"پزشک پرواز" نامی کتاب کی تقریب رونمائی

میں نے ایسی خوبصورتی کسی بھی تحریر میں نہیں دیکھی

مریم رجبی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-04-16


ایرانی تاریخ شفاہی کی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس کے دوران سرگرم ڈاکٹروں میں سے ڈاکٹر محمد تقی خرسندی آشتیانی کی یادوں پر مشتمل کتاب "پزشک پرواز"جسے فاطمہ دہقان نیری کے قلم نے صفحات پر منتقل کیا،  اس کتاب کی تقریب رونمائی کا پروگرام منگل ، ۱۳ فروری ۲۰۱۸ کو آرٹ شعبے میں موجود مہر نامی تماشا خانہ میں منعقد ہوا۔ 

 

ہمارے ملک کے ڈاکٹروں کے واقعات کی کمی تھی / آرٹے شعبے کے انچارج محسن مؤمنی شریف

"پزشک پرواز" جیسی کتاب کی  دفاع مقدس کی ادبیات میں کمی کا احساس ہوتا تھا۔ ہم نے اِس تاریخی دور سے  معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی یادوں اور دفاع مقدس سے متعلق  ۸۰۰ سے زیادہ کتابوں کو شائع کیا ہے، لیکن ہمارے ملک کے ڈاکٹروں کے واقعات کی جگہ خالی تھی۔ ہم نے عراقی ڈاکٹروں کے بارے میں جو مسلط کردہ جنگ کے دوران ہمارے ملک میں اسیر تھے، دو کتابیں شائع کی ہیں لیکن ہمارے ملک کے معزز ڈاکٹرز کہ ہم آدھے سپاہیوں کی سلامتی کے سلسلے میں اُن کے احسان مند ہیں، اُن کی کاوشیں ادبیات و ہنر کے شعبہ میں دیکھی نہیں گئی ہیں۔ عام طور سے واقعات کا کچھ حصہ اور جو کتابیں شائع ہوتی ہیں وہ ایسے ڈاکٹروں کی ہیں جنہوں نے جنگ میں شرکت کی ہے، کچھ ہی دنوں پہلے امریکا میں ایک ناول منظر عام پر آیا، اُس میں اُس ڈاکٹر کے واقعات کو محور قرار دیا گیا جو امریکا کے شمال و جنوب میں ہونے والی جنگوں میں شریک تھا، حالانکہ وہ ڈاکٹر اِس جنگ پر کوئی اعتقاد نہیں رکھتا تھا وہ صرف اپنی ڈیوٹی انجام دینے کی وجہ سے وہاں تھا۔

ڈاکٹر خرسندی نے مہربانی کی اور اپنے واقعات بیان کرکے دفاع مقدس میں ڈاکٹروں سے متعلق کتاب کی خالی جگہ کو پر کردیا۔ آج ہم فخر کے ساتھ اشارہ کرسکتے ہیں کہ ایسی کتاب شائع ہوئی ہے  اور ہم اُمید کرتے ہیں کہ آپ دانشمند حضرات  اور محترم ڈاکٹرز جو دفاع مقدس کی گردن پر حق رکھتے ہیں اور وہ افراد جو یہاں موجود نہیں ہیں، اس  کام کو جاری رکھیں گے۔ وہ نکتہ جو ڈاکٹر خرسندی کی یادوں کے بیان میں موجود ہے، جو ہماری خوشحالی میں اضافہ کا سبب ہے، وہ اُن کی انسانی اور اخلاقی شخصیت ہے۔ اس کتاب کے تمام پڑھنے  والوں اور خاص طور سے میڈیکل فیلڈ  کے جوانوں جو اس میدان میں کسی مقام تک پہنچنا چاہتے ہیں،اُن کیلئے اس طرح کی شخصیت  ایک بہترین آئیڈیل اور نمونہ  ہیں۔ ڈاکٹر خرسندی کی شخصیت اور اس طرح کی دوسری شخصیات جو انشاء اللہ بہت جلد سامنے آئیں گی، حتماً قابل قدر شخصیات ہیں اور میڈیکل فیلڈ میں موجود تشخص کے بحران میں اچھا موقع ہے؛  جوان طبقہ اپنا تشخص ڈاکٹر خرسندی جیسے شخصیات میں تلاش کرے۔ میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ٹروما سائنسی و تعلیمی مرکز کے سربراہ ڈاکٹر خاتمی  اور اسی طرح جناب ڈاکٹر عرب خردمند کا شکریہ ادا کروں کہ اگر ان افراد کو کوشش نہ ہوتی تھی اس طرح کی کتاب منظر عام پر نہیں آتی۔ حقیقت میں جناب ڈاکٹر خردمند نے وقت صرف کیا اور دسیوں گھنٹے انٹرویو کیا کہ بالآخر یہ کام انجام پایا۔ بہرحال ڈاکٹر کا وقت بہت قیمتی ہے، لیکن انصاف کے ساتھ انہوں نے یہ کام کیا اور وہ دو سال سے اس کام میں لگے ہوئے تھے۔

