تنہائی والے سال – تیرہواں حصّہ

دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

کاوش: رضا بندہ خدا
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-05-16


موقع غنیمت تھا۔ میں نے ایک لمحہ کے اندر  موقع سے فائدہ اٹھایا اور تقریباً بلند آواز سے کہ سب سن سکیں، کہا:

- لوگوں! ہم ضربات لگا کر اور حروف الفبا سے استفادہ کرکے ایک دوسرے سے رابطہ قائم کرکے بات کرسکتےہیں۔

کچھ دیر بعد، ہوشنگ ازھاری نام کا ایک پائلٹ جس کا ہاتھ ٹوٹ گیا تھا اور گردن میں لٹکا ہوا تھا، وہ میرے پاس آیا اور بولا:

- ہوشنگ! تم کیسے ہو؟

- میں ٹھیک ہوں! تم کب قیدی بنے، جنگ اور ملک کے بارے میں کچھ بتاؤ؟

- جنگ کی خبریں زیادہ اچھی نہیں ہیں اور عراق ہماری سرزمین پر ہے۔  اور ہاں، ہمیں تمہارے اسیر ہونے کے بارے میں پتہ تھا۔

میرے لیے تعجب کی بات تھی، میں نے پوچھا:

- کس طرح؟

- تمہارے گم ہونے کے دو دن بعد، دو "مَیگ" طیارے ہمدان بیس پر حملہ کرنے آئے جس میں سے ایک دفاعی حملات کی زد میں آکر نیچے گر گیا۔

جب ہم نے اُس پائلٹ کو کمانڈر کے سامنے پیش کیا تو وہ بہت سہما ہوا اور پریشان تھا۔ اُس نے اپنے خیال کے مطابق کہ اُسے کوئی تکلیف اور اذیت نہ پہنچائی جائے، جلدی جلدی بولنے شروع کردیا: " میں نے آپ کے اسیر ہونے والے پائلٹوں کے ساتھ بات کی تھی۔ میں نے اُنہیں قریب سے دیکھا تھا اور میں اُن کے ساتھ بہت محبت سے پیش آیا تھا، اُن میں سے ایک کا نام پائلٹ شیروین اور دوسرے کا نام پائلٹ صلواتی تھا۔"

ہم نے بھی یہ خبر تمہارے گھر والوں تک پہنچادی تاکہ وہ لوگ کم از کم اس طرف سے پرسکون ہوجائیں کہ آپ زندہ ہیں۔

اچھی خبر تھی۔ میں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اُس کا شکریہ ادا کیا۔

میں نے کچھ اور دوستوں کو بھی دیکھا جو میری خوشی کا باعث بنے۔ اُن کے اسیر ہونے کی وجہ سے نہیں، اُن کی سلامتی کی وجہ سے۔ میں اُن کے ساتھ بھی خوش اخلاقی سے پیش آیا اور اُن سے احوال پرسی کی۔

جو چیز تعجب کا باعث بنی ہوئی تھی ، یہ تھی کہ  ہم میں سے کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ ہمیں اتنے عرصہ تک تنہائی میں رکھنے کے بعد ایک دفعہ ایک ہی ساتھ کیوں ایک کمرے میں جمع کیا گیا تھا۔

ہر کوئی اندازہ لگا رہا تھا، زیادہ تر لوگ یہ تصور کر رہے تھے کہ جنگ میں کوئی  تبدیلی ہوئی ہے۔

تقریباً ایک گھنٹہ گزر گیا۔ ایک نگہبان جو کمرے میں موجود تھا اور سول ڈریس پہنا ہوا تھا، اُس نے کہا:

- ... ہم آپ لوگوں کو یہاں پر اس لیے لائے ہیں تاکہ آپ لوگوں کو خرم شہر کی فتح کا منظر دکھائیں تاکہ آپ لوگ دیکھ لیں کہ ہم کس طرح کارون نہر سے گزرے اور خرم شہر کو فتح کیا۔

اُس وقت وی سی آر کے ذریعے فلم دکھائی گئی۔ فلم میں اس سے زیادہ کہ جنگ کے حالات دکھائے جاتے، کسی فوجی ٹریننگ کو دکھا رہےتھے۔ حتی ایک گولی بھی نہیں چلی تھی۔ اُس کے بعد خرم شہر کو دکھایا گیا کہ عراقی بعثی کس طرح سے دکانوں اور گھروں کو خراب کر رہے ہیں۔

