۲۸۷ ویں یادوں بھری رات میں راویوں کے ساتھ

اسارت اور مفید اسکول کے شہداء کا ذکر

مریم رجبی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-06-03


ایرانی زبانی تاریخ کی سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس میں یادوں بھری رات کا ۲۸۷ واں پروگرام، ۲۸ دسمبر ۲۰۱۷ کو جمعرات کی شام آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا۔ اس پروگرام میں سارو یعقوبیان اور عباس جہانگیری نے عراق کی ایران پر مسلط کردہ جنگ میں اپنے واقعات کو بیان کیا ۔

پروگرام کے آغاز میں، شہید علی خوش لفظ کی رہبر معظم انقلاب سے ملاقات پر مشتمل ایک چھوٹی سے ویڈیو دکھائی گئی اُس کے بعد اکبر عینی جو پروگرام میں میزبانی کے فرائض انجام دے رہے تھے، انھوں نے اس شہید کے بارے میں ایک چھوٹا ساواقعہ بیان کیا، عینی نے کہا: "یادوں بھری رات کے ایک پروگرام میں جب ہم رہبر معظم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، میں پروگرام کا میزبان تھا۔ وہاں مجھ سے کہا گیا کہ چونکہ شہید خوش لفظ بیمار ہیں اس وجہ سے اُنہیں سب سے پہلے بلایا جائے تاکہ وہ اپنا واقعہ سنائیں۔ اس شہید کو بولنے میں مشکل ہوتی تھے اور وہ الفاظ کو واضح اور قابل فہم انداز میں ادا نہیں کرسکتے تھے؛ دوسری طرف سے بہت زیادہ واقعات ہونے کی وجہ سے مہمان بھی تھک چکے تھے، یعنی یادوں بھری رات کے مسئولین نے مجھ سے کہا کہ اُن سے اپنی گفتگو ختم کرنے کا کہوں اور مجھ سے چاہا کہ اُن کے پاس جاکر کھڑا ہوجاؤں تاکہ وہ متوجہ ہوجائیں ، اچانک سب لوگوں نے ایک ساتھ صلوات بھیجی اور وہ متوجہ ہوگئے  اور انہوں نے معذرت خواہی کرتے ہوئے کہا کہ ظاہراً میں نے بہت زیادہ بات کرلی ہیں، رہبر معظم نے فرمایا کوئی بات نہیں، آپ اپنی بات جاری رکھیں۔ سب لوگ خاموش ہوگئے اور انھوں نے اپنی باتوں کو جاری رکھا۔"

جمشید (علی) خوش لفظ، "وقتی مہتاب گم شد" (جب  چاند ڈوب گیا) نامی کتاب کے راوی، جمہوری اسلامی ایران پر صدامی افواج کی مسلط کردہ جنگ میں کیمیائی حملات میں زخمی ہونے کے سبب ۲۰ دسمبر کو تہران کے خاتم الانبیاء ہسپتال میں شہادت پر فائز ہوئے۔

جہاں ۱۱۹۹ افراد مسلمان تھے وہاں فقط میں اکیلا ارمنی تھا

دفاع مقدس کے سلسلے میں یادوں بھری رات کے ۲۸۷ ویں پروگرام کے سب سے پہلے واقعات بیان کرنے والے سارو یعقوبیان  تھے۔ انھوں نے کہا: "میں مذہبی اقلیتوں اور ارامنہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں صوبہ خوزستان کے مسجد سلیمان نامی شہر میں پیدا ہوا۔  میرا بھائی سن ۱۹۸۵ میں بھرتی ہوا اور میں بھی سن ۱۹۸۶ میں بھرتی ہوگیا۔ میرا بھائی ژاندامری نامی ایک حفاظتی ادارے کی طرف سے جزیرہ مینو پر کام کرتا تھا اور اس ادارے کا یہ قانون تھا کہ اگر ایک شخص ایک سال تک جنگی علاقے میں کام کرے تو وہ پچھلے درجہ پر واپس پلٹ سکتا ہے۔ میں جس زمانے میں جنگی علاقے میں جانا چاہتا تھا، میرے بھائی نے کہا کہ میں حکم نامہ لیکر محاذ پر ہی روک جاؤں گا تاکہ پھر مجھے جنگی علاقے میں آنے کی ضرورت نہ پڑے اور اُس نے چاہا کہ میں والدین کے پاس رہوں تاکہ وہ لوگ آرام سے رہیں۔ میں نہیں مانا اور میں نے کہا جو خدا چاہے اور جو تقدیر میں لکھا ہوگا وہی ہوگا۔ میں نے کہا کہ اگر میں نہ آؤں اور تمہارے ساتھ کوئی حادثہ پیش آجائے تو میں اپنے آپ کو عمر بھر معاف نہیں کروں گا۔

