یادوں بھری رات کا 289 واں پروگرام

اسکول اور محاذ کے تین ساتھی

مریم رجبی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-04-16


ایران کی تاریخ شفاہی ویب سائیٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس کے سلسلے میں یادوں بھری رات کا 289 واں پروگرام، جمعرات کی شام 22 فروری 2018ء کو آرٹ شعبہ کے سورہ ہال میں منعقد ہوا۔ اس پروگرام میں داؤد مولائی، علی فدائی اور محمد بلوری نے عراق کی ایران پر مسلط کردہ جنگ میں اپنے یادوں کا اظہار کیا۔

 

شیل سے نکلنے والا سونے کا ٹکڑا!

پروگرام کے سب سے پہلے راوی داؤد مولائی تھے۔ انھوں نے کہا: "میں اپنی ماں کے ایک واقعہ سے جو شہید کی ماں ہیں، اپنی باتوں کا آغاز کرتا ہوں۔ جب میرے بھائی نے جام شہادت کو نوش کیا،کچھ لوگ  ہمارے گھر پر آئے اور کہا کہ حسن زخمی ہوگیا ہے، ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہے، چلیں ، چل کر اُسے دیکھ لیں۔ اُس کے بعد ایک شخص آیا اور اُس نے مجھ سے کہا کہ حسن شہید ہوگیا ہے، جاؤ جاکر اُس کی تصویریں لے آؤ، ہمیں اُن تصویروں کی ضرورت ہے۔ میں اُس زمانے میں بچہ تھا اور میں نہیں جانتا تھا کہ شہید ہونے کا کیا معنی ہے، میں نے سوچا کہ کچھ ہوا ہے اور جب بعد میں میرا بھائی آئے گا، تو میں اُسے سب بتادوں گا، اسی وجہ سے میں نے تصویریں لاکر اُن کے حوالے کردیں۔ گویا اُس وقت جب میرے والد اور والدہ راستے میں تھے، حسن کی حالت زیادہ خراب ہوگئی اور وہ شہید ہوگیا اور اُسے سرد خانہ میں لے گئے۔ اُس وقت جناب رضا مبینی میرے والد کے ساتھ تھے۔ واپس آتے ہوئے، جب میرے والد بہت بے چین ہو رہے تھے، میری والدہ اُنہیں تسلی دے رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں ہمارے پانچ بیٹے تھے اور اُن میں سے ایک کو خدا نے ہم سے لے لیا، کوئی مسئلہ نہیں، جیسے ہم نے اپنے بیٹوں کا خمس نکال دیا ہے، جیسے ہم نے امانت کو  اُس کے حقیقی مالک کو واپس دیدیا ہے۔

کچھ عرصے بعد جب میری محاذ  پہ رفت و آمد شروع ہوئی ، میرے والے اور والدہ نے ملکر فیصلہ کیا  کہ وہ مجھ سے بات کریں  گے کہ جنگ کے حالات بحرانی ہیں ، میں یا تو محاذ پر کم جاؤں یا بالکل بھی نہ جاؤں۔ میرے والد نے کہا کہ ہم نے اپنے اندازے کے مطابق کافی حد تک اپنا حصہ ادا کردیا ہے اور تم بھی چند بار محاذ پر جا چکے ہو  بس یہی کافی ہے۔ آپریشنوں کے زمانے میں سیکیورٹی مسائل کی بنیاد پر، محاذ پر موجود لوگوں کا رابطہ بالکل منقطع ہوجاتا تھا اور جب محاذ پر موجود ہمارے ساتھیوں کے ماں باپ  اپنے شہید یا زخمی ہوجانے والے بچوں دیکھتے ، بہت پریشان ہوتے تھے۔ افواہیں بھی بہت پھیل جاتی تھیں اور وہ لوگ بھی ہسپتالوں میں زخمیوں کے درمیان اُنہیں ڈھونڈتے رہتے۔ آخر میں وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مجھ سے مذاکرات کریں ۔ والد صاحب نے اپنی باتیں کہیں اور کوشش کی کہ مجھے نہ جانے کیلئے قانع کرلیں۔ ایسے میں میری والدہ نے کہا کہ اگر تمام گھرانے ایک شہید یا زخمی کے ساتھ یہ سوچنے لگیں کہ اُنھوں نے اپنا حصہ ادا کردیا ہے، تو پھر کون دشمن کے سامنے کھڑا ہوگا؟ میں پریشان تھا کہ میں اپنے والد کو کیا جواب دوں؟ لیکن میری ماں نے یہ بات کہہ کر فیصلہ سنا دیا۔ یہ فاطمی مائیں ہیں جن کی گودوں میں دلاوروں نے پرورش پائی ہے۔ ہم اُن کے مجلس حسین (ع) اور قرآنی نشستوں میں جانے کی وجہ سے آج اُس دشمن کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہے جس کی پشت پناہی پوری دنیا کر رہی تھی۔

میں، جناب بلوری اور جناب فدائی کے ساتھ ایک ہی کلاس میں پڑھتا تھا۔ میں کلاس کا مانیٹر تھا ، جب میں جنگی علاقے میں آیا تو وہ بھی وہاں تھے۔ اگلی دفعہ سب ایک ساتھ محاذ کی طرف عازم ہوئے۔ جب ہم ڈویژن میں داخل ہوئے، ہم ایک ہی بٹالین، ایک گروپ اور ایک ہی دستے میں تھے۔ ہم پہلے کردستان، پھر آٹھویں و الفجر آپریشن کے علاقے دریائے نمک کی سرحدی پٹی کی طرف گئے۔ وہی جگہ جہاں ڈویژن کے شہداء رہ گئے تھے، شہداء کو پیچھے واپس لانے کیلئے آپریشن انجام دیا اور اس طرح سرحدی لائن کو کافی حد تک صاف کردیا۔ اُس آپریشن میں دفاعی پوزیشنیں ہمارے حوالے کی گئیں تھی اور جناب بلوری بھی وہیں زخمی ہوئے تھے۔