زیادہ تر افراد فلم پر توجہ کئے بغیر، جنگ اور ملک کے حالات اور اپنے اسیر ہونے کی کیفیت کے بارے میں بات کر رہے تھے۔

اُس کے بعد، قدیمی شوز میں  سے گوگوش نامی شخص کا پروگرام دکھایا گیا۔ کچھ منٹ بعد، ایک کالے رنگ  کا قوی ہیکل شخص جس کے بال گھنگریالے تھے، کچھ اور لوگوں کے ساتھ جنہوں نے سول ڈریس پہنے ہوئے تھے، کمرے میں داخل ہوا۔ وہ جو کہ دوسروں کا انچارج لگ رہا تھا،  کمرے کے بیچ میں آیا، اُس نے سب پر ایک نگاہ دوڑائی اور پوچھا:

- فلم دیکھ لی؟

کسی نے جواب نہیں دیا۔ ترجمہ کرنے والا ایک شخص اُس کے ساتھ تھا جس نے اُسی ادا اور انداز میں اُس کی باتوں کا ترجمہ کیا۔ اُس نے کہا:

- ... ہم آپ لوگوں کی سرزمین میں داخل ہوئے ہیں تاکہ آپ لوگوں کو نجات دلائیں، وگرنہ آپ لوگ دیکھتے کہ ایران نامی جگہ ہی نہ ہوتی۔ ہم بہت جلد تہران پر بھی قبضہ کرلیں گے اور آپ لوگوں کے پاس ایک دفعہ پھر سینما اور میخانہ ہوگا، گوگوش ہوگا، تم لوگوں کے خیال میں کیا گوگوش بہتر نہیں ہے؟

کسی نے اُس کی بات کا جواب نہیں دیا۔

اُس نے آہستہ آہستہ قدم بڑھائے۔ رضا احمدی کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور دوبارہ اُنہی باتوں کو دھرایا اور پھر بہت بے شرمی سے اُس سے پوچھا:

- گوگوش بہتر ہے یا خمینی؟!

احمدی نے اپنے سر اوپر اٹھایا  اور اُس کی آنکھوں میں ایک گہری نگاہ ڈالی۔ شاید وہ اُس موٹی گردن والے عراقی کی حماقت کے بارے میں سوچ رہا تھا، مگر ایک انسان کس قدر ذلیل اور پست ہوسکتا ہے  اور اچھے اور برے کی تمیز و تشخیص میں کس قدر گستاخ! شاید وہ یہ سوچ رہا تھا کہ اُس کا جواب اس سیاہ دل والے بیچارے پر کوئی اثر نہیں کرے گا۔ شاید وہ اس فکر میں تھا کہ ... قوی ہیکل والے کالے مرد نے ایک دفعہ پھر اپنے سوال کو دھرایا۔ ہم سب کی آنکھیں احمدی پر جمی ہوئی تھیں اور ہم جانتے تھے کہ وہ کس مشکل میں پھنس گیا ہے۔ اس دفعہ رضا نے بہت ہی محکم اور یقین کے ساتھ جواب دیا:

- یہ کیسا سوال ہے! امام، شیعوں کے رہبر ہیں۔ انقلاب کے رہبر اور ایسے شخص جنہیں لوگ دل کی گہرائیوں سے چاہتے ہیں۔ آپ کا سوال تمام مسلمانوں کی توہین شمار ہوتا ہے  اور ...

وہ اسی طرح اپنی بات کو جاری رکھے ہوئے تھا  کہ شاید وہ اس عراقی مرد کوآہستہ آہستہ کسی خاص مسئلے کی طرف متوجہ کردے اور وہ خود شرمندگی کا احساس کرلے، لیکن وہ جس کا دل بھی اُس کے چہرے کی طرح سیاہ تھا، اُس نے احمدی کو بات جاری رکھنے کا موقع نہیں دیا اور رضا کے منھ پر ایک زوردار مکا مارا۔ رضا آہستہ سے پیچھے سے پیچھے ہوتا گیا اور جاکر دیوار سے مل گیا۔ کالے عراقی نے آگے بڑھ کر اُسے چند اور وحشیانہ ضربیں لگائیں۔اس کے بعد جیسے تمام کاموں کی پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کھل کر سامنے آگئی وہ اونچی آواز میں  غرغر کرتے ہوئے عربی میں کچھ بولتا  ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔

میرے خیال میں، رضا احمدی نے ہماری جدوجہد کی شرافت کو چار چاند لگا دیئے۔ اس بات پر کہ اُسے نامردانہ طریقے سے زخمی کیا تھا، مجھے بہت افسوس تھا، لیکن اُس کی طرف سے ہماری حقانیت کے اظہار پر میں سرور میں آگیا تھا اور میں نے جھومتے ہوئے کہا:

- شاباش رضا جان!

