"چالیس ہزار بیٹوں" کے بارے میں ڈاکومنٹری

ہلال احمر کی زبانی تاریخ کی طرف ایک قدم

لیلا کریمی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-06-12


عراقی جیلوں میں قید ایرانی قیدیوں کی مظلومیت بھری داستان پر ایک ڈاکومنٹری فلم بنائی گئی اور اس فلم کو نام دیا گیا: "چالیس ہزار بیٹے" اس فلم کی نمائش ۲۳ مئی ۲۰۱۸ کو ڈائریکٹر نور اللہ نصرتی کی موجودتی میں ایران کے سرکاری ارکائیو سنتر کے ڈاکٹر پرہام ہال میں کی گئی۔

ایرانی زبانی تاریخ کی سائٹ کی رپورٹ کے مطابق اس ڈاکومنٹری فلم کی چار قسطوں میں ان  مطالم کی منظر کشی کی گئی ہے جو صدام کے فوجی جیلوں میں ان ایرانیوں قیدیوں پر ڈھائے گئے۔ ڈاکومنٹری فلم"چالیس ہزار بیٹے" ایران میں ہلال احمر کے ادارے میں بنائی گئی اور اس ادارکے جشنوارے میں لائق تحسین قرار پائی اور اسے "ہلال وصلی" کا نام دے کر انعام سے بھی نوازا گیا۔

جمہوری اسلامی ایران کی سرکاری لائبریری کے ڈاکومینٹس ریسرچ سنٹر کی طرف سے منعقدہ اس ڈاکومنٹری فلم کی تحقیق اور نمائش کے آغاز میں ڈائریکٹر نور اللہ نصری نے فلم "چالیس ہزار بیٹے" کے حوالے سے گفتگو کی اور ان نکات کی طرف اشارہ  کیا جو دفاع مقدس کی ثقافت سے مربوط ہیں اور غفلت کی نذر ہوچکے ہیں۔ انھوں نے کہا: "دفاع مقدس کی آٹھ سالہ جنگ کے نشیب و فراز اور تاریخی پہلوؤں کے باوجود اس پرسیر حاصل بحث ہی ہوئی اور  نہ ہی حق ادا ہوا ہے جبکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ یہ آٹھ سالہ دفاع مقدس نہ صرف ملکی صطح تک غیر معمولی واقعہ ہے بلکہ بین الاقوامی حد تک بھی اس کی اہمیت عیاں ہے۔ ہاں بات کا ضرور اعتراف کرون گا کہ دفاع مقدس کے سینما، ادبیات کے سنٹر اور مزاحمتی ہنر کی طرف سے بہت کام ہوا ہے لیکن میرےنکتہ نظر سے دفاع مقدس کا ایک نمایاں حصہ جو خود قیدیوں سے مربوط ہے غفلت کی ںظر رہا اور دوہری مظلومیت سے دوچار رہا ہے۔"

ڈائریکٹر نصرتی نے اسلامی جمہوریہ ایران پر صدام کی طرف سے مسلط کردہ جنگ کے ایرانی قیدیوں کو "جنگ کے پوشیدہ مورچے" کا نام دیا اور مزید کہا کہ: اس تاریخ کے کچھ پہلو آج بھی ڈھکے چھپے اور پوشیدہ رہ گئے اور وہ پہلو ہلال احمر کمیٹی کی خدمات اور فعالیت کے حوالے سے ہیں کہ جس نے ایک خاص نظریے کے تحت  قیدیوں اور رہا شدہ لوگوں کے خاندانوں سے رابطہ قائم رکھا۔ جبکہ اس کا قانونی فرض عراقیوں چھاؤنیوں میں ایرانی قیدیوں کے حال و احوال سے آگاہی حاصل کرنا اور تحقیق کرنا تھا۔

یہ فلم ہلال احمر کی خواہش پر بنائی گئی ہے اسی بات کی طرف اشارہ اور وضاحت کرتے ہوئے نصرتی نے بتایا کہ: دفاع مقدس کے دوران ہلال احمر کمیٹی نے اپنی سرکاری حیثیت کے ساتھ جو خصوصی کردار ادا کیا اس پرکچھ نہیں کہا گیا اور یوں وہ کردار خاطر خواہ اہمیت سے محروم رہ گیا۔ کچھ ایسے ہی بہت  بڑے مخفی گوشوں کو نکھارنے اور ظاہر کرنے کیلئے نیز کما حقہ اہمیت دلانے کے ہدف کو سامنے رکھ کر یہ فلم بنائی گئی ہے تاکہ قیدیوں اور رہا شدہ افراد  کی بہت سی اَن کہی باتوں اور واقعات سے پردہ اٹھایا جاسکے۔

