تنہائی والے سال – بارہواں حصّہ

دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

کاوش: رضا بندہ خدا
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-05-10


میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ ہر قیمت پر دوسرے ساتھیوں سے رابطہ برقرار کرنا ہے۔ سب سے پہلی چیز جو میرے ذہن میں آئی، وہ یہ تھی کہ اگر مجھے "مُرس"(مقناطیسی علامتوں کے ذریعے بات کرنا)  آتا ہوتا،تو  شاید اُس کے ذریعے ہم دیوار کے پیچھے سے آپس میں گفتگو کرسکتے تھے۔ یہی سوچنا سبب بنا کہ میرے ذہن میں ایک خیال کوندا، میں حروف "الفبا" کو استعمال کرنے کی فکر میں پڑگیا  میں نے فیصلہ کیا کہ حروف (الف، ب، پ، …) کے ذریعے اور دیوار پر چوٹ لگا کر، میں اپنے ہمسایہ سے رابطہ قائم کروں۔ میں نے اسی ارادے سے، بائیں طرف کی دیوار پر ۳۲ چوٹیں ماریں۔ میرے پڑوسی نے ایرانی ردہم پر ایک رنگ کو پکڑنا شروع کیا۔ میں نے دوبارہ ۳۲ چوٹیں لگائی اور اُس نے ۲ چوٹیں لگائی۔ میں نے پھر ۳۲ دفعہ مارا اور اُس نے پھر رنگ کا انتخاب کیا۔ ایک اچھا ایرانی رنگ جو اس بات کی علامت تھا کہ وہ بھی ایرانی ہے۔ چونکہ اُس جگہ پر، اُن کے سیاسی قیدیوں کو بھی رکھا جاتا تھا۔

کئی دفعہ تکرار کرنے کے بعد، میں مجبوراً اپنے دائیں ہاتھ والے ہمسایہ کی طرف آیا اور اُس کے ساتھ بھی بالکل یہی عمل انجام دیا۔ یہ والا پڑوسی، یا تو جواب نہیں دیتا یا صرف دو چوٹیں لگا دیتا۔ کبھی ۳۱ دفعہ بھی مارتا کہ مجھے ایسا لگتا شاید وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ میں ۳۱ ویں بٹالین سے ہوں، لیکن میں نے پھر بھی اُس کیلئے ۳۲ دفعہ بجایا۔

میں نے اپنے کچھ گھنٹوں کو اس کام پر صرف کیا اور ہر تھوڑی دیر بعد دونوں طرف ۳۲ دفعہ ضربات لگاتارہا۔

البتہ اس پورے کام کے دوران، کبھی ہوائی حملے کا سائرن بھی سنائی دیتا کہ اُس وقت میں خوشحالی سے پھولے نہیں سما رہا ہوتا تھا۔ اس سوچ کے ساتھ کہ ابھی ایک بہادر سپاہی، ایک جان کی بازی لگانے والا ساتھی، کس طرح سے بغداد کو لرزا رہا ہے اور یہ کہ ایک ہم وطن وہاں سے آیا ہے جہاں میرا دل اور روح ہے اور یہ فکر کہ اے کاش خداوند متعال مجھے جنگ میں اور زیادہ خدمت کرنے کی توفیق عنایت کرے وغیرہ یہ ساری سوچیں، سائرن بجنے کے ساتھ ایک ہی وقت میں، میرے دماغ کو اپنے اندر مشغول کرلیتی اور میں دل میں ایک خوشی اور گرمی کا  احساس کرتا۔ میری آروز ہوتی کہ کاش بمب میرے کنارے آکر گرے اور میں اُس کے ٹکڑوں کے لگنے کو محسوس کرسکتا۔ میرے ذہن میں آیا کہ اگر یہ بمب مجھے بھی تہس نہس کردے تو میں مضطرب نہیں ہوں گا۔ میں اپنی آنکھوں کو بہت دقت کے ساتھ دیوار کے اوپر لگی کھڑکی کے شیشے سے آسمان کی طرف دیکھنے کیلئے گاڑ دیتا تاکہ شاید اس تیز رفتاری سے پرواز کرنے والے دوست اور میرے دل کو گرما دینے والے کو حتی ایک لمحہ کیلئے دیکھ سکوں۔ البتہ مجھے پتہ تھا اس قیمتی دیدار کے نصیب ہونے کا امکان بہت کم ہے اور شاید میں ہرگز نہ دیکھ پاؤں، کیونکہ کھڑکی سے دیکھنے کی جگہ بہت ہی  کم تھی۔