 

سب سے پہلا گروپ جو محاذ پہ جانا چاہتا تھا... / ٹروما سائنسی و تعلیمی مرکز کے سربراہ ڈاکٹر مسعود خاتمی

صدام کی جنگ کو شروع ہوئے چند گھنٹے گزر چکے تھے اور میری ڈیوٹی شیراز میں  سپا ہ  کے مرکز میں لگی ہوئی تھی۔ سب سے پہلا گروپ جو محاذ پر جاکر مدد کرنا چاہتا تھا، میڈیکل گروپ تھا۔ ایک لیڈی ڈاکٹر تھیں جو کہہ رہی تھیں: اس میں ملک میں جنگ شروع ہوگئی ہے، ہمیں کہاں جانا چاہئیے اور کن لوگوں کی مدد کرنی چاہیئے؟ ڈاکٹروں نے اپنی آمادگی کا اعلان کیا۔ قدیمی افواج میں جنگ کے دوسرے قوانین کی طرح طبی خدمات  کی بھی اپنی الگ تعریف ہے۔ قدیمی افواج میں بیان ہوا ہے کہ ڈاکٹروں کا میڈیکل کیمپ ایسی جگہ بنانا چاہیے جہاں شور و غوغا نہ ہو  تاکہ ڈاکٹر حضرات علاج معالجہ کا کام انجام دیں۔ انقلاب سے پہلے ہماری افواج کے قوانین میں بھی بیان ہوا ہے کہ جنگ میں ڈاکٹر وں کا میڈیکل کیمپ فرنٹ لائن سے ۴۰ کلومیٹر کے فاصلے پر ہو تاکہ مریضوں کا مداوا ہوں۔ میڈیکل گروپس میں عام لوگوں کے آنے کی وجہ سے یہ قانون ٹوٹ گیا اور ہم نے قریب سے دیکھا کہ ہمارے ماہرین نے مورچوں کے اندر آکر زخمیوں کا علاج معالجہ کیا۔ یہ مورچے براہ راست دشمن کی فائرنگ کی رینج میں تھے، علمی شخصیات نے وہاں جاکر اپنی ذمہ داری کو ادا کیا۔ ہم تو اُس زمانے میں ایک معمولی سے ڈاکٹر تھے۔ ہمیں یقین نہیں آتا تھا کہ یہ لوگ بھی وہاں آئیں، سپاہیوں کے ساتھ رہیں اور خوشی خوشی جگمگائیں۔

طبی خدمات صرف جنگی مقامات تک محدود نہیں تھی؛ اس معنی میں کہ اُس زمانے میں ملک کے تمام ہسپتال مجاہدوں کا علاج معالجہ کرتے تھے اور دوسری طرف سے جنگ کے زمانے سے بھی محدود نہیں تھا؛ یعنی یہی آج کا دن جو ہم یہاں بیٹھے ہیں، ہمارا میڈیکل معاشرہ جنگی خدمات انجام دے رہا ہے، یہ جنگ میں زخمی ہونے والوں کا کون علاج کرتا ہے؟  طبی خدمات گورنمنٹ کے شعبے میں بھی محدود نہیں تھی؛ کیونکہ  تمام شہروں میں موجود نجی ہسپتالوں میں بھی کچھ فیصد بیڈوں کو خالی  کرکے انہیں زخمیوں سے مختص کردیا گیا تھا۔ محاذ پر موجود ہونے کے اعتبار سے بھی آپ جاکرمیڈیکل معاشرے کے شہداء کے اعداد و شمار کو دیکھیں؛ محاذ پر ہر سپاہی کے ساتھ ایک امدادی کارکن موجود تھا تاکہ سپاہی کے زخمی ہوتے ہی وہ اسے محاذ پر موجود ایمرجنسی وارڈ میں لے جائے اور  جنرل ڈاکٹرز،  زخمی کیلئے بنیادی طبی امداد کا کام انجام دیں  اور اُس کے بعد اُسے صحرائی ہسپتال میں لے جائیں۔