جس مورچہ میں ہم سب ساتھ تھے، میرے پاس ایک ایسی خاص اسپنر گن تھی جو دوربین اور دوسری چیزوں سے لیس تھی۔ میں نے اسپیشل ٹریننگ حاصل کی ہوئی تھی اور بقیہ دوستوں کے پاس معمولی اسلحہ تھا۔ جناب بلوری رات کو میرے اسلحہ سے استفادہ کرتے تھے۔ میرا اسلحہ  دشمن کی جانب سے فائر کیے جانے والے فلیئرز کو بھی نشانہ بنا سکتا تھا۔اُس کی رینج اور دقت زیادہ تھی اور بالکل دقیق نشانہ لگانے کیلئے رسام گولی سے استفادہ کیا جاتا تھا۔ جناب بلوری کا کام یہ تھا کہ وہ سارا دن سرحدی لائن پر رسام گولی کی تلاش میں رہتےتاکہ رات کو اُس سے دشمن کے فلیئرز  کو ماریں۔ یہ اسلحہ اس لیے ہمارے اختیار میں دیا گیا تھا تاکہ خاص موارد  اور مشین گن کا نشانہ لینے کیلئے جس میں زیادہ دقت کی ضرورت ہوتی ہے، اس سے استفادہ کریں۔ میں ہمیشہ جناب بلوری کو ڈھونڈتا رہتا کہ دیکھوں انھوں نے میری گن کہاں رکھی ہے۔

ہمارا ایک ایسا گروہ تھا جس کے چار اجتماعی مورچے تھے۔ ہم دفاع کیلئے جو چند دن وہاں رہے تھے، پانی کی سطح اوپر ہونے کی وجہ سے مورچے عام طور سے گیلے ہوجاتے تھے۔ ہم نے سوچا کہ ایسا کرتے ہیں کہ کمبلوں کو باہر نکال لیتے ہیں تاکہ صفائی ستھرائی کے حوالے سے اُنہیں تھوڑی دھوپ لگ جائے  اور جراثیم وغیرہ بھی ختم ہوجائیں اور جو نیچے بچھے ہوئے تھے وہ سوکھ جائیں۔ ایک دن ہم نے اپنا تمام سامان باہر نکالا۔ ہمارے مورچے میں ایک ایسا آلہ تھا جو گولوں سے نکلنے والے ٹکڑوں  کے سامنے رکاوٹ بن جاتا تھا اور میں اُس کے پیچھے کھڑا ہوا تھا۔ 120 نامی گھومنے والا گولا آیا۔ یہ گولے زمین میں سوراخ کردیتے تھے اور پھر دھماکہ  ہوتا تھا۔ جس وقت یہ گولہ آکر لگا، میرا علاوہ ہمارے ساتھ موجود تمام افراد زخمی ہوگئے۔ وہ آلہ جو میرے سامنے تھا وہ مجھے ٹکڑے لگنے میں رکاوٹ بن گیا۔ ہمارے ہی  گروہ  کے ایک اور مورچہ میں ، ایک دو آدمی اور بھی زخمی ہوئے تھے۔ جب ہم نے ان افراد کو جمع کیا اور پیچھے کی طرف واپس لائے تو میں اکیلا رہ گیا۔ جو کوئی بھی آتا کچھ نہ کچھ کہتا اور میرے زخموں پر نمک چھڑک کر چلا جاتا۔ اُس زمانے میں ہماری عمریں کم تھیں اور ہم اپنی دوستیوں کے لئے احترام اور قربت کے قائل تھے۔ میں نے جناب بلوری کو ایک خط لکھا اور اُس میں اُنہیں علاقے کی صورت حال سے آگاہ کیا اور کہا کہ یہاں عراقی مردوں کی بو ہمیں اذیت کر تی ہے، جب کبھی ہوا چلتی ہے، بہت بدبودار چلتی ہے اور راتوں کو مچھروں نے بھی ہماری نیند یں حرام کی ہوئی ہیں، ہم پر اس طرح حملہ کرتے ہیں کہ ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ ہم اُن کے ساتھ لڑیں یا عراقیوں کے ساتھ؟!میں نے خط کے آخر میں لکھا کہ ہر مورچہ کا ایک آدمی زخمی ہوا ہے اور ہمارے مورچے میں صرف میں صحیح و سالم بچا ہوں او ر اپنی پریشانی کے بارے میں بتایا۔ میں نے یہ خط اصفہان بھیجا۔ پھر میں نے ایک خط اپنے گھر والوں کیلئے لکھا اور اُن سے کہا کہ علاقے  کے حالات بہت اچھے ہیں اور مجھے یہاں کوئی مشکل نہیں ہے، محاذ پر سکون ہے اور میں انشاء اللہ بہت جلد آپ لوگوں کے پاس آؤں گا۔ جب افراد شہر کی طرف گئے ہوئے تھے تو افواہ  اُڑ گئی تھی کہ داؤد زخمی ہوگیا ہے اور میرے گھر والے بہت پریشان تھے۔ وہ لوگ میرے دوستوں کے پاس گئے اور میرے دوستوں نے اُنہیں جتنی تسلی دی کہ داؤد صحیح و سالم ہے ، انھیں یقین نہیں آرہا تھا۔ جب انہیں میرے خط  ملا تو انہیں کچھ اطمینان خاطر حاصل ہوا۔ اسی زمانہ میں جناب بلوری  بھی ہمارے گھر گئے اور اُنہیں خط دکھایا اور کہا کہ داؤد کا خط آیا ہے، آپ لوگ پریشان نہ ہوں۔

میری ایک بہن ہے جس نے اُس وقت مجھے ایک خط لکھا کہ تم اس وقت دقیقاً کہاں ہوں؟ جو باتیں تم نے اپنے دوستوں کو لکھی ہیں وہ باتیں ہمیں خط میں لکھی ہوئی باتوں سے بہت مختلف ہیں! اُسی سرحدی لائن پر ، اُس گولہ لگنے کی جگہ، جہاں لوگ اُس کے لگنے سے زخمی ہوئے تھے ، میں نے گولیوں کے ایک صندوق پر اپنے جنگی ساتھیوں کے نام لکھے ، اُس کو اُس جگہ رکھ دیا اور خود اس پر کھڑا ہوگیا اور ایک یادگار تصویر بنوائی۔ جناب محمود نجیمی نامی ہمارے ایک دوست تھے جو موٹر سائیکل پر آئے اور پوچھنے لگے: سب لوگ کیسے ہیں؟ہم جس پٹی پر لڑ رہے تھے وہاں دو مورچے تھے؛ ایک مورچہ تو دشمن کے سامنے تھا اور ایک مورچہ گولوں سے نکلنے والے ٹکڑوں کو روکنے والا تھا۔ جس گولہ سے افراد زخمی ہوئے تھے، وہ ٹکڑوں کو روکنے والے مورچے کے پیچھے گرا تھا۔ میں نے کہا جناب نجیمی یہاں تشریف لائیے، سب لوگ یہاں ہیں۔ وہ آئے اور انھوں نے اُس ڈبے کو دیکھا جس پر نام لکھے ہوئے تھے۔ انھوں نے پریشانی کی حالت میں پوچھا کہا یہ افراد شہید ہوگئے ؟ میں نے کہا: نہیں، ایک گولہ آیا تھا اور اُس نے سب لوگوں کو زخمی کردیا۔ سونے کا ٹکڑا، ایسا ٹکڑا تھا کہ جب افراد تھک جاتے ہیں، تو اس ٹکڑے کے ذریعہ پیچھے چلے جاتے ہیں اور آرام کرتے ہیں  اور دوبارہ واپس آجاتے ہیں۔ میں نے جناب نجیمی سے کہا کہ افراد سونے کے ٹکڑے کی وجہ سے پیچھے گئے ہیں اور انشاء اللہ دوبارہ واپس آئیں گے۔"