میں فوجی ٹریننگ کے لئے بھرتی ہوگیا۔ پہلے اہواز اور وہاں سے تہران گیا اور میں نے ایک چھوٹے سے ڈویژن میں ٹریننگ حاصل کی۔ میں صفر ایک نامی چھاؤنی گیا اور وہاں پر کوڈز کا دورہ مکمل کیا پھر چار مہینے بعد مجھے کسی علاقے میں بھیج دیا گیا۔ میں نے تقریباً ۲۰ مہینے تک وہاں پر ڈیوٹی انجام دی اور میری ٹریننگ کے ۲۴ مہینے پورے ہوئے ہی تھے کہ میں اسیر ہوگیا۔ جب ہمیں پکڑا تو اُس وقت ہم ۱۵ لوگ تھے۔ ہمیں ایک Km نامی کھلی جیب  میں بٹھایا گیا۔ سب کھڑے ہوئے تھے۔ جب ہم جا رہے تھے تو سامنے سے اُن کے ٹینکس آرہے تھے۔ ہمارے ہاتھوں کو ٹیلی فون کی تاروں سے باندھا ہوا تھا۔ گاڑی کا ڈرائیور بہت بری طرح گاڑی چلا رہا تھا۔ وحید جمالی نامی میرا ایک دوست تھا جس نے میرے ساتھ ٹریننگ کی تھی۔ میں نے اُس سے کہا چونکہ ڈرائیور بری طرح گاڑی چلا رہا ہے، تم کھڑے ہوجاؤ، اُس نے کہا کہ میں تھکا ہوا ہوں اور بیٹھنا چاہتا ہوں۔ راستے میں گاڑی الٹ گئی اور ہم سب باہر گر پڑے۔ جب ہماری حالت سنبھلی تو ہم نے دیکھا وحید جمالی سو میٹر دور روڈ کے  اُس طرف گرا ہوا ہے اور اُس کے سر اور داڑھی سے خون بہہ رہا ہے۔ موقع ایسا تھا کہ زیادہ تر افراد اپنی فکر میں تھے۔ میں لوگوں سے کہہ رہا تھا کہ وحید اُس طرف گرا ہوا ہے اور وہ لوگ کہہ رہے تھے کہ وہ زندہ باقی نہیں بچے گا۔ انھوں نے کہا چلتے ہیں، میں نے کہا کہاں چلتے ہیں؟!بہرحال ہم نے جاکر اُسے اپنے کندھوں پر اٹھایا اور گاڑی کے نزدیک لے آئے۔ وہ بیہوش ہوچکا تھا۔ لوگوں نے کہا: "سارو اُسے چھوڑ دو، وہ زندہ نہیں بچے گا، اُس کا خون بہہ رہا ہے۔" میں نے اپنے کان کو اُس کے سینے سے لگایا تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہ زندہ ہے ، میں نے کہا اُس کو چھوڑ دینا اچھی بات نہیں ہے، وہ ہمارا ساتھی ہے۔ کسی نے میری مدد نہیں کی، مجھے بہت افسوس ہے۔ جس طرح بھی ہوا میں نے اُسے اپنے کندھوں پر ڈالا اور پیدل عراقیوں کے علاقے تک لے گیا۔ یہ ایسی حالت میں تھا کہ زمین اور روڈ پر اتنے ٹینکس چلے تھے کہ جس کی وجہ سے زمین آدھے میٹر تک نرم ہوگئی تھی اور ہمارے پیر مٹی میں دھنس جاتے۔ میں نے اپنے دوست کو اُن کے حوالے کیا اور ہم خود ایسی جگہ گئے جہاں بانس کے ذریعے چھاؤنی بنائی گئی تھی۔ ہمیں وہاں بٹھا کر ویڈیو بنائی گئی۔ اُس کے بعد کیمپوں میں لے جانے کیلئے ہمیں الگ الگ کردیا گیا۔