بہرحال ہمسائے سے رابطہ برقرار ہونے کی اُمید نے میرے دل میں ایک لذت بخش نور کا اُجالا کردیا اور بیکار بیٹھنے اور سوائے انتظار کرنے سے اچھا تھا۔ اسی وجہ سے میں مسلسل اور بغیر تھکاوٹ کے ، کچھ دن اور راتوں تک دن میں بھی چند دفعہ اور رات کو بھی چند دفعہ، دونوں کی طرف ۳۲ ضربات لگاتا۔ شاید چوتھا یا پانچواں دن ہوگا کہ دائیں طرف والے پڑوسی – جو شاید غصے سے بپھر چکا تھا -  نے دیوار پر ایک زور دار ضربہ لگایا جس سے میں سمجھ گیا وہ کہنا چاہتا کہ مجھے چھوڑ دو! تم کیا چاہتے ہو جو پیچھے پڑ ہوئے ہو؟! میں نے بھی اس پڑوسی کی طرف چوٹیں لگانا کم کردی اور دن میں صرف ایک دفعہ ۳۲ دفعہ چوٹیں لگاتا؛ لیکن بائیں سمت والے کی طرف اُسی طرح دن میں کئی مرتبہ ضربات لگاتا رہا۔ البتہ وہ رنگ بتاکر، میرا جواب دیتا تھا، لیکن میری طرف سے ۳۲ ضربوں کی تکرار اس وجہ سے تھی کہ شاید وہ سمجھ جائے کہ اس میں ایک خاص معنی چھپے ہوئے ہیں۔

میں اس فکر میں پڑ گیا کہ اگر ہوسکے تو میں دیوار میں ایک سوراخ کرلو  اور اُس سے کہوں کہ ان ضربات کے معنی کیا ہیں؟ پس میں نے نیل کٹر کے چھوٹے چاقو سے، کوٹھڑی کی دو اینٹوں کے درمیان کھودنا شروع کردیا۔ میں نے اس کام کو اس قدر انجام دیا حتی کہ چاقو کا پورا پھل ہونے والے شکاف میں بالکل اندر تک چلا گیا۔ یہاں تک کہ میرے ہاتھوں میں رگڑ کی وجہ سے چھالے پڑ گئے تھے، لیکن مجھے اور تراشنا چاہیے تھا، اسی کے ساتھ میں ضربات مارنے کو بھی جاری رکھتا۔

تقریباً چھٹے روز عصر کے وقت، جب میں نماز کے بعد پڑھی جانے والی دعا پڑھ رہا تھا اچانک میرے بائیں طرف والے پڑوسی  نے، ۳۲ ضربات ماریں، میں دعا ختم کرکے دیوار کی طرف بڑھا اور میں نے ضربات کے ذریعے اُس سے بات کی۔ میں نے بہت اشتیاق سے اُس سے پوچھا:

- تم کون ہو؟

خوش بختی سے وہ میرے کلمات کی طرف متوجہ ہوگیا اور اُس نے فوراً ضربات کے ذریعے میرا جواب دیا۔ وہ میرے ہی کیبن کا پچھلا پائلٹ رضا صلواتی تھا! مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے اُس حال احوال لئے۔ میں نے اُس سے پوچھا، کیا تم نے کسی سے رابطہ کیا یا کسی جاننے والے کو دیکھا ہے و ۔۔۔ اُس کے پاس بھی کچھ سوالات تھے۔ البتہ اس طرح سے بات کرنے میں بہت وقت لگتا تھا  اور ہم آدھے دن کے اندر شاید چند جملوں سے زیادہ بات نہیں کرسکتے تھے۔ کبھی گنتی میں بھی غلطی ہوجاتی اور ہم ایک دوسرے کا مطلب سمجھ نہیں پاتے، جس کیلئے تمام ضربات کو پھر سے تکرار کرنا پڑتا۔ کبھی آواز نگہبان کے کانوں تک بھی پہنچ جاتی اور وہ دریچہ سے پوچھتا یہ کس چیز کی آواز ہے؟ اور ہم بے خبر ہونے کا اظہار کرتے اور وہ بھی زیادہ جستجو نہیں کرتا۔

شروع کے دنوں میں، ہم مسلسل باتوں میں مصروف رہے او ر اس طریقے سے ہم دونوں کو تنہائی سے نجات مل گئی تھی۔ ایک دن اُس نے مجھ سے کہا:

- احتمالاً جنگ بہت جلد ختم ہوجائے گی۔

- کیسے پتہ؟

- ایک نگہبان جسے حکم دیا گیا تھا کہ وہ مجھے "کاظمین" لے جائے، اُس نے راستے میں مجھ سے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا ارادہ ہے کہ وہ ایران اور عراق کے درمیان مذاکرات کروائے گا۔

- انشاء اللہ، لیکن جب تک عراق ہماری سرزمین پر ہے، مجھے نہیں لگتا کہ کوئی صلح انجام پائے گی۔

اور اُس کے بعد میں نے تجسس کی بنیاد پر پوچھا:

- ایسا کیسے ہوا کہ تم زیارت پر چلے گئے؟

- میں "طاغوت" کے زمانے میں، کسی کام کے سلسلے میں عراق آیا ہوا تھا اور یہاں میری کچھ افسران سے جان پہچان ہوگئی تھی، اُن لوگوں نے میری زیارت کیلئے کوشش کی۔

ہم ہر روز مختلف مسائل کے بارے میں گفتگو کرتے؛ میں نے اُس سے کہا:

- شاباش رضا! تم رابطہ برقرار کرنے والے موضوع کو بہت اچھی طرح سمجھ گئے!

- آپ کے مسلسل تکرار کرنے نے مجھ سوچنے پر مجبور کردیا، اچانک میری سمجھ میں آیا کہ آپ "الفبا" سمجھانا چاہتے ہیں۔

نگہبانی دینے والے افراد ہماری ضربات کی آوازوں سے تنگ ہوچکے تھے، لیکن کسی بھی صورت میں اُنہیں یہ بات سمجھ نہ آسکی کہ ہم کس لیے دیوار پر اتنی ضربات لگا رہے ہیں۔

وہاں پر تنہائی میں گزارے جانے والی ۳۵ دنوں میں، میں ایک دفعہ اور تفتیش کیلئے گیا تھا۔

اس دفعہ تفتیشی افسر نے نئے سوالات اور ایسے سوالات تیار کئے ہوئے تھے جن کی اُمید نہیں تھی اور شاید اُسی وقت اُس کے ذہن میں آیا ہو، اُس نے پوچھا:

- فرض کرو اگر تم فوج کے سربراہ ہوتے اور [امام] خمینی کے کاموں سے راضی نہ ہوتے، تم کیا کرتے؟

یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ میں فوج کا سربراہ  ہوتا اور امام سے راضی نہ ہوتا؟چونکہ اختلاف اور راضی نہ ہونا ، ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب دو مخالف فکریں موجود  ہوں۔ بغیر کسی شک کے اگر اس طرح ہوتا، تو یقیناً میرے طرز تفکر میں غلطی ہوتی کہ جس کیلئے مجھے اپنی اصلاح کرنی چاہیے تھی، یا اگر میں اس چیز پر قادر نہیں ہوتا تو مجھے ایک طرف ہوجانا چاہیے تھا۔

