یادوں بھری رات کا ۲۹۱ واں پروگرام

دو آپریشنز کی یادیں

مریم رجبی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-06-17


ایرانی زبانی تاریخ کی سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس میں یادوں بھری رات کا ۲۹۱ واں پروگرام، جمعرات کی شام،  ۲۴ مئی ۲۰۱۸ کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا۔ اس پروگرام میں احمد ثقفی، حسین ناظوری اور سید جواد ہاشمی نے صدامی افواج کی اسلامی جمہوری ایران پر مسلط کردہ جنگ میں اپنے واقعات  کے بارے میں بیان کیا۔

 

دشمن کا گمان اور ہمارا ہدف

احمد ثقفی پروگرام کے سب سے پہلے راوی تھے۔ انھوں نے کہا: "بیت المقدس آپریشن میں،ہم  دارخوین میں تھے کہ یہ علاقہ اہواز اور خرم شہر  کے درمیان ہے۔ وہاں پر دو ہائی وے ہیں۔ ایک اہواز سے خرم شہر جانے والا ہائی وے اور دوسرا اہواز سے آبادان ، جیسا کہ اہواز سے خرم شہر والا ہائی وے دشمن کے قبضے میں تھا، افراد دارخوین والے علاقے میں آپریشن کیلئے اہواز سے آبادان جانے والے ہائی وے پر تیار ہوتے تھے۔ ہم رات ۹ بجے کے بعد وہاں سے نکلے۔ اس وقت سے پہلے مغرب کے وقت، ایک ایسا پل بنایا گیا تھا جیسے فوج اپنے سپاہیوں کیلئے بناتی ہے تاکہ اُس پر سے ٹرک اور فوجی گزر جائیں۔ ہم فتح المبین آپریشن کے بعد، جس مورچے میں بھی جاتے، اللہ اکبر کہتے، وہ (دشمن) تسلیم ہوجاتا، ہم نے حرکت کرنے کے وقت سے اُن کے تسلیم ہونے کو دیکھا یہاں تک جب ہم اہواز، خرم شہر ہائی وے تک پہنچے۔ راستے میں بہت سارے مورچے تھے۔ کچھ جگہوں پر اُن کے ٹینک اور زرھی ساز سامان موجود تھا؛ مثلاً اگر وہاں پانچ ٹینک تھے اور افراد کسی کو مار دیتےتو وہ لوگ فرار کر جاتے۔ ہم نے راستے میں اُن کی طرف سے کسی بھی جدوجہد کا مشاہدہ نہیں کیا تھا یہاں تک ہم امام بارگاہ کے اسٹاپ تک پہنچ گئے۔ ہم امام بارگاہ میں تعینات ہوگئےتاکہ ہمارے افراد اور اصفہان کا ایک ڈویژن  ایک دوسرے ملحق ہوجائیں ۔

دن کے تقریباً ۱۱ بج رہے تھے۔ میں مورچے سے دس میٹر کے فاصلے پر بیٹھا ہوا تھا۔ باقی سپاہی بھی مورچہ بناکر مختلف جگہوں پر بیٹھ گئے تھے۔ ہم دشمن کی طرف سے ضد حملہ کیلئے بالکل آمادہ نہیں تھے۔ فقط ہم انتظار کر ر ہے تھے کہ دستور ملے اور حملہ شروع کریں۔ ہم نے سپاہ کے کچھ اعلیٰ کمانڈروں کو وہاں دیکھا، جیسے جناب باقری، نجف ہیڈ کوارٹر سے جناب جعفری، جناب رشید جو خاتم ہید کوارٹر کے کمانڈر تھے، کربلا ہیڈ کوارٹر سے جناب غلام پور، جناب کاظمی اور جناب ہمت۔ ایک جیپ بھی وہاں تھی جو تباہ ہوچکی تھی۔ ان کمانڈروں اور مورچے کے درمیان تقریباً بیس میٹر کا فاصلہ تھا۔ میں مورچے سے دس میٹر اور ان کمانڈروں سے دس میٹر دور زمین  پر بیٹھا ہوا تھا۔ اُس جیپ کے نیچے ایک گڑھا تھا۔ یہ سب افراد اُس گڑھے میں بیٹھ گئے۔ وہ لوگ بہت مشکل سے جیپ کے نیچے بیٹھے تھے اور آپریشن کا جائزہ لے رہے تھے۔ اسی اثنا میں ہم نے دیکھا کہ ایک شخص مورچے سے اٹھا اور ایک گولی اُس کی پیشانی پر لگی۔ دوسرا ، تیسرا، چوتھا اور پانچواں فرد بھی کھڑا ہوا اور گولی اُن کی پیشانی پر لگی۔ ہمیں اصلاً خبر نہیں تھی کہ ماجرا کیا ہے اور کمانڈرز کس وجہ سے یہاں آئے ہیں۔ اچانک میں نے دیکھا کہ پچاس آر پی جی چلانے والے مورچے کے پاس آگئے اور ہمیں اب پتہ چلا کہ عراقیوں نے اس ضد حملہ کی کل رات سے تیاری کی ہوئی تھی اور ایسا کام کیا ہوا تھا کہ ہم ایک رات پہلے سے امام بارگاہ کے اسٹاپ پر تعینات ہوجائیں تاکہ وہ دن میں افراد کو گھیرلیں۔ ہم عام طور سے اپنے مورچوں کو سڑک کے کنارے بناتے تھے  اور چونکہ ہم چاہتے تھے کہ اہواز سے خرم شہر والا ہائی وے ہمارے اختیار  میں آجائے، ہم نے اس طرح سے مورچہ بنایا تھا کہ ہائی وے ہمارے اختیار میں ہو۔ ہم نے اچانک دیکھا دو ستون میں سو زائد ٹینک بہت تیزی کے ساتھ اُس تباہ شدہ جیپ کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کے نیچے کمانڈرز بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کمانڈروں  کو حملہ کے بارے میں پتہ تھا اور وہ اسی وجہ سے آئے تھے۔ دشمن نے مورچے سے ۱۵۰ میٹر کے فاصلے پر کچھ گڑھے بنائے ہوئے تھے اور اپنے افراد کو اُن کے اندر بٹھا کر اُس پر کوئی چیز ڈال دی تھی۔جس چیز سے چھپایا تھا اُس میں سوراخ بھی کئے ہوئے تھے اگر کوئی واچ مین اور آر پی جی چلانے والا اوپر اٹھے تو اُس کی پیشانی میں ایک گولی مار دیں۔  جیسے ہی اُن کی ٹینکوں نے حرکت کی، ان لوگوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ وہ ڈر گئے کہ کہیں ٹینک اُن کے سر وں پر سے نہ گزریں، جس کے نتیجے میں وہ فرار کر گئے۔ ساتھیوں نے ستون کی صورت میں آنے والے ٹینکوں میں سے پہلے دو ٹینکوں کو اڑایا۔ پھر گولے سے بھرے ہوئے تقریباً  آٹھ ٹینکوں کو اُڑایا۔ ایک عجیب دھماکہ ہوا ۔ ہم اُن اتنے ٹینکوں کے آنے کی وجہ سے  ہمت چھوڑتے، اس کے بجائے دشمن نے ہمت چھوڑ دی اور وہ ابتدا میں ہی ٹینکوں کو چھوڑ کر فرار کرگئے۔ جب آر پی جی ٹینک سے ٹکراتا ہے تو اس کے اندر موجود افراد کباب بن جاتے ہیں! اسی وجہ سے وہ ٹینکوں سے نکل کر فرار کر گئے۔ ساتھیوں نے جب دیکھا کہ وہ لوگ فرار کر رہے ہیں، انھوں نے آر پی جی کو نیچے رکھا اور خالی ہاتھ ٹینکوں کی طرف گئے۔ ہم نے دیکھا کہ اُن میں سے ہر ایک ٹینک پر بیٹھا اور اُسے دوڑاتے ہوئے ہماری طرف آنے لگا۔ اور وہ کمانڈرز بھی اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔

دشمن کا حملہ کرنے کا طریقہ اس طرح سے تھا کہ لوگوں کی پیشانی پر گولی مارنے سے پہلے، وہ پانچ طیاروں کے ساتھ، پانچ دفعہ آئے اور علاقے پر بمباری کر کے چلے گئے۔ اس معاملے میں مجھے بھی ایک ٹکڑا لگا۔ میرا پورا چہرا خونی ہوگیا، لیکن مجھ میں کھڑے ہونے کی طاقت تھی۔ ایسا اُس وقت ہوا تھا جب بہت زیادہ لوگ بیہوش ہوگئے اور وہ پیش قدمی کیلئے آمادہ نہیں ہوسکتے تھے۔ وہ لوگ اس طرح وہاں پر موجود افراد کو ایک دفعہ پراکندہ کر چکے تھے۔ لیکن اس دفعہ کمانڈروں  کی موجودگی بہت زیادہ حد تک موثر رہی۔ یعنی جہاں بھی کمانڈرز مستحکم طریقے سے موجود رہے، جنگ میں کامیابی ہوئی۔ اس کے باوجود کہ یہاں پر ہمارے افراد پراکندہ ہوچکے تھے، اُس کے بعد ہمارے آر پی جی چلانے والوں اتنے بہترین طریقے سے عمل کیا  اور تقریباً ۳۰ ٹینکوں کو پیچھے لے آئے۔ جب جوابی کاروائی ختم ہوئی، زخمیوں کو لے جانے کیلئے ایمبولنس پہنچ گئی۔ میں بھی زخمیوں میں سے تھا اور مجھے اہواز لے جایا گیا اور پھر میں آپریشن کے دوسرے مرحلے میں نہیں تھا کہ دیکھ پاتا کیا ہوا ہے۔ شہید [حسن] باقری نے آپریشن کی اس طرح سے منصوبہ بندی کی تھی  کہ دشمن کو ایسا لگے ہمارا ہدف خرم شہر نہیں ہے، بلکہ ہم بصرہ پر قبضہ کرنا چاہتےہیں۔ وہاں شہید باقری نے بصرہ کو ہدف قرار دیا ہوا تھا اور اس کے باوجود کہ خرم شہر دشمن کیلئے مہم تھا لیکن بصرہ سے زیادہ مہم نہیں تھا۔ جب بصرہ کو ہدف قرار دیا تو فطری سی بات ہے دشمن نے خرم شہر کو چھوڑ دیا اور اگر خرم شہر اتنی آسانی سے آزاد ہوگیا، امام خمینی (رہ) کی بقول یہ خدا کے ہاتھ میں تھا کہ ایسی سوچ اُس کمانڈر کے ذہن میں آئی ورنہ کسی کا کوئی اپنا ارادہ نہیں ہے۔ ان لوگوں نے اپنا ہدف بصرہ  قرار دیا اور خرم شہر بہت آسانی سے دشمن کے ہاتھ سے نکل گیا۔"