 

جب شہید ہوجاؤ گے ․․․

 دفاع مقدس کے سلسلے میں یادوں بھری رات کے 289 ویں پروگرام میں دوسرے راوی جناب علی فدائی تھے۔  انھوں نے کہا: "ہمیں محاذ پر گئے ہوئے تقریباً بیس روز ہوئے تھے اور ہمیں پوزیشنیں سنبھالے زیادہ وقت  نہیں ہوا تھا۔ صبح 9 بجے ہم لوگ فوٹبال کھیلنے میں مصروف تھے۔ اچانک دیکھا کہ چھاؤنی میں تو بالکل سناٹا ہے۔ ہم نے نظر دوڑائی تو دیکھا کہ سب افراد لاجسٹک روم کی طرف گئے ہوئے ہیں۔ ہم بھی چلے گئے۔ ہم نے دیکھا لائن لگائی ہوئی تاکہ لوگوں کی طرف سے آنے والے  ہدیہ دریافت کریں۔ عام طور سے  جس طرح سےلوگوں نے پیکٹ بناکر بھیجا ہوتا ہے، سپاہیوں کو اُسی طرح تحویل میں دیدیتے تھے۔ میں لائن کے آخر میں حسن اصلانی کے پیچھے کھڑا تھا۔ میں نے حسن سے کہا میں تھک گیا ہوں، بیٹھ جاتا ہوں، جب میری باری آجائے تو مجھے بلالینا۔ میں ایک کونے میں بیٹھ گیا اور مجھے نیند آگئی۔ حسن کی آواز سے اٹھا اور اپنا ہدیہ لیا۔ حسن چلا گیا اور میں نے اُسے کھولا۔ اُس میں ایک نیوی بلو کلر کی شرٹ تھی۔ میں اُس کے کالر سے سمجھ گیا کہ یہ استعمال شدہ ہے؛ میں نے دل میں کہا خدا مال میں برکت عطا کرے۔ میں نے اُسے کھولا اور پہننا چاہا تو دیکھا اُس کے اندر سے کاغذ کا ایک ٹکڑا باہر گرا ہے۔ کاغذ کا ٹکڑا ہاتھ کی ہتھیلی کے برابر تھا اور رنگین پینسلوں سے اُس کے اطراف میں ڈرائنگ کی گئی تھی۔ کاغذ پر موجود لکھائی سے پتہ چل رہا تھا کہ کسی دوسری یا تیسری کلاس کے طالب علم نے اُس پر لکھا ہے۔ اُس کاغذ پر لکھا ہوا تھا: "اے دلاور سپاہی سلام، برائے مہربانی جب آپ شہید ہوجائیں تو میرے بابا سے کہئیے گا کہ میرے خواب میں آئیں، میں بہت اُداس ہوں مجھے اُن کی بہت یاد آتی ہے، حمید رضا عباسی فرزند شہید کرم علی عباسی"۔ اس لکھائی نے میرے اندر اضطراب پیدا کردیا تھا۔ میرا انداز و حلیہ بدل گیا تھا۔ میں نے شہداء والی شکل بنالی تھی۔ میں دن میں کئی مرتبہ اس خط کو پڑھتا۔ حسن کو تجسس ہوا۔ اُس نے پوچھا: یہ کیا چیز ہے جسے تم بار بار جیب سے نکال کر پڑھ رہے ہو؟ میں نے کہا: بس اب میرے جانے کا وقت آگیا ہے، مجھے شہادت کا پروانہ مل گیا ہےاُس نے پوچھا: کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا: میرے لئے دعوت نامہ آیا ہے اور میں نے وہ کاغذ حسن کو دکھایا۔ حسن اُس کاغذ کو دیکھ کر رونے لگا۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ رو کیوں رہے ہو؟ میں  پوچھے جا رہا تھا اور وہ صرف روئے جا رہا تھا۔ کچھ نہیں بول رہا تھا۔ کچھ دن گزر گئے، قائم آل محمد (عج) آپریشن انجام پایا۔ جب ہم آپریشن سے واپس آئے تو ہم نے دیکھا حسن کے جنازے کو لا رہے ہیں۔ حسن شہید ہوچکا تھا۔ اُس رات، شب جمعہ تھی۔ دعائے کمیل کا پروگرام رکھا گیا۔ حمید بیدارم جس کا تعلق لاجسٹک یونٹ سے تھا، اُس نے حسن کی عادات اور کرامت کے بارے میں بیان کیا۔ اُس نے کہا: حسن بہت ہی با اخلاق انسان تھا۔ اسی طرح اس نے میری طرف رخ کرکے کہا: کیا تمہیں پتہ تھا وہ ہدیہ حسن کیلئے تھا جو اُس نے تمہیں دیدیا تھا؟ تم آخری آدمی تھے اور تمہیں نہیں ملا تھا۔ جس وقت حسن نے ہدیہ کو دیکھا تو وہ سمجھ گئے تھےکہ اُنہیں خود پیغام کو پہنچانا چاہیے۔