 

بہترین نسل/ جنرل ہیلتھ اینڈ میڈیکل ایجوکیشن کے سیکریٹری اور جانشین ایرج حریرچی

شہید مصطفی علمدار لیبارٹری کے ماہر تھے اور بہت زیادہ استقامت اور جدوجہد کے بعد شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔ یہ باعظمت شہید ۱۵۰ مرتبہ سے زیادہ آپریشن تھیٹر میں گئے اور اُن کی جراحی ہوئی، لیکن انھوں نے کبھی بھی نا اُمیدی کا اظہار اور شکایت نہیں کی اور کسی طرح کے خوف میں مبتلا نہیں ہوئے۔ یہ شہید آٹھ سالوں تک محاذوں پر موجود رہے، لیکن نہایت ہی افسوس کا مقام ہے کہ ان کا کوئی بھی واقعہ لکھا  نہیں گیا اور آج ہماری وہاں تک رسائی مشکل ہوگئی ہے۔ یہ بہترین نسل ہم سے دور ہوتی جا رہی ہے اور اُن کے پھل دینے کا زمانہ گزر رہا ہے ، اگر ان کے واقعات کو رشتہ تحریر میں نہ لایا گیا تو یہ سرمایہ ہاتھ سے چلا جائے گا۔ میں نے دو دنوں کے اندر "پزشک پرواز" نامی کتاب کا مطالعہ کیا اور اس سے بہت استفادہ کیا۔میں نے ڈاکٹر خرسندی کے بارے میں بہت ذکر خیر سن رکھا تھا۔ اِن کی کتاب کے بعض حصوں نے میری توجہ کو اپنی طرف مبذول کیا ہے،  وہ جگہ جہاں انھوں نے کہا میں خود کو لوگوں کا قرض دار سمجھتا ہوں اور مجھے خدمت انجام دینے کیلئے دن رات کوشش کرنی چاہیے۔ ہمارے میڈیکل معاشرے نے بہت زیادہ کوششوں اور  علم کی خوش آیند ترقی سے ۸۰ ملین ایرانیوں کیلئے طبی خدمات کا ماحول فراہم کیا  اور آج مریض کو ملک سے باہر بھیجنے کی ضرورت والا مسئلہ ختم ہوچکا ہے۔ ہماری میڈیکل سوسائٹی دفاع مقدس کے دوران لوگوں کے قریب اور لوگوں کے ساتھ تھی۔میڈیکل سوسائٹی نے اقتصادی سختیوں کے باوجود جب پٹرول کی قیمت ۷ اور ۸ ڈالر تک پہنچ گئی تھی اور بہت ساری سہولیات ان کے لئے ممکن نہیں تھیں، پھر بھی مجاہدانہ طور پر ڈٹے رہے اور انھوں نے مریضوں کے علاج کے معاملے میں کوئی خلل ایجاد ہونے نہیں دیا۔ ہماری میڈیکل سوسائٹی کو حق حاصل ہے کہ وہ بعض مشکلات کا شکوہ کرے، لیکن ڈاکٹر خرسندی جیسی شخصیات کے سامنے آنے سے، اُنہیں پتہ چل جائے گا کہ میڈیکل معاشرے میں کس طرح کے شریف انسان موجود ہیں اور یہ لوگ قابل افتخار ہیں اور میں اُمید کرتا ہوں اس طرح کی آئیڈیل اور مثالی شخصیات میڈیکل سوسائٹی میں پہلے زیادہ مورد توجہ قرار پائیں اور آئندہ آنے والی نسل ان کے نقش قدم پرگامزن ہو۔

 

