تنہائی والے سال – سولہواں حصّہ

دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

کاوش: رضا بندہ خدا
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-06-19


اُس کے جانے کے بعد، میں نے کیمپ کے کمانڈر، لوگوں اور خاص طور سے ہمارے اپنے خوزستان کے مترجم – جناب علی نیسانی – جنہوں نے میری باتوں کا ترجمہ کیا، کا شکریہ ادا کیا۔ یہ مترجم بھائی، پہلے بری فوج کے کسی عہدے پر فائز تھا اور خوزستان کا رہنے والا تھا، اسے بہت اچھی عربی آتی تھی ، وہ خود بتاتا ہے:

- مجھے آپ لوگوں سے زیادہ اذیت اور شکنجوں میں رکھا گیا ہے! چونکہ بعثی  مجھ سے کہا کرتے: "تم تو عرب ہو، ہم سے کیوں جنگ کرتے ہو" اور وہ مسلسل مجھے سے اپنے ساتھ تعاون کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

البتہ اُس نے کبھی بھی عراقیوں کی بات نہیں مانی اور اُنہیں ہمیشہ منہ توڑ جواب دیا ۔ اُس کے گھر والے بھی دشمن کے حملوں سے محفوظ نہیں تھے اور اُس کے اسیر ہونے سے پہلے، جنگ میں آوارہ ہونے والوں کی طرح خوزستان سے کوچ کر گئے تھے اور اُس کے پاس اُن کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔ اس حال میں بھی، اُس کے ارادے  میں کبھی ضعف اور شک نہیں دیکھا گیا اور وہ مسلمان ایرانی سپاہی ہونے کے ناطے  ایک بہترین نمونہ تھا۔

میں نے اپنی باتوں کا ترجمہ کرنے کی زحمت اٹھانے پر اس کا شکریہ ادا کیا اور اس وجہ سے بھی شکریہ ادا کیا کہ جس جگہ مجھے احساس ہوتا کہ وہ اپنی طرف سے بھی کچھ باتیں کہہ رہا ہے۔ تو میں اُس سے بلند اور تھوڑی غصیلی آواز میں کہا تھا: "کیپٹن صاحب  بالکل وہی بات کہیں جو میں نے کہی ہے! "

میری اور  گنجے کی باتوں کے درمیان، بعض دوست پیچھے سے میری قمیض کھینچ کر در حقیقت مجھے  پرسکون رہنے کا کہہ رہے تھے۔ بعض لوگ مجھے سخت لہجے میں بات کرنے سے منع کر رہے تھے؛ چونکہ ممکن تھا میرے لیے کوئی خطرہ ایجاد ہوجائے؛ میں نے ان تمام لوگوں سے معذرت خواہی کی۔

بہرحال، گنجے کے دورہ کرنے کے بعد، حالات کچھ حد تک بہتر ہوگئے۔ ایک کھڑکی کے اوپر لگا ہوا بورڈ ہٹا دیا گیا اور اُس کے اوپر ہوا کی کراسنگ کیلئے ایک پنکھا لگا دیا گیا۔ پانی کی صورت حال بھی بہتر ہوگئی، ٹوائلٹ کے احاطے میں ایک ٹنکی لگادی گئی۔ شروع میں ہم اُسے بالٹیوں سے بھرتے تھے ، بعد میں پمپ لگا دیا گیا لیکن اُس کا کنٹرول نگہبان کے پاس تھا۔ کچھ صفائی ستھرائی کا سامان جیسے صابن، کپڑے دھونے کا صرف  اور کپڑے دھونے کیلئے کچھ ٹب لائے گئے۔ کبھی ڈاکٹر وں کو بھی لے آتی جو بیماروں کا معائنہ کرتے۔ تقریباً ڈیڑھ مہینے بعد، دن میں ایک گھنٹہ – یا شاید اس سے زیادہ – صحن کی طرف کھلنے والے دروازے کو کھول دیتے  اور ہم کھلی فضا اور سورج کی روشنی سے استفادہ کرنے کیلئے صحن کے احاطہ  میں ٹہلتے یا وہاں پر ورزش کرتے۔