ڈاکومنٹری فلم "چالیس ہزار بیٹے" کے ڈائریکٹر نے زبانی تاریخ کے ادارے کو ایک غیر جانبدار ادارہ قرار دیا اور کہا: اس ادارے نے تاریخ کے ناگفتہ پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے اور میں نے اسی ادارے کے عنوان کے ساتھ اپنی فعالیت دکھانے کی کوشش کی ہے اور آڈیو ویڈیو سیکشنز کی مدد سے ایک ایسی ڈاکومنٹری فلم بنائی جس میں ہلال احمر کمیٹی کی خدمات اور آزادگان کے لئے امداد کے کچھ گوشوں کو ظاہر کیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ فلم کے سین اور تصاویر میں عراقی چھاؤنیوں میں ہونے والی تعمیر نو کو اُجاگر نہیں کیا گیا ہے۔ انھوں نےمزید کہا: اس فلم کو زبانی تاریخ کے انٹرایکٹو ڈاکومنٹری کی اساس پر بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور عراقی چھاؤنیوں اور جیلوں کی تصاویر فرانسوی اور عراقی ٹی وی کے آرکائیو سے حاصل کی گئی ہیں۔ لوگ اس تاریخ واقعہ پر مختلف آراء کے تحت بات کرتے ہیں اور اس سلسلے میں یہی بھرپور کوشش کی گئی ہے کہ تمام آراء کو کھول کر سامنے لایا جائے ۔ رہا شدہ افراد اور ہلال احمر کے متعلق بھی ان کہی اور اَن سنی باتیں بہت زیادہ ہیں،  یہ سب سامنے رکھ کر ہم نے پہلا قدم اٹھایا اور آخرکار ایران کی سرکاری آرکائیو میں یہ فلم دکھائی گئی جس کی ہمیں بہت خوشی ہے۔

اس فلم کے ڈائریکٹر کی گفتگو کے بعد چھ منت پر مشتمل "خرم شہر" کی آزادی پر بنائی گئی ڈاکومنتر فلم دکھائی  گئی اور  یہ فلم بھی اسی ڈائریکٹر کی بنائی ہوئی ہے۔ اس فلم کے ایک سین میں  "خرم شہر" میں موجود امدادی تیم کے ایک فرد نے ایک یادگار واقعہ یوں سنایا: یہاں پر گزرے ہوئے ہمارے سخت ترین دنوںمیں سے ایک دن یکم اکتوبر ۱۹۸۰ کا دن ہے کہ جب زمین آسمان اور سمندر الغرض ہر طرف سے گولہ بارود کی آواز آرہی تھی۔ میرے امدادی تجربات میں سے ایک تجربہ یہ رہا کہ اس دن ہمارا سامنا لوگوں کی ایک بڑی تعداد سے ہوا۔ ان لوگوں کا خیال یہ تھا کہ سب سے زیادہ پر امن جگہ ہسپتال ہے لیکن بہت افسو س سے کہنا پڑ رہا ہے کہ سب سے زیادہ اسی ہسپتال کو اس کے ایمرجنسی وارڈ سیمیت نشانہ بنایا گیا اور یوں بہت سی بے گناہ جانوں کا نذرانہ دینا پڑا۔ ہم، لوگوں کو دریا کے پاس قریبی نخلستان میں لے گئے۔ یہ چھپنے کے لئے ایک مناسب جگہ تھی اور لوگوں نے کنارے پر جو سامان چھوڑا تھا اس میں کشتیاں بھی تھیں اور صرف انہی کشتیوں کی وجہ سے ہم نے بہت فائدہ اٹھایا۔ رات ہوتے ہیں ہم نے تمام تر کشیوں کو ترتیب سےلگا کر  ایک پل بنایا اور یہ ایسا و اقعہ ہے جو شاید کسی کے علم میں نہ ہو۔ کیونکہ اس افراتفری کے عالم میں کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ رہا تھا۔ خود میری ذمہ داری بھی امداد ررسانی تھی۔ ۲۶ اکتوبر ۱۹۸۰ کو خرم شہر کست سے چوچار ہوا اور جب چھاؤنی تک اس شکست کی خبر پہنچی تو چھاؤنی گویا کربلا کا منظر پیش کرنے لگی۔ اب خرم شہر نامی شہر کے کوئی آثار نہ تھے۔ اس سانحے کو قبول کرنا بہت سخت تھا…۔ "