ریڈکراس والے وہاں پر موجود اکثر کیمپوں کا معائنہ کرچکے تھے۔ جس وقت ہم لوگ پہنچے، جگہ نہیں تھی اور کسی  بھی کیمپ والے نے ہمیں  کیمپ  میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ آخر  میں وہ لوگ ہمیں اپنے جنگی وسائل اور اسلحہ کے اسٹور میں لے گئے؛  تین سے چار بائی والے ۱۲ میٹر اور ۲۰ میٹر کے کمروں پر مشتمل ایک احاطہ تھا۔ ۲۰ میٹر والے کمروں میں ۷۵ لوگوں کو گھساتے تھے۔ ہم چونکہ ۵۰ ا فراد تھے ہمیں ۱۲ میٹر والے چھوٹے کمرے میں رکھا گیا۔ اُس میں ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی ۔ ابتدائی دنوں میں کھانا اور پانی نہیں دیتے تھے۔ ہمارے پاس سونے کیلئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ میرے ساتھ آج کل جو ڈسک کمر اور ریڑھ کی ہڈی میں درد کا مسئلہ ہے، مجھے یہ تکلیف وہاں سے شروع ہوئی۔ سوتے وقت ہماری کمر زمین پر اور ہمارے پیر دیوار پر ہوتے تھے حتی چار یا پانچ لوگ جن کی جگہ نہیں بن رہی تھی، وہ مجبور تھے کہ شفٹ کی صورت میں کھڑکی کے پنجرے کے ساتھ کھڑے رہیں پھر ایک گھنٹے بعد دوسرے افراد بیدار ہوکر اُن کی جگہ لے لیں تاکہ وہ لوگ اُن کی جگہ جاکر سو جائیں۔ اسی طرح ایام گزر رہے تھے اور ہمیں اس کی عادت ہوگئی تھی۔ حتی چھ مہینوں تک ہمیں چپل بھی  نہیں دی گئی تھی۔  ہم ننگے پیر ہی واش روم آنا جانا کرتے تھے۔ دو  واش روم تھے اور ہم ۱۲۰۰ افراد  تھے۔ اگر ہم واش روم جانے کیلئے دن میں  ایک گھنٹہ یا دو گھنٹہ باہر ہوتے تو عراقی ہمیں تنگ کرتے تھے ، مثلاً بہت زیادہ دیر لائن میں لگنے کے بعد جب ہماری باری آنے والی ہوتی تھی ، تو وہ لوگ گنتی پوری کرنے کیلئے سیٹی بجاتے اور ہم اُس کے لیے لائن لگانے پر مجبور تھے اور جب دوبارہ واش جانا چاہتے تو پھر سے لائن میں ۱۰۰ افراد ہم سے آگے ہوتے تھے۔ کچھ مدت گزرنے کے بعد لوگوں کو ایک دوسرے سے ہمدردی ہوگئی تھی۔ وہاں ۱۱۹۹ افراد مسلمان تھے اور فقط میں ارمنی تھا۔ ہمیں ایک سینی کی طرح کے برتن میں کھانا دیا جاتا تھا جس میں دس لوگوں کے گروپ کے لئے کچھ مقدار میں چاول ڈال دیتے اور ہر گروپ کا ایک مانیٹر تھا۔ ہمارے لیے نہ کوئی پلیٹ تھی اور نہ کوئی چمچہ۔ وہ کھانے کے برتن کو بیچ میں رکھ دیتے اور دس لوگ اُس کے گرد جمع ہوجاتے، ہمیں ہاتھ بڑھا کر مٹھی میں کچھ چاول اٹھانے پڑتے تھے، اب کم ہو یا زیادہ اُسی ایک مٹھی چاول پہ گزارا کرتے۔ وہاں جانے کے بعد شروع کے دو یا تین دنوں میں ، مشہد کے کسی گاؤں سے آئے کچھ افراد  کھانا نہیں کھا رہے تھے۔ دو یا تین دن بعد ہمارے مانیٹر نے مجھے ایک کونے میں بلایا اور کہا کہ پرانے زمانے میں اُن کے والد اور دادا وغیرہ نے اُن سے بیان کیا تھا کہ جو لوگ مسلمان نہیں ہوتے، اُن کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا  نہیں کھانا چاہیے، ہمارے مانیٹر نے بات جاری رکھی چونکہ تم کھانے کو ہاتھ لگاتے ہو اس لیے وہ لوگ کھانا نہیں کھاتے۔ میں نے کہا کوئی برتن نہیں ہے کہ میں اپنے کھانے کو الگ کرلوں اور دوسری صورت میں وہ لوگ بھوکے رہ جائیں گے، وہ لوگ آئیں اور اپنا کھانا کھائیں۔ دو دن بعد ایک ایک کرکے آگے آئے۔ جب انھوں نے میرے اخلاق کو دیکھا پھر ہم بھائیوں سے بھی زیادہ ایک دوسرے سے قریب ہوگئے تھے۔ آخری دنوں میں جب ہم ایک دوسرے سے جدا ہو رہے تھے، میں نے کہا یاد ہے کہ ابتدائی دنوں میں آپ لوگوں نے کیا کیا تھا؟ انھوں نے جواب میں کہا اُن دنوں کو بھول جاؤ۔

جب عراقی ہم لوگوں کو تنگ کرنا چاہتے تو ہم سب مل کر فیصلہ کرتے۔ کچھ موضوعات پر دو یا تین مرتبہ ہڑتال جیسی صورتحال بن گئی کہ ہمیں دو سے تین دنوں تک کیمپ کے زندان میں رکھا گیا۔ عراقی کھڑکی کے کنارے پانی کیلئے صراحی جیسا برتن رکھتے تھے تاکہ ہم رات کو پانی استعمال کرنے کیلئے وہاں سے لے لیں، ہڑتال کے زمانے میں انھوں نے اُس برتن کو توڑ دیا اور ہمیں پانی نہیں دیتے تھے، لیکن یہ چیزیں اس بات کا سبب نہیں بنیں کہ ہم اپنے مطالبات بیان نہیں کریں۔ میں جس زمانے میں اسیر ہوا تھا، میرے دانت میں درد تھا۔ ایک دن میں نے بھی ڈاکٹر کے پاس جانے کیلئے اپنا، اپنے والد اور اپنے دادا کا نام لکھو ادیا، اب میں اپنی باری کے انتظار میں تھا تاکہ کلینک جاکر اپنا دانت نکلواؤں۔ چھ مہینے سے ایک سال گزر گیا لیکن میری باری نہیں آئی۔ افراد خار دار تاروں کو پتھر پر رگڑ کر نوک دار بنالیتے، آگ سے اُسے گرم کرلیتے ، دو آدمی ہاتھوں کو پکڑ لیتے  پھر اُس دانت کی جڑ کو جلا دیتے۔  میں نے بھی یہی کام کیا پھر ڈیڑھ سال بعد جب میں لائن میں لگا ہوا تھا کلینک جانے کیلئے میرا نام پکارا گیا۔ میں نے خود سے کہا خدا کا شکر ہے میں اس بارے میں بھی پرسکون ہوجاؤں گا۔ انھوں نے میری آنکھوں کو بند کیا اور مجھے ایک گاڑی پر بٹھایا، آخر میں مجھے ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گئے جس میں ایک لوہے کی کرسی تھی۔ وہاں ایک ایسی چیز تھی جو سر کو پکڑ لیتی اور ہلنے نہ دیتی۔ ہم نے شکنجوں کے وقت کبھی کبھار ایسی چیزوں کا مشاہدہ کیا تھا۔ میرے ہاتھوں کو باندھ دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب آئے ، میں نے سوچا شاید انجکشن لگائے گا اور دانت نکالنے سے پہلے میرے دانت کو بے حس کرے گا۔ ڈاکٹر نے اپنے ہاتھ میں پلاس پکڑا اور کہا اپنا منہ کھولو۔ میں انجکشن لگنے کا منتظر تھا، لیکن میں نے دیکھا اُس نے اپنے پیروں کو کرسی کے دستوں پر رکھا اور پلاس کے ذریعے میرے دانت کو پکڑا ، خدا گواہ ہے وہ تقریباً دس منٹ  میرا دانت ہی کھینچتا رہا۔ میں چیخ رہا تھا اور وہ مجھے برا بھلا کہہ رہا تھا۔ اُس ڈاکٹر کا پورا چہرہ پسینے سے شرابور ہوگیا تھا۔ بہرحال میرا دانت نکل گیا اور اُس کے بعد اس میں انفیکشن ہوگیا۔ ہم لوگ اینٹی بایوٹک کی جگہ سگریٹ کی راکھ رکھ لیتے تھے اور دو ہفتہ بعد صحیح ہوجاتا تھا۔ جب میں واپس پلٹا اور اپنے دانوں کو صحیح کروانے کیلئے گیا، میں نے اپنے  اس دانت کو صحیح نہیں کرنا۔ میں چاہتا تھا اُس کی جگہ خالی رہے تاکہ اُس ڈاکٹر کی طرف سے ایک یادگار رہے!"