ہم شاہین شہر کے رہنے والے افراد  جنگی علاقے میں بہت شرارتی اور کھیل کود کرنے والوں میں سے تھے۔ نئے نئے کارنامے انجام دیتے تھے۔ بے معنی اور مبہم الفاظ و کلمات  کے ساتھ ایک دوسرے سے بات کرتے تھے۔ میں اور بہروز داؤدی ان بے معانی کلمات کے استعمال سے ایک دوسری کی بات کو اچھی طرح سمجھ لیتے تھے۔ آپریشن کیلئے ایک چھوٹا سا ماڈل بنایا ہوا تھا اور سب انتظار کر رہے تھے کہ بٹالین کمانڈر حاج اسماعیل صادقی اور محمد رضا تورجی آکر ماڈل کے بارے میں وضاحت پیش کریں۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہماہنگی میں مصروف تھے اور انہیں کچھ دیر ہوگئی۔ شیطانی اور شرارت سے مجبور، بہروز داؤدی اور محمد بلوری کے اُکسانے پر میں ماڈل کی وضاحت دینے کیلئے آگے بڑھا اور ہم نے تماشا کرنا شروع کردیا۔ میں ابرؤوں کو چڑھا کر حاج اسماعیل کی نقل اتارنے لگا؛  کھانستے ہوئے اور تھوک نگلنے کا انداز اپنایا۔ افراد اس انداز کو پہچانتے تھے۔ میں نے اُنہیں حرکات اور بے معانی الفاظ کے ساتھ ماڈل کی وضاحت دینا شروع کی۔ سب بری طرح ہنس رہے تھے کہ اچانک مجھے احساس ہوا کہ سب لوگ تھوڑا سنجیدہ ہوگئے ہیں۔ مجھے ایسا لگا کہ کوئی آگیا ہے، میں پیچھے کی طرف پلٹا نہیں ، آگے بڑھا، تاکہ وہاں سے نکل جاؤں۔ اچانک میں نے ایک آواز سنی: جاری رکھو! میں سمجھ گیا کہ حاج اسماعیل کی آواز ہے۔ میں نے کہا: معافی چاہتا ہوں! انھوں نے کہا: جاری رکھیں جناب! میں نے اُسی انداز اور الفاظ کے ساتھ نقل اُتاری اور وہ ہنسنے لگے۔ اس بات کی وجہ سے جب حاج اسماعیل مجھے دیکھتے، غصہ نہیں کرتے تھے، ہنستے تھے۔

کربلائے پانچ آپریشن میں، ہم نے جاسم لائن کے بعد عراق کے کچھ حصوں کو حاصل کرکے چھاؤنی کو گھیرے میں لیا ہوا تھا۔ جب ہم لائن سے عبور کرنا چاہتے تھے، بارودی سرنگ  صاف کرنے والے آئے اور راستے کو کھول دیا، خاردار تاروں کو کاٹا اور پہلے گروپ کہ جس میں جناب محمد بلوری تھے، نے خاردار تاروں سے عبور کیا۔ جیسے ہی اُن کے خاردار تاروں سے عبور کیا، دھماکے کی آواز آئی اور دھماکہ بالکل وہیں ہوا جہاں افراد موجود تھے۔ شروع میں ہم نے سوچا کہ شاید 60 نامی مارٹر برسا رہے ہیں، کیونکہ 60 نامی مارٹر بغیر سیٹی کے پھٹ جاتا ہے، لیکن ہم نے دیکھا کہ یہ دھماکے ایک کے بعد ایک ہو رہے ہیں اور سب اُسی جگہ۔ ممکن نہیں تھا کہ 60 نامی مارٹر کو اتنی دقت سے مارا جائے ۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ تو گرنیڈ ہے۔ بارودی سرنگ کے میدان سے تقریباً بیس میٹر نیچے کی طرف عراقیوں کی کمینگاہ تھی اور وہ وہاں سے لوگوں پر گرنیڈ پھینک رہے تھے۔ ہم نے یہاں سے چلانا شروع کیا اور اُن لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ انھوں نے ایک ساتھ دس سے بیس گرنیڈ ٹیلے کے پیچھے اچھالے۔ ایک خطرناک دھماکہ ہوا اور اس طرح وہاں، جہاں ہمارے ساتھی موجود تھے دھماکے ہونا بند ہوگئے۔ جب گرد و غبار نیچے بیٹھ گیا، ہم نے دیکھا محمد بلوری ایک زخمی ہاتھ کے ساتھ خود کو گھیسٹتا ہوا آ رہا ہے۔ اُس نے کہا: اپنا خیال رکھنا۔ ہمیں خدا کے سپرد کیا اور سونے کا ٹکڑا لگنے کی وجہ سے پیچھے چلا گیا۔

جب ہم نے مچھلیوں کی جھیل کے چوراہے پر خود کو محمد رسول اللہ (ص) بٹالین سے ملحق کرلیا، اس کے بعد لوڈر آئے اور انھوں نے ٹیلے بنانا شروع کردیئے۔ شروع میں وہ دس دس میٹر  کے فاصلے پر ٹیلے بنا رہے تھے کہ لوگوں کے پاس جائے پناہ موجود ہو۔ پھر آکر اس کے درمیانی حصے کو بھی بھرنے لگے۔ ہمارے پاس تین لوڈر تھے۔ پہلا لوڈر تباہ ہوگیا اور دوسرے لوڈر کا ڈرائیور زخمی ہوگیا۔ شہید تورجی نے مجھ سے کہا کہ میں جلدی سے جاکر کہوں کہ لوڈر کا دوسرا ڈرائیور بھیجا جائے اور کہا کہ کارتوس کا ایک بکس بھی لے آؤں۔ میں نے اپنا اسلحہ وہیں رکھا اور بہت تیزی سے پہلی لائن کی طرف دوڑا۔ جب میں مائنز کے میدان سے تھوڑا پہلے پہنچا، وہی علاقہ جہاں گرنیڈ کے دھماکوں کا حادثہ پیش آیا تھا، اچانک ہوا میں فائر ہونے والے فلئیر کی روشنی پھیلی اور میں نے خود کو کچھ عراقیوں کے جنازوں کے درمیان پایا۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ ان میں کون زندہ اور کون مردہ ہے۔ میں ڈرا ہوا تھا۔ میرے ہاتھ میں ایک آمادہ گرنیڈ تھا تاکہ اُن میں سے جیسے ہی کوئی حرکت کرے تو میں اُس کی طرف اچھال دوں۔ بالآخر میں نے لوڈر کے ڈرائیور تک خبر پہنچائی اور لوگوں سے ایک اسلحہ بھی لیا۔ کارتوس بکس لوڈر ڈرائیور کے حوالے اور لوڈر ڈرائیور کو کو جناب تورجی کے سپرد کیا۔"