احمد ثقفی نے مزید کہا: " ہم کرخہ نہر کے پیچھے تھے۔ کرخہ نہر اور نادری پل دشمن کے قبضہ میں تھا۔ جب فتح المبین آپریشن میں دو راتیں باقی رہتی تھی افراد نے شوش دانیال کے سامنے جوابی حملہ کیا کہ پل کے پاس ایک ایسی جگہ ہو جہاں سے آسانی کے ساتھ دشمن کو دیکھ سکیں اور اُن کا محاصرہ کرلیں۔ افراد نے اُس طرف حرکت کی اور ۱۷۰ لوگوں کو قیدی بنالیا۔ جب تک وہ اُن کے ہاتھوں پیروں کو باندھتے اور اپنے وسائل سمیٹتے، دشمن نے جوابی کاروائی کردی اور قیدیوں نے دشمن کی مدد کی اور اُن لوگوں نے ہمارے آخری آدمی تک کو مار دیا۔ ہمارے پاس سپاہی بہت تھے، لیکن اسلحہ نہیں تھا، کیونکہ جناب بنی صدر نے فوج کو اجازت نہیں دی تھی کہ سپاہ کو جنگی ساز و سامان دیا جائے۔ وہ سپاہی جس کے پاس اسلحہ نہ ہو، اس کا حوصلہ کیسا ہوگا؟ وہ کس طرح آپریشن کرسکتا ہے؟ میں دزفول کے افراد کے پاس گیا۔ دزفولیوں نے اپنے افراد کو جمع کیا اور چشمہ نامی ٹیلے پر لے گئے تاکہ وہاں موجود دشمن کے توپخانہ کا محاصرہ کرکے اُس پر قبضہ کرلیں۔ ہم پوری ایک بٹالین تھے۔ اُس جگہ کو بجری کا ٹیلہ کہا جاتا تھا۔ کیونکہ طاغوت (شاہ) کے زمانے میں دشت عباس اور اُس کے اطراف کی سڑکیں بنانے کیلئے، وہاں پر بجری ڈالی گئی تھی تاکہ سڑک ڈالنے کیلئے اُسے استعمال کریں۔ دشمن نے سڑک بنانے کیلئے اُس بجری سے استفادہ کیا اور اپنی ٹینکوں کی بٹالین کو بھی وہاں تعینات کردیا۔ ہم نے چشمہ نامی ٹیلے سے اپنے راستے کی طرف بڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ ہم دشمن تک پہنچ گئے۔ جب ہم دشمن کی حدود تک پہنچے، اُس وقت رات ہورہی تھی۔ ہم نے مورچوں کو ہدف قرار دیا، دستی بم پھینکے اور آگے بڑھے۔ صبح کی اذان میں ایک گھنٹہ باقی تھا کہ میں بجری والے ٹیلے تک پہنچ گئے۔ چشمہ نامی ٹیلے سے لیکر بجری والے ٹیلے تک ہمیں راستے میں سات گھنٹے لگے۔ جب ہم پہنچے ، ہم نے دیکھا کہ بہت سارے ٹینک ہمارے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ ہم بیس سے بھی کم افراد تھے اور ہمارے پاس صرف ایک آر پی جی چلانے والا تھا ۔ ایک ٹینک سے ہمارا فاصلہ بہت کم تھا اور ہم اُسے آر پی جی سے نہیں مار سکتے تھے۔ ہمیں نہیں پتہ چل رہا تھا کہ کیا کرنا چاہیے، ہم دستی بم پھینکتے، لیکن ٹینک پھر بھی آگے بڑھ رہا تھا اور تباہ نہیں ہو رہا تھا۔ بالآخر خدا نے اُن کے دل میں خوف ڈال دیا اور سب کے سب فرار کر گئے۔

صبح ہوئی تو ہم نے دیکھا وہ بجریاں دو مورچے بنی ہوئی ہیں اور ہم اُن مورچوں کے درمیان موجود ہیں۔ دشمن ہمیں دائیں اور بائیں دونوں طرف سے دیکھ سکتا ہے۔ اچانک ہم نے دیکھا کہ دو ٹینک بائیں طرف سے، دو ٹینک دائیں طرف سے اور چھ پی ایم پی سامنے سے آرہے ہیں۔ یہ ایسی حالت میں تھا جب ہمارا وائرلیس پہ رابطہ بھی نہیں تھا۔ چلتے وقت، چونکہ میری عمر زیادہ تھی، مجھے ایک ٹینک کا گولہ اور ایک راکٹ کا گولہ دیا گیا تھا اور گروہ کے کمانڈروں کو بھی اُن گولوں کے پایے  دیدیئے گئے تھے تاکہ جب ہم ٹینکوں تک پہنچے اور آر پی جی کام نہ کرے تو ہم اُس سے استفادہ کرلیں۔ جب ہم مورچے کے پاس پہنچے، گروہ کا کمانڈر جسے یہ گولے فائر کرنے آتے تھے، شہید ہوگئے تھے اور ہم اس وسیلہ سے بھی استفادہ نہیں کرسکتے تھے۔ ہم نے وہاں دشمن کا ایک ٹینک بھی نہیں اڑایا۔ جب وہ لوگ نزدیک ہوئے، میں نے آر پی جی کو اوپر اٹھایا اور بلند آواز میں کہا: "اللہ اکبر"۔ وہ تمام فوجی فرار کر گئے! پی ایم پی میں موجود ۶۰ فوجی بھی مارے گئے۔ اس کے بعد ہم نے اتنا صبر کیا کہ ہمارے سپاہی پہنچ جائیں، پتہ چلا اُن کی تو کوئی خبر ہی نہیں ہے۔ ہم نے دیکھا مورچے کے اوپر سے کوئی آرہا ہے۔ اُس کی گردن زخمی ہے اور اُس نے اُس کو باندھا ہوا تھا۔ اُس نے سپاہ کا لباس بھی پہنا ہوا تھا۔ اُس نے ہم سے مخاطب ہوکر کہا: افراد پل کرخہ کی طرف ہیں۔ وہ مورچہ کے اوپر سے اپنے چفیہ (رومال) کو  گھما رہا تھا۔ کچھ منٹوں بعد ہم نے دیکھا کہ پورے علاقے پر گولیاں برسائیں گئیں، ہم سمجھ گئے کہ ہمارے اپنے افراد ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی قدرت کے بل بوتے پر بجری والے ٹیلے کو حاصل کرلیا تھا۔ جب امام نے کہا کہ خرم شہر کی آزادی خدا کے ہاتھ میں تھی، واقعاً اسی طرح سے ہے۔ ہمارے فوجیں قریب آئیں۔ جب وہ ہم سے دوسو میٹر کے فاصلے پر پہنچے، ہم نے اپنے چفیوں کو گھمایا اور بھائی بھائی کہنے لگےتاکہ وہ ہمیں پہچان جائیں۔ ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ دشمن کی ٹینکوں والی بٹالین ہماری دخالت کے بغیر تباہ ہوگئی تھی۔"

 

جنگلی مقام کی طرف سفر

پروگرام کے دوسرے راوی ایوی ایشن ادارے کے کمانڈر حسین ناظوری تھے۔ انھوں نے کہا: "ایرانی قوم کا ہر فرد ایوی ایشن ادارے کو جانتے ہے۔ اس ادارے کے پاس اعلیٰ حرکت، فوری رد عمل اور اپ ٹو ڈیٹ وسائل موجود ہیں۔ انقلاب کے بعد اگر کہیں کوئی گولی لگی ہے، وہاں  ایوی ایشن موجود تھا۔ ایوی ایشن آپریشن میں خود کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا، بلکہ وہ ہیڈ کوارٹر کے زیر نظر ہوتا ہے۔ یہ ہیڈ کوارٹر تعین کرتا ہے کہ ہیلی کاپٹر کہاں جائے اور کہاں نہ جائے۔ بعض جگہوں پر ہم سے شکایت کی جاتی ہے کہ دیر سے کیوں آئے ہو، لیکن ہم کہتے کہ ہماری غلطی نہیں ہے یہ آپ کے کمانڈرز ہیں جو فیصلہ کرتے ہیں۔