سرجن سوسائٹی کے سربراہ کا پیغام

ایران کی سرجن سوسائٹی کے سیکریٹری سیاوش صحت  نے صحت و علاج کی فیلڈ میں دن رات کوششیں اور خدمات انجام دینے پر ڈاکٹر خرسندی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، سرجن سوسائٹی کے سربراہ ڈاکٹر ایرج فاضل کی طرف سے  اس پروگرام میں شرکت نہ کرنے پر معذرت خواہی کی اور اُن کی طرف سے ڈاکٹر خرسندی کے نام پیغام کو پڑھا۔ پیغام کا کچھ حصہ اس طرح سے تھا: ایران کا میڈیکل معاشرہ اس بات پر فخر کرتا ہے کہ اُس نے ہمیشہ دلوں پر حکومت کرنے والی آبرومند شخصیات معاشرے کو پیش کی ہیں۔ وہ چیز جو اِن افراد کو تعریف کے لائق بناتی ہے  عصری تعلیم، انسانی اخلاق، ایثار، لوگوں کی خدمت کرنے کا عشق اور طالب علموں کی تربیت کرنے کا عشق ہے جس نے ان کی زندگی کو زینت بخشی ہے۔ میں ایسی عالم و فاضل شخصیت کیلئے صحت و سلامتی، توفیق الٰہی اور کامیابی کی آرزو کرتا ہوں۔

 

بہت زیادہ خدمات کا کچھ حصہ/ "پزشک پرواز" نامی کتاب کے مؤلفہ فاطمہ دہقان نیری

"پزشک پرواز" ایسا کام تھا جسے  ادبیات و ثقافتی ہنر کے دفتر  نے تجویز کیا تھا۔ہم وقت معین کرکے ڈاکٹر خرسندی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ بہت اچھا کام ہوگا۔ کام شروع ہوا اور ۲۰ گھنٹے انٹرویو ہوا۔ میں اُمید کرتی ہوں کہ میں ڈاکٹر خرسندی کی بہت زیادہ خدمات کے کچھ حصے کو قلمبند کرنے میں کامیاب رہی ہوں۔ وقت بہت کم تھا اور عام طور سے ڈاکٹر حضرات اس کے بجائے کہ وہ اپنے واقعات کو بیان کریں وہ مریضوں کے معالجے کی طرف زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن ڈاکٹر خرسندی نے بہت تعاون کیا۔ ڈاکٹروں نے جنگ میں ایک عظیم حماسہ اور شجاعت کو خلق کیا اور یہ واقعات ڈاکٹروں، نرسوں اور جنگ کی میڈیکل ٹیم کے سینوں میں ہیں اور اسے حتماً رشتہ تحریر میں آنا چاہیے۔ جہاں تک  مجھ میں صلاحیت تھی میں نے اس کام کو آخر تک انجام دیا، لیکن میری آرزو ہے کہ دوسرے ڈاکٹروں کے واقعات بھی قلمبند ہوں تاکہ انقلاب اور دفاع مقدس کی تاریخ آئندہ نسلوں کے لئے زندہ و جاوید رہے۔

 

غیر قابل تکرار/ "پزشک پرواز" نامی کتاب کے راوی ڈاکٹر محمد تقی خرسندی آشتیانی

میں تقریباً تین سالوں تک دزفول میں تھا اور میرے اندر جو تجربہ تھا میں اس کی بنا پر تمام ٹیموں میں موجود رہا اور میں جہاں بھی جاتا، وہاں کے انچارج سے کہہ دیتا کہ مجھے صرف ایک کام آتا ہے، مجھے چوراہے پر کھڑا کردو؛ کیونکہ میں ایک بہترین پولیس ہوں! وہ لوگ مجھ سے پوچھتے: کیا مطلب؟ میں اُن سے کہتا: یعنی میں مریض پر نظر ڈالتا ہوں اور بتا دیتا ہوں کہ اس کے آپریشن میں کتنا  وقت باقی ہے؟ میں نہیں چاہتا تھا کہ آپریشن تھیٹر کو ایسے مریض سے بھر دوں کہ اگر ہم اس کا  مزید  تین دن تک بھی آپریشن نہیں کرتے تو اُسے کچھ نہیں ہوتا اور ایسا مریض کہ جس کے پاس آپریشن اور زندہ رہنے کیلئے  صرف آدھے گھنٹے کی فرصت ہے، وہ دروازے کے پیچھے پڑا رہے اور شہید ہوجائے؛ اسی وجہ سے میں نے اپنی اور اپنی مہارت کی نسبت سے مریضوں کے انتخاب میں مہارت پیدا کرلی تھی۔ میں ۲۴ گھنٹوں تک ایمرجنسی وارڈ میں رہتا کہ جیسے ہی کوئی مریض آئے، میں اُسے دیکھوں کہ اُس کے پاس کتنی فرصت ہے؟ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ہم اُسے شہری مراکز کی طرف بھیج دیں، یا نہیں؟ حالانکہ میں ایک جنرل ڈاکٹر تھا اس کے باوجود میں نے اس کام کو احسن طریقے سے انجام دیا۔