قرار تھا کہ صبح آپریشن کے بعد امیر المومنین (ع) بٹالین آئے گی اور سرحدی پٹی کو ہم سے لے لی گی اور دفاعی پوزیشن پر کام کرے گی۔ آپریشن والے دن صبح عراقی ہیلی کاپٹروں نے دوسری لائن پر راکٹ برسائے اور یہ بٹالین پوری طرح سے تباہ ہوگئی۔ کہا گیا کہ آپ کی بٹالین کے افراد خود ہی دفاعی پوزیشن کو سنبھالیں اور دشمن کی جوابی کاروائی کا جواب دیں، سپاہی پہنچ رہے ہیں۔ شہید تورجی آئے، افراد کو الگ کیا اور لائن پر زیادہ فاصلہ کے ساتھ مقرر کیا کہ تقریباً لائن بھر جائے۔ شہید پور مہدی جو ہم سے بڑے تھے اور بیوی بچوں والے اور خاموش طبیعت کے انسان تھے ، انھوں نے کہا: میں یہیں روکوں گا، آپ لوگ جائیں۔ ہم چلے گئے اور مورچے بنانا شروع کر دیئے۔ بہروز داؤدی اور میں نے اُس رات سے اگلے دن ظہر تک آٹھ مورچے بنائے۔ ہم مورچے بنانے میں مصروف تھے کہ اچانک شیل کی سیٹی اور دھماکہ کی آواز آئی۔ دھماکہ پہلے والے مورچے کے قریب ہوا تھا۔ جب گرد و غبار چھٹا، ہم مورچے کی طرف دوڑے وہاں جاکر دیکھا تو پور مہدی شہید ہوچکے ہیں۔ کربلائے پانچ آپریشن کے دوسرے مرحلے میں امام حسن (ع) بٹالین نے کاروائی انجام دی تھی اور اُن کے شہداء علاقے میں رہ گئے تھے۔ تعاون کمیٹی کے افراد کے پاس ٹویوٹا کی ایک سوزوکی تھی جس کا ہیڈ ہٹایا ہوا تھا وہ اُس میں شہداء کو جمع کرتے۔ جب وہ لوگ آئے تو ہم نے کہا کہ ہمارے پاس بھی شہید ہیں۔ انھوں نے شہید پور مہدی کو دوسرے جنازوں کے اوپر رکھ دیا۔ جب گاڑی چلنے والی تھی تو ہم نے دیکھا شہید کا پاؤں قطع ہوگیا ہے اور پنڈلی سے نیچے کا حصہ نہیں ہے۔ ہم نے مورچے سے جاکر پاؤں اٹھایا اور تعاون کمیٹی کے افراد کو دیدیا۔ ہم سب کا کینہ ابھر آیا اور "ہم آخر تک ڈٹے ہوئے ہیں" والی عبارت ہمارے لیے حقیقی شکل اختیار کرلی تھی۔

جناب بختیاری ایک 50 سالہ انسان تھے جنہیں ایک آنکھ سے کم نظر آتا تھا۔ وہ بہت بضد تھے کہ اُنہیں گروپس کے ساتھ آنا چاہیے اور وہ دشمن کے فوجی خط کو شکست دینے والے ہوں۔ اُن کی جسمانی حالت کی وجہ سے اُنہیں قبول نہیں کیا اور اُن سے کہا گیا کہ آپ تعاون کمیٹی میں کام کریں۔ انھوں نے امدادی کارکن بننے کیلئے بہت زیادہ اصرار کیا۔ کم پڑھے لکھے ہونے کے باوجود انھوں نے کوشش کی اور امدادی کارکن کے کورس کو پورا کرلیا۔ کربلائے پانچ آپریشن کے بعد والے دن، ظہر کا وقت تھا کہ ہم نے دیکھا بارودی سرنگوں کے میدان میں کچھ دھماکے ہوئے ہیں اور ایک شخص بھاگتا ہوا ہماری طرف آ رہا ہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اُس کے ہاتھ میں اسلحہ بھی تھا۔ جب وہ قریب آیا تو ہم نے دیکھا کہ اُس کا اپنا ہاتھ ہے جو تقریباً کہنی کے پاس سے کٹ گیا تھا!وہ اُسے پکڑے پکڑے آرہا تھا تاکہ کسی جگہ تک پہنچ جائے۔ جناب بختیاری کے پاس پہنچا اور انھوں نے بھی اُس کے ہاتھ کو باندھ دیا۔ وہ پٹی کرنے میں مصروف تھے کہ ہمارے پیچھے بارودی سرنگوں کے میدان میں ایک اور دھماکہ ہوا ۔ ہم نے رابطہ لائن کاٹ دی تھی اور عراقیوں کے بارودی سرنگوں کے میدان ہمارے پیچھے تھے۔ ایک جوان بارودی سرنگوں کے میدان میں زخمی ہوگیا تھا اور چیخ رہا تھا اور ہم اس طرف سے کہہ رہے تھے کہ ہلنا نہیں، مائن پھٹ جائے گی اور تم دوبارہ زخمی ہوجاؤ گے۔ ہم کسی مائنز کو ناکارہ بنانے والے کی تلاش میں تھے کہ جو آکر راستے کو کھول دے اور اُسے نجات مل جائے۔ جناب بختیاری جو اُس زخمی کے ہاتھ  کی پٹی کرچکے تھے، ایک دم کھڑے ہوئے اور انھوں  نے بدحواسی کے عالم میں دوڑنا شروع کردیا۔ وہ دیوانوں کی طرح دوڑ رہے تھے۔ بارودی سرنگ کے میدان میں جہاں سے وہ اُس کی آواز کی طرف متوجہ ہوئے تھے،  سیدھا زخمی کے پاس گئے۔  ہم نے اُنہیں اتنی آوازیں لگائیں لیکن انھوں نے توجہ نہیں کی۔ وہ اُس زخمی کے پاس گئے اور اُس کے پیروں کو باندھا۔ اُس کو اپنے کندھوں پر ڈالا اور بارودی سرنگ کے میدان کی اُس طرف سے باہر نکلے۔ ہم نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ انھوں نے کہا کہ اُس کی آواز میرے حسین کی طرح تھی، ہم نے پوچھا کہ حسین کون ہے؟ انھوں نے کہا: میرا بیٹا ہے جو ابھی کچھ دنوں پہلے شہید ہوا ہے اور پرسوں اُس کا چہلم ہے۔ اب ہمیں پتہ چلا تھا کہ جناب بختیاری شہید حسین بختیاری کے والد ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کی شہادت کے سات دن بعد  محاذ کی طرف روانہ ہوگئے تھے۔"