چوتھا و الفجر آپریشن  اکتوبر ۱۹۸۲ میں شروع ہوا۔ میں اصفہان کی سپورٹنگ چھاؤنی کے گروپ میں کام کرتا تھا۔ مجھے حکم ملا کہ میں ایک یونٹ کے ساتھ سنندج کی طرف پرواز کروں۔ ہمیں معلوم تھا کہ چوتھا و الفجر آپریشن شمال مغربی علاقے میں انجام پائے گا۔ کوہستان میں ہیلی کاپٹر کی صلاحیت بہت اوپر ہوتی ہے، لیکن کچھ کمزوریاں بھی ہیں۔ آپریشن شروع ہونے سے پہلے ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ فوج کے کمانڈر کو تم سے کام ہے۔ میں گیا تو شہید صیاد شیرازی نے کہا: آج ایک کام ہے کہ جس کیلئے پرواز کرنی پڑے گی اور کسی کو پتہ بھی نہ چلے۔ میں نےکہا: ہمیں پرواز کیلئے پرواز کا پلان لکھنا چاہیے، ٹاور کو اطلاع دینی چاہیے۔ انھوں نے کہا میں ان تمام چیزوں کو کینسل کرتا ہوں۔ میں نے کہا: اچھا اجازت دیں کہ میں ایک نائب پائلٹ لے آؤں۔ انھوں نے کہا: صرف تمہیں اور مجھے جانا ہے۔ میں نے کچھ سوچ میں پڑ گیا۔ انھوں نے کہا: میں فوج کا کمانڈر ہوں، تمہیں حکم دیتا ہوں! میں نے اطاعت کی۔ ہم ایک ہیلی کاپٹر پہ سوار ہوئے۔ میں نے انجن اسٹارٹ کیا اور پوچھا: ہمیں کس طرف حرکت کرنی ہے؟ شہید صیاد نےکہا: پہلے اوپر اٹھو، میں فضا میں تمہیں بتا دوں گا کہ کس طرف جانا ہے! یہ پرواز کے قوانین کے خلاف ہے اور جب تک پائلٹ کو نہیں پتہ ہو کہ اُسے کہاں جانا ہے ، وہ کہہ سکتا ہے کہ میں زمین سے اوپر نہیں اٹھوں گا، لیکن ہم جنگی حالات میں بھی تھے اور شہید صیاد بھی نقشہ خوانی میں ماہر تھے اور مجھے راستہ کھو  جانے کی فکر نہیں تھی۔ میں اوپر اٹھا اور وائر لیس کے ذریعہ آپریشن افسر کو اطلاع دی کہ میں اوپر اٹھ گیا ہوں، مجھے ایک کام ہے، میں بہت جلد واپس آجاؤں گا۔ میں اور صیاد گئے اور آگے گئے یہاں تک کہ عراق کی سرزمین میں داخل ہوگئے۔ ایک جنگل تک  پہنچے۔ انھوں نے کہا اس جنگل کے گرد چکر لگاؤ اور اگر کوئی جگہ درختوں سے خالی ہو تو وہاں اتر جاؤ۔ ہیلی کاپٹر کی مشکل ٹیکنیکس میں سے ایک یہی ہے کہ عمودی صورت میں اوپر اٹھنا اور عمودی صورت میں زمین پر بیٹھنا۔ ہم لوگوں کی تعداد کم تھی، ہم آسانی سے زمین پر اتر گئے۔ انھوں نے نیچے اترتے وقت مجھ سے کہا اگر میں دس منٹ تک نہ آؤں تو تم چلے جانا۔ میں نہیں مانا، لیکن انھوں نے کہا یہ ایک حکم ہے،اگر میں دس منٹ تک نہ آؤں تو تم چلے جانا!