تین مارچ ، بالکل وہی وقت ، جس وقت علی گیا تھا

دفاع مقدس کے سلسلے میں یادوں بھری رات کے ۲۸۷ ویں پروگرام کے دوسری راوی عباس جہانگیری تھے۔ انھوں نے کہا: "میں تہران کے اطراف میں موجود محلوں میں سے ایک مشہور محلے قنبر آباد میں بڑا ہوا۔ جنوب شہر کے اُس علاقے کے ماحول نے میرے بڑے ہونے کے طریقہ پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ انقلاب کے بعد، میری والدہ کے پاس کچھ جمع پونجی تھی، انھوں نے مجھے خوارزمی اسکول بھیجا۔ میں نے وہاں تقریباً ایک سال تعلیم حاصل کی ہوگی  کہ اُس زمانہ میں تعلیمی ادارے کے انچارج نے ایک نئے منصوبے پر عمل کیا کہ ہر شخص جس محلے میں رہتا ہے اُسی محلے کے اسکول میں تعلیم حاصل کرے گا اور میں اس طرح اپنے گھر کے نزدیک موجود مفید اسکول سے واقف ہوا۔ تعلیمی سال کا پہلا یا دوسرا ہفتہ گزرا ہوگا کہ میں شروع میں آزمائشی کلاس میں بیٹھا پھر میں نے ریاضی کی کلاس میں بیٹھنے کا فیصلہ کرلیا۔

ہماری کلاس میں ۳۲ لوگ تھے اور ان میں سے ۱۱ لوگ شہید ہوگئے۔ میں اس پروگرام میں شہید حسین رستم خانی کے والدین کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں چاہتا ہوں کہ اپنے بیان کو اُن کی یادوں سے شروع کروں۔ حسین کے بھائی کا جنازہ آج تک واپس نہیں آیا۔ وہ بہت ہی متقی پرہیز گار انسان تھے۔ اُن کا جسم چھوٹا اور منحنی سا تھا، لیکن وہ بہت ہی پھرتیلے تھے۔ ایک دن وہ دوستوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے کیلئے گئے ہوئے تھے اور شاید کسی کو تنگ بھی کیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ حسین مدرسہ میں بھاگ رہا ہے اور کچھ ہٹے کٹے بچے اُس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔  حسین کسی ایک واش روم کے اندر گھس گیا اور لڑکوں نے جتنا کہا کہ باہر نکلو، وہ باہر نہیں آیا۔ لڑکوں نے دروازے کے اوپر سے پانی ڈالا تاکہ اُس سے کہیں کہ وہاں نجس ہوجاؤ گے، وہ اس طرح اُسے باہر لانے چاہتے تھے، لیکن حسین باہر نہیں نکلا۔ دو تین منٹ بعد جب حسین باہر آیا، تو وہ بالکل سوکھا ہوا تھا۔ یہ بچہ اتنا ہوشیار اور باہوش تھا کہ اس نے فوراً ہی فیصلہ کیا اور پانی کے پائپ کے اوپر کھڑا ہوگیا اور اپنے آپ کو دیوار سے چپکا لیا، اس طرح سے کہ پانی اُسے نہیں لگا تھا۔ حسین اُس زمانے میں جب کسی کے ساتھ مذاق کرنا چاہتا تھا، اس کے جوتے کے تسمے کھول کر اُنہیں ایک دوسرے سے باندھ دیتا تھا۔

