی ہوں اور مجھے جنگ کے زمانے میں انصار بٹالین کے افراد کے ساتھ رہنے پر فخر ہے۔

 

آپ شہید حاج امینی کے بھائی ہیں، جن کے چہرے کی تصویر مشہور ہے اور شاید ایک طرح سے عالمی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ ہمیں شہید حاج امینی کے بارے میں کچھ بتائیں۔

کچھ دلائل کی وجہ سے شہید امیر حاج امینی کے بارے میں بات کرنا میرے لئے دشوار ہے۔ امیر کے ساتھ زندگی گزارنا ایک الگ ہی دنیا اور جہان کا مزہ رکھتا تھا۔ امیر کے ساتھ میرا بہت اچھا تعلق تھا۔ میں امیر کا چھوٹا بھائی تھا۔ ہمارے سن و سال میں چار سال کا فرق تھا۔  حالانکہ ہم دونوں بھائی تھے اس کے باوجود ایک دوسرے  سے بہت نزدیک اور دوست تھے۔ میرے پاس امیر کی بہت سی یادیں  ہیں۔ جب ہم امیر کے وصیت نامے کو ملاحظہ کرتے ہیں،  جس طرح کہ وہ خود بہت با اخلاق فرد تھے اُن کے وصیت نامے سے بھی اخلاق کی بو آتی ہے۔ اُن کے وصیت نامے کے آخر میں چند بہت ہی پیاری باتیں موجود ہیں۔ وہ لکھتےہیں: "با نشاط اور ملنسار رہو۔ کبھی بھی جلدی فیصلہ نہیں کرنا۔ ہرگز جھوٹ نہیں بولنا۔"جب ہم ان جملوں کو دیکھتے ہیں، شاید ایک مسلمان انسان کی مکمل زندگی کا یہی طریقہ کار ہو۔ وہ خود بھی واقعاً اسی طرح کے تھے۔ بہت ہی با اخلاق تھے۔ وہ کسی کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔ وہ خود کو کسی کے بارے میں رائے قائم کرنے کا حق نہیں دیتے تھے۔ اُن کے اندر اتنا جوش و ولولہ تھا کہ چاہے اُن کی زندگی کا زمانہ ہو یا اُن کی شہادت کے بعد انھوں نے بہت سارے لوگوں کو اپنے تحت تاثیر قرار دیا۔ اسی تصویر نے ہمارے لیے بہت سے واقعات ایجاد کئے ہیں؛ ایسے لوگ جنہوں نے اس تصویر سے رابطہ برقرار کیا اور ایسے افراد جو اس تصویر کی وجہ سے تبدیل ہوئے۔ امیر ایک مہربان دل کے مالک تھے۔ وہ اپنی ذاتی زندگی میں، ادارے سے ملنے والی تنخواہ کا ایک حصہ یتیم بچوں پر خرچ کردیتے۔ وہ اس بات پر بہت زیادہ تاکید کرتے تھے۔ حتی وہ خط جو انھوں نے مجھے لکھا تھا اور انھوں نے اپنے وصیت نامے میں، مجھے تاکید کی تھی کہ فلاں خاندان کو فراموش نہیں کرنا۔ جس وقت امیر کی شہادت ہوئی امیر کے پاس متاع دنیا میں سے کچھ نہیں تھا۔ اور کسی کو اس بارے میں بھی نہیں پتہ تھا کہ اُن کی تنخواہ یتیم بچوں پر خرچ ہو جاتی ہے۔

 