میں دشمن کی زمین پر تھا اور ہر لحظہ حملہ کا امکان موجود تھا۔ میں ایک انسان ہونے کے ناطے ڈر رہا  تھا۔ سات سے آٹھ منٹ گزر گئے اور وہ نہیں آئے۔ میں آہستہ آہستہ تیار ہو رہا تھا کہ ایک دو منٹ بعد اٹھ جاؤں گا کہ اچانک میں نے دیکھا کہ تقریباً بیس بلند قد کے افراد  جن کے ہاتھوں میں بڑی بڑی بندوقیں بھی تھی ، دور سے میری طرف دوڑے چلے آرہے ہیں۔ میں ڈر گیا اور اڑنا چاہتا تھا کہ میں نے دیکھا جرنل صیاد شیرازی بھی اُن کے لوگوں کے آگے ہیں۔ یہ تمام افراد کردی لباس پہنچے ہوئے تھے۔ میں نے گمان کیا کہ شاید جرنل  نے انہیں اسیر بنالیا ہے۔ جب وہ ہیلی کاپٹر کے پاس پہنچے تو شہید صیاد ہنسے اور کہا میں تمہارے لئے مہمان لایا ہوں، ہمیں انہیں سوار کرکے سنندج لے جانا ہے۔ میں نے کہا: ضرور، میں تعداد کے حساب سے سوار کروں گا اور لے جاؤں گا۔ انھوں نے کہا: نہیں، تمہیں ان کو ایک ہی دفعہ میں لے جانا ہوگا! میں نے کہا اس میں صرف ۱۴ لوگوں کی جگہ ہے، حتی اگر میں اُن کے اسلحوں کو لیکر جاؤں تو بھی بہت سختی سے اوپر اٹھ پاؤں گا، میں کس طرح اتنے افراد کو سوار کروں؟ اصلاً میں ان لوگوں کی کہاں جگہ بناؤں؟ انھوں نے کہا: جناب پائلٹ! تم اگر چاہو تو ابھی اوپر اٹھ کر اکیلے چلے جاؤ، میں بھی تم سے کچھ نہیں کہوں گا، کیونکہ تم حق بات کہہ رہے ہو، لیکن ان میں سے ہر ایک فرد، ایرانی فوج کیلئے ایک ڈویژن  کے برابر اہمیت رکھتا ہے۔ میں نے کہا: میں ان کیلئے اپنی پلکیں بچھانے کیلئے تیار ہوں، لیکن میں ان لوگوں کی کس طرح سے  اس میں جگہ بناؤں؟ انھوں نے جواب دیا کہ یہ میرا کام ہے! میں نے دیکھا کہ انھوں نے اُن سب کو کسی نہ کسی طرح ہیلی کاپٹر میں چڑھا دیا اور خود بھی نائب پائلٹ والی سیٹ پر بیٹھ گئے اور کہا اگر ان لوگوں کو نہیں لے جاتے، میں ان کے ساتھ رہنے پر مجبور تھا، حتی اگر ان میں سے ایک فرد بھی نیچے رہ جاتا! اور اگر تم اڑ جاتے تو پھر آدھے گھنٹے بعد ہم سب کو مار دیا جاتا۔ میں نے کہا کہ میں اوپر اٹھنے کے بارے میں آدھا فیصد احتمال بھی نہیں دیتا، مجھے عمودی صورت میں اوپر اٹھنا چاہیے اور درختوں سے گزرنا چاہیے تاکہ رفتار میں اضافہ کرسکوں، اسی وجہ سے اس کو زیادہ قدرت کی ضرورت ہے۔ صیاد نے پوچھا: خدا پر یقین ہے؟ میں نے کہا: اگر نہیں ہوتا تو  میں یہاں کیا کر رہا ہوتا؟ انھوں نے کہا: پس تم جو کام کرسکتے ہو، انجام دو۔ میں نے وہاں غیبی امداد کو دیکھا۔ میں نے اپنی آنکھوں کو بند کیا اور کہا خدایا تیرے آسرے پر، مجھے معلوم ہے کہ اس وسیلہ میں اتنی کشش نہیں ہے، تو خود مدد کر! میں اسی سوچ میں تھا کہ دیکھا ہم درختوں کے اوپر ہیں۔ میرا پورا بدن کانپ رہا تھا۔ ہمیں نیچے اترنے بھی  مشکل ہوئی۔ میں نے اضطراری کیفیت کا اعلان کردیا۔ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں آئیں اور وہاں پر بھی خدا نے مدد کی۔ جب سب چلے گئے تو جرنل نے مجھ سے کہا کہ یہ آپریشن، اب تک انجام پانے والے آپریشنوں میں سے ایک بہت بڑا آپریشن تھا۔ انھوں نے کہا: مجھے معلوم ہے کہ اگر تم نے اس پرواز کا اپنے پرواز والے رجسٹر میں اندراج کیا ، تو تمہیں اتنے سارے افراد کے ساتھ پرواز کرنے پر تنبیہ کی جائے گی، اس کا اندراج نہیں کرنا اور کسی کو بتانا بھی نہیں۔ میں نے کئی سالوں بعد، پہلی مرتبہ یہاں پر باقاعدہ طور پر اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔ آپریشن کے بعد میں نے اُن افراد کو نہیں دیکھا اور مجھے نہیں پتہ چلا کہ وہ کون لوگ تھے اور کہاں سے آئے تھے۔"

جناب ناظوری نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: "جس وقت چوتھا و الفجر آپریشن شروع ہوا، ہمارے پاس ۱۵ سے ۱۶ ہیلی کاپٹر اور ۳ شنوک طیارے تھے۔ ایئر فورس نے بھی مدد کیلئے ہمیں تین طیارے دیئے تھے۔ ہماری پہلی کوہستانی پرواز ملک کےجنوب میں ہونے والے آپریشن کے بعد تھی۔ آپریشن کے دوران مجھے وائر لیس پہ بتایا گیا اور اس کا نامہ بھی آیا کہ ۲۱۴ ماڈل کے تمام ہیلی کاپٹر خراب پڑے ہیں۔ ایسا اُس صورت میں تھا کہ خود لوگ کہتے تھے، ہیلی کاپٹر کا وجود ، حتی اُن کی آواز اُن  کو بہت سہارا دیتی تھی۔ مگر کیا ایسا ہوسکتا تھا کہ ہیلی کاپٹروں کا معائنہ کرنے تک آپریشن کو روک دیا جاتا۔ اُس رات میری دنیا ویران ہوگئی۔ میں نے رات میں ٹیکنیکل اسٹاف کو بلایا اور اُن سے مدد کی درخواست کی۔ ٹیکنیکل اسٹاف نے کہا: اس جگہ پر ہیلی کاپٹروں کو صحیح کرنے کا امکان ہے۔ اگر ہمیں وہ وسائل فراہم کردیئے جائیں جو ان کی تعمیر کیلئے ضروری ہیں۔ ہر ہیلی کاپٹر پر ایک دن لگتا ہے اور ٹوٹل ۱۵ دن لگ جائیں گے۔ یہ واقعہ نومبر میں پیش آیا اور سنندج اس مہینے میں بہت ٹھنڈا ہوتا ہے اور بہت شدید بارش بھی ہو رہی تھی۔ ہمارے پاس وہاں پر کوئی آشیانہ (شیڈ) نہیں تھا اور ہمارے وسائل کھلے احاطے میں پر اکندہ پڑے تھے۔ ٹیکنیکل اسٹاف نے ہم سے کہا کہ ایک پلاسٹک اور چار لکڑیوں کا انتظام کیا جائے تاکہ ہیلی کاپٹر کے چاروں طرف لگائی جائے اور اُس پر دن رات کام کیا جائے۔ ہمیں جن وسائل کی ضرورت تھی اُس کیلئے اصفہان آرڈر دیا اور وہ لے آئے۔ جب تک یہ تعمیر ہوتے، ہم نے شنوک ہیلی کاپٹروں سے استفادہ کیا۔ شنوک کو فرنٹ لائن تک نہیں جانا چاہیے تھا، لیکن یہاں پر مجبوری تھی۔ شنوک ۲۱۴ کی نسبت زیادہ ساز و سامان لے جاسکتا تھا، لیکن اس میں حملے اور نچلی سطح پر فرار کی قابلیت نہیں تھی۔ ہم سمجھ گئے تھے کہ جو ہیلی کاپٹر ایئر فورس کی طرف سے آئے ہیں، وہ جدید ماڈل کے ہیں اور اُن کا معائنہ ہوچکا ہے۔ اس سے ہمیں دلی طور پر اطمینان ہوا کہ جب تک ۲۱۴ ماڈل کے ہیلی کاپٹر  تعمیر ہو رہے ہیں، ہم چھ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے  پرواز کرسکتے ہیں، لیکن ہمارے پائلٹوں پر دباؤ بڑھ گیا تھا، کیونکہ اگر دن میں پانچ گھنٹے پرواز کرنا طے تھا، اب دن میں دس گھنٹے تک پرواز کرنا پڑے گی۔ میں کچھ راتوں تک ٹیکنیکل اسٹاف کے ساتھ رہا اور میں نے دیکھا کہ سردی کی شدت کی وجہ سے، اُن کے ہاتھ ہیلی کاپٹر کی باڈی اور اجزاء سے چپک رہے تھے۔ ہم نے ہمیشہ اپنے پائلٹوں کی فداکاری کے بارےمیں بیان کیا ہے اور ٹیکنیکل اسٹاف نے جو زحمات اٹھائیں اُس بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ ہم جب بھی پرواز کرکے واپس آتے، چار پانچ آدمی ہیلی کاپٹر میں ہونے والی خرابیوں کو صحیح کرنے کیلئے اُس کے گرد جمع ہوجاتے۔ خلاصہ یہ کہ انھوں نے ۱۵ دن کی جگہ ایک ہفتے سے بھی کم مدت میں تمام ہیلی کاپٹروں کو ٹھیک کرلیا اور خدا کا شکر ہے کہ ہم سرفراز اور سربلند وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوسکے۔ "