میں غل غپاڑا کرنے والے ایک محلے سے  آیا تھا، لیکن میں آہستہ آہستہ ان بچوں کے دوسرے جلووں کو دیکھ رہا تھا اور مجھ میں اس دوستی کی دلچسپی اور رجحان پیدا ہوا۔ وہ محکم عقائد کے ساتھ کچھ مذہبی  بچے تھے کہ وہ لوگ بھی وہی شرارتیں کرتے تھے جو ہم اپنے محلے میں کرتے تھے، اس فرق کے ساتھ کہ وہ روزہ رکھتے تھے اور اپنی نمازوں کے پابند تھے۔ اُن کا دینی اعتقاد بہت مضبوط تھا۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ مجھ میں اور اُن میں بہت زیادہ فاصلہ ہے اور مجھے سوائے گوٹیوں سے کھیلنے اور دوسرے کھیل کود  کے علاوہ جو میں نے اپنے محلے میں سیکھے تھے، کچھ نہیں آتا، لیکن وہ لوگ شرارتوں کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی کرتے تھے۔ شہید حسین جلالی پور کی ہمشیرہ محترمہ بھی یہاں تشریف فرما ہیں۔ حسین، بہت ہی مومن اور ذہین لڑکا تھا اور میں اُس زمانے میں سوچتا تھا کہ حسین بڑا ہوکر ملک کا صدر بنے گا۔ حسین اور تقی سعادتی کہ وہ بھی شہید ہوگئے، ان کا تعلق شہر کے جنوبی علاقے سے تھا اور اُنہیں میری کیفیت کا اندازہ ہوگیا تھا۔ حسین نے مجھے ایک سال بعد بتایا کہ ہم سب اکٹھا ہوئے تھے تاکہ تمہارے ہوش ٹھکانے لے آئیں، چونکہ ہم جانتے تھے کہ تم ان باتوں کیلئے نہیں بنے ہو اور مذہبی بچوں کے درمیان آگئے ہو، ہم سوچتے تھے کہ شاید تم ہمارے ساتھ سازگار نہیں رہو ، ہم چاہتے تھے کہ تمہیں اپنے حلقے سے جدا کردیں اور تمہیں اسکول آنے نہ دیں۔ میں یہ باتیں اس لیے کر رہا ہوں تاکہ سمجھا سکوں کہ ہماری زندگی بھی ایک معمولی زندگی تھی، لیکن یہ تمام ساتھی ایک معاملے میں بہت سنجیدہ تھے اور وہ انتخاب کرنے کا معاملہ تھا۔ یہ جو ہم ہار گئے اور اُن تک نہیں پہنچ پائے، اس کی دلیل یہ تھی کہ اُنھوں بہترین انتخاب کیا اور بہترین عمل کیا، لیکن ہم نے یہ کام نہیں کیا۔ شہید حسن کریمیان مجھے ٹوکتے رہتے اور کہتے تھے عباس تمہارے بال بڑے ہوگئے ہیں، بال کٹوانے کا وقت آگیا ہے جاکر انہیں کم کرالو۔ یا شہید مسعود رحمانی مجھ سے کہتے تم نماز کے دوران حروف کو صحیح مخارج سے ادا کرتے ہو؟ اور راتوں کو جب ہم دعائے کمیل پڑھنے جاتے، وہ مجھے بٹھا کر مجھ سے کہتے کہ سورہ حمد پڑھوں اور پھر مجھے میری غلطیوں کے بارے میں بتاتے۔  مجھے خود میں جذب کرنے کیلئے، جیسا کہ اُنہیں پتہ تھا مجھے کشتی میں دلچسپی ہے، اُس کے بعد مجھ سے کشتی لڑتے تھے۔ میرے خیال سے اس گروپ میں اسکول کی عظمت کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہمیں اپنے معاشرے کیلئے ایک مضبوط مستقبل درکار ہے توہمیں اسکول سے ابتداء کرنی چاہیے۔ میں اس بات کا قائل ہوں کہ میں نے جو کچھ بھی سیکھا ہے، اُسی گروہی کام کا نتیجہ ہے جو ہم نے دوستوں کے ساتھ انجام دیئے۔ اس کے بعد یہ دوستی ایک دوسرے کے گھروں تک پہنچ گئی؛ ہم روزہ رکھتے، ہر دن کسی ایک کو افطار کرانا ہوتا  اور ہم ایک دوسرے کے گھر جاتے۔ میرے ماں باپ مجھے کہیں جانے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ایک دن میں نے اپنی ماں سے کہا ہم مشہد جا رہے ہیں اگر آپ نے کوئی دعا کروانی ہے، تو بتائیں۔ میرے ذہن میں یہ تھا کہ مشہد یعنی شہادت کی جگہ اور ہم بھی شہادت کے مقام پہ جا رہے ہیں!

سب سے پہلی مرتبہ محاذ پر جانے کی داستان کچھ اس طرح ہے؛ میں کشتی کا کھیل کھیلتا تھا اور جسامت کے لحاظ سے میری وضعیت بہت اچھی تھی۔ میں محاذ پر بھیجنے والے مسئول کے پاس گیا اور ایک مرتبہ پھر کہا کہ مجھے جانے کا نامہ دو، میں محاذ پر جانا چاہتا ہوں۔ اُس نے پوچھا کہ تمہاری فائل یہاں پر ہے؟ میں نے کہا مجھے نہیں معلوم، شاید ہو۔ اُس نے میرا نام پوچھا اور چلا گیا۔اُس نے واپس آکر کہا شاید تمہاری فائل کھو گئی ہے، میں نے کہا کوئی بات نہیں، میری ایک نئی فائل کھول لو تاکہ میں محاذ پر جاسکوں، بہرحال اُس نے میری ایک فائل بنائی اور میں روانہ ہوا۔ میں شہید حمید صالِحی کے ساتھ جنگی علاقے کی طرف گیا۔ شہید صالِحی سولہ سال کی عمر سے غیر منظم جنگوں میں شہید ڈاکٹر مصطفی چمران کے ساتھ شرکت کر رہے تھے۔ میں اس شہید کے ساتھ دوسرے و الفجر آپریشن میں حاج عمران پہاڑی کی اونچائی تک گیا۔ حمید میرا خیال رکھتا تھا کہ کہیں میرے ساتھ کوئی حادثہ پیش نہ آجائے۔ ایک رات میں اور وہ ڈیوٹی دے رہے تھے؛ وہ سو رہے تھے اور میں جاگ رہا تھا۔ ہم حاج عمران کی اُنہیں بلندیوں پر تھے ، مجھے ایسا لگا کہ کچھ لوگ اوپر کی طرف آ رہے ہیں۔ میں نے حمید کو اٹھایا اور اسے اس بات سے آگاہ کیا۔ میرے ہاتھ میں ایک دستی بم تھا، میں نے اُن سے کہا میں دوسری طرف سے جا رہا ہوں اور اگر مجھے لگا کہ آواز قریب سے آرہی ہے تو میں ان کے ساتھ بھڑ جاؤں گا اور آپ دوسری طرف سے حملہ کیجئے گا۔ میں اتنا بے تجربہ تھا کہ جب وہ آوازیں زیادہ آنے لگیں، میں نے اپنی انگلی کو ہینڈ گرنیڈ کے حلقے میں ڈالا تاکہ اُسے باہر کھینچوں۔ میں نے  گرنیڈ کی پن کو پیچھے سے صاف نہیں کیا تھا اور خوامخواہ کوشش کر رہا تھا۔ ایک لمحہ میں میرے ذہن میں خیال آیا کہ فلموں میں پن کو کھینچ کر پھینک دیتے ہیں۔ بہرحال میں نے زور لگا کر پن کے پچھلے حصے کو صاف کردیا۔ حلقہ باہر آگیا اور میں نے گرنیڈ پھینک دیا، اُس کے بعد میں نے گننا شروع کیا، دیکھا کہ وہ تو پھٹ ہی نہیں رہا! میں حمید کے پاس آیا اور کہا اُن کے گرنیڈ کام کے نہیں ہیں، نہیں پھٹ رہے! آوازیں اُسی طرح آرہی تھیں، ہم نے دوسرے گرنیڈ کو عراقیوں کی طرف پھینکا۔ گرنیڈ کے ٹکڑوں نے مورچے کی پوری سطح کو صاف کردیا اور اگر پہلا گرنیڈ پھٹ جاتا تو درحقیقت میں نے حمید کو چھلنی چھلنی کردیا تھا۔ میں نے کچھ دنوں تک خدا کا شکر ادا کیا بھائی حمید میرے ہاتھوں سے مارے نہیں گئے!