آپ ہمیں اپنی نوجوانی کا کوئی واقعہ سنائیں۔

خدا ہمارے والد کی مغفرت کرے، بہت ہی اچھے انسان تھے۔ انھوں نے  مجھے اور امیر کو قرآن کی کلاس میں داخلہ دلوایا۔ ہم مغرب و عشاء کی نماز میں عام طور سے محلے کی مسجد میں ہوا کرتے تھے۔ ہمارا گھر قلعہ مرغی نامی محلے میں تھا اور ہمارے گھر سے مسجد سید الشہدا (ع)  تک تین گھروں کا فاصلہ تھا۔ امیر مؤذن اور مکبر تھے۔ وہ مجھے بھی سکھاتے اور کہتے: "تمہیں بھی اذان دینی چاہیے اور مکبر بننا  چاہیے۔" شروع میں مجھے شرم آتی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ میرے اندر حوصلہ بڑھتا گیا اور میں بھی ایک عرصے تھ مکبر اور موذن رہا۔ مسجد میں عقائد کی کلاس بھی منعقد ہوتی تھی۔ امیر کلاس کے اچھے شاگردوں میں سے تھے۔ استاد ہر کچھ عرصے بعد امتحان  رکھ لیتے تھے۔ سب لوگ مسجد کے صحن میں بیٹھ جاتے، امتحانی کاغذ تقسیم ہوتے اور امتحان شروع ہوجاتا۔ ان امتحانوں میں سے کسی ایک امتحان میں مجھے ایک سوال کا جواب نہیں آرہا تھا۔ میں نے امیر کی طرف اشارہ کیا کہ اس سوال کا جواب کیا ہوگا؟ وہ ہنسے اور مجھے سوال کا جواب بتایا۔ بیچارے نے ایک سوال کا غلط جواب دیدیا تھا۔ مجھے نہیں بھولتا اُس امتحان میں میرے بیس میں سے بیس اور امیر کے بیس میں اُنیس نمبر آئے تھے۔ امیر اس بات پر کہ اُس کے چھوٹے بھائی نے پورے بیس نمبر لیے ہیں بہت خوش ہوئے تھے۔ مجھے یہ واقعہ کبھی نہیں بھولتا۔ چونکہ امیر مجھے بہت پسند کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے سب کے لبوں پر مسکراہٹ رہے، خاص طور سے میں جو اُن کا چھوٹا بھائی تھا۔

 

آپ لوگ جب محاذ پر موجود تھے ، آپ کو اُس وقت کا کوئی واقعہ یاد ہے؟

امیر کی شہادت سے پہلے میں کمیل بٹالین میں تھا، اُس کے بعد میں صحت و صفائی کے یونٹ میں چلا گیا۔ امیر کی شہادت کے بعد میں انصار بٹالین میں آگیا۔ جس زمانے میں صحت و صفائی کے ادارے میں تھا ہم کرخہ ہیڈ کوارٹر میں تھے جو ۲۷ ویں  ڈویژن  کے مستقر ہونے کا مقام  تھا۔  ہم ہیڈ کوارٹر کے ابتدائی حصے میں تھے اور انصار بٹالین ہیڈ کوارٹر کے انتہا میں تھی۔ میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ میرا بھائی انصار بٹالین میں ہے، میں اُس سے مل کر آنا چاہتا ہوں۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ امیر اور اُس کے دوستوں کے خیمے میں آیا۔ امیر کے دوستوں نے میرے اور میرے دوستوں کے آنے کی وجہ سے ، جن میں سے زیادہ تر پہلی بار محاذ پر آئے تھے اور ابھی تک محاذ کی ثقافت سے آگاہ نہیں ہوئے تھے، اُن کیلئے نوحہ اور ماتم کا پروگرام رکھا۔ میرے ساتھی بہت خوش ہوئے، اس بات سے بے خبر کہ وہ لوگ ویڈیو بنانا چاہتے ہیں! لائٹیں بند کردی گئیں۔ پروگرام کو شروع کیا، مجلس کی تقریب میں زورو کی داستان شروع ہوگئی۔ مجھے کبھی بھی نہیں بھولتا۔ میرے ایک دوست  کو بہت غصہ آرہا تھا، لیکن میرا ایک اور دوست بہت زیادہ ہنس رہا تھا۔ البتہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہ محاذ کی شوخیوں سے آگاہ ہوگئے اور اُنہیں اس کی عادت ہوگئی۔ امیر بہت ہی منظم انسان تھے  اور اُن کے جسمانی خد و خال بہت مناسب تھے۔ فوجی مشقوں میں، پہاڑ پر چڑھائی اور دوڑ میں کبھی پیچھے  نہیں رہے۔ ایک دفعہ جب میں وہاں پہنچا تو وہ لوگ میرے چہرے سے سمجھ گئے کہ میں امیر کا بھائی ہوں۔ سب چلانے لگے: "حاجی تمہارا بھائی آیا ہے۔" اُس کے بعد انھوں نے مجھ سے کہا: "تمہیں خدا کا واسطہ اپنے بھائی کو نصیحت کرو۔ جب ہمیں مشقیں  کرانے کیلئے لے جاتے ہیں تو ہمیں اتنا دوڑاتے ہیں کہ ہماری حالت بری ہوجاتی ہے!" لیکن اس کے باوجود وہ لوگ امیر سے بہت اُنس رکھتے تھے۔

 