 

"فاو کیلئے ٹیکسی سروس" کے بارے میں

 دفاع مقدس کے سلسلے میں یادوں بھری رات کے 289 ویں پروگرام میں تیسرے راوی محمد بلوری تھے۔ "فاو کیلئے ٹیکسی سروس" کے مؤلف نے کہا: "اس کتاب کی تشکیل کا طریقہ اس طرح سے تھا کہ میں اپریل 2007ء میں ریٹائر ہوا۔ مضبوط، پر جوش اور فعال ہمت  کی وجہ سے، ریٹائرمنٹ – میری جسمانی حالت کے پیش نظر –  دوسرے لفظوں میں گھر بیٹھ جانا تھا۔ سپاہ کے میڈیکل سپریم کمیشن کی رائے کے مطابق میں بیس سال ڈیوٹی انجام دینے کے بعد ریٹائر ہوگیا اور یہ بات مجھ جیسے 39 سالہ تندرست انسان کیلئے سخت تھی۔ ریٹائرمنٹ کے انہی ابتدائی دنوں میں یعنی مئی 2007ء میں،میری زوجہ نے مجھے ایک بہترین مشورہ دیا۔ انھوں نے کہا اب فرصت ہاتھ آ گئی ہے تو کم سے کم اپنے بچوں کیلئے دفاع مقد س کے دوران کی یادوں کو چند صفحات پر  لکھ ڈالیں۔ میرے جڑواں بچے اُس وقت پانچ سال کے تھے۔ ایک اچھا مشورہ تھا۔ میں نے ہاتھوں میں قلم اٹھالیا۔ اُس زمانے میں مجھ میں لکھنے کی سکت تھی۔ اُس زمانے میں مجھ میں زیادہ سے زیادہ 15 صفحے لکھنے کی ہمت تھی۔ میں سوچتا تھا کہ بس کافی ہے، حق مطلب ادا ہوجائے گا۔ تھوڑا وقت گزرا، پھر اور وقت گزرا یہاں تک کہ اپنا وہ آپریشن کروایا۔ ہوش میں آنے کے بعد عجیب سا درد تھا۔ درد میں آرام آنے کیلئے انھوں نے مجھے مورفین کا انجکشن لگایا اور مجھے سلا دیا۔ صبح، جب میں نماز کیلئے اٹھا اور مورفین کا اثر ختم ہوچکا تھا، مجھ میں تیمم کرنے کی بھی سکت نہیں تھی۔ بہرحال میں نے اپنی زوجہ کی مدد سے تیمم کیا اور نماز پڑھی۔ اُس وقت میرا تمام ہم و غم یہ تھا کہ میرا ہاتھ ضائع ہوگیا ہے، بلکہ یہ تھا کہ میں نے ایک کام شروع کیا ہوا ہے اور اب اُسے ادھورا چھوڑا پڑنے گا۔ یہ چیز میری عادت سے میل نہیں کھاتی تھی۔

تین چار مہینے تک نقاہت کا زمانہ گزارا۔ اُس کے بعد مجھ میں سیدھے ہاتھ سے ٹائپ کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ میں نے کوشش کی اور بہت مشکل سے اُلٹے ہاتھ سے ٹائپ کرتا اور سیدھے ہاتھ سے مدد کرنے والے بٹن (Keys) کو دباتا۔ سن 2009ء تک حالت اور زیادہ خراب ہوگئی اور میرے سیدھے ہاتھ میں حتی شفٹ کا بٹن دبانے کی سکت بھی نہ رہی۔میں اُلٹے ہاتھ سے مدد لیتا ، سیدھے ہاتھ کو شفٹ کے بٹن پر رکھتا اور مرکب حروف کو ٹائپ کرتا۔ میں نے کام کو جاری رکھا، اگرچہ بہت آہستہ لیکن میں نے کام کو رکنے نہیں دیا، اُسی سال کے اواسط میں مجھے یونیورسٹی میں داخلہ مل گیااور اپنی بیوی کے بقول مجھے کام کو چھوڑ کر پڑھائی میں لگ جانا چاہئیے تھا، لیکن خداوند متعال نے میری مدد کی اور میں نے دونوں کاموں کو ایک ساتھ انجام دیا۔ اس طرح سے کہ میں صبح سے لیکر مغرب تک پڑھائی کرتا تھا اور اُس کے بعد سے لیکر رات بارہ یا ایک بجے تک ٹائپ کرتا۔ اس کے نتیجے میں، میں نے اپنی پڑھائی کو چار سالوں کے بجائے سات سالوں میں مکمل کیااور جو کتاب سات سالوں میں بن سکتی تھی اُسے گیارہ سال میں انجام دیا، لیکن میں پیچھے نہیں ہٹا، حتی میں نے جزئی باتوں کے تذکرے سے بھی دریغ نہیں کیا؛ ایسی جزئیات کے بعض اوقات اُن سے صرف نظر کیاجاسکتا ہے،  لیکن انہی جزئیات کے آپس میں ملنے سے کلیات تشکیل پاتی ہیں۔ میرے جسمانی لحاظ سے ضعیف ہونے اور پڑھائی میں مصروف ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا کہ میں  بار بار تصحیح  نہ کروں، ہر فصل کو ٹائپ کرنے کے بعد میں متن کی شروع سے لیکر آخر تک  تصحیح کرتا۔ سن 2012ء کے آخر میں خداوند متعال کے لطف  وکرم سے کتاب مکمل ہوگئی اور سن 2013ء کے شروع میں کئی بار پروف ریڈنگ اور تصحیحات کے بعد آرٹ شعبے اور سورہ مہر مطبوعات کی تحویل میں دیدی گئی۔ جناب محمد قاسمی پور نے اچھے اور ماہر انداز میں اُسے دوبارہ پڑھا اور ضعیف اور قوی نقاط سامنےلائے۔ جب میری اُن سے پہلی بالمشافہ ملاقات ہوئی تو میں نے اُن سے کہہ دیا کہ  مجھ میں اِ س سے زیادہ کی سکت نہیں۔ ایک مہینے بعد جب انھوں نے متن کا پرنٹ نکال کر مجھے بھیجا، انھوں نے کتاب میں کئی جگہ بریکٹ لگائے ہوئے تھے کہ یہاں پر فلاں بات نہیں کہی، یہاں پر فلاں موضوع پر اشارہ کرتے ہوئے گزر گئے، یہاں پر فلاں موضوع کو کیوں خلاصہ میں بیان کیا و․․․ بہرحال میں نے اُن سے کہہ دیا کہ اب مجھ میں ہمت نہیں۔ انھوں نے کہا: آپ اپنی باتوں کو ریکارڈ کرکے ہمیں بھیج دیں، ہم اُسے ٹائپ کروالیں گے اور آخر میں آپ اُسے ایک بار پھر پڑھ لیجئے گا۔ آڈیو فائلز بھیج دی گئیں اور زہرا قاسمی نے بہت ہی اچھے طریقے سے اُسے ٹائپ کیا۔ اُس کے بعد متن کا جائزہ لیا گیا اور بالآخر یہ کتاب منظر عام پر آگئی۔