میں جس زمانے میں ناک، کان ، حلق کے خصوصی ڈاکٹر کی پریکٹس کر رہا تھا ، اُس زمانے میں اگر کوئی ایسا زخمی  آتا جس کا بہت زیادہ خون بہہ رہا ہو، جب میں دیکھتا کہ مریض کی جس ٹانگ پر شیل کا ٹکڑا لگا ہے اُسے باندھا ہوا اور وہ پیر کالا پڑ رہا ہے، میں اُس شریان کے اندر روئی  گھسا دیتا تھا۔ ایک آرتھوپیڈک ڈاکٹر آیا اور اُس نے کہا کہ یہ ناک، کان، حلق ک خصوصی ڈاکٹر کی پریکٹس کون کر رہا ہے کہ جس نے سب کے جسموں کو اکڑا دیا ہے؟! میں نے پوچھا: کوئی مسئلہ ہے؟ اُس نے کہا: ہاں۔ میں نے اُس روئی کو ہٹا دیا ہے اور خون بہت شدت سے باہر  کی طرف اچھلا ہے، میں نے کہا: اب آپ اس چیز کو روکیں! اُس نے کہا: نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا۔ اُس نے حواس باختگی کے عالم میں اُس کی مرمت کیلئے اوزار مانگے، میں نے کہا: اگر اوزار ہوتے تو میں آپ کی جگہ اس کی مرمت کر دیتا، مجھے اُس کے خون بہنے کو روکنا چاہیے  تھا کہ میری عقل کے مطابق روئی  رکھنا بہترین کام تھا۔

فتح المبین خطرناک حملوں میں سے ایک تھا۔وہاں کیمپ کی مسئولیت اور ہماہنگی کرنا میرے ذمہ تھا۔ عراقی گولے برسانے والے آلہ سے ہم پر گولے برساتے، لیکن جب وہ قیدی بن جاتے، نرسیں اور ڈاکٹر ایسا نہیں سوچتے تھے کہ وہ لوگ دس منٹ پہلے ہم پر گولے برسا رہے تھے ، اُن کا بھی ایرانی مریضوں کی طرح خیال رکھا جاتا تھا۔ میں دیوار کے ساتھ ایک لائن سے رکھے ہوئے اسٹریچر وں کے قریب سے گزر رہا تھا کہ مجھے احساس ہوا کہ ایک عراقی مجھے آواز دے رہا ہے۔ میں نے پوچھا: کیا چاہیے؟ اُس نے کہا: مجھے پیروں کے نیچے رکھنے کیلئے ایک تکیہ دو! میں نے کہا ہمارے پاس پیروں کے نیچے رکھنے کیلئے تکیہ نہیں ہے،حتی یہاں پر بعض ایرانی ایسے بھی تھے  جن کے پاس سر کے نیچے رکھنے کیلئے بھی تکیہ نہیں تھا ۔ اچانک ایک بسیجی جو اس کے پاس لیٹا ہوا تھا، اُس نے اپنے سر کے نیچے رکھا ہوا تکیہ اُسے دیدیا تاکہ وہ اپنے پیروں کے نیچے رکھ لے۔