وہ اصل معنی کو نہیں سمجھ سکاہ، ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی اُس کے سر پر سینگ نکل آئیں گے، اُس نے پوچھا:

- یعنی کیا؟ قدرت تمہارے ہاتھوں میں ہے، تم اس قدرت کو استعمال نہیں کرتے اور اُس کو چھوڑ دیتے؟

- اصل قدرت اُس شخص کے پاس ہے جو خدا پر اور عوام کی عظیم طاقت پر بھروسہ کرتا ہو اور یہ امام ہیں جو تمام لوگوں کے دلوں میں رہتے ہیں۔

اُس نے اپنا مطلب اور آخری بات کہی اور پوچھا: "کیا تم بغاوت نہیں کرتے؟"

- نہیں، میں بغاوت نہیں کرتا۔

جب اُس نے یہ جواب سنا، اُس کی برداشت ختم ہوگئی اور اُس نے مجھے کمرے سے باہر نکال دیا۔

ہمارے ۳۵ روزہ قیام کے آخری دنوں میں، ایک دن کوٹھڑی کا دروازہ کھلا اور نگہبان نے مجھے بلایا۔ اس حالت میں کہ میری آنکھوں پر پٹی نہیں بندھی تھی، ہم نے لمبی راہداری کو عبور کیا، لفٹ کے ذریعے نچلے طبقہ میں گئے اور ایک ایسے کمرے میں جہاں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے، داخل ہوئے۔ ایک بڑا سا کمرا جس کے چاروں طرف مختلف طرح کی بڑی بڑی سینریاں لگی ہوئی نظر آرہی تھیں اور اُس کی ایک طرف ٹیلی ویژن رکھا ہوا تھا جس کے اطراف میں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔میں اُن لوگوں کو نہیں پہچانتا تھا۔  میں نے آہستہ سے کچھ لوگوں سے بات کی تو مجھے پتہ چلا وہ ایرانی ہیں اور ایف – ۵ کے جوان خلاء باز ہیں۔

زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ کمرے میں تقریباً ۳۰ لوگ جمع ہوگئے۔ میں کچھ لوگوں کو پہچانتا تھا۔ اُن میں سے ایک رضا احمدی تھا جو اسیر ہونے سے ایک رات پہلے، میرے ساتھ میرے گھر پر تھا۔ نگہبان ہمیں بات کرنے سے منع کر رہا تھا اور ہم صرف سر ہلا کر ایک دوسرے خیریت  دریافت کر رہے تھے اور مسکرا رہے تھے۔

تھوڑی دیر بعد نگہبان نے سگریٹ جلائی اور سب کے درمیان گھمائی۔ لوگوں نے آہستہ آہستہ باتیں کرنا شروع کردیں۔ میں احمدی کے پاس گیا اور اُس سے خیریت دریافت کی۔ مختصر احوال پرسی اور  وہ کس طرح اور کب اسیرہوا وغیرہ پوچھنے کے بعد، میں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اُس سے کہا:

- رضا جان! مجھے فوراًٍ نماز کے بارے میں بتاؤ، میں کہاں کہاں غلطی کر رہا ہوں۔

اُس نے بھی لوگوں کی گفتگو اور وہاں کی فضا سے فارغ ہوکر، ایک ایک بات کو صحیح سے بیان کیا۔

وہ بہت ہی مومن اور خداپرست انسان تھا اور وہ ہر طرح کی فدا کاری جسے وہ انجام دے سکے، سے دریغ نہیں کرتا تھا۔

اُس کے بعد میں اپنے پچھلے کیبن کے پائلٹ رضا صلواتی کے پاس گیا۔ پہلے میں نے اُس کی حالت کے بارے میں پوچھا، پھر کہا:

- رضا، تم بہت ذہین ہو، تم نے ضربات کا اچھی طرح سے جوا ب دیا۔

جاری ہے ...


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3082



http://oral-history.ir/?page=post&id=7791