 

عراقی جنرل کا ہمارے شہداء سے شفا مانگنا

پروگرام کے تیسرے راوی سید جواد ہاشمی تھے۔ انھوں نے کہا: " ایک دوست بیان کرتا ہے کہ میں دس سال تک شہداء اور عراقی جنازوں کے تبادلہ کا مسئول رہا۔ ہم شلمچہ کے بارڈر پر جاتے، شہداء کو تحویل میں لیتے اور عراقی جنازوں کو اُن کے حوالے کرتے۔ مجھے معلوم تھا کہ ہمارے شہداء کو ایران میں بہت ہی عظمت کے ساتھ بہترین جگہوں پر دفن کیا جاتا ہے، میں نے چاہا کہ یہ بات جانوں کہ عراقی اپنے جنازوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟ کیا وہ اُن لوگوں کو دفن بھی کرتے ہیں؟ میں نے جاکر ٹوٹی پھوٹی انگلش میں ریڈ کراس کے نمائندے سے کہا کیا ایسا ہوسکتا کہ میں بارڈر کی اُس طرف جاکر دیکھ لوں؟ اُس نے کہا: نہیں اور اُس نے ایک لمبے چوڑے آدمی  جس کی شکل کالی اور بال گھنگریالے تھے کی طرف اشارہ کیا اور کہا اگر وہ اجازت دیدے، وہ جنرل ہے اور جنگ کے زمانہ میں، وہ ماہر عبد الرشید (عراقی افواج کا ایک اعلیٰ افسر)کا مکمل نمائندہ رہا ہے۔ میں نے اس بات کو ذہن سے نکال دیا۔ دس سال گزر گئے۔ ہمارے شہداء کو ایسے تابوت میں رکھا گیا تھا جو ہم نے خود بنائے تھے، عراقی جنازوں کو بھی ساتھ ہی رکھا گیا تھا اور ہم تبادلہ کرنا چاہ رہے تھے۔ اچانک میں نے دیکھا وہی بر ی شکل والا آدمی ہمارے شہداء کےجنازوں کے  درمیان چل رہا ہے اورہمارے شہداء کے تابوت میں ہاتھ ڈال رہا ہے، اُس نے کچھ اٹھایا اور اپنی مٹھی میں رکھ لیا۔ ایک مرد اُس کنارے تھا، میں چلایا اور کہا کہ اُسے ہمارے شہداء کے تابوت میں ہاتھ ڈالنے کا حق نہیں ہے، وہ کیا کر رہا ہے؟ اُس نے مجھے خاموش رہنے کا کہا، لیکن میں غصے میں تھا اور صرف آگے بڑھ رہا تھا۔ میں نے سپاہیوں اور ریڈ کراس کے نمائندہ کی غفلت سے استفادہ کیا اور اُس کے پاس پہنچ گیا، میں نے اُس کا گریبان پکڑ لیا اور چیخ کر کہا تم کس کی اجازت سے  ہمارے شہداء کے تابوت میں ہاتھ ڈال رہے ہو؟ میں تمہیں پہچانتا ہوں، تم وہی ہو جس نے سات آٹھ سال پہلے ہمارے لوگوں کو صدمہ پہنچا یا تھا، تم ماہر عبد الرشید کے نمائندے ہو! اُس نے مجھ پر گہری نظر ڈالی۔ اُسے فارسی آتی تھی، اُس نے کہا جناب میں نے کچھ نہیں کیا ہے! اُس نے میری باتوں کے درمیان اس جملہ کو کئی بار دہرایا۔ اُس نے تابوتوں کی طرف دیکھا۔ اُس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ اُس نے کہا: میری ایک بیٹی مریض ہے کہ جس کے بارے میں ڈاکٹروں نے جواب دیدیا ہے۔ اُس نے اپنی مٹھی کھولی تو میں نے دیکھا اُس میں ہمارے شہداء کی بوسیدہ قمیض کے ٹکڑے ہیں۔ اُس نے کہا: میں نے سنا ہے کہ آپ کے شہداء شفا دیتے ہیں، آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اُن کی قمیض کا ایک ٹکڑا اٹھالوں، میں اُسے اپنی بیٹی کی قمیض میں رکھنا چاہتا ہوں تاکہ وہ شفا حاصل کرلے اور وہ زار و قطار رونے لگا۔"