انقلاب کے بعد فوجی بیرکوں میں کچھ ایسے لوگ سامنے آئے جنہوں نے تمام چیزوں کو خراب کردیا؛ مثلاًٍ  شاہ کے زمانے  کی بچی ہوئی تمام پلیٹیں اور چمچے لے گئے اور جیسا کہ ہسپتال کے سربراہ کے پاس بھی پیسے نہیں تھے، انھوں نے کچھ پلاسٹک کے چمچے  اسٹیل کی پلیٹوں کے ساتھ لیئے اور باروچی خانہ میں رکھ دیئے۔ نرس خواتین جنہیں شاہ کے زمانے کی عادت پڑ چکی تھی، وہ دوپہر اور رات کے کھانے کے بعد چمچوں کو توڑ دیتی۔ میں اُن سے پوچھتا کہ آپ لوگ کیوں یہ کام کرتی ہیں؟  انھوں نے جواب دیا: ہم یہ کام اس لیے کرتے ہیں کہ ہمارا معیار یہ نہیں ہے کہ ہم ایسے برتنوں میں کھانا کھائیں۔ میں نے کہا کہ خدا کا شکر ادا کرو کیونکہ آپ لوگوں کے ساتھ اس سے بھی برا ہوسکتا تھا، لیکن وہ لوگ نہیں مانیں، یہاں تک کہ جنگ اور حملے شروع ہوگئے اور حکم صادر ہوا کہ فوج کا تمام اسٹاف آمادگی کی حالت میں اس کمرے میں سوئے۔ وہ کمرا بہت بڑا تھا، ہم نے ہر کسی کو دو کمبل دیئے تھے، ایک کمبل سر کے نیچے رکھنے کیلئے اور دوسرا نیچے بچھانے کیلئے۔ میں نے مذاق میں اُن سے کہا کہ ہم نے یہ پرسکون گدے خاص طور سے آرڈر کرکے تہران سے آپ لوگوں کیلئے منگوائیں ہیں۔ وہ لوگ غصہ کر رہے تھے اور میں مذاق کر رہا تھا تاکہ اُن کی اندرونی حالت تبدیل ہوجائے۔ چوتھی رات تھی، وہ لوگ سو رہے تھے کہ دزفول پر پہلا راکٹ لگا۔ اُس راکٹ کا فاصلہ ہم سے زیادہ نہیں تھا اور ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ ہسپتال لپٹا اور پھر کھل گیا، اس طرح سے کہ تمام مریض تخت سے نیچے گر گئے ، ہم بھاگ کر گئے اور اُنہیں تخت پر لٹایا۔ جو افراد کمرے میں سوئے ہوئے تھے، وہ روتے ہوئے باہر نکلے، میں نے کہا کہ کیا ہوا ہے؟ کیا آپ کے گدے آرام دہ نہیں تھے؟ اُن لوگوں نے کہا: ہمارا پیچھا چھوڑ دو! میں نے ہنستے ہوئے  کہا کہ آپ لوگ ناراض ہو رہے تھے کہ ہمارے سونے کیلئے ہمارے نیچے کمبل کیوں بچھائے ہیں؟ لیکن اب تو نیند کا دور دور تک پتہ نہیں ہے۔