اس کو چھوڑیں، میں آپ لوگوں کو کچھ بھائی علی بلورچی کے بارے میں بتاتا ہوں۔ اُس کی والدہ نے جب وہ دو سال کا تھا اور اُن کے والد فوت ہوگئے تھے، اُسے اکیلے پروان چڑھایا تھا۔ اُن کی بہت خوبصورت شکل تھی اور شہادت کے وقت اُن کے دل پر ایک ٹکڑا لگا تھا، انھوں نے اُسی خوبصورتی کے ساتھ  شہادت کو گلے لگالیا تھا۔ میں نے حنوط کرنا سیکھ لیا تھا تھا اور ان افراد میں سے زیادہ تر لوگوں کو میں حنوط کرتا تھا اور قبر کے اندر اُتارتا تھا۔ جس وقت علی بھائی شہید ہوئے، ہماری کوشش ہوتی تھی کہ اُن کی والدہ کیلئے اُن کے نہ ہونے کے خلاء کو پر کریں۔ وہ خاتون واقعی میری اور بہت سے ایسے افراد جو یہاں موجود ہیں، کی دوسری ماں تھیں۔ یہ شہداء ہماری پوری زندگی میں ہر روز اپنا کردار اور سایہ رکھتے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ ان کا سایہ  کچھ حصہ اور زمانے کیلئے ہو۔ ایک دن ہم ان محترم خاتون، کچھ دوستوں اور اُن کے گھر والوں کے ساتھ تہران کے مغربی شمال کے ایک پارک گئے۔ دوستوں کے ساتھ والیبال کھیلنے کیلئے ہم نے ایک رسی باندھی، ان محترمہ نے بھی تھوڑا سا کھیلنا چاہا۔ اس سے پہلے کہ اُن کا ہاتھ بال تک پہنچتا، وہ پہلو کے بل زمین پر گریں اور ایک زوردار چیخ ماری ، جب ہم اُن کی مدد کرکے اُنہیں اٹھانا چاہ رہے تھے، اُنہیں دوسری چیخ ماری۔ ہم نے ایمبولنس کو فون کیا، وہ اسٹریچر لیکر آئے اور انہیں لے گئے۔ میں نے میلاد ہسپتال میں موجود اپنے ایک دوست کو فون کیا ، وہ لوگ راضی ہوگئے کہ اُن کا معاینہ کریں اور دیکھیں کہ اُن کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا ہے۔ جنوری کے آغاز اور مغرب کے وقت یہ حادثہ پیش آیا تھا اور رات کے بارہ بجے تک تین ماہر ڈاکٹروں نے ان خاتون کا معائنہ کیا؛ ریڑھ کی ہڈی کے ماہر، کولہوں کے ماہر اور نیورولوجسٹ۔ انھوں نے کہا ان خاتون کو آسٹیوپوروسس (ہڈیوں کا کھوکھلا ہوجانا) ہے، ان کی ران کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے، پوری ریڑھ کی ہڈی پر شدید چوٹیں آئی ہیں۔ آدھی رات کے تین بجے میں اکیلا تھا اور مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں؛ کیونکہ ڈاکٹر کہہ رہے تھے کہ ان محترمہ کے پورے جسم میں گردن تک راڈز ڈالنی پڑے گی اور انہیں پوری زندگی اسی طرح گزارنی ہوگی۔ اس بات سے میرا دل بیٹھ گیا اور میں بھائی علی سے توسل کرنے گیا اور میں نے بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ اُن سے باتیں کیں! میں نے کہا وہ تمہاری ماں ہے اب تم خود ہی اس مشکل کا حل نکالو۔ میں نے آدھی رات کو تین بجے بھائی علی کے ساتھ یہ باتیں کی اور گھر چلا گیا۔ میں صبح سویرے شہید فاؤنڈیشن گیا تاکہ وہاں سے لیٹر  لیکر محترمہ کو خاتم ہسپتال لے جاؤں۔ میں نے لیٹر لیا اور اُنہیں میلاد ہسپتال سے خاتم ہسپتال لے گیا۔ جب ہم وہاں پہنچے، تو محترمہ کا ایکسرے کیا گیا اور انھوں نے کہا صرف ران کی ہڈی ٹوٹی ہے  اور کوئی دوسری مشکل نہیں ہے۔ ران کی ہڈی کا آپریشن ہوا اور ہم دو دن بعد محترمہ کو بیساکھی کے ساتھے اُن کے گھر لے گئے۔ 