اس عرصے میں ایک اور دلچسپ واقعہ پیش آیا کہ جس میں مہم ترین مسئلہ جوؤں کا حد سے زیادہ ہونا تھا، چونکہ ابھی تک صفائی ستھرائی  کے سامان اور پاکیزگی کا خیال رکھنے کیلئے کافی مقدار میں پانی تک ہماری دسترستی نہیں تھی، اس سخت جانور سے لڑنا بہت زیادہ دشوار لگ رہا تھا۔ البتہ عراقیوں کی  نظر جوؤں کا ہونا کوئی  عجیب بات نہیں تھی اور وہ اُن کے جسموں میں بھی موجود تھیں ، اُنہیں اس کی عادت تھی۔

ہم نے میڈیکل فیلڈ میں کام کرنے والے اپنے ایک کمپاؤڈر کی رہنمائی سے جس نے اس جانور کو ختم کرنے کی ٹریننگ حاصل کی ہوئی تھی ، اور سب کی ہمت سے کیمپ میں جوؤں کا جڑ سے خاتمہ کردیا۔ جوئیں جیسا کہ لباس  میں سلائی کی جگہ رہ کر وہاں انڈے  دے سکتی ہیں ہم سب نے اپنے لباسوں کو اُلٹا کرکے پہن لیا  اور سلائی والی جگہ کو ہوا کے سامنے قرار دیا۔ اس کے علاوہ ہر کسی کی ذمہ داری تھی کہ وہ روزانہ اپنے سامان اور کپڑوں میں سے بہت باریک بینی سے جوئیں نکالے؛ وہ بھی اس طرح سے کہ ہم سب ایک لائن میں، واش روم اور ٹوائلٹ کے پاس کھڑے ہوجاتے اور جوئیں ڈھونڈتے وقت ایک ایک جوں کو دو ناخن کے بیچ میں رکھ کر مار دیتے۔ یہ کام کرنے کی وجہ جوں کا سخت جان ہونا ہے اور وہ پاؤں کے نیچے دبانے یا انگلی کے دبانے سے  چاہے جتنا بھی زور لگائیں نہیں مرتی۔

بعد میں جب پانی زیادہ آنے لگا، ہم اپنے لباس اور سامان کو جب دھوتے تو کپڑوں میں موجود صرف اور جھاگ کو پانی سے نکالتے وقت نچوڑتے نہیں تھے اور کپڑوں میں کچھ جھاگ باقی رہنے دیتے؛ اس طرح سے بات یہاں تک پہنچی کہ کیمپ کے احاطے میں حتی ایک بھی جوں باقی نہیں رہی۔

ان دنوں میں ایک اور اہم مسئلہ سامنے آیا، وہ یہ تھا کہ ہمیں پتہ چلاکھڑکی پر لگے ہوئے تختوں کے پیچھے مائکروفون لگائے گئے ہیں تاکہ اس طرح ہمیں بہتر طریقہ سے کنٹرول کرسکیں اور شاید ہماری باتوں سے انہیں اپنے مطلب کی کوئی بات مل جائے، جس سے وہ فائدہ اٹھا سکیں۔

ہمیں مائکروفون کی موجودگی کا اُس وقت پتہ چلا جب اُن میں سے ایک کی تار بورڈ کی پیچھے سے لٹک گئی تھی؛ اس طرح جستجو کرنے اور اسے ڈھونڈنے کے بعد ہم نے اُن کی تاروں کو کاٹ دیا۔ بہت چھوٹی سی عمارت تھی کہ انہیں کہیں بھی لگایا جاسکتا تھا ۔ ہم نے تین کو تو ناکارہ بنادیا؛ لیکن ہم نے سوچا کہ بہتری اسی میں ہے کہ باقی کو ہاتھ نہ لگائیں؛ کیونکہ پہلی بات تو یہ کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ تمام مائکروفون مل گئے ہیں یا نہیں؟ دوسرے یہ کہ جب دشمن کو اُس کے برملا اور تباہ ہونے کے بارے میں پتہ چلتا، وہ احتمالاً کسی دوسرے اقدام اور حربہ کی طرف ہاتھ بڑھاتا کہ جس کے بارے میں ہم کچھ جانتے ہی نہ ہوں، پس ہم نے سوچا کہ بہتر ہوگا کہ سب کو ناکارہ نہ بنایا جائے  تاکہ دشمن یہ خیال کرے کہ مائکروفون ابھی بھی اُن کیلئے فائدہ مند ہے۔ اس کے نتیجے میں، ہمیں اُن کی موجودگی کا پتہ چل گیا تھا،ہم اپنی حرکات اور خاص  طور سے اپنی باتوں پر دھیان  رکھتے تھے۔