اُس سیاہ بعثی مرد کے جانے کے بعد، نگہبانوں نے کہا:

- ہم جن کے ناموں کو پکاریں گے، وہ ایک طرف آکر ایک ساتھ کھڑے ہوجائے۔

افراد کے نام، دو دو آدمی کرکے، یا تین تین آدمی کرے، اور بعض لوگوں کو اکیلے ہی بلایا گیا۔ مجھے شہید نوژہ[بیس] کے ایک پائلٹ  کے ساتھ بلایا گیا جو بہت مومن اور معتقد انسان تھا اور مجھے شاہ کے زمانے سے اُس کے اچھے سابقے کے بارے میں پتہ تھا:

شیروین اور" سلمان"۔

نگہبان نے ہماری رہنمائی کی اور ہم لفٹ کے ذریعہ اوپر والے طبقہ پر موجود زندان میں گئے  اور ہمیں ۲۰نمبر کمرے میں داخل کردیا۔ مجھے ۱۸  نمبر کمرے سے اپنا سامان لانے کی اجازت دی گئی۔

ہم نے اپنے پاس موجود چار کمبلوں سے کمرے کو سیٹ کردیا؛ ایک کمبل کو قالین بنالیا اور ایک کو واش روم اورحمام جدا کرنے کیلئے مخصوص کردیا۔ اُس کے بعد ہم بیٹھ گئے اور تمام چیزوں کے بارے میں بات کی۔

ہمارے پاس ہر دن کیلئے چار سگریٹ ہوتیں کہ ہر دفعہ ہم ایک جلاتے  اور ایک ساتھ کش لگاتے۔  میں اُس سے بہت زیادہ مذہبی مسائل اور نماز کے مسائل پوچھتا تھا؛ کیونکہ وہ  پہلے قرائت قرآن کی نشستوں میں شرکت کرچکا تھا اور اُس کی مذہبی معلومات بہت اچھی تھیں۔ جب بھی فرصت میسر ہوتی تو وہ مجھے معصومین (ع) کی زندگی کے بارے میں بتاتا۔

ایک ہفتے بعد، ہمارے درمیان ایک پائلٹ کا اور اضافہ ہوگیا۔ وہ بھی نوژہ بیس کا آدمی تھا اور اُس کا نام اکبر صیاد بورانی تھا ، میں اور وہ ایک ہی ساتھ قصر شیرین کی بارڈر سے  اسیر ہوئے تھے۔ صیاد، بہت ہی میٹھے لہجے میں بات کرتا اور وہ بندر انزلی کا رہنے والا تھا ، وہ سادہ اور عام سی باتوں کو اتنے مزے سے بیان کرتا کہ ہم ہر دفعہ ہنس ہنس کر لوٹ جاتے۔ بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ وہ بہت ہی باذوق انسان اور اچھا آرٹسٹ تھا۔

وہ نقاشی، سلائی، مستری اور ٹیکنیکی کاموں کو بہت اچھی طرح سے جانتا تھا ، اُس کو اس معاملے میں اتنی مہارت تھی کہ مثلاً وہ کمبل سے، مانتو، اور کوٹ پینٹ اچھی طرح سے سی لیتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ  صیاد ہمارے پاس دو دن سے زیادہ نہیں رہا اور اُسے الگ کردیا گیا۔ نگہبان کہہ رہا تھا ہم اُسے اُس کے پچھلے کیبن کے پائلٹ کے پاس لے جا رہے ہیں۔ ہمارا اصرار یہ تھا کہ اُس کے پچھلے کیبن کے پائلٹ کو ہمارے پاس لے آؤ، لیکن ہماری نہیں سنی گئی۔

چند دنوں کے بعد، رضا احمدی اور اُس کے پچھلے کیبن کا پائلٹ، علی رضا علیرضائی کا ہم میں اضافہ ہوگیا۔

اس پورے عرصے میں، جب ہم دو لوگ تھے یا تین لوگ یا جب ہم چار لوگ ہوگئے، چاروں لوگ، اپنے پڑوسیوں سے ضربات مارنے کے ذریعے رابطہ قائم کئے ہوئے تھے اور ہمیں اُن کے نام، تعداد اور حالات کے بارے میں پتہ تھا۔

جاری ہے ...


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3758



http://oral-history.ir/?page=post&id=7808