شہید ساتھیوں کا زندگی میں حاضر ہونا میرے لیے ثابت ہے۔ زندگی میں بہت سے ایسے مقامات جہاں مجھے کوئی مشکل ہوتی ہے اور میری کہیں رسائی نہیں ہوتی تو میں ان دوستوں سے توسل کرتا ہوں اور اپنی مشکل کو حل کرلیتا ہوں۔ بہت سی جگہوں پر مجھے بہت سی مشکلات سے چھٹکارا دلایا ہے۔ میں آپ کی اجازت سے آپ کو کچھ منصور کاظمی کے بارے میں  بتاؤں۔ جس زمانے میں منصور شہید ہوچکا تھا، میں اہواز میں تھا۔ میں سویا ہوا تھا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ منصور آیا ہے او ر اُس نے اپنے سر کو میرے پاؤں پر رکھا ہوا ہے۔ جب میری آنکھ کھلی تو میں نے واضح طور پر اُس کے سر کی گرمی کو  اپنے پیروں پر محسوس کیا۔ میں نے منصور سے کہا مجھے اُس لحظہ  کے بارے میں بتاؤ جب تمہیں گولی لگی اور تم گرنے کی حالت میں تھے۔ وہ کچھ دیر خاموش رہے پھر بولے ایک ایسے پھول کو سونگھنے کی طرح تھا  کہ اُس وقت تک میں نے اس طرح کی خوشبو نہیں سونگھی تھی۔ میں نے یہ بات منصور سے سنی، لیکن میں مطمئن ہوں کہ حسین رستم خانی بھی اسی طرح گیا ہے، میں مطمئن ہوں حسین جلالی پور بھی اسی طرح تھا، سید حسن کریمیان بھی اسی طرح، میرے خیال سے بھائی منصور کاظمی نے یہ بات تمام دوستوں کی طرف سے بیان کی ہے۔"

جناب جہانگیری نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: "بھائی علی بلورچی اور باقی دوست احباب، تین مارچ ۱۹۸۷ کی رات اُن کا آپریشن شروع ہوا۔ اُن کے کمانڈر بھی حمید صالِحی تھے۔انھوں نے اس رات فرنٹ لائن پر حملہ کیا۔ علی بھائی پونے بارہ بجے شہید ہوئے اور اُس لحظہ جو شخص اُن کے پاس تھا وہ مرتضی جابری تھا۔ یہ واقعہ پیش آیا اور اُن کی والدہ کیلئے جو ران کی ہڈی ٹوٹنے والا واقعہ پیش آیا تھا، اُس کے ایک سال بعد  وہ مریض ہوئیں  اور ہسپتال میں ایڈمٹ ہوگئیں۔ رات پونے بارہ بجے میرے فون کی گھنٹی بجی ، میں نے فون اٹھایا۔ علی کی بہن تھیں ، انھوں نے بتایا کہ میری والدہ  اسی وقت قضائے الٰہی سے انتقال کر گئی ہیں۔ محترمہ بھی اُسی تین مارچ والے دن، اُسی وقت جب علی گیا تھا، چلی گئیں۔"