آپ کو ماضی میں 31 سال پہلے کی طرف لے چلتا ہوں، 1987ء کی سردیاں؛ تاریخ، 22 فروری، اتوار، 8 بج کر 50 منٹ، جگہ، شلمچہ، نہر جاسم، مچھلی جھیل  کے مشرق میں جنوبی ضلع۔ حد سے زیادہ پیچیدگی اُس کی علاقے کی پہچان تھی۔ نہر جاسم ، جاسم قلعہ کے نام سے مشہور ہوگئی اور ہمارے اور عراقیوں کے درمیان کئی باررد و بدل ہوئی۔ کاروائی انجام دینے والی آخری یا زہرا (س) بٹالین جو ہماری بٹالین تھی ، ہم سے پہلے امام سجاد (ع) بٹالین نے کاروائی کی تھی۔ اس بٹالین کے شہداء کے پیکر علاقے میں باقی رہ گئے تھے پھر ایسا ہوا کہ اُس فراموش نہ ہونے والی رات میں یا زہرا (س) بٹالین علاقے میں داخل ہوگئی اور کام کو تمام کردیا۔ ہم نے 8 بج کے  50 منٹ پر ٹائم کو روک دیا تھا،اُسے اب دوبارہ شروع کر رہے ہیں۔ میں بہت تیزی کے ساتھ اپنے مورچوں کی طرف دوڑا، حالانکہ کچھ ہی منٹ گزرے تھے کہ عراقیوں نے آسمان پہ فلیئرز فائر کرکے پورے علاقے کو روشن کردیا تھا اور ٹینکوں اور اسٹین گنوں سے پورے علاقے پر گولیاں برسا رہے تھے۔ میں جھکتا ہوا اپنے مورچوں کی طرف گیا۔ اندر داخل ہوا  لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ میں سمجھ گیا کہ افراد نکل چکے ہیں۔ میں نے بہت تیزی سے کندھے پر پٹکا ڈالا، کمر پر گولیوں کی پٹی کو باندھا، آر پی جی کے بیگ کو کندھے پر ڈالا، اپنا اسلحہ اٹھایا اور مورچے سے باہر آگیا۔ میں نے دائیں بائیں نگاہ دوڑائی۔ میں نے بائیں طرف دس میٹر کے فاصلے پر، ستون کے آخری افراد کو دیکھا۔ ستون میں میرا ساتواں نمبر تھا۔ میں نے آر پی جی کے بیگ کو کندھوں پر ڈالا ہوا تھا اور اُس کے کلپ کو سینے پر باندھا ہوا  تھا، میں نے اس حال میں اپنی جگہ تک پہنچنے کیلئے ستون کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کردیا۔ میں نے کسی نہ کسی طریقے سے زارعی کو ڈھونڈ لیا، میں آر پی جی چلانے میں اُس کا مددگار تھا۔ میں اُس کے پیچھے بیٹھ گیا۔ تقریباً پانچ منٹ تک پورا آسمان روشن ہوگیا اور ہم آپریشن کیلئے تیار تھے۔ انہی لمحات میں ذوالفقار بٹالین اور دشمن کی صفوں کو چیرنے والی بٹالین یا زہرا (س)  کے کمانڈر محمد رضا تورجی زادہ، مورچے کے اوپر اپنے مشہور انداز میں کھڑے ہوئے تھے، دایاں پیر مورچے کے اوپر رکھا ہوا اور بائیں پیر کو سیدھے کئے ہوئے تھے، بایاں ہاتھ کمر پر رکھا ہوئے، رات کی تاریکی میں دیکھنے  میں مصروف تھے۔ ایسا اُس وقت تھا جب ہم سب گولیوں سے بچنے کیلئے زمین سے چپکے ہوئے تھے۔ رات کے ٹھیک ۹ بجے وائرلیس کے ذریعے آپریشن کا کوڈ بتایا گیا۔ سب کی نگاہیں تورجی کی طرف گھوم گئیں  اور وہ اُسی طرح رات کی گہرائی میں کھوئے ہوئے تھے۔ وائرلیس کے ذریعے آپریشن کا کوڈ بتانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ  کاروائی کرنے والے تمام یونٹس  اپنی جگہوں سے حرکت کر کے مقررہ جگہ پہنچ جائیں۔ اُن یونٹس میں سے ایک یونٹ ہمارا تھا، ایک دوسرا یونٹ، ۲۷ ویں محمد رسول اللہ (ص) ڈویژن کی بٹالین کا یونٹ تھا، کہ قرار تھا کہ وہ سامنے کی طرف سے آکر ہم سے ملحق ہو۔ اُن لوگوں نے بھی اُس وقت اپنی جگہ چھوڑ دی۔