امیر کی شہادت کے وقت آپ کہاں تھے؟

میں تہران میں تھا۔ میں اُس وقت تہران یونیورسٹی میں ویٹرنری کا طالب علم تھا۔ میرے پاس ۱۲۵ موٹر سائیکل تھی۔ میں ظہر کے وقت یونیورسٹی سے گھر پہنچا۔ ابھی میں موٹر سائیکل پر بیٹھا ہوا ہی تھا کہ اسی حالت میں میرے ایک دوست نے آکر مجھ سے کہا: " اپنے آپ کو کنٹرول رکھو، امیر شہید ہوگیا ہے!"مجھے شاک لگا۔ میں موٹر سائیکل پر آرام سے گلی کے کونے تک آیا۔ گلی کے اندر کوئی نہیں تھا۔ ہماری گلی کے کونے پر ایک سبزی  کی دوکان تھی۔ دوکان بند تھی۔ میں دوکان کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔ میں نے اپنے سر کو نیچے جھکایا اور رونا شروع کردیا۔  مجھے اپنی حالت کے بارے میں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ مجھے واقعاً شاک لگا تھا۔ ہم چار بھائی تھے۔ میرے ایک بھائی کو پہلے ہی پتہ چل گیا تھا۔ امیر یکم مارچ ۱۹۸۷ء کو کربلائے ۵ آپریشن کے تکمیلی مرحلے میں شہادت پر فائز ہوگئے۔

 

عباس نور محمدی

 

اپنے بارے میں اور امیر حاج امینی کے روز  شہادت کے بارے میں بتائیں؟

میں عباس نور محمدی ہوں۔ میں کربلائے پانچ آپریشن میں گروپس کا کمانڈر تھا۔ امیر حاج امینی انصار بٹالین میں وائرلیس آپریٹر تھے  جو یکم مارچ ۱۹۸۷ء کو شلمچے  میں ہونے والے کربلائے ۵ آپریشن میں شہید ہوگئے۔ بہت ہی کٹھن دن تھا۔ ہمیں خبر دی گئی کہ بٹالین کے ڈپٹی اور بٹالین کے وائرلیس آپریٹر جو امیر حاج امینی تھے ، کے ساتھ مل کر دشمن پر حملہ کرنا ہے۔ میں نے سب سے موافقت کی اور ہم آگے بڑھ گئے۔ ہم نے کچھ راستہ گاڑی کے ذریعے اور باقی راستہ پیدل طے کیا۔  راستے میں کچھ دھماکے ہوئے  جن کی وجہ سے کچھ لوگوں کی شہادت ہوگئی۔ جس طرح بھی تھا ہم گئے اور دشمن کی لائن پر قبضہ کرلیا۔ دن کا اُجالا ہوتے ہی دشمن نے جوابی کاروائی شروع کردی۔ امیر حاج امینی اور ایک دوسرا وائرلیس آپریٹر میرے آگے تھے۔ عراقیوں نے بہت ہی خطرناک جوابی حملہ کیا تھا اور ہم نے تمام مشکلات کے ساتھ اُن کا جواب دیا۔ ظہر کے وقت فرنٹ لائن پر نسبتاً پر کچھ سکون ایجاد ہوا۔ ہم مورچوں کے پیچھے تھے۔ امیر حاج امینی میرے ساتھ تھے۔ حاج محمد پور احمد، بٹالین کے کورئیر حسن توران پشتی اور بٹالین کے سپلائر قاسم فراہانی بھی تھے۔ ایک اور وائرلیس آپریٹر جناب  ارجمندی بھی تھوڑا دور بیٹھے ہوئے تھے۔ عراقیوں سے ہمارا فاصلہ بہت کم تھا۔ اسی طرح مورچوں کے پیچھے بیٹھے ہوئے  امیر حاج امینی وائرلیس پر بٹالین سے بات کر رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے: "سرحدی حدود ہمارے اختیار میں ہے، ہم کامیاب ہوگئے ہیں۔" ماحول کے پرسکون  ہونے کی وجہ سے ہم سب ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک ایک بہت ہی خطرناک دھماکہ ہوا۔ امیر حاج امینی سینے کے بل مورچے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے اور بات کر رہے تھے۔ جب دھماکے سے اُٹھنے والا گرد و غبار چھٹا، ہم نے امیر کو بہت ہی پرسکون حالت میں دیکھا کہ وائرلیس کا فون ابھی تک اُن کے دائیں ہاتھ میں تھا۔ اس کے برعکس میں فریاد اور واویلا کر رہا تھا، چونکہ میں بری طرح زخمی ہوگیا تھا اور مجھے بہت شدید درد  ہورہا تھا۔ جب یہ حادثہ پیش آیا تو بالکل ظہر کی اذان کا وقت تھا اور یہ مشہور تصویر  اُنہی لحظات  اور ابتدائی لمحات میں لی گئی ۔ امیر کا جسم ابھی گرم تھا اور ابھی امیر کے چہرے پر خون کے قطرے مکمل طور پر بہے بھی نہیں تھے۔  شاید یہ تصویر امیر کے آخری وقت اور جان دینے کے وقت کی ہو۔