ایسی کتاب جو ایک طرح سے اسکول کی تعمیر جیسی ہو

دفاع مقدس کے سلسلے میں یادوں بھری رات کے ۲۸۷ ویں پروگرام میں دو کتابوں " جنگی مناظر  کی تاریخ لکھنے والے اور راوی؛ مفید اسکول کے سیکنڈری کے طالب علم؛ شہید راویان: حسین جلایی پور، محسن فیض، حمید صالِحی" اور "تنہای تنہا: شہید علی (مہران)بلورچی کے واقعات" کے مؤلف جناب مرتضی قاضی کو تقریر کرنے کیلئے دعوت دی گئی۔ جناب قاضی نے کہا: "تنہای تنہا نامی کتاب جو شہید علی بلورچی کی زندگی  کے بارے میں ہے، ۲۰۱۶ کے شروع میں شائع ہوئی۔ جنگی مناظر  کی تاریخ لکھنے والے اور راوی نامی کتاب کا قصہ بھی یہ تھا کہ مفید اسکول کے طلباء ایک زمانےمیں جنگ کے تحقیقاتی اور مطالعاتی مرکز جاتے ہیں۔ یہ مرکز ایسی جگہ تھا کہ جب جناب محسن رضائی سپاہ کے کمانڈر بنتے ہیں، وہ کہتے ہیں ہر کمانڈر کی ہر بات اور تمام واقعات  جو اُن کے ساتھ پیش آئے ان کا ریکارڈ اور اندراج ہونا چاہیے۔ کچھ راوی اس مرکز میں داخل ہوتے ہیں اور اُن کا کام یہ تھا کہ وہ ہر کمانڈر کے ساتھ رہیں۔ اُن کے پاس تمام جلسوں کو ریکارڈ کرنے کیلئے ٹیپ ریکارڈ بھی ہونا چاہے اوروہ اپنی ڈائریوں میں لکھتے بھی رہیں۔ آج اس مرکز میں جنگ کے زمانے کی ۵۰ ہزار بغیر چلی کیسٹیں اور ایک ملین سے زیادہ کاغذات اسناد کے طور پر موجود ہیں جو ان راویوں کے ذریعے حاصل ہوئی ہیں۔ ایسے راوی، جو آتے تھے اور اس مرکز میں بیٹھ کر روایت لکھتے تھے، ایسے لوگ تھے جنہوں کچھ چیزوں کو چھوڑ دیا تھا، مثلاً فرنٹ لائن سے اپنے دل کو ہٹالیا، کیونکہ اُنہیں ہیڈکوارٹر کے اندر ایک کمانڈر کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔ بہت سے لوگ اُن سے کہتے تھے کہ یہ کام جنگ اور فرنٹ لائن سے خوف کی وجہ سے ہے اور یہ کوئی مردانہ کام نہیں ہے، لیکن راویوں نے اس راستے کا انتخاب کرلیا تھا۔ اُن کا ایک گروہ جو مطالعات کے مرکز میں داخل ہوا، ایسا مرکز جس نے آج دفاع مقدس کی تحقیقات اور اسناد کے مرکز کا نام حاصل کرلیا ہے، وہ مفید اسکول کے افراد تھے۔ یہ افراد اچھی فکر والے، اہل علم و قلم تھے۔ وہ اس ماحول میں آئے اور اُن میں سے ہر ایک کسی خاص زمانے میں ایک کمانڈر کے ساتھ راوی کا کام انجام دینے لگا۔ اُن میں سے تین افراد مفید اسکول کے سیکنڈری کے طلباء تھے؛ شہید حمید صالِحی، شہید محسن فیض اور شہید حسین جلالی پور۔

مرکز اسناد نے اس بات کی وجہ سے کہ ان شہید ہونے والوں کا تعلق مرکز سے بھی ہے، ان تین شہیدوں کی زندگی کے بارے میں لکھنے کا کام مجھے اور میری زوجہ کو سونپ دیا۔ میں اور میری زوجہ سن ۱۹۹۸ سے شریف یونیورسٹی میں داخل ہوگئے۔ ہم ان افراد کو جانتے تھے؛ علی بلورچی انٹری امتحان کے پانچویں رتبہ میں تھے اور انھوں نے شریف یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، محسن فیض امیر کبیر یونیورسٹی میں تھے، حسین جلالی پور نے تہران یونیورسٹی میں پڑھا اور بہزاد آسایی محاذ پر جاتے اور جب واپس آتے تو سارے امتحان دیکر پاس ہوجاتے۔ یہ موقع نصیب ہوا کہ  میری زوجہ ، محترمہ خانم حسینی اورمیں مل کر ایک مشترک کام انجام دیں۔ طے پایا گیا تھا کہ یہ کتاب ۲۴۰ صفحے، یعنی ہر شہید کیلئے ۸۰ صفحہ ہوں، لیکن اس وقت یہ کتاب ۹۰۰ صفحے سے زائد ہے، کیونکہ جب میں نے لکھنا شروع کیا، میں نے دیکھا تمام افراد ایک ساتھ تھے اور مجھ سے یہ نہیں ہوسکا کہ میں کسی ایک کے بارے میں بھی کسی ایک بھی مورد کو نہ لکھوں، مجھ سے یہ نہیں ہوسکا کہ میں مدرسہ کے ماحول اور یہ گروپ جس نے ایک ساتھ رشد کیا ہے اس کے بارے میں نہ کہوں۔ سب سے پہلا گروپ تھا جو سیکنڈری اسکول میں داخلے کے ساتھ ہی محاذ پر گیا، پھر یہ لوگ واپس آئے اور انھوں نے اپنے اساتید سے پوچھا کہ ہم انٹری امتحان اور محاذ میں سے کس چیز کا انتخاب کریں ، اساتید نے کہا کہ بیٹھ کر انٹری امتحان کی تیاری کرو، اُس کے بعد محاذ پر جاؤ۔ وہ وقت جب انٹری ٹیسٹ کا رزلٹ نہیں آیا تھا، وہ لوگ محاذ پر تھے اور جب رزلٹ آگیا تو انھوں نے پڑھنا شروع کردیا۔ وہ اس طرح سے پڑھائی کرتے تھے کہ آپریشن کے موقع پر خود کو جنگی علاقے میں پہنچا سکیں۔ ایسا واقعہ موجود ہے کہ جناب مرتضی ابراہیمی محاذ پر جانے سے ایک گھنٹہ پہلے تک پڑھائی کرتا رہا تاکہ اپنے امتحان کی تیاری  پوری کرلے اور پھر محاذ پر جائے۔ یہ کتاب ایک طرح سے اسکول کی تعمیری کتاب ہے اور جو شخص مفید اسکول کے ماحول سے آگاہی حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ اس کتاب کا مطالعہ کرسکتا ہے۔ یہ افراد، ایسے افراد ہیں جنہوں نے محاذ پر پڑھائی کا سلسلہ شروع کیا اور یہ لوگ کہا کرتے تھے کہ جو پڑھنے والے بچے آتے ہیں ہمیں انہیں جمع کرنا چاہیے اور اُنہیں پڑھانا چاہیے۔ ان افراد نے کالج میں پڑھنے والے طلباء کو محاذ پر بھیجنا شروع کیا۔ جہاں بھی جاتے، اپنا اثر چھوڑ جاتے، کسی معمولی سپاہی کی طرح نہیں گئے۔ "


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3608



http://oral-history.ir/?page=post&id=7841