جمعہ کا دن تھا اور دوپہر کا ایک بج رہا تھا اور ہم کیمپ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ کیمپ کے سامنے ایسی جگہ بنی ہوئی تھی کہ جہاں ہیلی کاپٹر اترتے تھے اور مریض کو اِدھر سے اُدھر لے جایا کرتے۔ اچانک جہاز کی خاص آواز آئی۔ میں نے لوگوں نے کہا یہ مَیگ طیارے کی آواز ہے، اپنے حواسوں کو قابو میں رکھنا؛ کیونکہ جن جہازوں نے کیمپ کی طرف آنا ہوتا ہے تو وہ قریب پہنچ کر اپنی رفتار کم کردیتے تھے، جس کے نتیجے میں جہاز کی آواز بھی کم ہوجاتی، لیکن دشمن کے مَیگ طیارے اُسی ابتدائی رفتار کے ساتھ نزدیک آرہے تھے اور پتہ چل رہا تھا کہ وہ کیمپ پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ دو مَیگ طیاروں نے کیمپ کے رن وے کا نشانہ لیا  اور دوسرے دو مَیگ دو کوھہ کی طرف گئے۔ ہمیں اس طرح کے منظر کی عادت سی ہوگئی تھی اور ہمیں پتہ تھا کہ ابھی رن وے سے کچھ زخمی آئیں گے، لہذا ہر کوئی کام کیلئے آمادہ تھا۔ جب دو کوھہ پر حملہ ہوا،ہم دھماکے اور وہاں سے بلند ہونے والے دھویں کی طرف متوجہ ہوئے، مشروم کی طرح کا دھواں۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ دو کوھہ کی طرف جائیں، چونکہ گولہ بارود کے انبار کو اڑایا گیا تھا۔ افراد کیمپ سے باہر نکلے اور سب  واپس لوٹ آئے ، کہنے لگے کہ ہائی وے پر دھواں اس طرح پھیلا ہوا ہے کہ کوئی بھی نہیں جاسکتا۔ ہم نے کہا اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ جب تک دھواں ختم ہو، ہم بیٹھ کر انتظار کریں پھر جاکر حالات کا جائزہ لیں۔ اسی مخمصے میں ہم نے دیکھا  کہ دھواں آہستہ آہستہ قریب آرہا ہے۔ میں نے لوگوں سے کہا آپ لوگ پریشان نہ ہوں، ہم سب لوگ ایک بہترین سفر پر روانہ ہونے والے ہیں، اس دفعہ آپ لوگ بالکل فکر نہ کریں حتی ہم لوگ زخمی بھی نہیں ہوں گے، کیونکہ تھوڑی دیر میں ہم سب ہوا میں ہوں گے۔ کیمپ کے نیچے کئی پٹرول کے ڈرم رکھے ہوئے تھے اور دوسری طرف سے گولہ بارود کے کچھ انبار بھی وہاں موجود تھے۔ میں مذاق کر رہا تھا تاکہ لوگوں کو حوصلہ ملے۔ دھواں آہستہ آہستہ ہم سے دس میٹر کے فاصلے تک آگیا اور اُس نے ہیلی کاپٹر پیڈ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، لیکن آہستہ آہستہ کم ہوگیا اور ہم ایمبولینسوں  کے ذریعے دو کوھہ کی طرف گئے تو دیکھا کہ انھوں نے گولہ بارود کے انبار کے نزدیک کھڑی ہوئی ایک ٹرین کو نشانہ بنایا ہے جو گولہ بارود سے بھری  ہوئی تھی اور وہ دھماکے جو ایک کے بعد ایک ہو رہے تھے، وہ اُن سلنڈروں کے دھماکے تھے جو ٹرینوں کے اوپر رکھے ہوئے تھے اور وہ مشروم کی طرح کا سفید دھواں، اُن ڈرموں کے جلنے کی وجہ سے تھا لیکن وہاں پر ہمیں پہلی مرتبہ مرنے کا ایک عجیب  احساس ہوا اور ہم اس حادثے سے باخبر ہونے کے بعد موت کے انتظار میں تھے اور دوسری طرف سے خوش بھی تھے کہ کوئی ہڈی نہیں ٹوٹے گی یا گولی سے نہیں مریں گے اور خون نہیں بہے گا یا تکلیف سہنی نہیں پڑے گی۔