 

اگر آپ کو شہید امیر حاج امینی کا کوئی واقعہ یاد ہے تو  ہمارے لیے بیان کریں۔

امیر حاج امینی ہمارے بہترین فوجیوں میں سے ایک تھے۔ بہترین قد اور بہت ہی مہربان شکل و صورت والے تھے۔ اُن کی آواز بہت اچھی تھی اور وہ نوحہ خوانی کرتے تھے۔ جب وہ قطار میں لگتے تو اُن کا سر دوسرے افراد سے بلند ہوتا تھا۔ بہت اچھی شخصیت کے مالک تھے۔ بہت با ادب انسان تھے اور امیر کی جو بات مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ یہ کہ یہ شہید بہت ہی صاف ستھر ا اور بہترین لباس  پہنتے تھے۔ تمام لوگوں میں امیر سب سے زیادہ خوش پوش اور سجیلے تھے۔ بہت ہی باوقار تھے۔  وہ قد ، جسامت اور نظم و ضبط جو اُن کے اندر تھا اور اُن کے پہننے کا طریقہ بٹالین کے تمام افراد کی زبانوں پر رہتا تھا۔ بہرحال اس حادثے میں امیر حاج امینی، حاج محمد پور احمد اور قاسم فراہانی شہید ہوگئے۔ میں اور حسن توران پشتی بھی زخمی ہوگئے اور جناب ارجمندی جو وائرلیس آپریٹر تھے اُن کی آنکھیں زخمی ہوئی اور متاسفانہ وہ نابینا ہوگئے۔

 

فتح اللہ نادعلی

 

جناب نادعلی آپ شہید حاج امینی کے دوستوں میں سے ہیں، اُن کی شہادت کے وقت کے بارے میں ہمیں بتائیں۔