درحقیقت میں اس بات کا اعتراف کروں، اس زمانہ میں اہم ترین اور تلخ ترین حادثہ جو پیش آسکتا تھا، وہ پیش آیا؛ یعنی کچھ اسیروں کا عراقی بعثیوں سے مل جانا جنہوں نے ایران کی اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کا ناکام ارادہ کیا تھا۔

اُسی پہلے دن سے جب ہم ۸۱ لوگ جمع ہوئے تھے، کچھ ایسے لوگ تھے جو ہر معاملے میں اپنی ٹانگ اڑاتے  تھے  خوامخواہی میں اپنے عقائد کا اظہار کرتے تھے۔ اُن سب کا سرغنہ ایک ایسا فرد تھا جو اپنے آپ کو مختلف ناموں سے متعارف کرواتا  اور میں یہاں اُسے ایک عرفی نام "آزر" (حضرت ابراہیم (ع) کے چچا آزر جو بت پرستے تھے، صاف ظاہر ہے کہ میں نے اُسے کیوں یہ نام دیا ہے) سے یاد کروں گا۔

آزر، راتوں کو سب کو سرگرم رکھنے کے بہانے، ایک پروگرام"شو"کرتا  تھا  جس میں سب کمرے کے اندر ایک دوسرے گرد بیٹھے ہوتے تھے، وہ ہم سے کہتا کہ ایک دوسرے سے زیادہ آشنا ہونے کیلئے، کوئی بھی ایک کھڑا ہو، اپنا تعارف کروائے، اپنے پیشہ، مہارت اور کسی طرح اور کہاں اسیر ہوئے، ان سب کے بارے میں بتائے، اُس کے بعد ایک واقعہ یا کوئی لطیفہ بھی سنائے۔

مائکروفون کی موجودگی میں یہ عمل، دشمن کیلئے ایک بہترین خدمت شمار ہوتا تھا، کیونکہ اسیر خاص طور سے وہ افراد جو  خاص مہارت رکھتے تھے اور اُن کے پاس رازدارنہ معلومات تھیں وہ تفتیش کے دوران اپنے پیشہ اور مہارت کے بارے میں نہیں بتاتے تھے، اس کے باوجود کہ اُن میں سے بہت سے لوگوں نے بہت ہی شکنجے اور تکالیف برداشت کی تھیں، دشمن کو اُن کی مہارت اور پیشہ کے بارے میں نہیں پتہ تھا۔ البتہ پائلٹوں کے ساتھ یہ مسئلہ نہیں تھا؛ چونکہ پائلٹ اپنے طیارے کے ساتھ تھا اور انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی، لیکن دوسرے سپاہیوں کے معاملے میں اور خاص طور سے  جن کے پاس حساس عہدے تھے، یہ بات صدق کرتی تھی اور آزر اس طرح دھوکہ دہی کے ساتھ اسیروں کے بارے میں اچھی خاصی معلومات سے دشمن کو آگاہ کردیتا۔

اُس زمانے میں، ہمیں مائکروفون کی موجودگی کا علم نہیں تھا اور اسی طرح ہم  محاذ پر لڑنے والے اور قیدی بننے والے کسی بھی شخص پر شک بھی نہیں کرتے تھے، یہ تو ابھی کام کی شروعات تھیں اور یہ گندی حرکتیں اور برے اعمال مختلف صورتوں میں جاری رہے۔ حب الوطنی کے احساس کی تبلیغ اور صرف ملی ترانوں کو پڑھنا، یہ دوسرے موارد تھے کہ وہ ان چیزوں سے دوسرے حربہ کے عنوان سے، اُن لوگوں کو اپنی طرف جذب کرتا تھا جو اسلامی حکومت کے مخالف تھے؛ اگرچہ وہ خود بھی اصل حب الوطنی پر اتنا اعتقاد نہیں رکھتا تھا۔ آخر میں اس کا یہ  کام، زیادہ تر "ون مین شو" کی شباہت اختیار کر گئے ، جس میں پھیکے اور بے کشش ترانے، انٹرویو اور مشاعرے ہوتے تھے۔ اُس میں تدریجاً لیڈو، شطرنج اور ورق بازی کا بھی اضافہ ہوگیا کہ یہ چیزیں وہاں پر موجود وسائل سے بنائی جاسکتی تھیں۔