مشین گنیں مسلسل گولیاں برسا رہی تھیں اور اُن گولیوں کا ہدف وہ جگہ تھی جہاں سے ہم نے حرکت کرنی تھی۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ آپریشن کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے، اگر رک جاتے تو ۲۷ ویں ڈویژن کے افراد کا قتل عام ہوجاتا اور اگر چلے جاتے تو خود ہماری موت تھی، لیکن ہم گئے۔ ٹھیک ۹ بج کر ۱۰ منٹ پر تورجی زادہ کے ہاتھ کے اشارے سے آگے بڑھنے کا دستور صادر ہوا۔ پہلا آدمی تورجی زادہ کا جانشین پور احمد تھا جو مورچے کے اوپر سے اُن کے سامنے سے گزرا، دوسرا ٓدمی پور احمد کا وائرلیس آپریٹر مجید طاہریان تھا، تیسرا ٓدمی اور گروہ کا پہلا شخص گروہ یک کا کمانڈر ابراہیم شاطری پور تھا جو مورچے سے گزرا۔ بعد میں گزرنے والے افراد، شاطری پور کا جانشین سید عباس سقائیان، پہلی ٹیم کا مسئول سموئی، ذوالفقار گروپ کے پہلے گروہ کا پہلا آرپی جی چلانے والا حسن پور مہدی نجف آبادی، جواد اتحادی پہلے آرپی جی چلانے والے کا مددگار تھا۔ آٹھواں شخص پہلے گروہ کا دوسرا آرپی جی چلانے والا زارعی تھا اور نواں شخص میں تھا؛ جو پہلے گروہ کے دوسرے آر پی جی چلانے والے کا مددگار تھا۔ میں تورچی زادہ کے سامنے سے گزر کر دشت میں اُترا۔ مورچے کے اُس طرف پورا ستون آہستہ اور متانت کے ساتھ قدم اٹھاتا ، خمیدہ حالت میں آگے بڑھ رہا تھا۔ جس طرح سے پور احمد خمیدہ حالت میں حرکت کر رہا تھا، کبھی پیچھے پلٹتا اور اپنے پیچھے والے کو پالیتا اور ہاتھ سے اپنے اور تورجی زادہ کے درمیان کچھ علامتیں رد و بدل کرتا۔ کبھی اپنی انگلی کو ہونٹوں پر رکھ چپ رہنے کی علامت دیتا اور میں اُس کی دوسری حرکات کے معانی نہیں سمجھ پایا۔ پور احمد ہمیں ایسی حالت میں چپ رہنے کا کہہ رہا تھا کہ  جب فائرنگ کی آواز ایک سیکنڈ کیلئے نہیں رک رہی تھی۔ مجھے خطرے کا احساس ہو رہا تھا۔ پور احمد تجربہ کار آدمی تھا اور احتمالاً اُ س نے خطرے کا احساس کرلیا تھا۔ اب جو بھی قسمت میں ہو، ایسے حالات میں ہم پیلے رنگ کے کوماٹسو ٹریلر کے پاس  گزرے جسے عراقی تباہ کرچکے تھے۔ تقریباً بیس سے تیس میٹر آگے چل کر ہم بارودی سرنگ کے میدان میں داخل ہوئے۔ میدان میں گزرنے کا راستہ ایک لال رنگ  کی  ربن سے مشخص تھا۔ میدان  کے بعد ہم لوگ پور احمد کے ہاتھ کے اشارے سے اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ ذوالفقار گروہ میں بارودی سرنگ کو ناکارہ بنانے والے سید جلال موسوی نیا، ایک اور بارودی سرنگ ناکارہ کرنے والے شخص کے ساتھ خادار تاروں کو کاٹنے کیلئے تیزی سے دوڑے۔ خاردار تاروں کا پہلا سلسلہ کٹ گیا اور ستون تھوڑا سا  آگے کی طرف بڑھا۔ دوسرے سلسلے کو بھی اسی طریقے سے کاٹ دیا گیا اور ستون پھر ایک قدم آگے بڑھا۔ تیسرا سلسلہ کٹا اور ستون پھر آگے بڑھا۔ ابھی سید جلال کی قینچی نے خاردار تاروں کے چوتھے سلسلے کو کاٹا نہیں تھا کہ اچانک اسٹین گنوں سے اُبلتی گولیوں نے ستون کا قلمع قمع کردیا۔ ستون کی ترتیب بگڑ گئی اور سب بے اختیار اپنی جگہوں سے کھڑے ہوگئے۔ ۱۰ سے ۱۵ افراد میرے آگے تھے، اسٹین گن سے بچنےکیلئے آگے سے پیچھے کی طرف بھاگ رہے تھے  اور میرے پیچھے والے افراد آگے کی طرف بھاگ رہے تھے تاکہ بارودی سرنگ کے میدان سے باہر نکل جائیں۔ میرے پیچھے آنے والے لوگوں میں سے بھی کوئی نہیں  بچا تھا، شاید وہ لوگ زمین پر لیٹے ہوئے تھے، مجھے نہیں معلوم، میں اُنہیں دیکھ نہیں سکتا تھا۔ انہی لمحات میں خطرناک اور ایک کے بعد ایک ہونے والے دھماکوں نے  میرے پیروں کو لرزا کر رکھ دیا۔ میں نہ چاہتے ہوئے ایک دم زمین سے کھڑا ہوگیا۔ میں چکرا گیا تھا، میرے حواس باختہ ہوچکے تھے اور اب مجھے نہیں پتہ تھا کہ میرے اطراف میں کیا ہو رہا ہے۔ اچانک میرے دائیں پاؤں کے نزدیک ہونے والے ایک خطرناک دھماکے  نے مجھے زمین سے اچھال دیا۔ میں بارودی سرنگ کے میدان کے شمال – جنوب میں بنے سرحدی ٹیلوں پر پشت کے بل گرا اور میری بندوق میرے ہاتھ سے چھٹ گئی … وقت کی کمی کے باعث، پورے واقعے سے آگاہی کیلئے میری کتاب کی طرف رجوع کریں۔

دفاع مقدس کے سلسلے میں یادوں بھری رات کے 289 ویں پروگرام کے اختتام پر، آرٹ شعبے کے انچارج محسن مؤمنی شریف، مطبوعات سورہ مہر کے مینجنگ ڈائریکٹر عبد الحمید قرہ داغی اور محمد بلوری کے گھر والوں کی موجودگی میں، ’’فاو کیلئے ٹیکسی سروس‘‘ نامی کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی۔

دفاع مقدس کے سلسلے میں یادوں بھری رات کا 289 واں پروگرام، ثقافتی تحقیق، مطالعات اور پائیدار ادب کے مرکز اور ادبی و مزاحمتی فن کے مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام،22 فروری ۲۰۱8ء کو  آرٹ گیلری کے سورہ آڈیٹوریم  میں منعقد ہوا۔ اگلا پروگرام 26 اپریل ۲۰۱۸ کو منعقد ہوگا۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3583



http://oral-history.ir/?page=post&id=7735