میں فتح اللہ نادعلی ہوں، انصار الرسول (ص) بٹالین کے فوجیوں میں سے ایک۔ ایک دن کربلائے پانچ آپریشن کے دوران ظہر کا وقت تھا۔ ہمارے فوجیوں اور عراقیوں کے درمیان شدید جھڑپیں  ہو رہی تھیں۔ جھڑپیں ہونے کی جگہ کے کم فاصلے کو نظر میں رکھتے ہوئے دشمن کی فائرنگ کی شدت بہت زیادہ تھی۔ مشہور کہاوت کے مطابق  زمین کے ایک ایک حصے کو کھود ڈالا تھا۔ مورچوں کو اُڑا دیا گیا تھا اور ہر کسی نے مورچوں کے پیچھے اپنے لیے ایک پناہ گا بنائی ہوئی تھی۔ افراد نے ایک دو راتوں سے آرام نہیں کیا ہوا تھا اور بہت تھکے ہوئے تھے۔ جب علاقہ تھوڑا پرسکون ہوا تو لوگ آرام کرنے لگے۔ البتہ ایسا نہیں تھا کہ دشمن کی فائرنگ رک چکی تھی ، بلکہ اُس کی شدت میں تھوڑی کمی آگئی تھی اور جیسا کہ افراد آرام کر رہے تھے دشمن کی طرف سے فائرنگ بھی ہو رہی تھی۔ میں نے بھی آرام کرنے کیلئے کچھ اینٹوں، پتھروں اور گولیوں کے ڈبوں سے ایک مورچہ سا بنالیا تھا، اس طرح سے کہ میرا جسم  محفوظ رہے۔ میں بہت تھکا ہوا تھا ، میں نے سوچا تھوڑی دیر آرام کرلوں۔ اسی وقت ایک جوان فوٹو گرافر جو پہلے ہماری بٹالین میں تھا، میرے پاس آیا اور اُس نے میرے چھوٹے سے مورچے میں اپنی جگہ بنالی۔ وہ آج کے مشہور فوٹو گرافر جناب احسان رجبی تھے  اور یہ مشہور تصویر بھی اُن سے متعلق ہے۔ احسان ایک فوٹو کھینچے والے کیمرے کے ساتھ جو حقیقت میں اُن کا اسلحہ تھا، مورچے میں داخل ہوئے  اور میرے برابر میں لیٹ گئے۔ احسان کو آئے ہوئے تقریباً کچھ منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ مارٹر گولے کی ایک خطرناک آواز سنائی دی۔ پہلے مرحلے میں ہمارے لیے یہ معمولی سی بات تھی۔ اس طرح کے کئی شیل ہمارے سروں پر سے گزرے تھے اور ہم نے نہیں سوچا تھا کہ کوئی نقصان بھی ہوا ہوگا۔ دھماکے کی لہر کی وجہ ہمارا مورچہ  خراب ہوگیا اور پتھر، اینٹ اور گولیوں کے ڈبے اچھلے اور ہمیں بھی تھوڑی چوٹیں لگیں۔  حتی احسان کا کیمرہ بھی اچھل کر گر گیا تھا اور دھماکے کے کچھ سیکنڈ بعد احسان اپنے کیمرے کی تلاش  میں تھا۔ یہی وقت تھا کہ  مجھے کسی کے اللہ اکبر کہنے کی آواز نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ جب میں نے دیکھا تو حسن توران پشتی بری طرح زخمی ہوگیا  ہے اور اسی حالت میں تکبیر کہہ رہا ہے۔ کچھ اور افراد جیسے حاج عباس نور محمدی مورچوں سے تھوڑا دور زخمی ہوچکے تھے۔ حاج امینی، پور احمد اور فراہانی ہمارے مورچے کے ساتھ آرام کر رہے تھے کہ شیل  آکر زمین پر لگا اور اُس کے ٹکڑے ان عزیزوں کو لگے، اس طرح سے کہ پور احمد تقریباً ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تھا اور حاج امینی کے ہاتھ میں ابھی تک وائرلیس کا فون تھا اور اُن کے چہرے سے خون بہہ رہا تھا۔ میں اُن کے پاس پہنچا۔ وائرلیس کو اُن سے الگ کیا۔ اُن کی جیب میں جو کوڈ تھے، میں نے اُنہیں نکال لیا یہاں تک کہ  تعاون کرنے والے افراد پہنچ گئے اور اس شہید کے جنازے کو پیچھے کی طرف لے گئے۔ میں زخمیوں کی مدد کرنے گیا، جن میں سے ایک حاج عباس نور محمدی۔ میں نے خود اُن کے زخموں کی پٹی کی۔ ہمارے پاس اسٹریچر نہیں تھا۔ ہم نے اُنہیں دو ٹوٹے ہوئے اسلحوں پر ڈالا  اور چند کلومیٹر پیچھے تک لے آئے یہاں تک کہ ایمبولنس تک پہنچ گئے۔

 

احسان رجبی نے کس وقت یہ تصویر کھینچی؟

بہت عجیب ہے۔  چونکہ اُس زمانے میں ڈیجیٹل کیمرے نہیں تھے کہ دیکھ سکیں تصویر کی کیفیت اچھی ہے یا نہیں۔ جب دھماکہ ہوا اور اُس کی موج ہمارے مورچے سے بھی ٹکرائی، احسان کا کیمرا بھی گر گیا اور حتی اس کے بعد جب ہمارے حواس بحال ہوتے، کہ میں شہدا اور زخمیوں  کی طرف جاؤں اور احسان اپنے کیمرے کو ڈھونڈتا ۔ یہ اس تصویر کے بارے  میں ہونے والے معجزات میں سے ایک ہے؛ اُس نے مٹی کے نیچے سے کیمرے کو ڈھونڈ لیا، اُس نے مٹی سے اٹے رومال سے اُس کے لنز کو صاف کیا اور تصویریں کھینچنا شروع کردیا۔ اُس نے شہید پور احمد، شہید حاج امینی اور شہید فراہانی کی تصویریں بنائیں۔ جب ہم زخمیوں کی پٹی کر رہے تھے اُس وقت کی بھی تصویر کھینچی۔ یہ تصویر شاید دھماکہ ہونے کے بعد والے لمحہ میں کھینچی گئی ہے۔ اگر آپ غور سے اس تصویر کو دیکھیں  تو امیر کے سر سے تازہ خون بہہ رہا ہے۔ میں نے امیر کے ہاتھوں سے وائرلیس لیا، اُن کے ہاتھ کو اُن کے جسم کے ساتھ رکھا اور زخمیوں کے پاس چلا گیا اور احسان نے تصویریں بنانا شروع کردیں۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 4496



http://oral-history.ir/?page=post&id=7917