 

جوان اور عالم دین

جناب ہاشمی نے مزید کہا: "ہمارے یہاں ایک مولانا صاحب تھے جو ڈویژن کے کمانڈر تھے۔ وہ دیکھنے میں بہت ہی بداخلاق انسان لگتے تھے۔ فوج کے نشرو اشاعت یونٹ میں بھی ایک عمو حسن نام کے بوڑھے آدمی تھے جو محاذ پہ عمو حسن سے مشہور تھے۔ وہ روزانہ صبح دو کوہہ چھاؤنی کے بڑے سے احاطے میں دوڑ کر دس چکر لگاتے  اور تھکتے بھی نہیں تھے۔ اُس زمانے کے مشہور نعرے بھی اُن ہی کے تھے۔ بہت ہی سچے اور سادہ انسان تھے۔ ہم ایک اچھی شکل و صورت والے لائق اور نورانی جوان کو مولانا صاحب کے پاس لائے اور ہم نے کہا کہ یہ مردہ اور جن سے ڈرتا ہے، اس کیلئے کچھ تجویز کریں تاکہ یہ نہیں ڈرے۔ مولانا صاحب نے کہا کہ ایک سیڑھی ڈھونڈو اور اُس کے سایہ کے نیچے چلو اور جو ذکر میں تمہیں بتا رہا ہوں اُسے روزانہ بیس دفعہ تکرار کرو! اُس جوان نے تقریباً دس دن تک اس ذکر کو تکرار کیا اور پھر مولانا صاحب کے پاس گیا اور کہا مجھے سیڑھی نہیں ملی اور میں ابھی تک مردہ اور جن سے ڈرتا ہوں۔ انھوں نے کہا: منگل والے دن حاج ہمت کے امام بارگاہ میں آنا، میں تمہیں ایک نسخہ بتاؤں گا۔ منگل کو امام بارگاہ میں دعائے توسل کا پروگرام ہوتا تھا۔ وہاں بہت سارے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ مولانا صاحب نے مداح سے کہا مجھے مائک دینا مجھے ان لوگوں سے کچھ کام ہے۔ انھوں نے مائک پکڑ کر کہا ڈویژن کے ایک فرد کو سرطان ہے اور اُس نے کہا ہے کہ اگر میں مر جاؤں تو مجھے یہیں دو کوھہ میں دفنا دیا جائے! میں نے پروگرام کے بعد مولانا صاحب سے پوچھا کہ کس کو سرطان ہے؟ مولانا صاحب نے اُس جوان کی طرف رخ کرکے کہا تمہیں! وہ جوان ڈر گیا اور کہنے لگا مجھے سرطان نہیں ہے، مولانا صاحب کہنے لگے بات نہیں کرو! انھوں نے اُس سے پوچھا: کیا تم نہیں چاہتے کہ اب مردہ سے نہیں ڈرو؟ اُس نے کہا: جی۔ مولانا صاحب نے کہا: پس خاموش رہو! کچھ ساتھیوں نے مولانا صاحب کے حکم پر ڈویژن کے نشرو اشاعت یونٹ کے بیچوں بیچ اس جوان کو کفن پہنا دیا، اس معنی میں کہ وہ سرطان کی وجہ سے مر گیا ہے! عمو حسن جو سادہ سے انسان تھے، انھوں نے آکر کہا: کون مر گیا ہے؟ ہم نے کہا فلاں، وہ بہت غمگین ہوئے اور کہا: ہمیں صبح اُسے میدان میں گھمانا چاہیے اور لاالہ الا اللہ کہنا چاہیے! ہم سب نے ایک دوسرے  کی طرف نگاہ کی۔ ہم نے مولانا صاحب سے پوچھا کہ کیا کریں؟ انھوں نے کہا: اب مجھ سے کوئی ربط نہیں اور چلے گئے! جنازے کو کندھے پر رکھ اُس کی تشییع کردی۔ وہ جوان ڈر رہا تھا اور آرام سے مجھ سے کہہ  رہا تھا کہ کہیں مجھے دفن نہ کردیں؟! میں اُسے اطمینان دلا رہا تھا کہ ایسا نہیں ہوگا۔ جنازہ کی تشییع کے بعد جنازے کو ایک بٹالین کی عمارت کے سامنے لاکر رکھ دیا کہ جس کے کمانڈر یہی مولانا صاحب اور اُن کے معاون ایک جلیل القدر مولانا تھے۔ اُنہی مولانا صاحب نے بتایا اور کہا کہ ہم اُس پر نماز میت پڑھ رہے تھے، نماز میت کا ایک فراز ختم ہوا، جنازہ تھوڑا سا ہلا ، میں سمجھ گیا کہ وہ زندہ ہے۔ میں نے نماز کو جاری رکھا، میں نے دیکھا کہ وہ سانس لے رہا ہے۔ میں نے نماز کے بعد کہا کہ میں نے سنا ہے اس جوان نے کہا کہ اُسے یہیں دفن کیا جائے۔ میں نے مورچے کے پیچھے ایک قبر کھودی ہے اور اُس میں نماز شب پڑھتا ہوں، اسے لے جاکر وہاں دفن کردیں۔ اُس جوان نے جب یہ باتیں سنیں، وہ کھڑا ہوگیا اور اُسی کفن میں بھاگنا شروع کردیا! "

 