ایک دن میڈیکل کیمپ میں میری رات کی ڈیوٹی تھی۔ عام طور سے جب ایمرجنسی وارڈ میں میرا کام ختم ہوجاتا تھا میں وارڈز میں چلا جاتا اور صبح تک کام میں مصروف رہتا۔ میں ICU کی طرف گیا۔ میں نے دیکھا سات یا آٹھ مریض سو رہے ہیں۔ میں اپنی ایک نرس  کے رونے کی طرف متوجہ ہوا۔ میں آگے بڑھا اور اُس سے پوچھا کہ میری بیٹی! تم کیوں رو رہی ہو؟ اُس نے جواب دیا: کچھ نہیں ہوا! میں نے کہا: اگر زخمیوں نے تمہیں کچھ کہا ہے تو پریشان نہ ہو، کوئی مسئلہ نہیں ہے، وہ لوگ مریض ہیں اور تکلیف سہہ رہے ہیں، اُنہیں اس چیز  کا حق دو۔ اُس نے کہا: نہیں، یہ کون لوگ ہیں؟ میں نے کہا: یہ لوگ زخمی ہیں، میرے اور تمہارے  لئے جنگ کر رہے ہیں، اگر تمہیں کچھ کہا ہے  تو درگزر کرجاؤ۔  اُس نے کہا: نہیں! ان صاحب کو دیکھئے ... میں نے دیکھا تو وہاں ایک ۴۰ یا ۴۵ سالہ مرد بیڈ پر سو رہا ہے اور اُس کی جسمانی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ اُس مرد کو پتہ چل گیا تھا کہ اس نرس کو نیند آرہی ہے لیکن یہ نرس  مسلسل اپنے پاس والے مریض کے خون کی تھیلی کو  دیکھ رہی ہے کہ جیسے ہی یہ ختم ہو تو وہ جاکر اُسے تبدیل کردے۔ اُس مرد نے نرس کو بلاکر کہا تھا کہ تم جاکر سو جاؤ، میرے پیروں کا اگلا حصہ بیڈ تک پہنچ رہا ہے،  جیسے ہی اس کا خون ختم ہوگا،  میں اپنے پیر سے تخت  کو بجاؤں گا، تم آکر اس کے خون کی تھیلی بدل دینا۔ یہ وہ شخص تھا جو صبح اپنے بیٹے کے ساتھ محاذ پر گیا تھا۔جب اُس کا بیٹا شہید ہوگیا تو وہ اُسے کنارے پر لایا اور خود دوبارہ میدان جنگ میں چلا گیا تھا ، جہاں اس کا یہ حال ہوگیا تھا، لیکن ابھی بھی جب وہ ہسپتال کے اندر ہے، وہ دوسروں کو سہولت فراہم کرنا چاہتا ہے؛ ہماری جنگ ایسے افراد کے ساتھ اس مقام تک پہنچی ہے، ورنہ جب ہم عراقیوں کے مورچے میں جاتے تھے، وہ بوتیک کی طرح تھے، حتی اُن کے مورچے میں کافی میں مل جاتی۔ اُن کے غسل خانے ایسے تھے کہ میری خواہش تھی کہ میرے گھر میں ایسا غسل خانہ ہو، لیکن ہمارے افراد کا غسل خانہ ایسا تھا کہ پانی کے ایک ڈرم میں ایک نل لگا ہوا تھا اور ایک گڑھا کھودا ہوا تھا،وہ گڑھے میں جاتے اور نہالیتے۔ لوگ ایسے حالات میں گئے اور جنگ لڑی اور ان کاموں کے ساتھ جو اُن لوگوں نے کئے، میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا میرے کام کی کوئی وقعت ہے  جس کے بارے میں کتاب لکھی جائے؟

میرا ایک دوست امریکا جانا چاہتا تھا اور بہت اصرار کر رہا تھا کہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے جائے۔ بہت اچھی شرائط بھی موجود تھیں، تمام چیزیں مہیا تھیں۔ ۹ ستمبر کا دن تھا  اور میں ہیڈ کوارٹر سے حساب کتاب کرچکا تھا، میں آنا چاہ رہا تھا کہ آخری دن  چھاؤنی پر حملہ کردیا۔ ہم نے خود کو فوراً پہنچایا تو پتہ چلا جنگ شروع ہوگئی ہے۔ رات ہوگئی اور ہسپتال کے انچارج نے مجھے آواز دیکر کہا: جاؤ، تم جذباتی آدمی ہوں، حیف ہے۔ میں نے کہا: ایسا ہو نہیں سکتا کہ میں جاؤں۔ میں نے اپنے آپ سے کہا دو تین مہینوں میں جنگ ختم ہوجائے گی جو نہیں ہوئی اور میں تہران آگیا۔ خدا گواہ ہے کہ میں جانتا ہوں امریکا نہ جانے سے میرے ہاتھ سے بہت سی چیزیں نکل گئیں اور مجھے پتہ ہے کہ اگر میں چلا جاتا، بہت مختلف طرح کی خدمات انجام دے سکتا تھا، لیکن میں نے جنگ میں ایسی چیزیں دیکھی ہیں  کہ تلخیوں کے باوجود  اُس میں بہت سے حسین لمحات بھی پائے جاتے ہیں کہ کوئی بھی کتاب، ناول یا داستان مجھے وہ حسین لمحات نہیں دے سکتے۔

"پزشک پرواز" نامی کتاب کی تقریب رونمائی کے پروگرام کے آخر میں آرٹ شعبہ کی طرف سے یادگاری کے عنوان سے کتاب کی مؤلفہ فاطمہ دہقان نیری اور کتاب کے راوی ڈاکٹر محمد تقی خرسندی آشتیانی کو تحفے دیئے گئے۔ اسی طرح میڈیکل سوسائٹی کی طرف سے اس تجربہ کار ڈاکٹر کو انعامات سے نوازا گیا۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3663



http://oral-history.ir/?page=post&id=7734