اُدھر سے، ہم نے اپنے گروپ میں، مشورت اور دوسرے بھائیوں خاص طور سے سلمان اور رضا احمدی  سےہماہنگی  کرکے نماز جماعت منعقد کرنے کا پروگرام بنایا۔ جو افراد تفتیش  کرنے والے کمرے میرے ساتھ تھے، اُن کی اقتدا میں نماز پڑھی جاتی۔

ہمارے درمیان ایک "اسکندری" نام کا شخص تھا جو ایف – ۵ کا پائلٹ ٹھا، وہ تفتیشی کمرے میں ایک افسر کے ہاتھوں سخت شکنجے کا شکار ہوا، پھر جسم میں خونریزی ہونے  اور چلنے کی طاقت کھو دینے کے بعد، وہ ایک کمرے میں قید تھا۔ چند دن بعد جب وہ بغیر پانی اور کھانے کے رہا، گویا شکنجے کرنے والے افسر کو اُس کا ضمیر جھنجوڑتا ہے – یا کسی دوسری وجہ سے – وہ اسکندری کے پاس جاتا ہے اور اُس کی بدتر حالت کو دیکھتاہے۔ خلاصہ یہ کہ وہ اُس کے لئے ڈاکٹر اور دوائی لیکر آیا  تھا اور اُخر میں اُس سے کہا تھا: " اس کام کے بدلے، میرا دل چاہتا ہے کہ اگر تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہے تو تم مجھ سے کہو۔" اسکندری جواب میں کہتا ہے: "اگر تم سچ کہہ رہے ہو تو میرے لیے ایک قرآن لے آؤ" اس طرح وہ قرآن کا تیسواں پارہ " عم" حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

ہم میں سے کوئی بھی روزانہ قرآن سکھانے کی کلاس رکھتا اور سب قرآن اور کلاس سے استفادہ کرتے۔ بعد میں جب ہمیں قلم اور کاغذ ملے، سب سے پہلے ہم نے اُس کے چند نسخے لکھے۔

ہمارے گروپ کی نماز برپا کرنے کی کوشش کی وجہ سے زیادہ تر افراد با جماعت نماز میں شرکت کرنے لگے ، صرف کچھ لوگ ایسے تھے جو ہاتھ سے بنے ہوئے ورق بازی وغیر سے جوے اور ہار جیت کا کھیل  کھیلتے تھے  اور کبھی کبھار  رات سے لیکر صبح تک – چونکہ لائٹیں بند نہیں ہوتی تھیں – کھیل میں مصروف رہتے اور کبھی ایک دوسرے سے لڑتے رہتے۔

اسیری کے دوران سگریٹ بھی ایک مسئلہ بنی ہوئی تھی اور اس سے دشمن بہت سوء استفادہ کرتا تھا اور اس چیز سے اپنی بہت سے باتیں منوا لیتا تھا۔ سگریٹ پینے والے جتنا زیادہ اپنی کمزوری کا اظہار کرتے، دشمن اُتنا ہی زیادہ اُن پر دباؤ ڈالتا ، مثلاً سگریٹ دیتے تھے لیکن ماچس نہیں! یا سگریٹ نہیں دیتے تھے لیکن جب بھی نگہبان ہال میں آتا، اُس کے ہونٹوں پر سگریٹ ہوتی اور وہ ایک یا دو کش لگانے کے بعد، اُسے پیروں  تلے روند دیتا یا اُس کے دھوئیں کو سگریٹ پینے والے شخص  کے چہرے پر چھوڑتا ۔ متاسفانہ یہی بے وقعت سگریٹ، کبھی بعض لوگوں کے ایسے کام انجام دینے کا باعث بنتی جو شایان شان نہیں  ہوتے۔

ان دنوں میں ہم خبروں اور معلومات سے بالکل بے خبر تھے اور خبریں جاننے کیلئے  ہم کبھی پرانے اخباروں کو مخفیانہ طور پر اٹھا لیتے اور اُنہیں ہال میں لے آتے کہ شاید اس طرح جنگ کے مسائل اور حالات سے باخبر ہوجائیں۔ اُنہی پرانے اخبارات کو حاصل کرلینا ہی ہمارے لیے بہت ہی خوشحالی کا سبب ہوتا تھا۔

جاری ہے …


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2968



http://oral-history.ir/?page=post&id=7868