تین سالہ لڑکی کی داستان

جناب ہاشمی نے اپنا آخری واقعہ اس طرح سے بیان کیا: "میں نے شہداء کی یاد میں ہونے والے ایک پروگرام میں واقعہ بیان کیا۔ پروگرام کے بعد جب لائٹیں جلائی گئیں، میں نے دیکھا کہ ایک ۲۲ یا ۲۳ سالہ لڑکی ابھی تک بہت بری طرح رو رہی ہے۔ اُس نے میری طرف ایک کاغذ بڑھایا اور کہا : پڑھیں۔ اُس پر ایک شعر لکھا ہوا تھا۔ اُس نے کہا: میں نے اس شعر کو اپنے نکاح والے دن پڑھا تھا۔ میں شہید علی رضا موسوی کی بیٹی ہوں، میں نے ۲۲ سال انتظار کیا ہے، میں نے کہا تھا جب تک میرے والد نہیں آجائیں گے میں شادی نہیں کروں گی۔ میں نےپوچھا: وہ آئے؟ اُس نے کہا: جی! اُس نے روتے ہوئے بتایا کہ میرا نام رقیہ سادات موسوی ہے۔ جب میں تین سال کی تھی، میں بہت اچھا بولتی تھی۔ اس طرح سے کہ رشتہ داروں اور پڑوسیوں میں مشہور ہوگیا تھا۔ میرے والد جب بھی چھٹی پر آتے، بغیر کسی استثنا کے ایک گڑیا خرید کر اپنے ساتھ لاتے ۔ وہ اپنے دائیں ہاتھ سے گڑیا کے ساتھ کھیلتے اور اُس کی آواز نکالتے اور اپنے بائیں ہاتھ سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے۔ میں بھی جاکر اُن کے قدموں میں بیٹھ جاتی اور میٹھی میٹھی باتیں کرنے لگتی۔ ایک دفعہ جب وہ چھٹی پر آئے، میں جاکر اُن کے قدموں میں بیٹھ گئی۔ میں نے دیکھا کہ گڑیا اُن کے بائیں ہاتھ میں ہے۔ وہ بائیں سے گڑیا کے ساتھ کھیل رہے تھے اور اُسی ہاتھ سے میرے سر پر ہاتھ پھیر رہے تھے۔ میں نے ہاتھ مارکر دیکھا تو اُن کے دائیں ہاتھ کی آستین خالی  ہے۔ میں نے پوچھا: بابا آپ  کا دایاں ہاتھ کہاں ہے؟ انھوں نے کہا: میں اپنے دائیں ہاتھ کو مورچے میں بھول آیا ہوں۔ میں بہت زیادہ روئی اور کہا: آپ جائیں اور مورچے سے اپنا دایاں ہاتھ لیکر آئیں کہ میرے والد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انھوں نے روتے ہوئے کہا: ضرور، اس دفعہ جب میں مورچے میں جاؤں گا، اگر میں خود وہاں نہیں رہ گیا تو اپنا دایاں ہاتھ اپنے ساتھ لے آؤں گا۔ میرے والد گئے اور خود بھی وہیں رہ گئے۔ میں دیکھ رہی تھی کہ میری ماں ایک کونے میں بیٹھی رو رہی تھی، میں اُن سے پوچھتی کیا آپ بابا کیلئے رو رہی ہیں؟ وہ کہتیں: ہاں میری بیٹی، مجھے اُن کی یاد آرہی ہے۔ میں دیکھتی کہ تابوتوں کو لا رہے ہیں اور شہر میں پھرا رہے ہیں، میں پوچھا کرتی کہ میرے والد ان میں سے کسی بھی تابوت میں نہیں ہیں؟ میری والدہ کہتیں: نہیں میری بیٹی، تمہارے والد ان میں سے کسی ایک تابوت میں نہیں ہیں اور ممکن ہے کبھی بھی نہ ہوں۔ میں آہستہ آہستہ لاپتہ ہونے کے مفہوم کو سمجھ گئی۔ ایک سال شہداء اور لاپتہ افراد کے بچوں کو شام لے جایا گیا، میں اپنی ماں کا ہاتھ پکڑے ہوئے ایک باریک سی گلی سے گزری جس کے آخر میں ایک چھوٹا سا گنبد تھا۔ میں نے اپنی والدہ سے پوچھا یہ کس کا گنبد ہے؟ میری ماں نے جواب میں کہا تمہارے والد نے ان معظمہ کی محبت میں تمہارا نام رقیہ رکھا تھا۔ میری ماں نے کہا یہ گلی ایک دن ویران تھی، یہ معظمہ بھی تمہاری طرح اپنے بابا سے بہت پیار کرتی تھیں، دشمن نے جب دیکھا کہ یہ بچی اپنے بابا کیلئے بہت زیادہ گریہ کر رہی ہے، اُس نے اس بچی کے سر کو ایک تشت میں رکھا اور ان کے سامنے لے آئے، انھوں نے اپنے بابا کے سر سے باتیں کی۔ ہم اُن کی چھوٹی سی ضریح کے پاس پہنچے، میں نے اپنی ماں کا ہاتھ چھوڑ دیا اور ضریح کی سمت دوڑی۔ میں نے اُن معظمہ سے بات کی اور کہا آپ مجھ سے بہت ملتی ہیں، لیکن ہم دونوں میں ایک فرق ہے، آپ نے اپنے بابا کے سر کو دیکھا، آپ کو پتہ ہے لاپتہ ہونا یعنی کیا؟ میں نے اپنی شادی والے دن کہا کہ تمام لائٹوں کو بند کردیا جائے، میرے والد نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ آئیں گے اور میں نے اپنے شعر کو پڑھا: "ایسا کیا ہوگیا ہے کہ آپ ہمارے پاس نہیں آتے؟ میری ماں کی تمام جوانی، آپ کیوں نہیں آتے؟ اگرچہ سختی کے ساتھ، لیکن آپ کی بیٹی بڑی ہوگئی ہے، اُس کے عقد میں شرکت کیلئے باوفا کیوں نہیں آتے؟ دولہا دلہن سفر پہ جانے کیلئے تیار ہیں بابا، امام رضا (ع) کی زیارت پہ نہیں آتے؟ شعر کی کاپی میں، میں نے کتنے خط لکھے، کس قدر نذر و نیاز اور دعا؟ نہیں آتے؟ میرا دل آپ کی یاد میں کھو جائیگا بابا، آپ تو اپنی دلبر کو دیکھنے نہیں آتے…"

دفاع مقدس کے سلسلے میں یادوں بھری رات کا 2۹۱ واں پروگرام، ثقافتی تحقیق، مطالعات اور پائیدار ادب کے مرکز اور ادبی و مزاحمتی فن کے مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام،۲۴ مئی ۲۰۱8ء کو  آرٹ گیلری کے سورہ آڈیٹوریم  میں منعقد ہوا۔ اگلا پروگرام ۲۸ جون کو ہوگا۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 4197



http://oral-history.ir/?page=post&id=7860