اس کے بعد ڈاکومنٹری فلم "چالیس ہزار بیٹے" دکھائی گئی جس کی چاروں قسطیں مجموعی طور پر ایک گھنتے پر مشتمل تھیں۔  پہلی قسط کا نام "زندان حجاج" تھا جس میں عینی گواہوں کے بیانات کے مطابق عراقی فوجیوں کو انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ اس قسط میں اُس دور کے جنگی اطلاعات کے ادارے کے انچارج کمال خرازی نے ۱۹۸۵ میں میڈیا کے ساتھ ایک نشست میں بتایا کہ: ریڈکراس کمٰٹی کے بین الاقوامی ادارے کے نمائندے اور ایک ڈاکٹر نے ڈسپنسری کے تمام بیماروں کا معائنہ کیا۔ ان میں بہت سارے افرد ایسے تھے جو غلط علاج معالجے اور نامعقول قسم کے آپریشن کی وجہ سے کربناک حالت میں تھے۔ خصوصاً وہ افراد جن کی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کوغلط پلستر کیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے متاثرہ حصے سوجن اور ورم سے دوچار تھے۔ اس نشت میں انھوں نے مزید بتایا کہ: ۲۰۰ سے لیکر ۴۰۰ تک سپاہیوں کو، جنہیں دوسرے علاقوں سے پکڑ کر چھاؤنی میں لایا گیا تھا، اچھا خاصہ مارا پیٹا گیا تھا اور یوں ۹۰ افراد زخمی اور تین شہید ہوگئے تھے اور ان کے عراقی حکومت کی طرف سے جارہ شدہ ڈیتھ سرٹیفیکیٹ پر بھی ریڈ کراس نے اعتراض کیا۔

دوسری قسط میں کہ جس کا نام "باغ ہلال" تھا، قیدیوں اور گمشدہ افراد کی نسبت ہلال احمر کمیٹی کی خدمات کو واضح کیا گیا تھا۔  اور اسی قسط میں قیدی اور گمشدگان کے ادارے کی سربراہ جناب بہجت افراز، ہلال احمر کمیٹی جستجو و تلاش برائے گمشدگان کی مسئول نجمہ حسن پور نے متاثرہ خانداوں اور گمشدہ افراد کی داستانیں سنائیں۔  نجمہ حسن پور نے ان دنوں کی یاد تازہ کی جب قیدی واپس آرہے تھے اور گمشدہ افراد کے لواحقین ہاتھوں میں اپنے پیاروں کی تصویر لئے کھڑے تھے اور سب آنے والوں سے پوچھ رہے تھے کہ کیا تم نے ہمارے بیٹ کو نہیں دیکھا…۔

تیسری قسط کام نام "سرخ و سفید قاصد"تھا۔ اس قسط میں قیدیوں اور ان کے گھر والوں کے مابین ہونے والی خط و کتاب اور خطوط کے تبادلے کی منظر کشی کی گئی ہے۔ جناب بہجت افراز نے بتایا کہ : جنگ کے آغاز سے لیکر بڑی کامیابی تک تقریباًٍ ساٹھ لاکھ خطوط کا تبادلہ ہوا۔

چوتھی قسط "نقش محترمہ افراز" کے نام سے تھی جس میں بہجت افراز کی شخصیت اور فعالیت کو اُجاگر کیا گیا تھا اور یہ وہ خاتون ہیں جو ۱۸ سال قیدیوں اور گمشدہ افراد کے ادارے کی سربراہ رہ چکی ہیں۔ فریبزر خوب نژاد نے اس قسط میں آزاد ہونے والوں کے متعلق بتایا کہ محترمہ افراز  ایک ماں تھیں ایسی مان جس کے چالیس ہزار بیٹے تھے۔ وہ ام الاسرا یعنی اسیروں اور قیدیوں کی ماں تھی اور یہ لقب ان کو مرحوم حاجی جناب ابوترابی نے دیا تھا۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2994



http://oral-history.ir/?page=post&id=7852